مشرقِ وسطیٰ کے اہم ملک ایران پر امریکی حملے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل ہی مشرقِ وسطیٰ سے فوجیں واپس بلانے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن اب وہ خطے کو ایک نئی جنگ کا تحفہ دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
امریکا کے
مشرقِ وسطیٰ کو خیرباد کہنے کے عہد اور اس پر مولانا زاہد الراشدی کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے اور سر دھنیے۔
کیا امریکہ مشرق وسطیٰ سے نکلنا چاہتا ہے؟
ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
نومبر ۲۰۱۹ء
روزنامہ اسلام لاہور میں ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو شائع ہونے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیے:
’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کو خون آلود مٹی قرار دیتے ہوئے خطے سے نکلنے کا عہد کیا ہے، وائٹ ہاؤس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کی خون آلود مٹی چھوڑ دے گا، امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ کے تعلقات کی نوعیت تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں بہت امریکی سروسز کے ممبران مارے گئے، امریکہ کو اب مزید دنیا کے پولیس مین کے طور پر رہنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم باہر نکل رہے ہیں اور اب کسی اور کو اس خون آلود زمین پر لڑنے دیں، ہماری فوج کی نوکری دنیا کی پولیس کی نہیں ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دیگر اقوام لازمی آگے آئیں اور اپنے حصے کے مطابق کام کریں، میں مختلف طریقے سے انتخاب پر قائم ہوں جو امریکہ کو کامیاب کر سکیں، امریکی صدر نے مزید کہا کہ شام سے بڑے پیمانے پر انخلا کے باوجود کچھ فوجی دستے شام کی آئل تنصیبات پر موجود رہیں گے کیونکہ ہم نے تیل کو محفوظ کر دیا ہے اور اسی لیے امریکی افواج کی کم تعداد ایسے علاقوں میں موجود رہے گی جہاں تیل موجود ہے۔
یاد رہے کہ ترکی کی جانب سے شمالی شام میں ۸ اکتوبر سے کرد باغیوں کے خلاف بہار امن (پیس اسپرنگ) کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا، ترکی اپنی سرحد سے متصل ۳۲ کلومیٹر تک کے شامی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش ۲۰ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے اور ترکی کا مطالبہ ہے کہ کرد ملیشیا شمالی شام کی ۳۲ کلومیٹر کی حدود سے باہر چلی جائے اور یہ علاقہ ’’سیف زون‘‘ کہلا سکے۔‘‘
یہ خبر پڑھتے ہوئے ایک دفعہ اس خیال سے ہم نے خود کو چیک کیا کہ کہیں نیند کی حالت میں خواب تو نہیں دیکھ رہے؟ پھر یہ شک ہوا کہ شاید صدر ٹرمپ اس گفتگو کے دوران نارمل حالت میں نہ ہوں۔ مگر یہ سوچ کر اصل بات سمجھ آگئی کہ یہ صدر ٹرمپ کی منظم حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا ایک مظاہرہ افغانستان سے ان کے نکل جانے کے اعلان کے حوالہ سے ہم دیکھ چکے ہیں، کیونکہ اسی نوعیت کے ارادے کا اظہار انہوں نے افغانستان کے بارے میں کیا تھا اور اس کے لیے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک لمبا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا، مگر جب دیکھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ان کے طے کردہ منصوبے اور مستقبل کے عزائم کے حوالہ سے نہیں ہو رہی تو اچانک ان مذاکرات کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ ہمارے خیال میں ان کے ذہن میں یہ منصوبہ ہے کہ افغانستان سے امریکی اتحاد کی باوردی افواج کی تو واپسی ہو جائے مگر اس خطہ کا کنٹرول بدستور ان کے بے وردی رضاکاروں کے ہاتھ میں رہے تاکہ ان کے مقاصد اور پالیسیوں کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے۔ مگر افغان طالبان نے اس حکمت عملی کو بھانپ کر حکمت و تدبیر اور حوصلہ و جرأت کے ساتھ اس کا سامنا کیا جس کے نتیجے میں اب امریکہ بہادر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور شروع کرنے سے پہلے اپنی حکمت عملی کو ’’میک اپ‘‘ دینے میں مصروف ہے۔
اس دوران مشرق وسطیٰ کے بارے میں صدر ٹرمپ کا مذکورہ بالا ارشاد گرامی سامنے آیا ہے تو ہمیں یہ بھی ان کی اسی پالیسی کا تسلسل دکھائی دے رہا ہے جو افغانستان کے حوالہ سے ہم دیکھ چکے ہیں بلکہ ابھی دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ شام میں ’’تیل کی حفاظت‘‘ کے لیے کچھ امریکی فوجی دستوں کی مستقل موجودگی کو انہوں نے ابھی سے ضروری قرار دے دیا ہے اس لیے اس سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں کسی بہتر تبدیلی کی توقعات کی کوئی وجہ کم از کم ہمیں سمجھ میں نہیں آرہی۔
امریکہ بہادر نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست اور یورپی قوتوں کے متحدہ محاذ کی فتح کے بعد برطانیہ اور دیگر مغربی استعماری قوتوں کے مضمحل ہو جانے کے باعث ’’عالمی پولیس مین‘‘ کا کردار سنبھالا تھا، جس کا آغاز ناگاساکی اور ہیروشیما میں اس کی طرف سے ایٹمی بمباری سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے مغرب کے استعماری عزائم اور ایجنڈے کی قیادت ابھی تک امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور اس نے تائیوان، کوریا، جاپان، ویتنام، افغانستان، عراق، شام، فلسطین، بوسنیا، صومالیہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں جو کردار اس حیثیت سے سر انجام دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے جس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔
اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ اسے اس کے تناظر اور میک اپ کو بدلنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ ماضی کے امریکی صدور سے مختلف روپ دکھا کر دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ بدل رہا ہے، بدلنا چاہتا ہے اور بدلنے کی حکمت عملی بروئے کار لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’تبدیلی‘‘ تقریروں اور رسمی اعلانات سے نہیں آتی، اس کے لیے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے، دوسری طرف کے اصل فریقوں کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے اور عملی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ اس سب کچھ کیے بغیر تبدیلی کی کوئی بات دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا آخر اور کیا کہلا سکتی ہے؟