ذیل کا واقعہ ہمارے ایک اور محترم بزرگ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کا بیان کردہ ہے جو انہوں نے اپنی کتاب
آپ بیتی میں اپنے ڈاکٹری کے پیشہ کے دوران پیش آنے والے مختلف واقعات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ بھی انہی کی زبانی سنئے:
جنات کا کرشمہ:
میں سرسہ ضلع حصار میں تھا۔ یہ غالبا 1914 عیسوی کا واقعہ ہے۔ ایک دن ایک پولیس کانسٹیبل ایک عورت کو ڈاکٹری ملاحظہ کے لئے لایا۔ میں نے پولیس رپورٹ پڑھی تو اس میں لکھا تھا کہ "مسمی فتح محمد موضع فلاں نے پولیس میں رپورٹ کی کہ "میرے موضع کے ایک شخص مسمی جھنڈو نے جو میرا مخالف ہے میری بیٹی مسمات نوری عمر بیس سال پر جو ابھی ناکتخدا ہے کوئی عمل جن بھوت وغیرہ کا کرایا ہے اور ایک منصوری پیسہ پڑھوا کر میری لڑکی کی طرف بذریعہ موکل بھیجا ہے جو نہایت زور سے لڑکی کی پشانی پر لگا اور اس کے بعد وہ جن لڑکی پر سوار ہوگیا۔ اب لڑکی پر بےہوشی کے دورے پڑتے ہیں اور وہ کہتی ہے کہ مجھ پر ماموں مولا بخش سوار ہیں۔ ہم نے بہت سے عامل بلائے مگر کوئی اس مولابخش کو نہ اتار سکا اب عرض یہ ہے کہ لڑکی کا ملاحظہ ڈاکٹری کرایا جائے اور جھنڈو کو قرار واقعی سزا دی جائے یا اس کی ضمانت لی جاوے کیونکہ معاملہ قابل دست اندازئی پولیس ہے۔" آخر میں لکھا تھا کہ "لڑکی کو اس کے والد کے ہمراہ برائے ملاحظہ طبی بھیجا جاتا ہے۔" مطلع فرماویں کہ "اس پر جن چڑھا ہوا ہے یا نہیں؟ اور خفیف ہے یا شدید؟"۔
میں نے جب یہ پڑھا تو پولیس کی رپورٹ لکھنے والے کی عقل پر سخت حیران ہوا۔ سپاہی سے پوچھاکہ "جب یہ مارکٹائی کا معاملہ نہیں ہے تو میں ضربات کیا لکھوں؟ میرے محکمہ کو جنات سے کیا واسطہ! وہ احمق کہنے لگا کہ "جناب لڑکی اپنے ماتھے پر عمل کا پیسہ لگنا بیان کرتی ہے۔ یہ تو صاف ضرب کی قسم ہے۔ اس کے بعد سے وہ بے ہوش ہے۔ اور اس کے سر پر جن بولتا ہے۔ یہ اسی ضرب کا ہی اثر ہے۔ آپ جیسا مناسب سمجھیں لکھ دیں"۔ مجھے فتح محمد مدعی سے بہت زیادہ خود پولیس والوں پر تعجب تھا مگر چونکہ جنات کا معاملہ تھا اس لئے میں اُٹھ کر باہر نکلا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ دس بارہ آدمی سڑک پر ایک چھکڑا لئے کھڑے ہیں اور اس میں ایک جوان مضبوط مُسٹنڈی عورت لیٹی ہوئی ہے جس کی آنکھوں سے وحشت برس رہی ہے۔ بہتیرا اُس سے پوچھا گچھا مگر وہ کچھ نہ بولی۔ آخر میں نے اُس کے رشتہ داروں سے کہا کہ "اسے چھکڑے پر سے اتار کر اندر آپریشن والے کمرے میں لے چلو"۔ چنانچہ دو آدمیوں نے اُس کا سر پکڑا دو نے پیر درمیان میں کسی نے سہارا بالکل نہیں دیا۔ مگر وہ لڑکی ایسی سیدھی اور اکڑی رہی گویا لکڑی کا تختہ ہے۔
غرض ان آدمیوں نے لکڑی کے کندے طرح اسے اٹھایا کمرے میں لے جاکر آپریشن کی میز پر لٹا دیا۔ میں نے جب لڑکی کو دیکھا تو پتا لگ گیا کہ کس قسم کا جن ہے۔ اس کے ساتھی مرد مضبوط اور تندرست زمیندار جاٹ تھے۔ میں نے اُن میں سے چھ کو انتخاب کرکے باقیوں کو کمرہ سے باہر بھیج دیا اور یہ کہا کہ "اب میں اُس جن کو بلانے لگا ہوں تم پوری قوت کے ساتھ میری مدد کرنا اور اسے ہلنے نہ دینا"۔ چنانچہ ایک آدمی نے ایک ہاتھ لڑکی کا پکڑ لیا دوسرے نے دوسرا۔ دو نے ٹانگیں اور باقی نے باقی حصہ جسم کا میز پر اپنی پوری قوت سے دبا لیا تاکہ وہ ذرہ بھی حرکت نہ کرسکے۔ اور انہیں سمجھا دیا کہ "خواہ یہ عورت کتنا ہی تڑپے تم اسے ہلنے نہ دینا۔ ورنہ خطرہ ہے کہ جن اسے چھوڑ کر تم پر چڑھ جائے گا"۔ غرض اس طرح اُس کو چومیخا کرکے میں نے پہلے تو اُس لڑکی کے ساتھ زور زور سے باتیں کرنی شروع کیں کہ "تُو کون ہے؟ اور کیوں اس لڑکی کے سر پر چڑھا ہے؟ مگر اس لڑکی نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ آخر تنگ آکر میں نے ایک بڑی بوتل چوڑے منہ کی لے کر اُس میں ایمونیا کارب AM. Carb بھرا اور بوتل کا منہ اُس کی ناک پر لگا کر سر کو اس طرح پکڑلیا کہ وہ حرکت نہ کرسکے۔ لڑکی نے شروع میں تو بڑی ہمت دکھائی اور کچھ نہ بولی مگر آخر تابکے۔ پہلے تو ناک سے پھر آنکھوں اور منہ سے بھی پانی جاری ہوگیا۔ مجبور ہو کر چیخنے لگی کہ "چھوڑو چھوڑو" میں نے کہا "نہیں پہلے یہ بتا کہ تُو کون ہے؟ اور کس لئے اس لڑکی کےسر پر چڑھا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ "میں جن ہوں اور مسمی جھنڈو نے عمل کراکے ایک منصوری پیسے کو پڑھ کر مجھے اُڑایا ہے۔ اس عمل کے زور سے وہ پیسہ اس لڑکی کے ماتھے پر آلگا اور میں اس کے سر پر چڑھ گیا۔ اب میں اسے چھوڑ نہیں سکتا چاہے تم کچھ بھی کرو"۔ میں نے کہا "بھائی! اس غریب لڑکی کو پکڑنے سے کیا فائدہ؟ تم کسی زبردست سے جاکر زور آزمائی کرو"۔ کہنے لگا "تُو زور لگالے"۔ میں نے ایک تولیہ لے کر دوا کی بوتل کے منہ کے چاروں طرف اس طرح لگا دیا کہ ناک اور منہ میں تازہ ہوا بالکل نہ جاسکے۔ اس طرح جب دوا پوری تیزی سے اُس کے دماغ میں گھسی تو وہ عورت بے قرار ہو کر چیخنے لگی۔ میں نے کہا " یہ ہماری تمہاری زورآزمائی ہے یا تو اسے چھوڑ کر چلتے بنو نہیں تو میں تم کو زندہ نہیں چھوڑوں گا"۔ کچھ لمحہ صبر کرکے پھر وہ عورت چلائی کہ "اچھا اب میں جاتا ہوں"۔ پھر خاموش ہوگئی۔ میں نے آواز دی۔ "نوری نوری نوری"، تو اُس نے کوئی جواب نہ دیا اُدھر اس کے پکڑنے والوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ جن اُتر گیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی گرفت ڈھیلی کردی۔ گرفت نرم کرنے کی دیر تھی کہ وہ تو سانپ کی طرح بل کھا کر ان چھ آدمیوں کے ہاتھوں میں سے نکل اُٹھ بیٹھی اور کہنے لگی "مجھے کون نکال سکتا ہے؟ ہٹ جاؤ۔ دُور ہوجاؤ گردن مروڑ دوں گا"۔
غرض ایک دفعہ آزاد ہوکر اُس نے ان سب لوگوں کو نئے سرے سے مرعوب کرلیا اورہمارا عمل سب بیکار ہوگیا۔ مگر میں نے اُن سے کہا کہ "جلدی اسے قابو کرو اب یہ جن نکلنے پر آیا ہے۔ اس وقت ذرا بھی غفلت کی تو میری اور تمہاری دونوں کی خیر نہیں"۔ غرض بہ ہزار دقت انہوں نے اُسے پھر پکڑکر گرایا اور پوری قوت کےساتھ اس طرح میز پر دبایا کہ ہلنے گنجائش نہ چھوڑی۔ میں نے پھر اپنا عمل شروع کیا۔ اور اب کی دفعہ ہوا کو چاروں طرف سے بند کرکے بوتل کو ہلا کر اس طرح اُسے منہ اور ناک پر فٹ کردیا کہ دو منٹ میں ہی اُس کی عقل ماری گئی۔ پانی کے سراٹے اُس کی ناک سے آنکھوں سے اور منہ سے بہنے لگے اور موت کا مزا آگیا۔ آخر جب معاملہ اُس کے ضبط سے نکل گیا تو جن کہنے لگا کہ "تم کیا چاہتے ہو؟" میں نے کہا بس یہی کہ تم اس لڑکی کو چھوڑ دو"۔ کہنے لگا "اچھا"۔ میں نے کہا "پہلے بھی تم نے ہمیں دھوکا دیا تھا اور ایک منٹ کے بعد پھر واپس آگئے تھے اس لئے اب تم یہ وعدہ کرو کہ میں جاتا ہوں اور پھر کبھی عمر بھر اس کے سر پر نہیں آؤں گا۔" اس پر تھوڑی دیر وہ خاموش رہا۔ مگر خاموش رہنا اس خوفناک دوا کی وجہ سے ناممکن تھا۔ مجبورا اُس نے کہہ دیا کہ "میں جاتا ہوں، پھر کبھی اس لڑکی پر نہیں آؤں گا۔ یہ میرا پکا قول و قرار ہے"۔ اس پر میں نے اُن لوگوں سے جو اُسے پکڑے ہوئے تھے کہا کہ "اب لڑکی کو چھوڑ دو"۔ جب اُسے چھوڑ دیا گیا تو دو منٹ تک وہ بدحواس رہی۔ مگر جب میں نے "نوری نوری" کہہ کر آواز دی تو جواب دیا "جی"۔
میں نے کہا "کیا حال ہے؟" کہا "اچھی ہوں"۔
میں نے پوچھا "جن اب بھی ہے؟۔ کہنے لگی "چھوڑ گیا"۔ پھر مجھے دیکھ کر سلام کیا اور اپنے باپ کو دیکھ کر ا‘س کے گلے میں باہیں ڈال کر رونے لگی اور کہنے لگی "چلو گھر چلو"۔
میں نے کہا "تو خود ہی اس میز پر سے اتر کر پیدل باہر جا اور اپنے چھکڑے پر سوار ہوجا۔" چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔
میں نے اُس کے باپ سے پکار کر کہا "جب کبھی پھر یہ جن تمہارے ہاں آئے تو پولیس میں رپورٹ دینے کی ضرورت نہیں۔ تم فورا سیدھے اسے یہاں لے آنا۔
اور پولیس والوں کو میں نے جواب دیا کہ " مسماۃ نوری پر واقعی سخت جن چڑھا ہوا تھا میں نے بمشکل اُس کو اپنے عمل سے اتار دیا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ پھر وہ اس پر نہیں چڑھے گا۔ مگر اس مسمی جھنڈو نے اس کی طرف نہیں بھیجا تھا بلکہ جنوں کا ایک بادشاہ ہسٹیریا (Hysteria) نام کوہ قاف میں رہتا ہے اُس نے اس جن کو اس لڑکی پر بھیجا تھا۔ جھنڈو بے قصور ہے اور اگر خوانخواستہ وہ جن پھر کبھی اس عورت پر آجائے تو اسے دوبارہ میرے پاس بھیج دینا تاکہ اس جن کو اسم اعظم کے عمل کےساتھ بکلی جلا کر پھونک دیا جائے"۔