صبح بخیر، دوپہر بخیر، شام بخیر :)

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لگتا ہے اب مجلس شوریٰ بلا کر ااس بابت غور کنے کی ضرورت ہے کہ شگفتہ بٹیا اپنے سعود بھائی کے تئیں اس معاملے میں کتنی مخلص ہیں اور کچے کیلوں کے پکوڑوں کے تئیں کتنی خود غرض! :) :) :)

نوٹ: اپنی سہولت کے مطابق "خود غرض" کو دیگر متبادلات کے ہم معنی پڑھا جائے۔ :) :) :)

مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں کچے کیلوں کے حصول کے لیے خصوصی دعا بھی کی جائے :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پھر تو حمیرہ بٹیا کو گالوں کا رنگ تبدیل کرنے کا درست طریقہ نہیں معلوم یا پھر شگفتہ بٹیا کی بھتیجا پارٹی سے نا واقف ہیں۔ :) :) :)

سعود بھائی، جس طریقہ کی نشاندہی کر رہے ہیں وہ مجھے بھی نہیں معلوم اور اگر میں درست سمجھ پائی ہوں تو پھر تو بالکل بھی کارگر نہیں کہ بھتیجا پارٹی کا ہر سپاہی مارشل آرٹ کے کسی نہ کسی درجہ پر صاحبِ بیلٹ ہے :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کل وہ ہمارے ساتھ واشنگٹن ڈی سی گئی تھیں۔ وہاں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے شہر کے مختلف مقامات کی سیاحت کی اور مختلف مونومینٹس کے حوالے سے اپنی معلومات کا رعب جمایا۔ :) :) :)
شاندار!
کیا کچھ اضافہ ہوا پھر آپ کے علم میں؟ :)
 
شاندار!
کیا کچھ اضافہ ہوا پھر آپ کے علم میں؟ :)
ہمیں یہ ادراک ہوا کہ ہم گھامڑ الوجود واقع ہوئے ہیں۔ نیز یہ کہ ہمیں واشنگٹن ڈی سی کی سہ پہر کی بھیڑ میں گاڑی چلاتے ہوئے ان سے بات کرنے پر ایک قصہ یاد آ گیا۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں دور دیس سے کوئی فقیر زیارت کو آیا تھا۔ اس نے اس بادشاہ کی ریاست کی بڑی تعریف سنی تھی کہ وہاں کے لوگ بے حد خوش حال اور اصولوں کے پابند ہیں۔ بادشاہ سے اس نے سبب پوچھا تو بادشاہ نے کہا کہ ہمارے یہاں عدل اور جواب دہی کا بہترین نظام ہے اس لیے خوشحالی اصول پرستی ہے۔ مثلاً ہر چھوٹا افسر اپنے بڑے افسر کو جواب دہ ہے اور کسی بھی غلطی کی صورت شدید سزا سے خائف ہے۔ درویش نے دریافت فرمایا کہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن آپ تو اس ریاست کے سب سے بڑے ہیں، آپ کے اوپر احتساب کے لیے تو کوئی بھی نہیں، پھر آپ خود کو غلطیوں اور دنیاوی کشش سے کیسے دور رکھ پاتے ہیں؟ بادشاہ نے کہا کہ آپ ہمارے درباری مہمان بنیں، ہم اس کا جواب آپ کو کل دیں گے۔ اگلے روز بادشاہ نے اعلان کروا دیا کہ شہر اور بازاروں کو بے حد خوبصورتی کے ساتھ سجا دیا جائے، ایک شاہی مہمان زیارت کو نکلیں گے۔ القصہ ایسا ہی ہوا۔ ہر جانب رونق، رنگ، روشنی اور انواع و اقسام کی خوبصورتیاں جلوہ افروز تھیں۔ پھر بادشاہ نے شاہی مہمان یعنی درویش کو اپنے چند وزرا و درباریوں کے ساتھ بازار کی سیر کو بھیج دیا اور ساتھ ہی ایک جلاد بھی روانہ کر دیا جو درویش کی سواری کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا تھا۔ بادشاہ نے فقیر کو پانی سے لبا لب بھری ایک پیالی تھما دی تھی اور جلاد کو حکم دیا تھا کہ اگر ایک بھی قطرہ پانی چھلک جائے تو فوراً ان کا سر تن سے جدا کر دینا۔ جب بازار سے گھوم پھر کر درویش کا قافلہ واپس دربار پہنچا تو درویش کے ہاتھ میں پانی سے بھری پیالی بدستور موجود تھی، اس کے بدن میں خوف سے لرزہ طاری تھا، لیکن ایک قطرہ نہ چھلکے اس کی کوشش بدستور جاری تھی، جبکہ جلاد بالکل عقب میں تلوار سونتے کھڑا تھا۔ بادشاہ نے پوچھا، کیوں بھئی، ہمارے شہر کی خوبصورت اور یہاں کے بازار کا حسن آپ کو کیسا لگا؟ درویش نے کہا کہ اپنے چاروں طرف موجود رنگینیوں کو دیکھنے کا موقع کب ملا، ہماری تو ساری توجہ اس پیالے پر تھی۔۔۔ اس پر بادشاہ نے کہا، امید ہے آپ کو اپنے کل کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ :) :) :)
 
ہمیں یہ ادراک ہوا کہ ہم گھامڑ الوجود واقع ہوئے ہیں۔ نیز یہ کہ ہمیں واشنگٹن ڈی سی کی سہ پہر کی بھیڑ میں گاڑی چلاتے ہوئے ان سے بات کرنے پر ایک قصہ یاد آ گیا۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں دور دیس سے کوئی فقیر زیارت کو آیا تھا۔ اس نے اس بادشاہ کی ریاست کی بڑی تعریف سنی تھی کہ وہاں کے لوگ بے حد خوش حال اور اصولوں کے پابند ہیں۔ بادشاہ سے اس نے سبب پوچھا تو بادشاہ نے کہا کہ ہمارے یہاں عدل اور جواب دہی کا بہترین نظام ہے اس لیے خوشحالی اصول پرستی ہے۔ مثلاً ہر چھوٹا افسر اپنے بڑے افسر کو جواب دہ ہے اور کسی بھی غلطی کی صورت شدید سزا سے خائف ہے۔ درویش نے دریافت فرمایا کہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن آپ تو اس ریاست کے سب سے بڑے ہیں، آپ کے اوپر احتساب کے لیے تو کوئی بھی نہیں، پھر آپ خود کو غلطیوں اور دنیاوی کشش سے کیسے دور رکھ پاتے ہیں؟ بادشاہ نے کہا کہ آپ ہمارے درباری مہمان بنیں، ہم اس کا جواب آپ کو کل دیں گے۔ اگلے روز بادشاہ نے اعلان کروا دیا کہ شہر اور بازاروں کو بے حد خوبصورتی کے ساتھ سجا دیا جائے، ایک شاہی مہمان زیارت کو نکلیں گے۔ القصہ ایسا ہی ہوا۔ ہر جانب رونق، رنگ، روشنی اور انواع و اقسام کی خوبصورتیاں جلوہ افروز تھیں۔ پھر بادشاہ نے شاہی مہمان یعنی درویش کو اپنے چند وزرا و درباریوں کے ساتھ بازار کی سیر کو بھیج دیا اور ساتھ ہی ایک جلاد بھی روانہ کر دیا جو درویش کی سواری کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا تھا۔ بادشاہ نے فقیر کو پانی سے لبا لب بھری ایک پیالی تھما دی تھی اور جلاد کو حکم دیا تھا کہ اگر ایک بھی قطرہ پانی چھلک جائے تو فوراً ان کا سر تن سے جدا کر دینا۔ جب بازار سے گھوم پھر کر درویش کا قافلہ واپس دربار پہنچا تو درویش کے ہاتھ میں پانی سے بھری پیالی بدستور موجود تھی، اس کے بدن میں خوف سے لرزہ طاری تھا، لیکن ایک قطرہ نہ چھلکے اس کی کوشش بدستور جاری تھی، جبکہ جلاد بالکل عقب میں تلوار سونتے کھڑا تھا۔ بادشاہ نے پوچھا، کیوں بھئی، ہمارے شہر کی خوبصورت اور یہاں کے بازار کا حسن آپ کو کیسا لگا؟ درویش نے کہا کہ اپنے چاروں طرف موجود رنگینیوں کو دیکھنے کا موقع کب ملا، ہماری تو ساری توجہ اس پیالے پر تھی۔۔۔ اس پر بادشاہ نے کہا، امید ہے آپ کو اپنے کل کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ :) :) :)
بہت زبردست بھیا!!!!! میں نے یہ واقعہ "تقویٰ" کی تفسیر کے حوالے سے سُن رکھا تھا.
 
مریم کوئی واقعہ یا روایت آپ بھی شیئر کیجیے اپنے مطالعے سے۔
بہنا! آپ کی اِس بات سے مُجھے ایک واقعہ یاد آیا. لیکن پہلے وہ سُناتی ہُوں جو کبھی بھولتا ہی نہیں!
* محمود غزنوی نے ایک بار ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ اس پر کوئی ایسا جُملہ لکھ کر لاؤ کہ جب مَیرا دل غم کی کیفیت میں ہو تو اس جملے کو دیکھ کے خوشی کی کیفیت میں آجائے اور جب خوشی کی کیفیت میں ہو تَو غم میں آجائے. کُچھ عرصہ بعد ایاز انگوٹھی پر یہ جُملہ لکھ کر لایا:
"یہ وقت گُزر جائے گا"
>
یہ ایک ابہت چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن میرے دل سے کبھی محو نہیں ہوتا. یقیناََ آپ نے بھی سُن رکھا ہو گا. یہ بہت طاقتور جملہ ہے اور میری زندگی میں بہت اہم ہے!!

* یہ واقعہ ابھی یاد آیا آپ کی اس بات سے کہ امام عبدالمالک نے چالیس سال کی انتھک محنت اور تحقیق کے بعد "موطا" لکھی. ہم سب جانتے ہیں چالیس سال زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ ہے. لیکن جب ان کی تصنیف "موطا" مکمل ہوگئی تَو بہت سے نقالوں نے اپنی اپنی 'موطا' لکھنی شروع کر دی. ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا تکلیف دہ عمل ہے , یہاں لوگ چند ماہ میں بھی کتاب مکمل کر لیتے ہیں اور کاپی رائٹس کے اور کیسے کیسے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں, عدالتوں میں کیس چلتے ہیں اور وہاں اُن کی چالیس سال کی محنت بظاہر ضائع ہو رہی تھی مگر ان کے ماتھے پر ایک شکن تک نہ آئی. جب ان سے کہا گیا کہ کیا آپ پریشان نہیں ہیں؟ کچھ کرتے کیوں نہیں؟ تَو انہوں نے نہایت اطمینان سے جواب دِیا کہ 'جو کام خالصتاََ اللّٰہ کے لیے ہوگا , صرف وہی باقی رہے گا' اور اُنکی وہ بات درست ثابت ہوئی , آج اتنے سو سال گزرنے کے باوجود ہم صرف ایک 'موطا' کو جانتے ہیں , جو 'باقی' رہی.
> ہمیں دوسروں کی درستی کی بجائے اپنی درستی اور خاص طور پر اپنی نیّت کی درستی پر دھیان دینا چاہئیے. ہم خود اتنے پانی میں نہیں ہوتے جتنا بڑا ہم کسی ایک تخلیق کے بعد خود کو سمجھنے لگتے ہیں.
°°°°°°میں نے اپنے تمام مطالعہ سے ایک بنیادی بات جانی ہے کہ ہماری فطرت یہ فیصلہ نہیں کرتی کہ ہم کیا ہیں , بلکہ یہ کام ہمارے انتخابات کرتے ہیں°°°°°
:) دوپہر بخیر!
 

وقار..

محفلین
دوپہر بخیر

اک سوال عرض ہے
تصویر کیسے اپلوڈ کرتیں ہیں فورم پے
مجھ سے نہیں ہورہی
کوئی بھی بتانا چاہے
 
دوپہر بخیر

اک سوال عرض ہے
تصویر کیسے اپلوڈ کرتیں ہیں فورم پے
مجھ سے نہیں ہورہی
کوئی بھی بتانا چاہے
میں نے کبھی کی نہیں کیونکہ مجھے بھی یہی مسئلہ درپیش رہا. لیکن ویسے مجھے بتایا گیا تھا کہ ڈراپ باکس یا کسی بھی اور ویب سائٹ پہ تصویر موجود ہو پبلک پرائیویسی میں اور اس کے بعد اُس تصویر کا لِنک یہاں داخل کرنا ہے جب مراسلہ لکھتے ہیں تَو اوپر ایک تصویر کا آئی کون بنا ہوتا ہے, وہاں!
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہنا! آپ کی اِس بات سے مُجھے ایک واقعہ یاد آیا. لیکن پہلے وہ سُناتی ہُوں جو کبھی بھولتا ہی نہیں!
* محمود غزنوی نے ایک بار ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا کہ اس پر کوئی ایسا جُملہ لکھ کر لاؤ کہ جب مَیرا دل غم کی کیفیت میں ہو تو اس جملے کو دیکھ کے خوشی کی کیفیت میں آجائے اور جب خوشی کی کیفیت میں ہو تَو غم میں آجائے. کُچھ عرصہ بعد ایاز انگوٹھی پر یہ جُملہ لکھ کر لایا:
"یہ وقت گُزر جائے گا"
>
یہ ایک ابہت چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن میرے دل سے کبھی محو نہیں ہوتا. یقیناََ آپ نے بھی سُن رکھا ہو گا. یہ بہت طاقتور جملہ ہے اور میری زندگی میں بہت اہم ہے!!

* یہ واقعہ ابھی یاد آیا آپ کی اس بات سے کہ امام عبدالمالک نے چالیس سال کی انتھک محنت اور تحقیق کے بعد "موطا" لکھی. ہم سب جانتے ہیں چالیس سال زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ ہے. لیکن جب ان کی تصنیف "موطا" مکمل ہوگئی تَو بہت سے نقالوں نے اپنی اپنی 'موطا' لکھنی شروع کر دی. ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا تکلیف دہ عمل ہے , یہاں لوگ چند ماہ میں بھی کتاب مکمل کر لیتے ہیں اور کاپی رائٹس کے اور کیسے کیسے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں, عدالتوں میں کیس چلتے ہیں اور وہاں اُن کی چالیس سال کی محنت بظاہر ضائع ہو رہی تھی مگر ان کے ماتھے پر ایک شکن تک نہ آئی. جب ان سے کہا گیا کہ کیا آپ پریشان نہیں ہیں؟ کچھ کرتے کیوں نہیں؟ تَو انہوں نے نہایت اطمینان سے جواب دِیا کہ 'جو کام خالصتاََ اللّٰہ کے لیے ہوگا , صرف وہی باقی رہے گا' اور اُنکی وہ بات درست ثابت ہوئی , آج اتنے سو سال گزرنے کے باوجود ہم صرف ایک 'موطا' کو جانتے ہیں , جو 'باقی' رہی.
> ہمیں دوسروں کی درستی کی بجائے اپنی درستی اور خاص طور پر اپنی نیّت کی درستی پر دھیان دینا چاہئیے. ہم خود اتنے پانی میں نہیں ہوتے جتنا بڑا ہم کسی ایک تخلیق کے بعد خود کو سمجھنے لگتے ہیں.
°°°°°°میں نے اپنے تمام مطالعہ سے ایک بنیادی بات جانی ہے کہ ہماری فطرت یہ فیصلہ نہیں کرتی کہ ہم کیا ہیں , بلکہ یہ کام ہمارے انتخابات کرتے ہیں°°°°°
:) دوپہر بخیر!
بہت شکریہ مریم
انگوٹھی والا جملہ واقعی ہمیشہ یاد رہتا ہے، بلا شبہ ہماری سوچ اور عمل میں توازن کے لیے انتہائی عمدہ خیال ہے۔

دوسرا واقعہ بھی بہت عمدہ اور سبق آموز ہے۔ یہ واقعہ پہلی بار پڑھا ہے آپ کے توسط سے، امید ہے آپ اپنے مطالعے سے کچھ نہ کچھ انتخاب شریک کرتی رہیں گی۔
 

وقار..

محفلین
میں نے کبھی کی نہیں کیونکہ مجھے بھی یہی مسئلہ درپیش رہا. لیکن ویسے مجھے بتایا گیا تھا کہ ڈراپ باکس یا کسی بھی اور ویب سائٹ پہ تصویر موجود ہو پبلک پرائیویسی میں اور اس کے بعد اُس تصویر کا لِنک یہاں داخل کرنا ہے جب مراسلہ لکھتے ہیں تَو اوپر ایک تصویر کا آئی کون بنا ہوتا ہے, وہاں!
-----------------------------------------------------------------------------------

شکریہ
 
Top