بس کہ پابندیِ آئینِ وفا ہم سے ہُوئی
یہ اگر کوئی خطا ہے، تو خطا ہم سے ہُوئی
زندگی! تیرے لیے سب کو خفا ہم نے کیا
اپنی قسمت ہےکہ اب، تُو بھی خفا ہم سے ہُوئی
سر اُٹھانے کا بَھلا اور کسے یارا تھا
بس تِرے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ہُوئی
بار ہا دستِ ستمگر کو قلم ہم نے کیا
بار ہا ! چاک اندھیرے کی قبا ہم سے ہُوئی
ہم نے اُتنے ہی سرِ راہ جلائے ہیں چراغ
جتنی برگشتہ زمانے کی ہَوا ہم سے ہُوئی
بارِ ہستی تو اُٹھا، اُٹھ نہ سکا دستِ سوال !
مرتے مرتے نہ کبھی کوئی دُعا ہم سے ہُوئی
کچھ دِنوں ،ساتھ لگی تھی ہمیں تنہا پا کر
کتنی شرمندہ مگر موجِ بَلا ہم سے ہُوئی
خلیل الرحمان اعظمی