محمد مبین امجد
محفلین
میں ایک تعلیم بالغاں کے مرکز میں پڑھتی ہوں۔۔۔ آج میرا اس مرکز میں تقریباََ چھبیسواں دن ہے۔۔۔۔
بات اصل میں یہ ہے کہ مجھے بچپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا۔ مگر ایک غریب گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے یہ شوق شوق ہی رہا۔۔۔۔
میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔۔۔ میری پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد میرے والد صاحب فوت ہو گئے اور میری والدہ نے مجھے ماں کے ساتھ ساتھ باپ کا بھی پیار دیا۔۔۔۔جب میری عمر سکول جانے کی ہوئی تو میری ماں نے گڑگڑا کر اپنے صاحب سے مجھے سکول میں داخل کروانے کا کہا۔۔۔ مگر صاحب نے انکار کر دیا۔۔۔ پھر میری ماں اسکے قدموں میں گر گئی اور کسی خیراتی ادارے میں داخلے کیلیے اسے منانے لگی۔۔۔ مگر ملک کے بڑے صنعتکار اور مشہور و معروف فلاحی شخصیت کو ترس نا آیا۔۔۔۔
جب میں روز صاحب کے بچوں کو سکول جاتا دیکھتی تو میرے شوق کو اور بھی مہمیز ملتی۔۔۔۔ یوں میں نے صاحب کے ایک بچے سے دوستی کر لی جو مجھے روز پڑھانے لگا۔۔۔ صاحب کو پتہ چلا تو اس نے اسے منع کر دیا۔۔۔۔۔۔
اگر چہ صاحب ملک کی مشہور شخصیت تھے اور آئے روز ٹی وی پہ انکے انٹرویو آتے جس میں وہ اپنے ملک کے بچوں کی تعلیم کیلیے بڑا دھواں دھار بیان دیتے۔۔۔۔۔ یہ بات بھی مجھے صاحب کے ایک بچے نے بتائی کہ اس کے ابو ٹی وی میں آتے ہیں کیونکہ ملازمین کو ٹی وی دیکھنے کی اجازت نئیں تھی۔۔۔۔
میری والدہ یوں تو صاحب کی پرانی ملازمہ تھی مگر وہ اسے اچھا نئیں سمجھتی تھی اور مجھے بھی باور کرواتی رہتی کہ صاحب اچھا انسان نئیں۔۔۔۔۔۔
مگر مجھے اب پتہ چلا کہ صاحب بہت اچھا انسان ہے۔۔۔۔۔ شاید صاحب کے اس مرکز میں دی جانیوالی تعلیم نے مجھے باشعور کر دیا تھا۔۔۔۔۔ خیر جو بھی تھا۔۔۔
اگرچہ میں ساری زندگی تنگی و عسرت میں گذاری تھی مگر ایک دن صاحب کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔۔۔۔اب میں ان کی وجہ سے ہی تو اس تعلیمی مرکز میں آتی ہوں اور اپنی تعلیم کا شوق پورا کرتی ہوں۔۔۔ کبھی کبھار صاحب دفتر سے واپسی پہ مجھے بھی پک کر لیتے ہیں۔۔۔۔اور ہاں کل تو حد ہی ہو گئی کہ صاحب نے اپنے ساتھ لے جاکر مجھے ڈھیڑوں شاپنگ کروائی۔۔۔۔ صاحب بہت اچھے ہیں اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ میری ماں اب کام کے قابل نئیں رہی۔۔۔ بیماری نے اس کو کسی کام کا نئیں چھوڑا۔۔۔۔ اسکے باوجود ناصرف وہ حویلی میں ہے بلکہ کبھی کبھی اسے دوائی کی ایک آدھ خوراک بھی مل جاتی ہے۔۔۔ جبکہ اس سے پہلے جو ملازم یا ملازمہ بیمار ہوتی اسے حویلی سے فارغ کر دیا جاتا۔۔۔۔
صاحب مجھے ہوٹل میں کھانا بھی کھلاتا ہے اور کہتا ہے کہ بیگم کو نا بتانا ورنہ میں آئندہ نئیں کھلاؤں گا۔۔۔۔ بھلا میں کیوں بتاؤں گی بیگم صاحبہ کو۔۔۔میں کوئی پاگل ہوں کہ ہوٹل کا کھانا چھوڑ دوں۔۔۔
صاحب بہت اچھے ہیں تبھی تو مجھ سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ صاحب نے مجھے سونے کی انگوٹھی دی اور ۔۔۔ میری تعریف بھی کی ۔۔۔۔ کہنے لگے کہ تم گڈڑی میں لعل ہو۔۔۔۔ پھر کافی دیر تک صاحب نے اپنے ہاتھوں میں میرا ہاتھ پکڑے رکھا۔۔۔۔۔ مجھے برا بالکل بھی نئیں لگا۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ صاحب بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔ اب آپ ہی بتاؤ نا صاحب اچھے ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔؟
جواب ضرور دینا۔۔۔۔!
بات اصل میں یہ ہے کہ مجھے بچپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا۔ مگر ایک غریب گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے یہ شوق شوق ہی رہا۔۔۔۔
میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔۔۔ میری پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد میرے والد صاحب فوت ہو گئے اور میری والدہ نے مجھے ماں کے ساتھ ساتھ باپ کا بھی پیار دیا۔۔۔۔جب میری عمر سکول جانے کی ہوئی تو میری ماں نے گڑگڑا کر اپنے صاحب سے مجھے سکول میں داخل کروانے کا کہا۔۔۔ مگر صاحب نے انکار کر دیا۔۔۔ پھر میری ماں اسکے قدموں میں گر گئی اور کسی خیراتی ادارے میں داخلے کیلیے اسے منانے لگی۔۔۔ مگر ملک کے بڑے صنعتکار اور مشہور و معروف فلاحی شخصیت کو ترس نا آیا۔۔۔۔
جب میں روز صاحب کے بچوں کو سکول جاتا دیکھتی تو میرے شوق کو اور بھی مہمیز ملتی۔۔۔۔ یوں میں نے صاحب کے ایک بچے سے دوستی کر لی جو مجھے روز پڑھانے لگا۔۔۔ صاحب کو پتہ چلا تو اس نے اسے منع کر دیا۔۔۔۔۔۔
اگر چہ صاحب ملک کی مشہور شخصیت تھے اور آئے روز ٹی وی پہ انکے انٹرویو آتے جس میں وہ اپنے ملک کے بچوں کی تعلیم کیلیے بڑا دھواں دھار بیان دیتے۔۔۔۔۔ یہ بات بھی مجھے صاحب کے ایک بچے نے بتائی کہ اس کے ابو ٹی وی میں آتے ہیں کیونکہ ملازمین کو ٹی وی دیکھنے کی اجازت نئیں تھی۔۔۔۔
میری والدہ یوں تو صاحب کی پرانی ملازمہ تھی مگر وہ اسے اچھا نئیں سمجھتی تھی اور مجھے بھی باور کرواتی رہتی کہ صاحب اچھا انسان نئیں۔۔۔۔۔۔
مگر مجھے اب پتہ چلا کہ صاحب بہت اچھا انسان ہے۔۔۔۔۔ شاید صاحب کے اس مرکز میں دی جانیوالی تعلیم نے مجھے باشعور کر دیا تھا۔۔۔۔۔ خیر جو بھی تھا۔۔۔
اگرچہ میں ساری زندگی تنگی و عسرت میں گذاری تھی مگر ایک دن صاحب کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔۔۔۔اب میں ان کی وجہ سے ہی تو اس تعلیمی مرکز میں آتی ہوں اور اپنی تعلیم کا شوق پورا کرتی ہوں۔۔۔ کبھی کبھار صاحب دفتر سے واپسی پہ مجھے بھی پک کر لیتے ہیں۔۔۔۔اور ہاں کل تو حد ہی ہو گئی کہ صاحب نے اپنے ساتھ لے جاکر مجھے ڈھیڑوں شاپنگ کروائی۔۔۔۔ صاحب بہت اچھے ہیں اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ میری ماں اب کام کے قابل نئیں رہی۔۔۔ بیماری نے اس کو کسی کام کا نئیں چھوڑا۔۔۔۔ اسکے باوجود ناصرف وہ حویلی میں ہے بلکہ کبھی کبھی اسے دوائی کی ایک آدھ خوراک بھی مل جاتی ہے۔۔۔ جبکہ اس سے پہلے جو ملازم یا ملازمہ بیمار ہوتی اسے حویلی سے فارغ کر دیا جاتا۔۔۔۔
صاحب مجھے ہوٹل میں کھانا بھی کھلاتا ہے اور کہتا ہے کہ بیگم کو نا بتانا ورنہ میں آئندہ نئیں کھلاؤں گا۔۔۔۔ بھلا میں کیوں بتاؤں گی بیگم صاحبہ کو۔۔۔میں کوئی پاگل ہوں کہ ہوٹل کا کھانا چھوڑ دوں۔۔۔
صاحب بہت اچھے ہیں تبھی تو مجھ سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ صاحب نے مجھے سونے کی انگوٹھی دی اور ۔۔۔ میری تعریف بھی کی ۔۔۔۔ کہنے لگے کہ تم گڈڑی میں لعل ہو۔۔۔۔ پھر کافی دیر تک صاحب نے اپنے ہاتھوں میں میرا ہاتھ پکڑے رکھا۔۔۔۔۔ مجھے برا بالکل بھی نئیں لگا۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ صاحب بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔ اب آپ ہی بتاؤ نا صاحب اچھے ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔؟
جواب ضرور دینا۔۔۔۔!