محمد عمران الحق
محفلین
میں نے اے خوگرِ تسلیم تجھے انسان کہا
اور تو ہے کہ مری جان کو آیا ہوا ہے ۔۔
جواب آں۔۔
پانی چھڑک رہا ہے وہ میرے غبار پر
اس سے کہو کہ اب تو میری جان چھوڑ دے
میں نے اے خوگرِ تسلیم تجھے انسان کہا
اور تو ہے کہ مری جان کو آیا ہوا ہے ۔۔
جواب آں۔۔
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیںوہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں کے پار ہو جائےخرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
اقبال
رخِ خورشید کہاں گرد میں چھپ سکتا ہےنظر وہ ہے جو اس کون و مکاں کے پار ہو جائے
مگر جب روئے تاباں پر پڑے، بیکار ہو جائے
جو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائینظر وہ ہے جو اس کون و مکاں کے پار ہو جائے
مگر جب روئے تاباں پر پڑے، بیکار ہو جائے
نکال اب تیر سینے سے کہ جان پرالم نکلےجو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا، جو جگر کے پار ہوتا
امیر مینائی
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
اقبال
کل شب مریضِ عشق عجب کام کر گیا۔۔۔۔ نسخہ لِیا ، سلام کِیا ، گِر کے مر گیایہ دردِ عشق ہے میرا نہیں علاج طبیب
ہزار کوئی دوائیں کرو، ہوا سو ہوا
نکال اب تیر سینے سے کہ جان پرالم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے،جو دل نکلے تو دم نکلے
نکال اب تیر سینے سے کہ جان پرالم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے،جو دل نکلے تو دم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
سانسوں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام
جینے کے باوجود بھی، کچھ لوگ مرگئے
کیا جانے کس طرح میں جئے جا رہا ہوں فوقؔرُخصت ہُوئی شباب کے ہمراہ زندگی
کہنے کی بات ہے کہ جئے جا رہا ہوں میں
زندگی کا نہیں ارماں، پہ جئے جاتے ہیںکیا جانے کس طرح میں جئے جا رہا ہوں فوقؔ
. غربت میں زندگی کا سہارا نہ پوچھئے.
زندگی کا نہیں ارماں، پہ جئے جاتے ہیں
یعنی جینے کا تکلف سا کئے جاتے ہیں
موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکنموت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
موت کا ایک دن معین ہےموت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
انساں کو چاہیئے کہ خیالِ قضا رہےموت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی