بڑی مشکل سے دل کو سمجھا بجھا کر اس دھاگے میں خود کو مزید کچھ لکھنے کی طرف آمادہ کیا ہے۔ ورنہ میرے آخری دو مراسلوں کو بنیاد بنا کر جو فضا یہاں پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی اس سے دل اتنا متنفر ہوا کہ بڑی مشکل سے خود کو جوابی پوسٹ کرنے سے روکا ہے کہ اس سے ماحول مزید خراب ہی ہوگا اور انجام وہی ہوگا جس کی طرف زہنوں کو لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ورنہ کسی کے خواب و خیال میں بھی وہ بات نہیں تھی جو اب سب کے زہنوں میں ڈال دی گئی ہے۔ اسی فضا کو ختم کرنے اور دوبارہ وہی دوستانہ ماحول پیدا کرنے کے لئے مزید ایک کوشش کرنے لگا ہوں۔پہلی کوشش تو بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔
زخمی توبہ:
چونک گئے نا! کیسا عجیب عنوان دیا ہے نئے واقعے کو۔ ہم نے سوچا عنوان بھی دلچسپ ہونا چاہئے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت ساری توبائیں کی ہیں۔
جن میں سے اکثر کو تو بعد بہت بری طرح سے فریکچرز بھی ہوئے۔
یہاں ہم ایسی ہی ایک توبہ کا قصہ بیان کرنے چلے ہیں جو اب تک اتنی بار ٹوٹی کہ اس کے انجر پنجر اور جوڑ جوڑ ہل کر رہ گیاہے۔
بات شروع ہوتی ہے ہمارے بچپن سے جب ایک دوست کے گھر گئے تو وہاں انڈین ہارر فلم "تہہ خانہ" چل رہی تھی۔ ہم بھی دیکھنے لگ گئے۔ ہماری زندگی کی پہلی ہارر فلم تھی۔ بہت مزا آیا۔ لیکن اگلی کئی راتیں خوف کے عالم میں گزریں۔ اکیلے کہیں جاتے ہوئے ڈر لگنے لگا۔ اس وقت پہلی بار توبہ کی کہ آئندہ کبھی ہارر فلم نہیں دیکھیں گے۔ اور مزے کی بات اس پہلی توبہ پر کافی عرصے تک قائم رہے۔
بلکہ جب کہیں کوئی جھلک دیکھنے کو مل جاتی تو ہنسی ہی آتی کہ کیا اوٹ پٹانگ چیزیں دیکھ رہے ہیں لوگ۔
اس توبہ کو پہلا فریکچر اس وقت ہوا جب ہم نرسری کے انسٹیوٹ سے کمپیوٹر سائنس میں ڈپلومہ کررہے تھے۔ ایک انگریزی فلم "ایول ڈیڈ" کی گاہے بگاہے لوگوں سے تعریف سنی تھی کہ بہت ڈراؤنی ہے لیکن ہر سنانے والے کو ہم یہی کہتے کہ جاؤ میاں بہت دیکھی ہیں ڈراونی فلمیں ہمیں کوئی ڈر ور نہیں لگتا۔ ایک مرتبہ اسٹیٹیوٹ سے واپسی پر بس میں دوست نے بھی ذکر کردیا اسی فلم کا۔ جب اس نے کہا کہ یہ فلم اس کے پاس ہے تو ہمیں بھی اشتیاق ہوچلا کہ دیکھیں تو سہی آخر اس میں ہے کیا۔ لہذا ناظم آباد اسٹاپ پر اتر گیا اس کے گھر جا کر فلم دیکھی تو پتہ لگ گیا کہ ہارر فلم کیا ہوتی ہے۔ اب اگلی کئی راتیں پھر خواب میں ڈرتے ڈرتے گزاریں۔
اور توبہ کی مرہم پٹی کرکے پھر اسے کھڑا کیا اور آئندہ کے لئے پھر توبہ کی کہ کبھی ہارر فلم نہ دیکھیں گے۔
اب ہماری یہ توبہ بھی کئی سال چلی۔
پھر کہیں ایک بار دوستوں کی محفل میں ہارر فلموں پر بات چل نکلی کہ یار "Exorcist" بڑی ہارر فلم ہے۔ ایک نے گرہ لگائی کہ جب یہ سینما پر لگی تھی تو شناختی کارڈ کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
بس جناب آتش تجسس کو اتنی ہی ہوا کافی تھی۔ کہیں سے اس کی سی ڈی بھی اتفاق سے مل گئی۔ ایک تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایسے مواقع پر خود بخود مطلوبہ فلم مہیا کیسے ہوجاتی ہے بغیر کسی کوشش کے۔
تو جناب یہ فلم دیکھی اور خوب خوب ڈرے کہ کمبخت چھوٹی سی لڑکی ہے اور کیا غضب کے امپریشن دے رہی تھی۔ لیکن پھر بھی پوری دیکھ کر ہی اُٹھے۔ اس دن اندازہ ہوا کہ خوبصورت اور معصوم چہرے کو بھی صرف امپریشنز کے ذریعے کتنا خوفناک بنایا جاسکتا ہے۔ اب اگلی کئی راتوں تک پھر ڈرتے رہے ۔ لہذا ایک بار پھر پکی توبہ کی اور اس بار تو خوب پلاسٹر آف پیرس لگا کر توبہ کو مضبوط کیا کہ خواہ کچھ ہوجائے اب کبھی بھی ہارر فلم نہ دیکھیں گے۔
لیکن جناب وہ پلاسٹر آف پیرس بھی شائد ملاوٹی تھا۔ ہوا یوں کہ ایک بار گھر والوں نے چھٹیاں گاؤں میں گزارنے کا پروگرام بنایا۔ ہم کسی وجہ سے نہ جاسکے۔ جس دن وہ ٹرین میں سوار ہوئے اسی دن پی ٹی وی نے رات دس بجے ایک فلم "Horror Express" چلادی۔ دل مچل گیا دیکھنے کو۔ توبہ کا خیال آیا۔ تو ہم نے سوچا کہ یار پی ٹی وی والوں نے کبھی کوئی ڈھنگ کی فلم دکھائی ہے؟ یہ کوئی ایویں سی فلم ہوگی۔ ہم نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ میاں ہم تو اسے کامیڈی فلم سمجھ کر دیکھیں گے جبکہ توبہ تو ہارر فلم نہ دیکھنے کی ہے۔
لہذا فلم دیکھی کم بخت اچھی خاصی ہارر تھی۔ اب گھر میں اگلے دو ماہ تک صرف میں اور ابو تھے لہذا دل کھول کر ڈرتے رہے۔ کہ گھر میں گہما گہمی ہو تو ڈر بھی کم لگتا ہے۔
اب تو توبہ کرتے ہوئے بھی شرم آرہی تھی کہ کس منہ سے زخمی توبہ کو پھر تکلیف دیں۔ لیکن شرماتے شرماتے تکلیف دے ہی دی اور جناب اس مرتبہ تو ہم نے بڑی پکی والی توبہ کی ہوئی ہے اور ابھی تک قائم ہیں۔۔۔ ۔ لیکن آجکل ایک دوست "The Ring" کی بڑی تعریفیں کررہا ہے۔-----