صرف سچ بیتیاں

باباجی

محفلین
آپ کی بات سے ایک واقعہ یاد آیا
جناب شاہ گل حسن قادری صاحب کی کتاب ہے "تذکرہ غوثیہ"
اُس میں اپنے پیر و مرشد جناب غوث علی شاہ قلندر پانی پتیؒ کا واقعہ لکھتے ہیں کہ
انہیں کسی نے کہا کہ فلاں شخص کی بیوی پر اللہ بخش بھوت آتا ہے اور بیچاری بے حال ہوجاتی ہے
تو شاہ صاحب اس کے گھر تشریف لے گئے اور اللہ بخش بھوت سے کہا کہ بھائی یہ تو بیچاری غریب اور کم صورت عورت ہے تو اسے کیوں ستاتا ہے
تو اس نے جواب دیا کہ
سرکار میں تو عذابِ الہٰی ہوں حکم ہے عذاب کا لیکن جب تک آپ یہاں ہے وعدہ ہے اسے تنگ نہیں کروں گا جب آپ چلے جایئں گے تو پھر
آؤں گا ۔
یہ سُن کر آپ نے فرمایا بھائی تو اپنا کام کرتا رہ ۔
پھر اس سے پوچھا تمہے سرکار اسمٰعیل بندگیؒ نے کیا سبق دیا تھا تو رہ کر کہنے لگا کہ حضرت مت پوچھیئے بن آئی مرنا پڑتا ہے
آسان راہ نہین ہے یہ ۔

(کتاب: تذکرہ غوثیہ)
 

باباجی

محفلین
میرے کس مراسلے سے آپ کو لگا کہ میں دھاگہ "ڈی ٹریک" کر رہا ہوں ؟ یا کس مراسلے یہ گمان گذرا کہ میں دوسروں کا مزاق اڑا رہا ہوں ؟
نیز میں ایک سے زائد بار لکھ چکا ہوں کہ میں واقعات سننے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔
عثمان بھائی
آپ کے مراسلات سے مجھے ایسا لگا
لیکن زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کے آپ کو بھی جاننے کی جستجو ہے
 

باباجی

محفلین
اجی غزنوی جی ۔۔۔ ۔۔کتابوں میں پڑھنا اور بات ہے اور براہ راست تجربہ کرنا اور بات ہے ۔۔۔ ۔ہم تو تجربات کی بات کررہے ہیں دراصل نایاب جی ہم لوگوں سے اپنے تجربات شیئر کرنا چاہ رہے تھے لیکن آپ کو پتہ ہے کہ چند لوگ۔۔۔ ۔۔۔ کی وجہ سے ہر دھاگے کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔
دراصل نوامیس کے معاملے میں میرا علم اتنا زیادہ نہیں ہے میں اس کو سیکھنا چاہتا ہوں تجربات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ۔کیونکہ جو عمل مل جائے تو اس کو ڈائری کی زینت بنانے کے ساتھ ساتھ حق الیقین کا درجہ بھی حاصل ہونا چاہیئے ہے۔
بالکل ٹھیک کہا آپ نے روحانی بابا
 

باباجی

محفلین
اس قسم کی کافی باتیں بابا یحییٰ خان کی مشہور کتاب ' پیا رنگ کالا' اور 'کاجل کوٹھا' میں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔۔۔ دونوں کتابیں زبردست اور قابلِ مطالعہ ہیں۔
بہت خوب محمود احمد غزنوی بھائی
بابا صاحب کی کیا ہی بات ہے
ہر موضؤع کو کور کرتی ہیں ان کی کتابیں
روحانی اور مادی اعتبار سے بہت قیمتی کتب ہیں
 

رانا

محفلین
ذیل کا واقعہ ہمارے ایک اور محترم بزرگ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کا بیان کردہ ہے جو انہوں نے اپنی کتاب آپ بیتی میں اپنے ڈاکٹری کے پیشہ کے دوران پیش آنے والے مختلف واقعات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ بھی انہی کی زبانی سنئے:

جنات کا کرشمہ:
میں سرسہ ضلع حصار میں تھا۔ یہ غالبا 1914 عیسوی کا واقعہ ہے۔ ایک دن ایک پولیس کانسٹیبل ایک عورت کو ڈاکٹری ملاحظہ کے لئے لایا۔ میں نے پولیس رپورٹ پڑھی تو اس میں لکھا تھا کہ "مسمی فتح محمد موضع فلاں نے پولیس میں رپورٹ کی کہ "میرے موضع کے ایک شخص مسمی جھنڈو نے جو میرا مخالف ہے میری بیٹی مسمات نوری عمر بیس سال پر جو ابھی ناکتخدا ہے کوئی عمل جن بھوت وغیرہ کا کرایا ہے اور ایک منصوری پیسہ پڑھوا کر میری لڑکی کی طرف بذریعہ موکل بھیجا ہے جو نہایت زور سے لڑکی کی پشانی پر لگا اور اس کے بعد وہ جن لڑکی پر سوار ہوگیا۔ اب لڑکی پر بےہوشی کے دورے پڑتے ہیں اور وہ کہتی ہے کہ مجھ پر ماموں مولا بخش سوار ہیں۔ ہم نے بہت سے عامل بلائے مگر کوئی اس مولابخش کو نہ اتار سکا اب عرض یہ ہے کہ لڑکی کا ملاحظہ ڈاکٹری کرایا جائے اور جھنڈو کو قرار واقعی سزا دی جائے یا اس کی ضمانت لی جاوے کیونکہ معاملہ قابل دست اندازئی پولیس ہے۔" آخر میں لکھا تھا کہ "لڑکی کو اس کے والد کے ہمراہ برائے ملاحظہ طبی بھیجا جاتا ہے۔" مطلع فرماویں کہ "اس پر جن چڑھا ہوا ہے یا نہیں؟ اور خفیف ہے یا شدید؟"۔

میں نے جب یہ پڑھا تو پولیس کی رپورٹ لکھنے والے کی عقل پر سخت حیران ہوا۔ سپاہی سے پوچھاکہ "جب یہ مارکٹائی کا معاملہ نہیں ہے تو میں ضربات کیا لکھوں؟ میرے محکمہ کو جنات سے کیا واسطہ! وہ احمق کہنے لگا کہ "جناب لڑکی اپنے ماتھے پر عمل کا پیسہ لگنا بیان کرتی ہے۔ یہ تو صاف ضرب کی قسم ہے۔ اس کے بعد سے وہ بے ہوش ہے۔ اور اس کے سر پر جن بولتا ہے۔ یہ اسی ضرب کا ہی اثر ہے۔ آپ جیسا مناسب سمجھیں لکھ دیں"۔ مجھے فتح محمد مدعی سے بہت زیادہ خود پولیس والوں پر تعجب تھا مگر چونکہ جنات کا معاملہ تھا اس لئے میں اُٹھ کر باہر نکلا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ دس بارہ آدمی سڑک پر ایک چھکڑا لئے کھڑے ہیں اور اس میں ایک جوان مضبوط مُسٹنڈی عورت لیٹی ہوئی ہے جس کی آنکھوں سے وحشت برس رہی ہے۔ بہتیرا اُس سے پوچھا گچھا مگر وہ کچھ نہ بولی۔ آخر میں نے اُس کے رشتہ داروں سے کہا کہ "اسے چھکڑے پر سے اتار کر اندر آپریشن والے کمرے میں لے چلو"۔ چنانچہ دو آدمیوں نے اُس کا سر پکڑا دو نے پیر درمیان میں کسی نے سہارا بالکل نہیں دیا۔ مگر وہ لڑکی ایسی سیدھی اور اکڑی رہی گویا لکڑی کا تختہ ہے۔

غرض ان آدمیوں نے لکڑی کے کندے طرح اسے اٹھایا کمرے میں لے جاکر آپریشن کی میز پر لٹا دیا۔ میں نے جب لڑکی کو دیکھا تو پتا لگ گیا کہ کس قسم کا جن ہے۔ اس کے ساتھی مرد مضبوط اور تندرست زمیندار جاٹ تھے۔ میں نے اُن میں سے چھ کو انتخاب کرکے باقیوں کو کمرہ سے باہر بھیج دیا اور یہ کہا کہ "اب میں اُس جن کو بلانے لگا ہوں تم پوری قوت کے ساتھ میری مدد کرنا اور اسے ہلنے نہ دینا"۔ چنانچہ ایک آدمی نے ایک ہاتھ لڑکی کا پکڑ لیا دوسرے نے دوسرا۔ دو نے ٹانگیں اور باقی نے باقی حصہ جسم کا میز پر اپنی پوری قوت سے دبا لیا تاکہ وہ ذرہ بھی حرکت نہ کرسکے۔ اور انہیں سمجھا دیا کہ "خواہ یہ عورت کتنا ہی تڑپے تم اسے ہلنے نہ دینا۔ ورنہ خطرہ ہے کہ جن اسے چھوڑ کر تم پر چڑھ جائے گا"۔ غرض اس طرح اُس کو چومیخا کرکے میں نے پہلے تو اُس لڑکی کے ساتھ زور زور سے باتیں کرنی شروع کیں کہ "تُو کون ہے؟ اور کیوں اس لڑکی کے سر پر چڑھا ہے؟ مگر اس لڑکی نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ آخر تنگ آکر میں نے ایک بڑی بوتل چوڑے منہ کی لے کر اُس میں ایمونیا کارب AM. Carb بھرا اور بوتل کا منہ اُس کی ناک پر لگا کر سر کو اس طرح پکڑلیا کہ وہ حرکت نہ کرسکے۔ لڑکی نے شروع میں تو بڑی ہمت دکھائی اور کچھ نہ بولی مگر آخر تابکے۔ پہلے تو ناک سے پھر آنکھوں اور منہ سے بھی پانی جاری ہوگیا۔ مجبور ہو کر چیخنے لگی کہ "چھوڑو چھوڑو" میں نے کہا "نہیں پہلے یہ بتا کہ تُو کون ہے؟ اور کس لئے اس لڑکی کےسر پر چڑھا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ "میں جن ہوں اور مسمی جھنڈو نے عمل کراکے ایک منصوری پیسے کو پڑھ کر مجھے اُڑایا ہے۔ اس عمل کے زور سے وہ پیسہ اس لڑکی کے ماتھے پر آلگا اور میں اس کے سر پر چڑھ گیا۔ اب میں اسے چھوڑ نہیں سکتا چاہے تم کچھ بھی کرو"۔ میں نے کہا "بھائی! اس غریب لڑکی کو پکڑنے سے کیا فائدہ؟ تم کسی زبردست سے جاکر زور آزمائی کرو"۔ کہنے لگا "تُو زور لگالے"۔ میں نے ایک تولیہ لے کر دوا کی بوتل کے منہ کے چاروں طرف اس طرح لگا دیا کہ ناک اور منہ میں تازہ ہوا بالکل نہ جاسکے۔ اس طرح جب دوا پوری تیزی سے اُس کے دماغ میں گھسی تو وہ عورت بے قرار ہو کر چیخنے لگی۔ میں نے کہا " یہ ہماری تمہاری زورآزمائی ہے یا تو اسے چھوڑ کر چلتے بنو نہیں تو میں تم کو زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔ کچھ لمحہ صبر کرکے پھر وہ عورت چلائی کہ "اچھا اب میں جاتا ہوں"۔ پھر خاموش ہوگئی۔ میں نے آواز دی۔ "نوری نوری نوری"، تو اُس نے کوئی جواب نہ دیا اُدھر اس کے پکڑنے والوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ جن اُتر گیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی گرفت ڈھیلی کردی۔ گرفت نرم کرنے کی دیر تھی کہ وہ تو سانپ کی طرح بل کھا کر ان چھ آدمیوں کے ہاتھوں میں سے نکل اُٹھ بیٹھی اور کہنے لگی "مجھے کون نکال سکتا ہے؟ ہٹ جاؤ۔ دُور ہوجاؤ گردن مروڑ دوں گا"۔
غرض ایک دفعہ آزاد ہوکر اُس نے ان سب لوگوں کو نئے سرے سے مرعوب کرلیا اورہمارا عمل سب بیکار ہوگیا۔ مگر میں نے اُن سے کہا کہ "جلدی اسے قابو کرو اب یہ جن نکلنے پر آیا ہے۔ اس وقت ذرا بھی غفلت کی تو میری اور تمہاری دونوں کی خیر نہیں"۔ غرض بہ ہزار دقت انہوں نے اُسے پھر پکڑکر گرایا اور پوری قوت کےساتھ اس طرح میز پر دبایا کہ ہلنے گنجائش نہ چھوڑی۔ میں نے پھر اپنا عمل شروع کیا۔ اور اب کی دفعہ ہوا کو چاروں طرف سے بند کرکے بوتل کو ہلا کر اس طرح اُسے منہ اور ناک پر فٹ کردیا کہ دو منٹ میں ہی اُس کی عقل ماری گئی۔ پانی کے سراٹے اُس کی ناک سے آنکھوں سے اور منہ سے بہنے لگے اور موت کا مزا آگیا۔ آخر جب معاملہ اُس کے ضبط سے نکل گیا تو جن کہنے لگا کہ "تم کیا چاہتے ہو؟" میں نے کہا بس یہی کہ تم اس لڑکی کو چھوڑ دو"۔ کہنے لگا "اچھا"۔ میں نے کہا "پہلے بھی تم نے ہمیں دھوکا دیا تھا اور ایک منٹ کے بعد پھر واپس آگئے تھے اس لئے اب تم یہ وعدہ کرو کہ میں جاتا ہوں اور پھر کبھی عمر بھر اس کے سر پر نہیں آؤں گا۔" اس پر تھوڑی دیر وہ خاموش رہا۔ مگر خاموش رہنا اس خوفناک دوا کی وجہ سے ناممکن تھا۔ مجبورا اُس نے کہہ دیا کہ "میں جاتا ہوں، پھر کبھی اس لڑکی پر نہیں آؤں گا۔ یہ میرا پکا قول و قرار ہے"۔ اس پر میں نے اُن لوگوں سے جو اُسے پکڑے ہوئے تھے کہا کہ "اب لڑکی کو چھوڑ دو"۔ جب اُسے چھوڑ دیا گیا تو دو منٹ تک وہ بدحواس رہی۔ مگر جب میں نے "نوری نوری" کہہ کر آواز دی تو جواب دیا "جی"۔
میں نے کہا "کیا حال ہے؟" کہا "اچھی ہوں"۔
میں نے پوچھا "جن اب بھی ہے؟۔ کہنے لگی "چھوڑ گیا"۔ پھر مجھے دیکھ کر سلام کیا اور اپنے باپ کو دیکھ کر ا‘س کے گلے میں باہیں ڈال کر رونے لگی اور کہنے لگی "چلو گھر چلو"۔
میں نے کہا "تو خود ہی اس میز پر سے اتر کر پیدل باہر جا اور اپنے چھکڑے پر سوار ہوجا۔" چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔

میں نے اُس کے باپ سے پکار کر کہا "جب کبھی پھر یہ جن تمہارے ہاں آئے تو پولیس میں رپورٹ دینے کی ضرورت نہیں۔ تم فورا سیدھے اسے یہاں لے آنا۔
اور پولیس والوں کو میں نے جواب دیا کہ " مسماۃ نوری پر واقعی سخت جن چڑھا ہوا تھا میں نے بمشکل اُس کو اپنے عمل سے اتار دیا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ پھر وہ اس پر نہیں چڑھے گا۔ مگر اس مسمی جھنڈو نے اس کی طرف نہیں بھیجا تھا بلکہ جنوں کا ایک بادشاہ ہسٹیریا (Hysteria) نام کوہ قاف میں رہتا ہے اُس نے اس جن کو اس لڑکی پر بھیجا تھا۔ جھنڈو بے قصور ہے اور اگر خوانخواستہ وہ جن پھر کبھی اس عورت پر آجائے تو اسے دوبارہ میرے پاس بھیج دینا تاکہ اس جن کو اسم اعظم کے عمل کےساتھ بکلی جلا کر پھونک دیا جائے"۔
 
میں سمجھ رہا تھا کہ اس دھاگے میں صرف آپ بیتیاں لکہنی ہیں :) لیکن غور سے پڑھا تو پتہ چلا کہ اس میں عزیز و اقارب بھی شامل ہیں۔۔۔کافی رونق رہے گی
 

باباجی

محفلین
ذیل کا واقعہ ہمارے ایک اور محترم بزرگ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کا بیان کردہ ہے جو انہوں نے اپنی کتاب آپ بیتی میں اپنے ڈاکٹری کے پیشہ کے دوران پیش آنے والے مختلف واقعات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ بھی انہی کی زبانی سنئے:

جنات کا کرشمہ:
میں سرسہ ضلع حصار میں تھا۔ یہ غالبا 1914 عیسوی کا واقعہ ہے۔ ایک دن ایک پولیس کانسٹیبل ایک عورت کو ڈاکٹری ملاحظہ کے لئے لایا۔ میں نے پولیس رپورٹ پڑھی تو اس میں لکھا تھا کہ "مسمی فتح محمد موضع فلاں نے پولیس میں رپورٹ کی کہ "میرے موضع کے ایک شخص مسمی جھنڈو نے جو میرا مخالف ہے میری بیٹی مسمات نوری عمر بیس سال پر جو ابھی ناکتخدا ہے کوئی عمل جن بھوت وغیرہ کا کرایا ہے اور ایک منصوری پیسہ پڑھوا کر میری لڑکی کی طرف بذریعہ موکل بھیجا ہے جو نہایت زور سے لڑکی کی پشانی پر لگا اور اس کے بعد وہ جن لڑکی پر سوار ہوگیا۔ اب لڑکی پر بےہوشی کے دورے پڑتے ہیں اور وہ کہتی ہے کہ مجھ پر ماموں مولا بخش سوار ہیں۔ ہم نے بہت سے عامل بلائے مگر کوئی اس مولابخش کو نہ اتار سکا اب عرض یہ ہے کہ لڑکی کا ملاحظہ ڈاکٹری کرایا جائے اور جھنڈو کو قرار واقعی سزا دی جائے یا اس کی ضمانت لی جاوے کیونکہ معاملہ قابل دست اندازئی پولیس ہے۔" آخر میں لکھا تھا کہ "لڑکی کو اس کے والد کے ہمراہ برائے ملاحظہ طبی بھیجا جاتا ہے۔" مطلع فرماویں کہ "اس پر جن چڑھا ہوا ہے یا نہیں؟ اور خفیف ہے یا شدید؟"۔

میں نے جب یہ پڑھا تو پولیس کی رپورٹ لکھنے والے کی عقل پر سخت حیران ہوا۔ سپاہی سے پوچھاکہ "جب یہ مارکٹائی کا معاملہ نہیں ہے تو میں ضربات کیا لکھوں؟ میرے محکمہ کو جنات سے کیا واسطہ! وہ احمق کہنے لگا کہ "جناب لڑکی اپنے ماتھے پر عمل کا پیسہ لگنا بیان کرتی ہے۔ یہ تو صاف ضرب کی قسم ہے۔ اس کے بعد سے وہ بے ہوش ہے۔ اور اس کے سر پر جن بولتا ہے۔ یہ اسی ضرب کا ہی اثر ہے۔ آپ جیسا مناسب سمجھیں لکھ دیں"۔ مجھے فتح محمد مدعی سے بہت زیادہ خود پولیس والوں پر تعجب تھا مگر چونکہ جنات کا معاملہ تھا اس لئے میں اُٹھ کر باہر نکلا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ دس بارہ آدمی سڑک پر ایک چھکڑا لئے کھڑے ہیں اور اس میں ایک جوان مضبوط مُسٹنڈی عورت لیٹی ہوئی ہے جس کی آنکھوں سے وحشت برس رہی ہے۔ بہتیرا اُس سے پوچھا گچھا مگر وہ کچھ نہ بولی۔ آخر میں نے اُس کے رشتہ داروں سے کہا کہ "اسے چھکڑے پر سے اتار کر اندر آپریشن والے کمرے میں لے چلو"۔ چنانچہ دو آدمیوں نے اُس کا سر پکڑا دو نے پیر درمیان میں کسی نے سہارا بالکل نہیں دیا۔ مگر وہ لڑکی ایسی سیدھی اور اکڑی رہی گویا لکڑی کا تختہ ہے۔

غرض ان آدمیوں نے لکڑی کے کندے طرح اسے اٹھایا کمرے میں لے جاکر آپریشن کی میز پر لٹا دیا۔ میں نے جب لڑکی کو دیکھا تو پتا لگ گیا کہ کس قسم کا جن ہے۔ اس کے ساتھی مرد مضبوط اور تندرست زمیندار جاٹ تھے۔ میں نے اُن میں سے چھ کو انتخاب کرکے باقیوں کو کمرہ سے باہر بھیج دیا اور یہ کہا کہ "اب میں اُس جن کو بلانے لگا ہوں تم پوری قوت کے ساتھ میری مدد کرنا اور اسے ہلنے نہ دینا"۔ چنانچہ ایک آدمی نے ایک ہاتھ لڑکی کا پکڑ لیا دوسرے نے دوسرا۔ دو نے ٹانگیں اور باقی نے باقی حصہ جسم کا میز پر اپنی پوری قوت سے دبا لیا تاکہ وہ ذرہ بھی حرکت نہ کرسکے۔ اور انہیں سمجھا دیا کہ "خواہ یہ عورت کتنا ہی تڑپے تم اسے ہلنے نہ دینا۔ ورنہ خطرہ ہے کہ جن اسے چھوڑ کر تم پر چڑھ جائے گا"۔ غرض اس طرح اُس کو چومیخا کرکے میں نے پہلے تو اُس لڑکی کے ساتھ زور زور سے باتیں کرنی شروع کیں کہ "تُو کون ہے؟ اور کیوں اس لڑکی کے سر پر چڑھا ہے؟ مگر اس لڑکی نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ آخر تنگ آکر میں نے ایک بڑی بوتل چوڑے منہ کی لے کر اُس میں ایمونیا کارب AM. Carb بھرا اور بوتل کا منہ اُس کی ناک پر لگا کر سر کو اس طرح پکڑلیا کہ وہ حرکت نہ کرسکے۔ لڑکی نے شروع میں تو بڑی ہمت دکھائی اور کچھ نہ بولی مگر آخر تابکے۔ پہلے تو ناک سے پھر آنکھوں اور منہ سے بھی پانی جاری ہوگیا۔ مجبور ہو کر چیخنے لگی کہ "چھوڑو چھوڑو" میں نے کہا "نہیں پہلے یہ بتا کہ تُو کون ہے؟ اور کس لئے اس لڑکی کےسر پر چڑھا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ "میں جن ہوں اور مسمی جھنڈو نے عمل کراکے ایک منصوری پیسے کو پڑھ کر مجھے اُڑایا ہے۔ اس عمل کے زور سے وہ پیسہ اس لڑکی کے ماتھے پر آلگا اور میں اس کے سر پر چڑھ گیا۔ اب میں اسے چھوڑ نہیں سکتا چاہے تم کچھ بھی کرو"۔ میں نے کہا "بھائی! اس غریب لڑکی کو پکڑنے سے کیا فائدہ؟ تم کسی زبردست سے جاکر زور آزمائی کرو"۔ کہنے لگا "تُو زور لگالے"۔ میں نے ایک تولیہ لے کر دوا کی بوتل کے منہ کے چاروں طرف اس طرح لگا دیا کہ ناک اور منہ میں تازہ ہوا بالکل نہ جاسکے۔ اس طرح جب دوا پوری تیزی سے اُس کے دماغ میں گھسی تو وہ عورت بے قرار ہو کر چیخنے لگی۔ میں نے کہا " یہ ہماری تمہاری زورآزمائی ہے یا تو اسے چھوڑ کر چلتے بنو نہیں تو میں تم کو زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔ کچھ لمحہ صبر کرکے پھر وہ عورت چلائی کہ "اچھا اب میں جاتا ہوں"۔ پھر خاموش ہوگئی۔ میں نے آواز دی۔ "نوری نوری نوری"، تو اُس نے کوئی جواب نہ دیا اُدھر اس کے پکڑنے والوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ جن اُتر گیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی گرفت ڈھیلی کردی۔ گرفت نرم کرنے کی دیر تھی کہ وہ تو سانپ کی طرح بل کھا کر ان چھ آدمیوں کے ہاتھوں میں سے نکل اُٹھ بیٹھی اور کہنے لگی "مجھے کون نکال سکتا ہے؟ ہٹ جاؤ۔ دُور ہوجاؤ گردن مروڑ دوں گا"۔
غرض ایک دفعہ آزاد ہوکر اُس نے ان سب لوگوں کو نئے سرے سے مرعوب کرلیا اورہمارا عمل سب بیکار ہوگیا۔ مگر میں نے اُن سے کہا کہ "جلدی اسے قابو کرو اب یہ جن نکلنے پر آیا ہے۔ اس وقت ذرا بھی غفلت کی تو میری اور تمہاری دونوں کی خیر نہیں"۔ غرض بہ ہزار دقت انہوں نے اُسے پھر پکڑکر گرایا اور پوری قوت کےساتھ اس طرح میز پر دبایا کہ ہلنے گنجائش نہ چھوڑی۔ میں نے پھر اپنا عمل شروع کیا۔ اور اب کی دفعہ ہوا کو چاروں طرف سے بند کرکے بوتل کو ہلا کر اس طرح اُسے منہ اور ناک پر فٹ کردیا کہ دو منٹ میں ہی اُس کی عقل ماری گئی۔ پانی کے سراٹے اُس کی ناک سے آنکھوں سے اور منہ سے بہنے لگے اور موت کا مزا آگیا۔ آخر جب معاملہ اُس کے ضبط سے نکل گیا تو جن کہنے لگا کہ "تم کیا چاہتے ہو؟" میں نے کہا بس یہی کہ تم اس لڑکی کو چھوڑ دو"۔ کہنے لگا "اچھا"۔ میں نے کہا "پہلے بھی تم نے ہمیں دھوکا دیا تھا اور ایک منٹ کے بعد پھر واپس آگئے تھے اس لئے اب تم یہ وعدہ کرو کہ میں جاتا ہوں اور پھر کبھی عمر بھر اس کے سر پر نہیں آؤں گا۔" اس پر تھوڑی دیر وہ خاموش رہا۔ مگر خاموش رہنا اس خوفناک دوا کی وجہ سے ناممکن تھا۔ مجبورا اُس نے کہہ دیا کہ "میں جاتا ہوں، پھر کبھی اس لڑکی پر نہیں آؤں گا۔ یہ میرا پکا قول و قرار ہے"۔ اس پر میں نے اُن لوگوں سے جو اُسے پکڑے ہوئے تھے کہا کہ "اب لڑکی کو چھوڑ دو"۔ جب اُسے چھوڑ دیا گیا تو دو منٹ تک وہ بدحواس رہی۔ مگر جب میں نے "نوری نوری" کہہ کر آواز دی تو جواب دیا "جی"۔
میں نے کہا "کیا حال ہے؟" کہا "اچھی ہوں"۔
میں نے پوچھا "جن اب بھی ہے؟۔ کہنے لگی "چھوڑ گیا"۔ پھر مجھے دیکھ کر سلام کیا اور اپنے باپ کو دیکھ کر ا‘س کے گلے میں باہیں ڈال کر رونے لگی اور کہنے لگی "چلو گھر چلو"۔
میں نے کہا "تو خود ہی اس میز پر سے اتر کر پیدل باہر جا اور اپنے چھکڑے پر سوار ہوجا۔" چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔

میں نے اُس کے باپ سے پکار کر کہا "جب کبھی پھر یہ جن تمہارے ہاں آئے تو پولیس میں رپورٹ دینے کی ضرورت نہیں۔ تم فورا سیدھے اسے یہاں لے آنا۔
اور پولیس والوں کو میں نے جواب دیا کہ " مسماۃ نوری پر واقعی سخت جن چڑھا ہوا تھا میں نے بمشکل اُس کو اپنے عمل سے اتار دیا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ پھر وہ اس پر نہیں چڑھے گا۔ مگر اس مسمی جھنڈو نے اس کی طرف نہیں بھیجا تھا بلکہ جنوں کا ایک بادشاہ ہسٹیریا (Hysteria) نام کوہ قاف میں رہتا ہے اُس نے اس جن کو اس لڑکی پر بھیجا تھا۔ جھنڈو بے قصور ہے اور اگر خوانخواستہ وہ جن پھر کبھی اس عورت پر آجائے تو اسے دوبارہ میرے پاس بھیج دینا تاکہ اس جن کو اسم اعظم کے عمل کےساتھ بکلی جلا کر پھونک دیا جائے"۔
بالکل سہی رانا بھائی
90٪ جوان لڑکیاں جو عامل حضرات کے پاس جاتی ہیں
ان کا اصل مسئلہ ہسٹیریا ہی ہوتا ہے اور ان کے سادہ لوح والدین سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں کیا ہوا ہے
بلکہ میں نے تو ایسے کیسز بھی دیکھے ہیں جس میں لڑکی نے پسند کی شادی نہ ہونے پر یہی اپنے اوپر کسی جن کا سایہ ہونے کا ڈرامہ رچایا ہوا تھا۔
اسی طرح ایک لڑکا تھا اس نے بھی ایسا کچھ کیا ہوا تھا اور اس کا علاج بھی پھر اسی طریقے سے ہوا تھا جیسے ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے۔
 

باباجی

محفلین
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ اس دھاگے کا اختتام بھی (اللہ نہ کرے) مسالک پر بحث شروع ہونے پر ہو گا ۔ :rolleyes:
انشاءاللہ ایسا نہیں ہوگا کیوں کے اس دھاگے میں ایسا کچھ شامل ہی نہیں کیا گیا جس سے کوئی مذہبی یا لسانی منافرت پھیلے
اور میری درخواست ہے سب سے کہ اگر کوئی ایسی کوشش کرے تو اسے روکیں پلیز
 
لیجئے جناب ! ایک مختصر سی محیرالعقل قسم کی ذلت بیتی سنتے جائیے ۔
25 اگست کی رات میں سکھر سے کراچی آنے کے لئے سکھر ایکسپریس میں سوار ہوا ۔
(جسے 26اگست کی صبح 8 بجےکراچی پہنچنا تھا)
اور 26 اگست کی شام 6 بجے بذریعہ بس کراچی پہنچا ۔:baringteeth:
 
انشاءاللہ ایسا نہیں ہوگا کیوں کے اس دھاگے میں ایسا کچھ شامل ہی نہیں کیا گیا جس سے کوئی مذہبی یا لسانی منافرت پھیلے
اور میری درخواست ہے سب سے کہ اگر کوئی ایسی کوشش کرے تو اسے روکیں پلیز
بابا جی آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں۔۔۔غور سے دیکھنے والوں کیلئے اس دھاگے میں بھی عبرت کے بہت سے سامان ہیں :)۔ یعنی کس طرح پہلے تو کچھ ایسے خلافِ عادت واقعات پر طنز و مزاح سے لبریز کمنٹس دئیے گئے اور بعد مین یہ معیار قائم کیا گیا کہ" ہم اس قسم کی باتوں کو صرف اس صورت میں مانتے ہیں جب انکے بیان کرنے والے ایسے لوگ ہوں جو ہماری نظر میں صاحبِ کردار اور صاحبِ علم ہیں اور جن کے بارے میں جھوٹ یا غلط بیانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا"۔۔۔بہت خوب بات تو بظاہر بڑی معقول اور اچھی لگتی ہے، لیکن اسکا کیا کیجئے کہ صاحب کی نظر میں معتبر ٹھہرنے والے لوگ وہی ہیں جنکا ایک مخصوص مسلک سے تعلق ہے ;)۔۔اور ان معدودے چند لوگوں کے سوا باقی تما م اشخاص خواہ وہ کتنے ہی صاحبِ کردار کیوں نہ ہوں اور خواہ وہ کتنے ہی صاحبِ علم کیوں نہ ہوں، انکی بات ناقابلِ اعتبار بلکہ طنز و تشنیع کی مستحق :) ۔ چنانچہ اسی محفل میں قدرت اللہ شہاب صاحب کی تحریرات اور تجربات کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا، وجہ یہ کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ایک مخصوص مسلک سے منسلک بعض اشخاص پر تنقید کی تھی۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
دل تو چاہ رہا تھا اپنی زندگی کے غیر معمولی واقعات لکھوں مگر دریا کے دھارے ہی میں بہنے میں عافیت سمجھی ۔ موضوع جنوں کا ہے تو میں بھی ایک واقعہ سنانے کی جسارت کرتا ہوں ،​
یہ واقعہ ۱۹۷۴ کا ہے یعنی آج سے ۳۵ سال قبل کا جب آتش جواں تھا(پلیز میری بزرگی کا اندازہ لگانا نہ بیٹھ جائیےگا​
میں اس وقت خیبر پختون خوا کے کوہاٹ شہر میں فرنٹیر کیمیکلز کے نام سے سائنسی سامان اور کیمیکلز کا کاروبار کرتا تھا ۔پورے صوبے میں یہ واحد دکان تھی جس کے پاس سٹاک ہوتا تھا ۔صوبے بھر کے بیشتر تعلیمی ادارے میرے کلائنٹ تھے ۔ دکان ایک گھر کے گیراج میں تھی ،گھر میں سٹور اور بالائی حصہ میں مہمان خانہ تھا جہاں وقتاً قوقتاً دیگر اضلاع سے آنے والےتعلیمی اداروں کے ارکان شب بسری کے لئے قیام کرتے ۔ کیونکہ کاروبار کا دارومدار ٹھیکیداری پر تھا اور پرچون گاہک نہ ہونے کے برابر تھا لہٰذا دکان پربیشتتر وقت ۱۹ سال سے ۲۴ سال کے نوجوانوں کی محفل لگی رہتی ۔ بے فکری کا زمانہ تھا​
والد مرحوم کے ایک دوست بختیار صاحب ہوتے تھے ان کا ایک صاحبزادہ کیڈٹ کالج میں پڑھتا تھا نہ جانے کیا ہوا کہ اس نے کیڈٹ کالج کوہاٹ میں جانے سے انکار کردیا والد بضد تھے ۔ بیٹے نے حرکت یہ کی کہ اس نے اپنے اوپر جن چڑھا لیے اب بختیار صاحب جب گھر جاتے پتھر آتے یا کہیں آگ لگ جاتی ۔اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک شام جب میں دکان بند کر رہا تھا وہ آئے اور کہا کہ آج میں گھر نہیں جاونگا بلکہ تمہارے مہمان خانے ہی میں رہوں گا ۔ میں نے اوپر جا کر ان کے بستر ،پانی وغیرہ کا بندوبست کیا ، ڈپلی کیٹ چابی ان کے حوالے کی اور گھر کی جانب روانہ ہوا ۔ آدھے راستے میں مجھے کچھ یاد آیا جو میں نے گھر لے جانا تھا ،میں واپس ہوا جب دکان پر پہنچا تو دیکھا کہ گودام کھلا ہوا ہے اور بختیار صاحب غائب ہیں مجھے شک ہوا کہ موصوف پان کھانے چلے گئے جو بعد میں سچ نکلا۔مجھے بہت غصہ آیا شرارت سوجھی ، کمرے کا سامان میں نے برامدے میں ایسے بکھیر دیا جیسے کسی نے پھینکا ہو ۔ اگلے دن جب دکان پر بختیار صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ یہاں بھی جن آگیا تیر نشانے پر لگا ہمیں ایک موقع مل گیا ۔رمضان کا مہینہ تھا اگلی رات کو تراویح کے وقت سب دوست دکان کے بالائی حصہ میں بختیار صاحب کے پاس جمع ہوجاتے گھر سے ان کو بے دخل کردیا گیا تھا ۔​
اب ایسا ہوتا کہ ٹھیک آٹھ بجے گھڑی کا الارم بجتا ۔ایک لڑکا جو پہلے ہی سے نیچے مین سوئچ کے پاس ہوتا وہ لائٹ آف کر دیتا ۔ اس کے ساتھ ہی اوپر کھڑکی کے ساتھ بیٹھا ہو اشخص اندھیرے میں کحڑکی کے پٹ زور زور سے مارتا اور سوڈیم میٹل کا ایک ٹکڑا قریب ہی پڑی ہوئی پانی کی بالٹی میں ڈال دیتا جس سے تھوڑی روشنی ہوتی اور پانی میں آگ جلنے لگتی اور اس روشنی میں ایک کالا بھبھوکا لڑکا نائلون کی کالی ٹائٹس پہن کر کمرے میں داخل ہوتا اس کے چہرے پر کپڑے کا ماسک ہوتا جس پر سرخ چھنٹیں پڑے ہوتے اور دانتوں کی جگہ کوہاٹ کے چشموں کی سیپیاں لٹک رہی ہوتیں آتے ہی وہ بختیار صاحب کو گردن سے پکڑ کر مختلف تعویز جو انہوں نے پہنے ہوئے تھے لینے کی کوشش کرتا ۔ بختیار صاحب دہشت زدہ ہو کر قرانی آیات تلاوت کرتے مگر دہشت کے مارے کوئی بھی آئت پوری نہ ہوتی ۔ تھوڑی دیر بعد یہ لڑکا واپس نیچے جا کر لائٹ آن کرتا اور دروازے سے چپکے سے باہر نکل جاتا۔ اور ہم سب لڑکے یہ ظاہر کرتے کہ جن نے ہمیں بھی بہت مارا ہے​
بختیار صاحب اپنے پیر صاحب کو ٹیلفون کرنے نیچے جاتے تو ایک لڑکا اوپر ہی رہ جاتا اور کھڑکی کے پاس سے گزرنے والی ٹیلیفون کی تار جو کبھی ایکسٹینشن کے لیے چھیلی ہوئی تھی اس پر چمچہ رکھ کر دونوں تاروں کو ملاتا رہتا اب جب بختیار صاحب فون کے پاس پہنچتے تو فون پر گھنٹی کی مختلف آوازیں آتیں ۔ اس دوران پیر صاحب بھی شب بسری کے لیے آئے مگر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا تو وہ بھاگ گئے ۔ غرض یہ سلسلہ کوئی پندرہ دن چلا روز انہ اس میں کوئی جدت ہوتی رمضان ختم ہورہے تھے اب اسے ختم کیسے کریں ۔ ڈسٹرکٹ اکا ونٹ آ فیسر شاہ صاحب تھے اور ایک ٹھیکیدار کی حیثیت سے میرے ان سے تعلقات لازمی امر تھا اچھی دوستی تھی ان کو اعتماد میں لیا کہ ایک افطار پارٹی بختیار صاحب دیں گے جس میں اس جن سے مکمل چھٹکارا ہو جائے گا اسی طرح ایک پر تکلف افطار پارٹی ہوئی ۔ جو لڑکا جن کا کردار ادا کرتا تھا اس نے اپنے اوپر جن چڑھائے اور بختیار صاحب کی جان خلاصی کی​
آج بختیار صاحب اور جن والا لڑکا دونوں اس جہاں میں نہیں ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ہماری گستاخانہ شرارت کو در گذر فرمائے ۔ ان کا بیٹا جو کیڈٹ کالج سے بھاگا تھا آج کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہے​
حشر میں جن کے سبب ہوئے ہم رسوا​
لڑکپن کی دو چار نادانیاں تھیں​
 

باباجی

محفلین
بابا جی آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں۔۔۔ غور سے دیکھنے والوں کیلئے اس دھاگے میں بھی عبرت کے بہت سے سامان ہیں :)۔ یعنی کس طرح پہلے تو کچھ ایسے خلافِ عادت واقعات پر طنز و مزاح سے لبریز کمنٹس دئیے گئے اور بعد مین یہ معیار قائم کیا گیا کہ" ہم اس قسم کی باتوں کو صرف اس صورت میں مانتے ہیں جب انکے بیان کرنے والے ایسے لوگ ہوں جو ہماری نظر میں صاحبِ کردار اور صاحبِ علم ہیں اور جن کے بارے میں جھوٹ یا غلط بیانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا"۔۔۔ بہت خوب بات تو بظاہر بڑی معقول اور اچھی لگتی ہے، لیکن اسکا کیا کیجئے کہ صاحب کی نظر میں معتبر ٹھہرنے والے لوگ وہی ہیں جنکا ایک مخصوص مسلک سے تعلق ہے ;)۔۔اور ان معدودے چند لوگوں کے سوا باقی تما م اشخاص خواہ وہ کتنے ہی صاحبِ کردار کیوں نہ ہوں اور خواہ وہ کتنے ہی صاحبِ علم کیوں نہ ہوں، انکی بات ناقابلِ اعتبار بلکہ طنز و تشنیع کی مستحق :) ۔ چنانچہ اسی محفل میں قدرت اللہ شہاب صاحب کی تحریرات اور تجربات کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا، وجہ یہ کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ایک مخصوص مسلک سے منسلک بعض اشخاص پر تنقید کی تھی۔۔۔
محمود احمد غزنوی بھائی
میں ایسے مراسلات پر زیادہ توجہ نہیں دیتا ۔ میرا فوکس صرف سچے واقعات پر ہے
ہمیں کسی کے معیار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔
اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو میرے بھائی آپ نظر انداز کردیں یا غیر متفق پر کلک کردیں :)
باقی میں نے پچھلے صفحات میں ایک مراسلہ لکھا ہے جس میں ان حضرات سے گزارش کی ہے
طنز و تشنیع نہ کرنے کی اور مجھے بڑا اچھا رسپونس ملا ہے
 

فاتح

لائبریرین
ویسے زیادہ تر "سچے واقعات" 47 سے پہلے کے ہی سننے میں آتے ہیں
لگتا ہے پارٹیشن کے بعد سب انڈیا میں ہی رہ گئے :laughing:
سائنس نے روزمرہ کی زندگیوں میں شامل ہو کر "سچے واقعات" کا بیڑا ہی غرق کر دیا ہے۔ آج بھی جن علاقوں میں جہالت ہے وہاں ہی ایسے "سچے واقعات" سننے میں آتے ہیں۔
 

باباجی

محفلین
سائنس نے روزمرہ کی زندگیوں میں شامل ہو کر "سچے واقعات" کا بیڑا ہی غرق کر دیا ہے۔ آج بھی جن علاقوں میں جہالت ہے وہاں ہی ایسے "سچے واقعات" سننے میں آتے ہیں۔
اور سائنس کی وجہ سے بہت سے لوگ سچائی کے منکر بھی ہوجاتے ہیں
 
سائنس نے روزمرہ کی زندگیوں میں شامل ہو کر "سچے واقعات" کا بیڑا ہی غرق کر دیا ہے۔ آج بھی جن علاقوں میں جہالت ہے وہاں ہی ایسے "سچے واقعات" سننے میں آتے ہیں۔
اور سائنس کی وجہ سے بہت سے لوگ سچائی کے منکر بھی ہوجاتے ہیں
بیڑا تر جائے ایسی سائینس کا :grin:
 
Top