تیرے دِیوار و دَر کے سایوں پر
مجھ کو ہوتا ہے سانپ کا دھوکہ
بُوٹا بُوٹا ہے سانپ کی تصوِیر!
پتّا پتّا ہے سانپ کا ٹیکہ
آسماں جیسے سانپ کی کنڈلی!
تارا تارا ہے سانپ کا منکا
آرہی ہے لکِیر سانپوں کی
ہر گلی پر ہے سانپ کا پہرا
سانپ ہی سانپ مَیں جِدھر دیکھوں
شہر تیرا تو گڑ ھ ہے سانپوں کا
تیرے گھر کی طرف سے میری طرف
بڑھتا آتا ہے ایک سایا سا
دُھوپ سا رنگ، برق سی رفتار
جسم شاخِ نبات سا پَتلا
پُھول سا پھن، چراغ سی آنکھیں
یہ تو راجا ہے کوئی سانپوں کا
ہاں مِری آستیں کا سانپ ہے یہ
کیوں نہ ہو مجھ کو جان سے پیارا
ناصؔر کاظمی