Wmd کدھر ہیں قاتلو!
جب امریکا ایک موہوم خطرے کی وجہ سے دو ممالک کو تباہ کرنے میںآزاد ہے تویہ دونوں بھی ایک موجود خطرے (یعنی امریکا( کی وجہ سے امریکا کو تباہ کرنے میں آزاد ہیں کہ یہی ان کی بقا کا تقاضا بھی ہے[/SIZE]
اس پہلے میں نے جو پوسٹ کی تھی ہفتے بھر میں فواد کی سمجھ میں اس میں صرف ایک لائن آئی ہے اس سے امریکیوں کی قوت سمجھ یا قوت مطلب سمجھ کا پتہ چلتا ہے میرے خیال میں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیچارے طالبان اور صدام کو کس مصبیت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا بش انتظامیہ سے بات کرنے میں ؟
يں نے کسی بھی سوال کا جواب دينے سے معذرت نہيں کی۔
سوالات کی بوچھاڑ ميں مجھے يہ فيصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سے موضوعات ہيں جن کا جواب کئ فورمز پر ايک ساتھ پوسٹ کيا جا سکے۔ اسی قسم کے بے شمار سوالات مجھ سے ديگر قورمز پر بھی کيے جا رہے ہيں۔ مگر ميرے ليے زيادہ ضروری چيز محض جذبات کا اظہار نہيں ہے بلکہ متعلقہ موضوعات پر امريکی حکومت کے موقف کے حوالے سے اصل معلومات حاصل کرنا ہے۔
ميں نے کسی بھی سوال کا جواب دينے سے معذرت نہيں کی۔
سوالات کی بوچھاڑ ميں مجھے يہ فيصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سے موضوعات ہيں جن کا جواب کئ فورمز پر ايک ساتھ پوسٹ کيا جا سکے۔ اسی قسم کے بے شمار سوالات مجھ سے ديگر قورمز پر بھی کيے جا رہے ہيں۔ مگر ميرے ليے زيادہ ضروری چيز محض جذبات کا اظہار نہيں ہے بلکہ متعلقہ موضوعات پر امريکی حکومت کے موقف کے حوالے سے اصل معلومات حاصل کرنا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov
آپ بتائیے کیا عراق پر حملے کی اجازت امریکا کو اقوام متحدہ کی طرف سے دی گئی اگر نہیں تو امریکا نے کیسے اقوام متحدہ کو بائی پاس کیا؟ یہ بات ایک عمومی رائے عامہ کی نہیںہے بلکہ قاعدے قانون کی ہے اگر امریکا کو کسی ملک یا تنظیم سے خطرہ ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہں کہ وہ اس پر چڑھائی کر دے؟ اس کا ایک صحیح طریقہ معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانا اور وہان کی منظوری کے بعد عمل ہے (حالانکہ خود اقوام متحدہ ایک عام رائے کے مطابق امریکی رکھیل ہے ( ہے کیا امریکا نے اس پر عمل کیا ؟
فواد یہ بات تو آپ بھی تسلیم کریں گے کہ اس وقت یہ بات نزاعی تھی کہ یہ حملے اسامہ نے کیے ہیں یا نہیںاور اس سلسلے میں امریکی حکومت کسی قسم کے ثبوت بھی فراہم نہیں کر رہی تھی بلکہ بزور قوت صرف یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ اسامہ کو ان کے حوالے کر دیا جائے یہ مطالبہ ناجائز تھا جب تک اسامہ کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہ کیا جاتا تو کیسے طالبان اسامہ کو آپ کے حوالے کر دیتے ؟
فواد آپ نے جو لنک اقوام متحدہ کے جو لنک مہیا کیے ہیں وہ کھل نہیں رہے ہیں تاہم اس ضمن میں چند باتیں مزید تفصیل کی محتاج ہیںسب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ کسی غير متعلقہ ملک کے خلاف کيا جانے والا جذباتی فيصلہ ہرگز نہيں تھا۔ حکومت کی ہر سطح پر کئ ماہ تک اس مسلئے پر بحث کی گئ تھی جس کے بعد اجتماعی سطح پر يہ فيصلہ کيا گيا تھا۔ اس ايشو کا ايک تاريخی تناظر بھی ہے جسے اکثر نظرانداز کيا جاتا ہے۔ سال 1991 ميں کويت پر عراق کے قبضے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے 60 کے قريب قرارداديں منظور کی گئ تھيں۔ عراق ان ميں سے جن قراردادوں کی خلاف ورزی کا مرتکب تھا ان ميں قرارداد نمبر
678،686،687،688،707،715،949،1051،1060،
1115،1134،1137،1154،1194،1205،128،1441
شامل ہيں۔ قرارداد نمبر 1441 ميں يہ واضح درج ہے کہ ان قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی صورت ميں عراق کے خلاف سخت کاروائ کی جائے گی۔
http://daccessdds.un.org/doc/UNDOC/G...df?OpenElement
قرارداد نمبر 678 ميں اقوام متحدہ کی ماضی اور مستقبل ميں منظور کی جانے والی قراردادوں پر عمل درآمد يقينی بنانے کے ليے تمام اختيارات کی منظوری دی گئ ہے۔
http://daccessdds.un.org/doc/RESOLUT...df?OpenElement
اس قرارداد کے مطابق "کويت کی حکومت کی مدد کرنے والے تمام ممبر ارکان کو يہ اختيار ہے کہ وہ (1) اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 660 اور دیگر قراردادوں پر عمل درآمد اور کويت پر عراقی قبضے کو ختم کروانے اور عراقی افواج کی واپسی کو يقينی بنوانے کے ليے تمام اختيارات کو استعمال کرنے کے مجاز ہيں۔ (2) خطے ميں ديرپا سيکورٹی اور امن کے قيام کو يقينی بنايا جائے۔
اس ضمن ميں ديگر بے شمار قراردادوں کے علاوہ سال 1991 ميں قرارداد نمبر 687 بھی منظور کی گئ تھی جس ميں عراق کی حکومت سے يہ مطالبہ کيا گيا تھا کہ وہ اپنے کيمياوی ہتھياروں (ڈبليو – ايم – ڈی) اور بالسٹک ميزائل کے بارے ميں مفصل حقائق سے اقوام متحدہ کو آگاہ کرے۔
سال 1991 ميں اتحادی افواج کی کاروائ کے نتيجے ميں قرارداد نمبر 678 کے پہلے حصے پر عمل درآمد کروا ليا گيا تھا ليکن اس قرارداد کے باقی حصوں پر عمل درآمد نہيں ہوا تھا۔ کويت سے عراقی افواج کی پسپائ کے بعھ بھی اتحادی افواج اور عراقی افواج کے درميان جھڑپيں جاری رہيں۔ اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 678 نہ تو منسوخ ہوئ اور نہ ہی اس ضمن ميں منظور کی جانے والی ديگر قراردادوں ميں قرارداد نمبر 678 کے حوالے سے کوئ شرط عائد کی گئ۔ اس قرارداد کی رو سے امريکہ کو عراق کے خلاف طاقت کے استعمال کا اختيار حاصل تھا۔ اس کے علاوہ عراق کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو کيمياوی ہتھياروں کے ضمن ميں معلومات کی فراہمی سے انکار سال 1991 ميں جنگ بندی کے خاتمے کے معاہدے اور منظور شدہ مينڈيٹ کی واضح خلاف ورزی تھی۔ عراق کی حکومت نے وہ شرائط پوری نہيں کی تھيں جن کا مطالبہ اقوام متحدہ کی جانب سے کيا گيا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے ہتھیاروں کی معائنہ ٹیم کے سابق سربراہ ہانس بلکس نے پھر کہا ہے کہ عراق کے خلاف جنگ امریکہ اور برطانیہ کی بلا جواز مسلح کارروائی تھی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/news/story/2004/03/040310_hans_blix_rza.shtmlہانس بلکس کہتے ہیں کہ ڈک چینی کی اس بات سے وہ یہ سمجھ گئے کہ اگر ’ہمیں جلد ہتھیار نہ ملے تو امریکہ یہ اعلان کردے گا کہ معائنہ کاروں کی کوشش فضول ہے اور دیگر ذرائع استعمال کرکے عراق کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
برطانوی وزیرخارجہ نے برطانوی پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ انٹیلیجنس کے سربراہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ اس دعویٰ کو ثابت نہیں کر سکتے کہ عراق کے پاس پینتالیس منٹ میں کیمیائی یا جراثیمی ہتھیاروں سے حملہ کرنے کی صلاحیت تھی۔
ستمبر دو ہزار دو میں عراق پر حملے کی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے جاری کیے جانے والے حقائق نامے میں اس دعوے کو انتہائی اہم دلیل کے طور پر پیش کیا گیا تھا کہ عراق پینتالیس منٹ کے اندر جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
عراق پر حملہ کرنے سے پہلے بش انتظامیہ نے یہ تاثر دینے کی بھر پور کوشش کی تھی کہ صدام حسین اور القاعدہ میں روابط ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ کولن پاؤل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہا تھا کہ عراق میں القاعدہ کے تربیتی کیمپ ہیں۔
امریکی معائنہ کار جنہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عراق کے وسیع تباہی کے ہتھیار نہیں تھے
نائب صدر ڈک چینی نے زوردار طریقے سے کہا تھا کہ گیارہ ستمبر سے پہلے عراقی ایجنٹ القاعدہ والوں سے پراگ میں ملے تھے۔ لیکن دو روم قبل نیویارک میں ایک تِھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ کا کہنا تھا ’انٹیلیجنس کی برادری میں اس بارے میں اختلافات ہیں کہ رابطہ کس قسم کا تھا لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے مجھے اس رابطے کے بارے میں کوئی ٹھوس شہادت دیکھائی نہیں دی‘
؟امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے کہا ہے کہ وہ فرانس اور جرمنی کی ان تجاویز کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ عراق کے خلاف فوجی کارروائی کو مؤخر کیا جائے۔
وہ یہ جاننے کا بھی مطالبہ کریں گے کہ کیا جرمنی اور فرانس صدام حسین کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/news/030213_europe_iraq_am.shtmlفرانس کا کہنا ہے کہ عراق کی جانب سے معائنہ کاروں کے ساتھ رویے میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔
جرمنی کے چانسلر گے ہارڈ شروڈر کا اصرار ہے کہ عراق میں معائنہ کاری جاری رہنا چاہیے تا کہ اس بات کا حتمی اندازہ لگایا جا سکے کہ عراق کے پاس کس نوعیت کے ہتھیار موجود ہیں۔
سب سے پہلے تو ميں يہ وضاحت کر دوں کہ اسامہ بن لادن 911 کے واقعات سے پہلے بھی امريکی حکومت کو مطلوب افراد کی لسٹ ميں شامل تھے۔ اگست 1998 ميں کينيا اور تنزانيہ ميں امريکی سفارت خانوں پر حملوں اور اس کے نتيجے ميں 225 افراد کی ہلاکت اور 4000 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کے واقعات ميں اسامہ بن لادن امريکی حکومت کو مطلوب تھے۔
اکتوبر 1999 ميں اقوام متحدہ کی جنب سے منظور کردہ قرداد نمبر 1267 ميں يہ واضح درج ہے کہ طالبان کی جانب سے اسامہ بن لادن کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی حکومت سے اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی اس قرارداد کا حصہ ہے۔
http://daccessdds.un.org/doc/undoc/g...df?openelement
يہ درست ہے کہ امريکہ پر يہ الزام لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ نے القائدہ کے خلاف اس وقت زيادہ موثر کاروائ نہيں کی جب القائدہ اپنی تشکيل کے ابتدائ مراحل ميں تھی۔
جب مختلف تجزيہ نگار اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت کے حوالے سے اظہار خيال کرتے ہیں تو وہ يہ بات نظرانداز کر ديتے ہيں کہ اسامہ بن لادن نے 911 کے واقعات سے کئ سال پہلے امريکہ کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کيا تھا۔ اسامہ بن لادن کی تنظيم کی جانب سے دنيا بھر ميں امريکی املاک پر براہ راست حملے کيے جا رہے تھے جس ميں سينکڑوں کی تعداد ميں بے گناہ شہری ہلاک ہو چکے تھے۔ 911 کے واقعات سے پہلے ہی ان کے جرائم کی لسٹ خاصی طويل تھی۔ افغانستان ميں ايک فوجی کاروائ کے دوران حاصل ہونے والی ويڈيو ٹيپ اور اس ميں ان کا اقبال جرم محض ان ثبوتوں کی تصديق تھا جو پہلے ہی ان کے خلاف موجود تھے۔
نومبر 9 2001 کو قندھار ميں اسامہ بن لادن اور القائدہ تنظيم کے بعض ليڈروں کے مابين ايک ملاقات ہوئ جس ميں ہونے والی گفتگو کی ريکارڈنگ کی گئ۔ نومبر 30 2001 کو صدر بش کو يہ ويڈيو دکھائ گئ۔ صدر بش نے ماہرين کی جانب سے اس ويڈيو کی تصديق کے بعد اسے ميڈيا پر ريليز کرنے کی اجازت دے دی۔ دسمبر 9 2001 کو واشنگٹن پوسٹ نے ايک امريکی اہلکار کے حوالے سے اس ويڈیو کی تصديق کی خبر شائع کر دی تھی۔ دسمبر 13 2001 کو يہ ویڈیو دنيا بھر کے نشرياتی اداروں کے ذريعے ريليز کر دی گئ۔
اس ويڈيو ميں اسامہ بن لادن کا 911 کے واقعات ميں ملوث ہونے کے حوالے سے اقبال جرم ان کے خلاف ثبوتوں ميں ايک اہم اضافہ تھا۔ اس ويڈيو ميں کی جانے والی گفتگو سے يہ واضح تھا کہ اسامہ بن لادن 11 ستمبر کے واقعات سے نہ صرف باخبر تھے بلکہ اس منصوبے کی تشکيل ميں بھی شامل تھے۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ویسے کیا کبھی امریکہ نے غلطی بھی کی ہے؟
جب 2001 میں ٹریڈ سینٹرز پر حملے ہوئے تو اسوقت امریکا نے بن لادن کی حوالگی کا معاملہ اٹھایا تھا اور بغیر کسی ثبوت کے
شايد ميں اس سے پہلے بھی اسی فورم پر اس بات کا جواب دے چکا ہوں۔
ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی حکومت اور انظاميہ کے اراکين عقل کل ہيں يا ہميشہ درست فيصلے کرتے ہيں۔ ميں نے اکثر اپنی پوسٹ ميں يہ بات کہی ہے کہ يقينی طور پر غلطياں سرزد ہوئ ہيں اور ايسے فيصلے بھی کيے گئے ہيں جو وقت گزرنے کے ساتھ غلط ثابت ہوئے ہيں۔
ميں صرف اس پس منظر، تاريخی حقائق اور تناظر کی وضاحت کرتا ہوں جن کی بنياد پر فيصلے کيے گئے تھے اور پاليسياں مرتب کی گئيں۔ يہ نامکن ہے کہ غلطيوں سے پاک ايسی پاليسياں تشکيل دی جائيں جس سے دنيا کے سارے مسائل حل کيے جا سکيں۔ ايسا کرنا امريکہ سميت دنيا کی کسی بھی حکومت کے ليے ممکن نہيں ہے۔
ليکن ميں اس بنيادی سوچ اور نقظہ نظر سے اختلاف رکھتا ہوں جس کے تحت ہر واقعہ، بيان اور پاليسی کو سازش کی عينک سے ديکھا جاتا ہے۔ يہ سوچ فہم اور منطق کے منافی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov
شايد ميں اس سے پہلے بھی اسی فورم پر اس بات کا جواب دے چکا ہوں۔
ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی حکومت اور انظاميہ کے اراکين عقل کل ہيں يا ہميشہ درست فيصلے کرتے ہيں۔ ميں نے اکثر اپنی پوسٹ ميں يہ بات کہی ہے کہ يقينی طور پر غلطياں سرزد ہوئ ہيں اور ايسے فيصلے بھی کيے گئے ہيں جو وقت گزرنے کے ساتھ غلط ثابت ہوئے ہيں۔
ميں صرف اس پس منظر، تاريخی حقائق اور تناظر کی وضاحت کرتا ہوں جن کی بنياد پر فيصلے کيے گئے تھے اور پاليسياں مرتب کی گئيں۔ يہ نامکن ہے کہ غلطيوں سے پاک ايسی پاليسياں تشکيل دی جائيں جس سے دنيا کے سارے مسائل حل کيے جا سکيں۔ ايسا کرنا امريکہ سميت دنيا کی کسی بھی حکومت کے ليے ممکن نہيں ہے۔
ليکن ميں اس بنيادی سوچ اور نقظہ نظر سے اختلاف رکھتا ہوں جس کے تحت ہر واقعہ، بيان اور پاليسی کو سازش کی عينک سے ديکھا جاتا ہے۔ يہ سوچ فہم اور منطق کے منافی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov
"واشنگٹن(جنگ نیوز)امریکی صدر جارج بش نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے عراق پر حملہ غلط انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیا جس کا انہیں انتہائی افسوس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ليکن يہ حقيقت بہرحال اٹل ہے کہ صدام حکومت اس خطے اور عراقی عوام کے ليے ايک مستقل خطرہ تھی۔
طالبان کا موقف یہ تھا کہ یا تو اسامہ کو کسی تیسرے ملک کے حوالے کیا جائے جہاں اس پر مقدمہ چلے اور یا امریکا ٹھوس ثبوت دے ؟ آپ اس مطالبے کو غیر قانونی ثابت کیجے ۔ وضاحت کیجئے کس طرح طالبان کا موقف قانونی تقاضوں کے برخلاف تھا؟