صرف سچ بیتیاں

تعبیر

محفلین
اور مجھے ہمیشہ یہ حسرت ہی رہی کہ ایسے واقعات دوسروں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں جبکہ میں دل سے انتہائی متمنی ہوں کہ ایسا کوئی واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آئے لیکن یہ جنات صاحبان مجھے لفٹ ہی نہیں کراتے۔ کتنی عجیب بات ہے نا کہ جو انہیں دیکھنے اور ان کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کا مشاہدہ کرکے جی جان سے داد دینے کا خواہش مند ہے اس پر ان کی نظر کرم ہی نہیں۔:idontknow:اگر کوئی جن صاحب یہ تحریر پڑھیں تو انتہائی عاجزانہ درخواست ہے کہ ایک چھوٹا موٹا سا کرتب ادھر بھی لڑھکا دیں بندہ دعائیں دے گا۔:)
ditto یہی الفاظ سیم ٹو سیم میرے بھی ہیں
سچی سے حسرت ہی رہی کسی اچھے جن سے ملاقات کی

آپ نے جو hysteria کے واقعے بتائے ان میں اتنی طاقت کہاں سے آجاتی ہے کہ وہ کسی کے قابو میں ہی نہیں آتے کیا انہیں split personality disorder میں شمار نہیں کیا جاسکتا
 

سید زبیر

محفلین
محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، مغل ، نایاب ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا بہت شکریہ ، آپ کی حوصلہ افزائی سے ایک اور واقعہ سناتا چلوں یار یہ جو ہم جیسے بوڑھے ہتے ہیں نا انہیں واقعات سنانے کی عادت ہوتی ہے اور آپ جیسے بچے بعض اوقات مجبوراً سنتے رہتے ہیں ۔ اور اردو محفل تو ایک ایسا فورم ہے کہ آ پ بولتے رہیں ۔ بہر حال یہ جو واقعہ سنا رہا ہوں یہ سبق آموز ہے​
یہ ۱۹۹۳ کی بات ہے میں ملازمت کے سلسلے میں ملیر کینٹ کراچی میں مقیم تھا ۔۔تنخواہ کم تھی اور ہر ملازم کیطرح مہینے کے آخر میں تو حالات نازک ہی ہوتے ہیں ایسے ہی شائد مہینے کی بیس تاریخ تھی جیب میں ایک پچاس کا نوٹ تھا یا شائد گھر میں کچھ سکے ہوں ۔ عصر کی نماز مسجد میں ادا کر رہا تھا کہ نظر ایک ضعیف نادار شخص پر پڑی ۔میرے دل میں ایک دم ایک خیال ؤیا اور میں نے وہ پچاس کا نوٹ اس کو دے دیا حالانکہ وہ گدا گر نہ تھا اور اللہ سے عرض کی کہ مولا ! اب تو اپنا وعدہ پورا کر اور مجھے دس گنا عطا فرما ۔​
اگلے دن جب میں دفتر گیا تو دس گارہ بجے کے قریب ٹی سی ایس والا آیا اور کوہاٹ سے والد صاحب کا ایک لفافہ دے گیا کھول کر دیکھا تو اس میں ایک ہزار کا نوٹ تھا ۔ حالانکہ میں نے کبھی اپنی تنگ دستی کا ذکر والد مر حوم سے نہ کیا تھا آج کل تو ٹی سی ایس سے رقم نہیں جاتی اس وقت شائد سکیننگ مشین نہ تھی ۔ اب ایک جانب تو پیسے مل جانے کی خوشی تھی اور جانب وہ تشکر کے جذبات تھے کہ کس طرح میرے خالق نے اپنے انتہائی گنہگار بے بس بندے کی لاج رکھی​
ساتھیوں سے درخواست ہے کہ اب حوصلہ افزائی نہ فرمائیں ورنہ داستانوں کے صفحات کھلتے جائیں گے​
اللہ محفل کے تمام ساتھیوں کو دونوں جہانوں کی خوشیں اور نعمتیں عطا فرمائے (آمین)​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں ایک عام سی بات شیئر کروں گی۔
ہمارے شہر میں ایک انکل تھے جو بہت عرصہ بیرونِ ملک ملازمت کرنے کے بعد واپس لوٹے اور ریٹائرڈ لائف گزار رہے تھے۔ ان کا معمول یہ ہوتا کہ وہ صبح ایک پارک میں سیر کرتے پھر اپنے ٹیرس پر یا گھر کے باہر بیٹھ کر لوگوں کو آتا جاتا دیکھتے۔ اسی طرح شام میں بھی ان کا یہی معمول ہوتا تھا۔ ان انکل نے جب یہ دیکھا کہ لڑکے سکول سے آنے کے بعد سارا ٹائم ادھر ادھر گھومنے یا کرکٹ کھیلنے میں لگا دیتے ہیں تو انہوں نے ایک دن ان لڑکوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ ہم کچھ ایسا کرتے ہیں جس کا سب کو کوئی فائدہ ہو۔ پارک کی صفائی سے کام شروع ہوا اور پھر معلوم نہیں کس طرح کسی کے ذہن میں خون دینے کا خیال آیا۔ اور یوں ان آٹھ دس لڑکوں کو ساتھ لیکر انہوں نے ایک ہاسپٹل میں خون کا عطیہ جمع کروایا۔ یہ سب لڑکے ہائی سکول اور کالج میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے دوستوں سے ذکر کیا اور یوں چند دنوں میں ہی اتنے سارے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ یہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے۔ میرے بڑے بھائی اس وقت سکول میں تھے۔ ان کے دوست کے بڑے بھائی ان لڑکوں میں شامل تھے جنہوں نے خون کا عطیہ دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی میرے بھائی، ان کے دوست اور پھر ان کے دوست، کزنز وغیرہ سب ساتھ شامل ہوتے گئے۔ اور یوں ہوتا تھا کہ کہیں پر کسی کو خون کی ضرورت ہوتی، ایمرجنسی میں یا پہلے سے معلوم ہوتا، وہ ان لوگوں سے رابطہ کرتے اور ایک کے بجائے کئی کئی لوگ وہاں پہنچ جاتے خون دینے کے لئے۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ شہر سے باہر بھی کسی کو ضرورت ہوتی تو یہ لوگ وہاں بھی جاتے۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ پھر ایک ہمارے ڈاکٹر انکل نے ایک تنظیم رجسٹر کروا دی اور ان کو ایک چھوٹا سا دفتر بنوا دیا۔ جہاں وہ ڈاکٹر انکل اور دو تین اور ڈاکٹرز فری معائنہ کرتے اور دوائیاں بھی فری میں دی جاتیں کہ انہوں نے چند فارمیسی والوں کو دوائیوں کا عطیہ دینے پر رضامند کر لیا تھا۔ میڈیکل کے سٹوڈنٹس میڈیکل کیمپ میں بھی جاتے ۔بچوں نے اس طرح حصہ لیا کہ کسی کے گھر والوں نے کرسیاں دیں۔ کسی انکل نے بجلی کے بل کی ذمہ داری لے لی۔ کسی نے پانی کا کولر لگوا دیا۔ ایک اور انکل جو فلاحی کام کیا کرتے تھے انہوں نے ایمبولینس کا بندوبست کر دیا۔ اور یوں بچوں کے ساتھ بڑے بھی شامل ہو گئے۔ 2005ء کے زلزلے میں بہت خون کے عطیات دیئے گئے۔ تب تک ہم بھی یعنی ان لوگوں کے چھوٹے بہن بھائی، کزنز وغیرہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو چکے تھے۔ ان شروع والے بچوں میں سے بہت سے بیرونِ ملک یا بیرونِ شہر پڑھائی یا ملازمت کے سلسلے میں چلے گئے لیکن ان کی جگہ لینے کے لئے نئے لوگ آتے گئے۔ جو لوگ فزیکلی یہاں نہیں وہ فنڈنگ میں اپنا حصہ اسی طرح ڈال رہے ہیں اور جب جب آتے ہیں ان کے ساتھ کام بھی ضرور کرتے ہیں۔ جو یہاں ہیں وہ ابھی بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں کسی نہ کسی طرح۔
ہم لوگ اپنے بہن بھائیوں اور ان کے دوستوں کو دیکھ کر اس کارواں میں شامل ہوئے۔ بہت سے لوگ ہمیں دیکھ کر آگے آئے۔ اور صرف خون یا میڈیکل کیمپس ہی نہیں، ہر کوئی اپنی اپنی استعداد میں مختلف طرح کے فلاحی کاموں میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ میرے لئے وہ انکل اور وہ تمام بھائی ہمیشہ سے انسپریشن رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی ایسے چند لوگ ہیں جن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کام کرنے والے لفاظی کی بجائے عمل پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ایک اور واقعہ بھی ہے لیکن یہ اس وقت ہوا جب میں پاکستان میں نہیں تھی اس لئے اس کی مکمل تفصیلات معلوم کر کے شاید کبھی پوسٹ کر دوں۔
 

نایاب

لائبریرین
میں ایک عام سی بات شیئر کروں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس کے علاوہ بھی ایسے چند لوگ ہیں جن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کام کرنے والے لفاظی کی بجائے عمل پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ایک اور واقعہ بھی ہے لیکن یہ اس وقت ہوا جب میں پاکستان میں نہیں تھی اس لئے اس کی مکمل تفصیلات معلوم کر کے شاید کبھی پوسٹ کر دوں۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم بہنا
بلا شبہ اس دھاگے پر اب تک بیان کی جانے والی سب سے بہترین سچ بیتی
 

باباجی

محفلین
میں ایک عام سی بات شیئر کروں گی۔
ہمارے شہر میں ایک انکل تھے جو بہت عرصہ بیرونِ ملک ملازمت کرنے کے بعد واپس لوٹے اور ریٹائرڈ لائف گزار رہے تھے۔ ان کا معمول یہ ہوتا کہ وہ صبح ایک پارک میں سیر کرتے پھر اپنے ٹیرس پر یا گھر کے باہر بیٹھ کر لوگوں کو آتا جاتا دیکھتے۔ اسی طرح شام میں بھی ان کا یہی معمول ہوتا تھا۔ ان انکل نے جب یہ دیکھا کہ لڑکے سکول سے آنے کے بعد سارا ٹائم ادھر ادھر گھومنے یا کرکٹ کھیلنے میں لگا دیتے ہیں تو انہوں نے ایک دن ان لڑکوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ ہم کچھ ایسا کرتے ہیں جس کا سب کو کوئی فائدہ ہو۔ پارک کی صفائی سے کام شروع ہوا اور پھر معلوم نہیں کس طرح کسی کے ذہن میں خون دینے کا خیال آیا۔ اور یوں ان آٹھ دس لڑکوں کو ساتھ لیکر انہوں نے ایک ہاسپٹل میں خون کا عطیہ جمع کروایا۔ یہ سب لڑکے ہائی سکول اور کالج میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے دوستوں سے ذکر کیا اور یوں چند دنوں میں ہی اتنے سارے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ یہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے۔ میرے بڑے بھائی اس وقت سکول میں تھے۔ ان کے دوست کے بڑے بھائی ان لڑکوں میں شامل تھے جنہوں نے خون کا عطیہ دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی میرے بھائی، ان کے دوست اور پھر ان کے دوست، کزنز وغیرہ سب ساتھ شامل ہوتے گئے۔ اور یوں ہوتا تھا کہ کہیں پر کسی کو خون کی ضرورت ہوتی، ایمرجنسی میں یا پہلے سے معلوم ہوتا، وہ ان لوگوں سے رابطہ کرتے اور ایک کے بجائے کئی کئی لوگ وہاں پہنچ جاتے خون دینے کے لئے۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ شہر سے باہر بھی کسی کو ضرورت ہوتی تو یہ لوگ وہاں بھی جاتے۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ پھر ایک ہمارے ڈاکٹر انکل نے ایک تنظیم رجسٹر کروا دی اور ان کو ایک چھوٹا سا دفتر بنوا دیا۔ جہاں وہ ڈاکٹر انکل اور دو تین اور ڈاکٹرز فری معائنہ کرتے اور دوائیاں بھی فری میں دی جاتیں کہ انہوں نے چند فارمیسی والوں کو دوائیوں کا عطیہ دینے پر رضامند کر لیا تھا۔ میڈیکل کے سٹوڈنٹس میڈیکل کیمپ میں بھی جاتے ۔بچوں نے اس طرح حصہ لیا کہ کسی کے گھر والوں نے کرسیاں دیں۔ کسی انکل نے بجلی کے بل کی ذمہ داری لے لی۔ کسی نے پانی کا کولر لگوا دیا۔ ایک اور انکل جو فلاحی کام کیا کرتے تھے انہوں نے ایمبولینس کا بندوبست کر دیا۔ اور یوں بچوں کے ساتھ بڑے بھی شامل ہو گئے۔ 2005ء کے زلزلے میں بہت خون کے عطیات دیئے گئے۔ تب تک ہم بھی یعنی ان لوگوں کے چھوٹے بہن بھائی، کزنز وغیرہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو چکے تھے۔ ان شروع والے بچوں میں سے بہت سے بیرونِ ملک یا بیرونِ شہر پڑھائی یا ملازمت کے سلسلے میں چلے گئے لیکن ان کی جگہ لینے کے لئے نئے لوگ آتے گئے۔ جو لوگ فزیکلی یہاں نہیں وہ فنڈنگ میں اپنا حصہ اسی طرح ڈال رہے ہیں اور جب جب آتے ہیں ان کے ساتھ کام بھی ضرور کرتے ہیں۔ جو یہاں ہیں وہ ابھی بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں کسی نہ کسی طرح۔
ہم لوگ اپنے بہن بھائیوں اور ان کے دوستوں کو دیکھ کر اس کارواں میں شامل ہوئے۔ بہت سے لوگ ہمیں دیکھ کر آگے آئے۔ اور صرف خون یا میڈیکل کیمپس ہی نہیں، ہر کوئی اپنی اپنی استعداد میں مختلف طرح کے فلاحی کاموں میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ میرے لئے وہ انکل اور وہ تمام بھائی ہمیشہ سے انسپریشن رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی ایسے چند لوگ ہیں جن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کام کرنے والے لفاظی کی بجائے عمل پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ایک اور واقعہ بھی ہے لیکن یہ اس وقت ہوا جب میں پاکستان میں نہیں تھی اس لئے اس کی مکمل تفصیلات معلوم کر کے شاید کبھی پوسٹ کر دوں۔
ماشاءاللہ
بہت خوب شراکت
بہت اچھی ، سچی اور متاثر کن شیئرنگ
قطرہ سے دریا بننے کی زندہ و جاوید مثال
اللہ آپ کو خوش رکھے
 
محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، مغل ، نایاب ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا بہت شکریہ ، آپ کی حوصلہ افزائی سے ایک اور واقعہ سناتا چلوں یار یہ جو ہم جیسے بوڑھے ہتے ہیں نا انہیں واقعات سنانے کی عادت ہوتی ہے اور آپ جیسے بچے بعض اوقات مجبوراً سنتے رہتے ہیں ۔ اور اردو محفل تو ایک ایسا فورم ہے کہ آ پ بولتے رہیں ۔ بہر حال یہ جو واقعہ سنا رہا ہوں یہ سبق آموز ہے​
یہ ۱۹۹۳ کی بات ہے میں ملازمت کے سلسلے میں ملیر کینٹ کراچی میں مقیم تھا ۔۔تنخواہ کم تھی اور ہر ملازم کیطرح مہینے کے آخر میں تو حالات نازک ہی ہوتے ہیں ایسے ہی شائد مہینے کی بیس تاریخ تھی جیب میں ایک پچاس کا نوٹ تھا یا شائد گھر میں کچھ سکے ہوں ۔ عصر کی نماز مسجد میں ادا کر رہا تھا کہ نظر ایک ضعیف نادار شخص پر پڑی ۔میرے دل میں ایک دم ایک خیال ؤیا اور میں نے وہ پچاس کا نوٹ اس کو دے دیا حالانکہ وہ گدا گر نہ تھا اور اللہ سے عرض کی کہ مولا ! اب تو اپنا وعدہ پورا کر اور مجھے دس گنا عطا فرما ۔​
اگلے دن جب میں دفتر گیا تو دس گارہ بجے کے قریب ٹی سی ایس والا آیا اور کوہاٹ سے والد صاحب کا ایک لفافہ دے گیا کھول کر دیکھا تو اس میں ایک ہزار کا نوٹ تھا ۔ حالانکہ میں نے کبھی اپنی تنگ دستی کا ذکر والد مر حوم سے نہ کیا تھا آج کل تو ٹی سی ایس سے رقم نہیں جاتی اس وقت شائد سکیننگ مشین نہ تھی ۔ اب ایک جانب تو پیسے مل جانے کی خوشی تھی اور جانب وہ تشکر کے جذبات تھے کہ کس طرح میرے خالق نے اپنے انتہائی گنہگار بے بس بندے کی لاج رکھی​
ساتھیوں سے درخواست ہے کہ اب حوصلہ افزائی نہ فرمائیں ورنہ داستانوں کے صفحات کھلتے جائیں گے​
اللہ محفل کے تمام ساتھیوں کو دونوں جہانوں کی خوشیں اور نعمتیں عطا فرمائے (آمین)​
واہ۔۔مزہ آگیا۔ یہ ہوئی ناں بات۔۔۔پلیز اپنی زندگی کے کچھ اور واقعات بھی ضرور شئیر کریں :)
 

سید زبیر

محفلین
بیٹا فرحت کیانی ! یہ بھی اللہ کا اپنے خاص بندوں پر کرم ہوتا ہے کہ انہیں کسی نیک مقصد کے لئے منتخب فرماتا ہے ۔ اگر ہم کسی کے کام آجاتے ہیں تو در حقیقت اللہ اس حاجت مند کی حاجت روائی کے لئے اپنے بندوں میں سےہمیں منتخب فرماتا ہے یہ اس خالق ، رب العزت کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے جب ہم کسی کے کام آتے ہیں ۔ اللہ ہمیں نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے اور نیک بندوں کی نیکیوں کو قبولیت بخشے (آمین)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بیٹا فرحت کیانی ! یہ بھی اللہ کا اپنے خاص بندوں پر کرم ہوتا ہے کہ انہیں کسی نیک مقصد کے لئے منتخب فرماتا ہے ۔ اگر ہم کسی کے کام آجاتے ہیں تو در حقیقت اللہ اس حاجت مند کی حاجت روائی کے لئے اپنے بندوں میں سےہمیں منتخب فرماتا ہے یہ اس خالق ، رب العزت کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے جب ہم کسی کے کام آتے ہیں ۔ اللہ ہمیں نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے اور نیک بندوں کی نیکیوں کو قبولیت بخشے (آمین)
آمین اور جزاک اللہ انکل جی۔ واقعی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتی ہے کہ وہ کسی کو لینے کی بجائے دینے کی توفیق عطا کریں۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ یہ کام ان انکل کے لئے کیسا صدقہ جاریہ بن گیا ماشاءاللہ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، مغل ، نایاب ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا بہت شکریہ ، آپ کی حوصلہ افزائی سے ایک اور واقعہ سناتا چلوں یار یہ جو ہم جیسے بوڑھے ہتے ہیں نا انہیں واقعات سنانے کی عادت ہوتی ہے اور آپ جیسے بچے بعض اوقات مجبوراً سنتے رہتے ہیں ۔ اور اردو محفل تو ایک ایسا فورم ہے کہ آ پ بولتے رہیں ۔ بہر حال یہ جو واقعہ سنا رہا ہوں یہ سبق آموز ہے​
یہ ۱۹۹۳ کی بات ہے میں ملازمت کے سلسلے میں ملیر کینٹ کراچی میں مقیم تھا ۔۔تنخواہ کم تھی اور ہر ملازم کیطرح مہینے کے آخر میں تو حالات نازک ہی ہوتے ہیں ایسے ہی شائد مہینے کی بیس تاریخ تھی جیب میں ایک پچاس کا نوٹ تھا یا شائد گھر میں کچھ سکے ہوں ۔ عصر کی نماز مسجد میں ادا کر رہا تھا کہ نظر ایک ضعیف نادار شخص پر پڑی ۔میرے دل میں ایک دم ایک خیال ؤیا اور میں نے وہ پچاس کا نوٹ اس کو دے دیا حالانکہ وہ گدا گر نہ تھا اور اللہ سے عرض کی کہ مولا ! اب تو اپنا وعدہ پورا کر اور مجھے دس گنا عطا فرما ۔​
اگلے دن جب میں دفتر گیا تو دس گارہ بجے کے قریب ٹی سی ایس والا آیا اور کوہاٹ سے والد صاحب کا ایک لفافہ دے گیا کھول کر دیکھا تو اس میں ایک ہزار کا نوٹ تھا ۔ حالانکہ میں نے کبھی اپنی تنگ دستی کا ذکر والد مر حوم سے نہ کیا تھا آج کل تو ٹی سی ایس سے رقم نہیں جاتی اس وقت شائد سکیننگ مشین نہ تھی ۔ اب ایک جانب تو پیسے مل جانے کی خوشی تھی اور جانب وہ تشکر کے جذبات تھے کہ کس طرح میرے خالق نے اپنے انتہائی گنہگار بے بس بندے کی لاج رکھی​
ساتھیوں سے درخواست ہے کہ اب حوصلہ افزائی نہ فرمائیں ورنہ داستانوں کے صفحات کھلتے جائیں گے​
اللہ محفل کے تمام ساتھیوں کو دونوں جہانوں کی خوشیں اور نعمتیں عطا فرمائے (آمین)​
ماشاءاللہ۔
مزید بھی کچھ سنائیں پلیز۔
 

رانا

محفلین
بڑی مشکل سے دل کو سمجھا بجھا کر اس دھاگے میں خود کو مزید کچھ لکھنے کی طرف آمادہ کیا ہے۔ ورنہ میرے آخری دو مراسلوں کو بنیاد بنا کر جو فضا یہاں پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی اس سے دل اتنا متنفر ہوا کہ بڑی مشکل سے خود کو جوابی پوسٹ کرنے سے روکا ہے کہ اس سے ماحول مزید خراب ہی ہوگا اور انجام وہی ہوگا جس کی طرف زہنوں کو لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ورنہ کسی کے خواب و خیال میں بھی وہ بات نہیں تھی جو اب سب کے زہنوں میں ڈال دی گئی ہے۔ اسی فضا کو ختم کرنے اور دوبارہ وہی دوستانہ ماحول پیدا کرنے کے لئے مزید ایک کوشش کرنے لگا ہوں۔پہلی کوشش تو بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔

زخمی توبہ:
چونک گئے نا! کیسا عجیب عنوان دیا ہے نئے واقعے کو۔ ہم نے سوچا عنوان بھی دلچسپ ہونا چاہئے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت ساری توبائیں کی ہیں۔:) جن میں سے اکثر کو تو بعد بہت بری طرح سے فریکچرز بھی ہوئے۔:) یہاں ہم ایسی ہی ایک توبہ کا قصہ بیان کرنے چلے ہیں جو اب تک اتنی بار ٹوٹی کہ اس کے انجر پنجر اور جوڑ جوڑ ہل کر رہ گیاہے۔:)

بات شروع ہوتی ہے ہمارے بچپن سے جب ایک دوست کے گھر گئے تو وہاں انڈین ہارر فلم "تہہ خانہ" چل رہی تھی۔ ہم بھی دیکھنے لگ گئے۔ ہماری زندگی کی پہلی ہارر فلم تھی۔ بہت مزا آیا۔ لیکن اگلی کئی راتیں خوف کے عالم میں گزریں۔ اکیلے کہیں جاتے ہوئے ڈر لگنے لگا۔ اس وقت پہلی بار توبہ کی کہ آئندہ کبھی ہارر فلم نہیں دیکھیں گے۔ اور مزے کی بات اس پہلی توبہ پر کافی عرصے تک قائم رہے۔:) بلکہ جب کہیں کوئی جھلک دیکھنے کو مل جاتی تو ہنسی ہی آتی کہ کیا اوٹ پٹانگ چیزیں دیکھ رہے ہیں لوگ۔:) اس توبہ کو پہلا فریکچر اس وقت ہوا جب ہم نرسری کے انسٹیوٹ سے کمپیوٹر سائنس میں ڈپلومہ کررہے تھے۔ ایک انگریزی فلم "ایول ڈیڈ" کی گاہے بگاہے لوگوں سے تعریف سنی تھی کہ بہت ڈراؤنی ہے لیکن ہر سنانے والے کو ہم یہی کہتے کہ جاؤ میاں بہت دیکھی ہیں ڈراونی فلمیں ہمیں کوئی ڈر ور نہیں لگتا۔ ایک مرتبہ اسٹیٹیوٹ سے واپسی پر بس میں دوست نے بھی ذکر کردیا اسی فلم کا۔ جب اس نے کہا کہ یہ فلم اس کے پاس ہے تو ہمیں بھی اشتیاق ہوچلا کہ دیکھیں تو سہی آخر اس میں ہے کیا۔ لہذا ناظم آباد اسٹاپ پر اتر گیا اس کے گھر جا کر فلم دیکھی تو پتہ لگ گیا کہ ہارر فلم کیا ہوتی ہے۔ اب اگلی کئی راتیں پھر خواب میں ڈرتے ڈرتے گزاریں۔:) اور توبہ کی مرہم پٹی کرکے پھر اسے کھڑا کیا اور آئندہ کے لئے پھر توبہ کی کہ کبھی ہارر فلم نہ دیکھیں گے۔:) اب ہماری یہ توبہ بھی کئی سال چلی۔:) پھر کہیں ایک بار دوستوں کی محفل میں ہارر فلموں پر بات چل نکلی کہ یار "Exorcist" بڑی ہارر فلم ہے۔ ایک نے گرہ لگائی کہ جب یہ سینما پر لگی تھی تو شناختی کارڈ کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔:) بس جناب آتش تجسس کو اتنی ہی ہوا کافی تھی۔ کہیں سے اس کی سی ڈی بھی اتفاق سے مل گئی۔ ایک تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایسے مواقع پر خود بخود مطلوبہ فلم مہیا کیسے ہوجاتی ہے بغیر کسی کوشش کے۔:) تو جناب یہ فلم دیکھی اور خوب خوب ڈرے کہ کمبخت چھوٹی سی لڑکی ہے اور کیا غضب کے امپریشن دے رہی تھی۔ لیکن پھر بھی پوری دیکھ کر ہی اُٹھے۔ اس دن اندازہ ہوا کہ خوبصورت اور معصوم چہرے کو بھی صرف امپریشنز کے ذریعے کتنا خوفناک بنایا جاسکتا ہے۔ اب اگلی کئی راتوں تک پھر ڈرتے رہے ۔ لہذا ایک بار پھر پکی توبہ کی اور اس بار تو خوب پلاسٹر آف پیرس لگا کر توبہ کو مضبوط کیا کہ خواہ کچھ ہوجائے اب کبھی بھی ہارر فلم نہ دیکھیں گے۔:) لیکن جناب وہ پلاسٹر آف پیرس بھی شائد ملاوٹی تھا۔ ہوا یوں کہ ایک بار گھر والوں نے چھٹیاں گاؤں میں گزارنے کا پروگرام بنایا۔ ہم کسی وجہ سے نہ جاسکے۔ جس دن وہ ٹرین میں سوار ہوئے اسی دن پی ٹی وی نے رات دس بجے ایک فلم "Horror Express" چلادی۔ دل مچل گیا دیکھنے کو۔ توبہ کا خیال آیا۔ تو ہم نے سوچا کہ یار پی ٹی وی والوں نے کبھی کوئی ڈھنگ کی فلم دکھائی ہے؟ یہ کوئی ایویں سی فلم ہوگی۔ ہم نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ میاں ہم تو اسے کامیڈی فلم سمجھ کر دیکھیں گے جبکہ توبہ تو ہارر فلم نہ دیکھنے کی ہے۔:) لہذا فلم دیکھی کم بخت اچھی خاصی ہارر تھی۔ اب گھر میں اگلے دو ماہ تک صرف میں اور ابو تھے لہذا دل کھول کر ڈرتے رہے۔ کہ گھر میں گہما گہمی ہو تو ڈر بھی کم لگتا ہے۔:) اب تو توبہ کرتے ہوئے بھی شرم آرہی تھی کہ کس منہ سے زخمی توبہ کو پھر تکلیف دیں۔ لیکن شرماتے شرماتے تکلیف دے ہی دی اور جناب اس مرتبہ تو ہم نے بڑی پکی والی توبہ کی ہوئی ہے اور ابھی تک قائم ہیں۔۔۔۔ لیکن آجکل ایک دوست "The Ring" کی بڑی تعریفیں کررہا ہے۔-----:)
 

باباجی

محفلین
بڑی مشکل سے دل کو سمجھا بجھا کر اس دھاگے میں خود کو مزید کچھ لکھنے کی طرف آمادہ کیا ہے۔ ورنہ میرے آخری دو مراسلوں کو بنیاد بنا کر جو فضا یہاں پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی اس سے دل اتنا متنفر ہوا کہ بڑی مشکل سے خود کو جوابی پوسٹ کرنے سے روکا ہے کہ اس سے ماحول مزید خراب ہی ہوگا اور انجام وہی ہوگا جس کی طرف زہنوں کو لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ورنہ کسی کے خواب و خیال میں بھی وہ بات نہیں تھی جو اب سب کے زہنوں میں ڈال دی گئی ہے۔ اسی فضا کو ختم کرنے اور دوبارہ وہی دوستانہ ماحول پیدا کرنے کے لئے مزید ایک کوشش کرنے لگا ہوں۔پہلی کوشش تو بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔

زخمی توبہ:
چونک گئے نا! کیسا عجیب عنوان دیا ہے نئے واقعے کو۔ ہم نے سوچا عنوان بھی دلچسپ ہونا چاہئے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت ساری توبائیں کی ہیں۔:) جن میں سے اکثر کو تو بعد بہت بری طرح سے فریکچرز بھی ہوئے۔:) یہاں ہم ایسی ہی ایک توبہ کا قصہ بیان کرنے چلے ہیں جو اب تک اتنی بار ٹوٹی کہ اس کے انجر پنجر اور جوڑ جوڑ ہل کر رہ گیاہے۔:)

بات شروع ہوتی ہے ہمارے بچپن سے جب ایک دوست کے گھر گئے تو وہاں انڈین ہارر فلم "تہہ خانہ" چل رہی تھی۔ ہم بھی دیکھنے لگ گئے۔ ہماری زندگی کی پہلی ہارر فلم تھی۔ بہت مزا آیا۔ لیکن اگلی کئی راتیں خوف کے عالم میں گزریں۔ اکیلے کہیں جاتے ہوئے ڈر لگنے لگا۔ اس وقت پہلی بار توبہ کی کہ آئندہ کبھی ہارر فلم نہیں دیکھیں گے۔ اور مزے کی بات اس پہلی توبہ پر کافی عرصے تک قائم رہے۔:) بلکہ جب کہیں کوئی جھلک دیکھنے کو مل جاتی تو ہنسی ہی آتی کہ کیا اوٹ پٹانگ چیزیں دیکھ رہے ہیں لوگ۔:) اس توبہ کو پہلا فریکچر اس وقت ہوا جب ہم نرسری کے انسٹیوٹ سے کمپیوٹر سائنس میں ڈپلومہ کررہے تھے۔ ایک انگریزی فلم "ایول ڈیڈ" کی گاہے بگاہے لوگوں سے تعریف سنی تھی کہ بہت ڈراؤنی ہے لیکن ہر سنانے والے کو ہم یہی کہتے کہ جاؤ میاں بہت دیکھی ہیں ڈراونی فلمیں ہمیں کوئی ڈر ور نہیں لگتا۔ ایک مرتبہ اسٹیٹیوٹ سے واپسی پر بس میں دوست نے بھی ذکر کردیا اسی فلم کا۔ جب اس نے کہا کہ یہ فلم اس کے پاس ہے تو ہمیں بھی اشتیاق ہوچلا کہ دیکھیں تو سہی آخر اس میں ہے کیا۔ لہذا ناظم آباد اسٹاپ پر اتر گیا اس کے گھر جا کر فلم دیکھی تو پتہ لگ گیا کہ ہارر فلم کیا ہوتی ہے۔ اب اگلی کئی راتیں پھر خواب میں ڈرتے ڈرتے گزاریں۔:) اور توبہ کی مرہم پٹی کرکے پھر اسے کھڑا کیا اور آئندہ کے لئے پھر توبہ کی کہ کبھی ہارر فلم نہ دیکھیں گے۔:) اب ہماری یہ توبہ بھی کئی سال چلی۔:) پھر کہیں ایک بار دوستوں کی محفل میں ہارر فلموں پر بات چل نکلی کہ یار "Exorcist" بڑی ہارر فلم ہے۔ ایک نے گرہ لگائی کہ جب یہ سینما پر لگی تھی تو شناختی کارڈ کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔:) بس جناب آتش تجسس کو اتنی ہی ہوا کافی تھی۔ کہیں سے اس کی سی ڈی بھی اتفاق سے مل گئی۔ ایک تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایسے مواقع پر خود بخود مطلوبہ فلم مہیا کیسے ہوجاتی ہے بغیر کسی کوشش کے۔:) تو جناب یہ فلم دیکھی اور خوب خوب ڈرے کہ کمبخت چھوٹی سی لڑکی ہے اور کیا غضب کے امپریشن دے رہی تھی۔ لیکن پھر بھی پوری دیکھ کر ہی اُٹھے۔ اس دن اندازہ ہوا کہ خوبصورت اور معصوم چہرے کو بھی صرف امپریشنز کے ذریعے کتنا خوفناک بنایا جاسکتا ہے۔ اب اگلی کئی راتوں تک پھر ڈرتے رہے ۔ لہذا ایک بار پھر پکی توبہ کی اور اس بار تو خوب پلاسٹر آف پیرس لگا کر توبہ کو مضبوط کیا کہ خواہ کچھ ہوجائے اب کبھی بھی ہارر فلم نہ دیکھیں گے۔:) لیکن جناب وہ پلاسٹر آف پیرس بھی شائد ملاوٹی تھا۔ ہوا یوں کہ ایک بار گھر والوں نے چھٹیاں گاؤں میں گزارنے کا پروگرام بنایا۔ ہم کسی وجہ سے نہ جاسکے۔ جس دن وہ ٹرین میں سوار ہوئے اسی دن پی ٹی وی نے رات دس بجے ایک فلم "Horror Express" چلادی۔ دل مچل گیا دیکھنے کو۔ توبہ کا خیال آیا۔ تو ہم نے سوچا کہ یار پی ٹی وی والوں نے کبھی کوئی ڈھنگ کی فلم دکھائی ہے؟ یہ کوئی ایویں سی فلم ہوگی۔ ہم نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ میاں ہم تو اسے کامیڈی فلم سمجھ کر دیکھیں گے جبکہ توبہ تو ہارر فلم نہ دیکھنے کی ہے۔:) لہذا فلم دیکھی کم بخت اچھی خاصی ہارر تھی۔ اب گھر میں اگلے دو ماہ تک صرف میں اور ابو تھے لہذا دل کھول کر ڈرتے رہے۔ کہ گھر میں گہما گہمی ہو تو ڈر بھی کم لگتا ہے۔:) اب تو توبہ کرتے ہوئے بھی شرم آرہی تھی کہ کس منہ سے زخمی توبہ کو پھر تکلیف دیں۔ لیکن شرماتے شرماتے تکلیف دے ہی دی اور جناب اس مرتبہ تو ہم نے بڑی پکی والی توبہ کی ہوئی ہے اور ابھی تک قائم ہیں۔۔۔ ۔ لیکن آجکل ایک دوست "The Ring" کی بڑی تعریفیں کررہا ہے۔-----:)
اسّے اچھی ہارر مووی تو Mirrors ہے
چھوٹے ہوتے جن ہارر موویز کو دیکھتے ہوئے جان جاتی تھی آج انہیں دیکھ ہنسی آجاتی ہے
لیکن اب بھی کبھی ہارر فلم دیکھوں تو آواز بند کرکے دیکھتا ہوں:cool:
کیونکہ اصل ڈر تو ساؤنڈ ایفکٹس پیدا کرتے ہیں :)
 

سید زبیر

محفلین
بہت ہی پیارے محفل کے ساتھی باباجی ، ،نایاب ، فرحت کیانی ، ،محمود احمد غزنوی ، ،مغل ، شمشاد ، گمنام زندگی ، فاتح ، نیرنگ خیال !
آپ سب کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ
اللہ تبارک تعالیٰ محفل کے سب ساتھیوں کو دونوں جہانوں کی کامیابیاں اور خوشیاں عطا فرمائے (آمین)
 

رانا

محفلین
ditto یہی الفاظ سیم ٹو سیم میرے بھی ہیں
سچی سے حسرت ہی رہی کسی اچھے جن سے ملاقات کی

ہم لوگوں کی یہ حسرت ہی رہے گی جنوں سے ملاقات کی۔ اب تو جن بھی اپنے بچوں کو شہر میں بھیجتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ یہ موئے سائنسدان کہیں اسے پکڑ کر ریسرچ ہی شروع نہ کردیں کہ اس کے جسم کی کیمسٹری کیا ہے۔:)


ditto
آپ نے جو hysteria کے واقعے بتائے ان میں اتنی طاقت کہاں سے آجاتی ہے کہ وہ کسی کے قابو میں ہی نہیں آتے کیا انہیں split personality disorder میں شمار نہیں کیا جاسکتا

نہ صرف طاقت آجاتی ہے بلکہ بعض اوقات آواز بھی بالکل تبدیل ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر جب وہ اتنا صحت مند پہلے ہی سے ہو جیسی وہ عورت تھی۔ عام زندگی میں ہی دیکھ لیں کہ غصے کی حالت میں انسان میں غیرمعمولی طاقت آجاتی ہے کہ اسے قابو کرنا ہی مشکل ہوجاتاہے۔ اوپر سے اگر وہ دہری شخصیت کا بھی شکار ہوجائے تو پھر کیا کہنے۔ دہری شخصیت پر کراچی کے ڈاکٹر سید مبین اختر کا ایک مضمون پڑھا تھا کافی عرصہ پہلے۔ اس میں انہوں نے بہت تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ اور اپنے مریضوں کے عجیب عجیب واقعات بتائے تھے کہ کوئی اپنے آپ کو خلائی مخلوق کے کنٹرول میں خیال کررہا تھا کہ وہ اسکے ذریعے دنیا پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔:)
 
Top