شہزادوں جیسی آن بان والا کیپٹن وطن پر قربان ہوگیا

فاخر رضا

محفلین
ہمیشہ سے جب قوموں کو حقوق نہیں ملتے تو زندہ قومیں اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کرتی ہیں
تعمیری تخریبی اس لیے کہا کہ جدو جہد تعمیری ہونی چاہیے نہ کی تخریبی اور اغیار کے اشاروں پر ہونی چاہیے.

فوج ایک ادارہ ہے اور ادارے جوڑ توڑ کے ذمے دار نہیں ہوتے
حکومتیں جو پالیسیاں بناتی ہیں وہی اداروں کو اپنے طور پر چلانے کی کوشش کرتی ہیں
لیکن یہاں پر ادارے کو نشانہ بنایا جا رہے ہے
ملک جس سیاست دان نے توڑا تھا ان کا نام لیتے ہوئے یہاں لوگ گھبراتے کیوں ہیں یہ سمجھ نہیں آتا

آج اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم ایک مضبوط حکومت قائم کرینگے جو انصاف دلائے تمام قومیتوں کو چاہے وہ پختون ہو ں یا کوئی اور قوم تو یہی ادارے ہماری مدد کرینگے اور ہم انسے تعمیری کام لے سکتے ہیں کیوں کہ فوج ہماری اپنی ہے

عوام آج تک چور ڈاکو چنتے آئے ہیں تو پھر اداروں سے گلے شکوے کیوں؟

ایک جنرل نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا اور پاکستان کے اڈے انکے حوالے کیئے ڈرون حملے کروائے عوام کو شہید کروایا لیکن اس جنرل کو کچھ کہنے کی بجائے ہم اپنے ادارے کو برا بھلا کہنے لگے

قصور ادارے کا نہیں ہمارے پورے سسٹم کا ہے حقوق تمام قومیتوں کا حق ہے مگر اس کے حصول کے لیے قوموں کو ملک دشمن تحریکوں کی نہیں بلکہ ملک کی بھاگ ڈور ایک اچھے شخص کے ہاتھ دے کر اپنے جائز مطالبات منوانے کی ہے
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
 

شاہد شاہ

محفلین
نئی وارد محترمہ کا کیسا خوف و دبدبا ہے کہ ابھی تک کوئی بھی ان پر منفی ریٹنگ نہیں دے سکا۔ سب پرمزاح اور غیر متفق سے کام چلا رہے ہیں۔
مجھے اتنی منفی ریٹنگ آج تک نہیں ملی تھیں جتنی اس لڑائی میں ملی ہیں، سوری لڑی میں
 

عثمان

محفلین
فوجی کا پیشہ مارنا ہے
دخل در معقولات کی معذرت۔۔کچھ سطحی سی بات ہوگئی۔
جنگ و جدل تو بہت محدود پہلو ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر عرصہ سروس کرتے گزرتا ہے۔ افواج پاکستان ہی کی مثال لے لیں۔ زلزلے اور ہر برس سیلاب زدگان کی خدمت میں یہ کس سے لڑ رہے ہیں؟ :)
 

زنیرہ عقیل

محفلین
اس لڑی میں ایک ماں کے غم کا ذکر شروع ہوا تھا، یہاں یہ پھلجھڑیاں کسی صورت اچھی نہیں لگ رہیں. یہاں تو کوئی نوحہ یا مرثیہ ہونا چاہیے تھا
میں میت پر نوحے اور مرثیے نہیں پڑھتی اللہ سے بخشش کی دعا مانگتی ہوں
 

فاخر رضا

محفلین
میں میت پر نوحے اور مرثیے نہیں پڑھتی اللہ سے بخشش کی دعا مانگتی ہوں
میں تو پڑھتا ہوں
میرا عقیدہ ہے کہ کسی کی میت پر اس شخص کے لئے رونا نہیں چاہیے یہ خدا کی مصلحت پر سوال اٹھانے والی بات ہے. ایسے موقع پر مجلس برپا کرکے امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان کی شہادت پر گریہ کرنا چاہیے اس سے بہت ثواب ملتا ہے
 

زنیرہ عقیل

محفلین
میں تو پڑھتا ہوں
میرا عقیدہ ہے کہ کسی کی میت پر اس شخص کے لئے رونا نہیں چاہیے یہ خدا کی مصلحت پر سوال اٹھانے والی بات ہے. ایسے موقع پر مجلس برپا کرکے امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان کی شہادت پر گریہ کرنا چاہیے اس سے بہت ثواب ملتا ہے
میں شہادت پر گریہ بھی نہیں کرتی بلکہ اپنے لیے بھی شہادت کی موت مانگتی ہوں
 

فاخر رضا

محفلین
اس فوجی کی ماں کا گریہ نیچرل ہے
بیٹے کی موت پر ماں نہیں روئے گی تو اور کون روئے گا
اسے بدعت نہیں کہ سکتے ہاں اس کی حدود ضرور ہیں، کپڑے نہ پھاڑیں، منہ پر تماچے نہ ماریں وغیرہ
 

Fawad -

محفلین
ایک جنرل نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا اور پاکستان کے اڈے انکے حوالے کیئے ڈرون حملے کروائے عوام کو شہید کروایا لیکن اس جنرل کو کچھ کہنے کی بجائے ہم اپنے ادارے کو برا بھلا کہنے لگے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ نے افراد اور سياسی جماعتوں کی حکومتوں سے قطع نظر کئ دہائيوں سے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہيں۔

911 کے حادثے کے بعد يہ بالکل درست ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کے لیے حکومت پاکستان کے تعاون اور مدد کی ضرورت تھی جنھوں نے دنيا بھر ميں امريکی شہريوں کے خلاف جنگ کا آغاز کر ديا تھا۔ اس وقت پاکستان کے حکمران پرويز مشرف تھے۔ يہ ايک غير منطقی مفروضہ ہے کہ امريکہ کو افغانستان ميں کاروائ سے پہلے مشرف کو اقتدار سے ہٹانا چاہيے تھا۔

صدر مشرف کو امريکی کٹھ پتلی قرار دينے کے ضمن ميں يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان کے دور اقتدار کے بعد پاکستان کی جمہوری منتخب حکومتوں نے بھی پاکستان کے عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانے کے ليے دہشت گردی کے ٹھکانوں کے سدباب کی ضرورت کو تسليم کيا۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی منتخب حکومتيں اور افواج پاکستان امريکی پاليسيوں کی وجہ سے ان قوتوں کے خلاف نبرد آزما نہيں ہیں۔ القائدہ، داعش، ٹی ٹی پی اور ان سے منسلک ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف جنگ کی وجہ يہ ہے کہ يہ مجرم پاکستانی شہريوں، اعلی حکومتی عہديداروں، فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو روزانہ قتل کر رہے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

زنیرہ عقیل

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ نے افراد اور سياسی جماعتوں کی حکومتوں سے قطع نظر کئ دہائيوں سے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہيں۔

911 کے حادثے کے بعد يہ بالکل درست ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کے لیے حکومت پاکستان کے تعاون اور مدد کی ضرورت تھی جنھوں نے دنيا بھر ميں امريکی شہريوں کے خلاف جنگ کا آغاز کر ديا تھا۔ اس وقت پاکستان کے حکمران پرويز مشرف تھے۔ يہ ايک غير منطقی مفروضہ ہے کہ امريکہ کو افغانستان ميں کاروائ سے پہلے مشرف کو اقتدار سے ہٹانا چاہيے تھا۔

صدر مشرف کو امريکی کٹھ پتلی قرار دينے کے ضمن ميں يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان کے دور اقتدار کے بعد پاکستان کی جمہوری منتخب حکومتوں نے بھی پاکستان کے عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانے کے ليے دہشت گردی کے ٹھکانوں کے سدباب کی ضرورت کو تسليم کيا۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی منتخب حکومتيں اور افواج پاکستان امريکی پاليسيوں کی وجہ سے ان قوتوں کے خلاف نبرد آزما نہيں ہیں۔ القائدہ، داعش، ٹی ٹی پی اور ان سے منسلک ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف جنگ کی وجہ يہ ہے کہ يہ مجرم پاکستانی شہريوں، اعلی حکومتی عہديداروں، فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو روزانہ قتل کر رہے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
امریکہ اگر یہ تسلیم کرتی ہے بقول آپ کے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے سد باب کے لیے امریکہ اور اقوام عالم کی مدد کی ہے
تو اب امریکہ کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈلوانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیوں ہماری قربانیوں اور ہمارے شہداء کےخون کا مذاق اڑایا جا رہا ہے؟
 

زنیرہ عقیل

محفلین
اگر یہ استفسار امریکیوں سے کیا جا رہا ہے تو انتہائی معذرت کے ساتھ کیا اسے شہادت فی سبیل.... سمجھا جائے؟
نہیں امریکہ کوئی خدا نہیں جو ہمارا رزق روک سکے

یہ فواد صاحب کے قول کا جواب تھا جو امریکہ کی دوغلی سیاست پر تھا کہ ایک طرف جنگ میں جھوکے جانے کو قبول کرتے ہیں دوسری طرف گرے لسٹ میں دہشت گردوں کی سپورٹ میں شامل کرتے ہیں
 
اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ایسی ہی ناپختہ اور جذباتی سوچ کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ طاقت کا بے دریغ استعمال ہی ایسی تحاریک کا سبب بنتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم بلوچستان آزادی پسند تحریک اور بنگلادیش کی آزادی کی تحریک سے کچھ نہیں سیکھ سکے۔ رہی بات انڈیا سے پیج چلانے کی تو ملک دشمن عناصر تو ہمیشہ سے ہی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دشمن کا کام ہی ایسی تحاریک سے فائدہ اٹھانا ہے جو انہوں نے 1971 میں کر دکھایا لیکن ہمیں خود پہ غور یہ کرنا چاہیے کہ آخر ایسی تحاریک شروع کیوں ہوتی ہیں اور ان وجوہات کا سدباب کرنا چاہیے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک مضبوط ہو گا اور ملک کی مضبوطی کے لیے جمہوریت کا مضبوط ہونا ضروری ہے اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے مداخلت کو ختم کرنا پڑے گا۔ ملک میں انتشار کا سب سے زیادہ فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک سازش ہے کہ عوام کو ڈرائے دھمکائے رکھو کہ فلاں فلاں تمہارا دشمن ہے اور اس کے لیے ایسے حالات بنائے رکھو کہ اپنا مفاد پورا ہوتا رہے اور ملک ایک سیکیورٹی سٹیٹ سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے اور پھر اس کا الزام جمہوریت اور اقلیتوں پہ ڈال کر اپنا دامن صاف ستھرا رکھا جا سکے۔
انتخابات کے ذریعے پارلیمان میں پہنچنے والے جمہوریت کے علمبرداروں کے جمہوریت اور عوام سے اخلاص کا اندازہ تو ان کی پارلیمان میں حاضری سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اور عوامی دلچسپی کے مسائل پر گفتگو سے بھی
 

Fawad -

محفلین
جن کا ٹویٹر امریکہ سے سی آئی اے چلا رہے ہوں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت رائے کے اظہار کے ليے پرامن کاوشوں کی تو حمايت کرتی ہے تاہم ہم ايسے کسی اقدام کو سپورٹ نہيں کرتے جو تشدد يا بدامنی کا سبب بنے۔

اس تناظر ميں امريکی حکومت اور پاليسی ساز اداروں کے ليے کيا حقيقت زيادہ فائدہ مند ہے؟ ايک غير مستحکم پاکستان جس ميں دہشت گردی اور آزادی کی تحريکيں عروج پر ہوں يا ايک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان جو نہ صرف خطے کی استحکام کو يقينی بنائے گا بلکہ امريکی مفادات کو بھی يقينی بنائے گا جن ميں خطے سے ہماری افواج کی کامياب اور بحفاظت واپسی بھی شامل ہے؟

خطے ميں موجودہ صورت حال کا عقلی اور تعميری تجزيہ اسی نتيجے کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدم استحکام اور اتحاد کا فقدان پاکستان کو انتشار کی جانب لے جائے گا جو سارے خطے پر اثرانداز ہو گا اور نہ صرف امريکی اور عالمی مفادات کو نقصان پہنچائے گا بلکہ امريکی شہريوں کی زندگيوں کو بھی خطرے ميں ڈال دے گا۔

يہ بات خود امريکہ کے بہترين مفاد ميں ہے کہ پاکستان ميں ايک فعال، جمہوری اور مستحکم حکومت ہو جو پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کر سکے۔

امريکہ پاکستان کو ايک آزاد اور خود مختار ملک کی حيثيت سے احترام کی نگاہ سے ديکھتا ہے اور اس ضمن ميں ايسی کسی کاروائ کی حمايت نہيں کی جائے گی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ ايک بڑی بھاری قيمت ادا کر کے اس بات کو يقينی بنا رہا ہے کہ پاکستان اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مستحکم ہو۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
Top