صرف سچ بیتیاں

نایاب

لائبریرین
فیس بک سے ملی اک منظوم سچ بیتی

************
سہیلی کے نام
************

اور ہاں ہمسائے کا خالی مکاں

ہو چکا آباد بدھ کی شام سے
میں بھی ٹیرس پر کھڑی تھی اُس سمے
فیملی آئی تھی میرے سامنے


فیملی میں تین ہی افراد تھے

ایک عورت ایک اُس کا آدمی
اور اک لڑکی مری ہی عمر کی
دیکھنے میں شوخ سی اور بولڈ سی


پینٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھی

بال تھے پھیلے ہوئے شانوں تلک
چال تھی ایسی کہ جھپکے نہ پلک
کان میں دیکھی تھی بالی کی جھلک


نعرہ ء یاہُو کیا دل نے بلند

اب مزے ہمسائیگی کے آئیں گے
بوریت کے دن نہ رہنے پائیں گے
دوست اک دوجے کے ہم بن جائیں گے


روز ہوں گی آنیاں اور جانیاں

اب رہیں گی رونقیں شام و سحر
دوستی پنپے گی وکھری طرز پر
خوب ہم باتیں کریں گے بیٹھ کر


تین دن تک تو رہی یہ کیفیت

روز منصوبہ بناتی تھی نیا
کس بہانے اُس کے گھر جاؤں بھلا
کس طرح ہو دوستی کی ابتدا


اب ذرا کل شام کا قصہ سنو

آئیں تھیں ملنے کو خالہ کوثرو
کیا بتاؤں اُس نے بتلایا ہے جو
اُف خدا لڑکی نہیں لڑکا ہے وہ

========
نویدظفرکیانی
 

نایاب

لائبریرین
شاہ جی نایاب ہم تو آپ سے کچھ آپ بیتی پر مبنی واقعات کی توقع لگائے بیٹھے ہیں :)
محترم بھائی
فصیح امام صاحب نے کہیں لکھاتھا کہ
مقرر ہوں ، نہ واعظ ہوں ، نہ شاعر ہوں میں لفظوں کا .. ..
زباں بس ساتھ دیتی ہے ، میں باتیں دل سے کرتا ہوں .. !!
دل کی باتیں دماغوں کو الجھا دیتی ہیں ۔
سو دل والے دکھڑے کیا اس طرح سنائیں
پردہ ہٹا کر کیوں بھید سامنےلائیں
بہتر نہیں کہ خود ہی اس آگ میں جل جائیں
 

باباجی

محفلین
محترم بھائی
فصیح امام صاحب نے کہیں لکھاتھا کہ
مقرر ہوں ، نہ واعظ ہوں ، نہ شاعر ہوں میں لفظوں کا .. ..
زباں بس ساتھ دیتی ہے ، میں باتیں دل سے کرتا ہوں .. !!
دل کی باتیں دماغوں کو الجھا دیتی ہیں ۔
سو دل والے دکھڑے کیا اس طرح سنائیں
پردہ ہٹا کر کیوں بھید سامنےلائیں
بہتر نہیں کہ خود ہی اس آگ میں جل جائیں
سنادیں شاہ جی
دکھڑے نہ سہی
سُکھڑے سنادیں
 

سید زبیر

محفلین
محترم بھائی
فصیح امام صاحب نے کہیں لکھاتھا کہ
مقرر ہوں ، نہ واعظ ہوں ، نہ شاعر ہوں میں لفظوں کا .. ..
زباں بس ساتھ دیتی ہے ، میں باتیں دل سے کرتا ہوں .. !!
دل کی باتیں دماغوں کو الجھا دیتی ہیں ۔
سو دل والے دکھڑے کیا اس طرح سنائیں
پردہ ہٹا کر کیوں بھید سامنےلائیں
بہتر نہیں کہ خود ہی اس آگ میں جل جائیں
نیلم لکھا کریں جو پڑھتے ہیں وہ لکھتے ہیں جو لکھتے ہیں وہ پڑھتے ہیں
کیتھارسس صحت کے لیے ضروری ہے ۔ خوش نصیب ہیں جنہیں پڑھنے اور سننے والا کوئی اور پھر اس مصروف دور میں مل جائے ۔ ضرور لکھیں ۔ دیواروں سے باتیں کرنا اچھا نہیں ہوتا ۔ لکھیں اور خوب لکھیں
 

سید زبیر

محفلین
محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، گمنام زندگی ، نیرنگ خیال ، فرحت کیانی ،یوسف ثانی ،مغل ، نایاب ، نیلم ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ ،
آج جو اپنی زندگی کا پورا ورق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں آپ جیسے نوجوانوں کے لیے بہت سبق ہے
۱۹۶۸ میں میں نے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۲ سےمیٹرک کیا اور گونمنٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لے لیا یہ دور پاکستان میں سیاست کے آغاز کا دور تھا ہر طرف ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہورہے تھے کیا مشرقی پاکستان اور کیا مغربی پاکستان ، ہمارا نیا نیا خون تھا میری عمر پندرہ سال کی تھی مگر آج کے بچوں کی طرح پپو بچہ نہ تھا سٹریٹ لرننگ بہت تھی ہاں زندگی میں سٹریٹ لرننگ بہت کام آتی ہے آج کی سیاست میں آصف زرداری ، رحمان ملک اور الطاف حسین کو یہ علم حاصل ہے جبکہ بیشتر سیاستدان ،ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے ہیں۔ ہاں تو بات ہورہی تھی داخلہ لینے کے بعد ہم بھی اسی کو اپنی زندگی سمجھے اور اپنے مقصد سے دور ہوتے گئے نتیجہ یہ نکلا جو ایف اے ۱۹۷۰ میں کرنا تھا وہ ۱۹۷۲ تک نہ ہوسکا اور میٹرک کے میٹرک ہی رہے ۔آخر تعلیم کو خیر آباد کہا اور فرنٹیر کیمیکلز کے نام سے سائنسی آلات اور کیمیکلز کی دکان کھول لی ۔ یہا ں آپ کو عجیب بات بتاوں ہم بعض دفعہ آدمی کے ظاہر کو دیکھ کر بہت غلط اندازہ لگا لیتے ہیں ۔ جن صاحب نے مجھے اس دکان کا مشورہ دیا تھا وہ درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کرتے تھے اس زمانے میں درہ آدم خیل اسلحے کے لئے ملک اور بیرون ملک مشہور تھا ۔ ان صاحب کی سفید ڈاڑھی آنکھوں سے تھوڑا نیچے سے شروع ہوتی تھی اور کنگ سٹارک کی سگریٹ پیتے تھے ۔ان سے ملاقات لاہور میں اپننے چچا کی ورکشاپ میں ہوئی وہ وہاں اپنی کوئی مشین بنانے آئے تھے مزے کی بات بتاوں چچا نے دوران گفتگو کوئی لفظ انگریزی کا بول دیا تو ان صاحب نے اپنے چار دن کے قیام میں ایک لفظ اردو کا نہیں بولا انگریزی ہی میں گفتگو کرتے انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا یہ عبد الرحمان آفریدی پٹھان مجھ سے بہت شفقت سے ملا ۔میں گاہے گاہے گپ شپ کے لیے اور مشوروں کے لیے ان کے پاس درہ آدم خیل جاتا ۔بہر حال ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے میں نے کیمیکلز کا کا روبار شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں یہ اپنی نوعیت کی تیسری اور کوہاٹ میں واحد دکان تھی بہت کامیابی ہوئی ۔ بے پناہ پیسہ کمایا ڈیرہ اسماعیل خان کی آخری سرحد پروہا سے لے کر دیر ، لنڈیکوتل ، پارہ چنار ،وزیرستان اور مردان پشاور ایبٹ آباد تک میرے ٹھیکے چلتے تھے ۔ میرے مرحوم والد اور بڑی ہمشیرہ میرے کاروبار سے نا خوش تھے ۔کیونکہ بغیر رشوت دئے ٹھیکہ نہیں ملتا اور کیمیکلز و سا ئنسی آلات ، میں اتنی دھاندلی اور دو نمبری ہے کہ الاماں الحفیظ ۔ چونے کا پانی ، کیلشیم ہائیڈرو آکسائد کہلاتا ہے اور اس دور میں ۱۵ پیسےمیں بننے والی بوتل چالیس روپے کی بیچتا تھا ، اسی طرح پھتکڑی ،ایلم پوٹاش ، دھوبی سوڈا ، کیلشیم کاربونیٹ وغیرہ اس کے علاوہ زووالوجی لیبارٹری کے لئے محفوظ اور حنوط شدہ جانور ، ان کی علیحدہ داستان ہے ۔بلی کی کھالیں بھی سائنسی سامان بھی آتی تھی ۔ مضمون طویل ہو رہا ہے خیر اگر پڑھنا چاہیں تو قسطوں میں پڑھ لیجیے گا ۔ ایک دفعہ میران شاہ کے بیس مڈل سکولوں کے لئے ریڈی ایٹر کی ڈیمانڈ آئی میں نے اپنی دانست میں گاڑی کے ریڈیایٹر کے ٹن کے ماڈل کا اندزہ لگایا اور بتیس روپے فی کا ریٹ دے دیا یہ انہیں بیس درجن چاہیے تھے ریٹ منظور ہوگیاجب میں لاہور کے آبکاری روڈ ، انارکلی کی مارکیٹ میں گیا تو پتہ چلا کہ یہ شیشے کی ایک ٹیوب ہوتی ہے جو چھے روپے درجن ہے ۔ میں نے وہ سپلائی کردی منافع کا حساب آپ لگا لیں ۔ بہر حال والد مرحوم اور بڑی ہمشیرہ کی مخالفت کے باوجود میں یہ کاروبار کرتا رہا ۔ والدہ کا انتقال جب میں چھٹی جماعت کا امتحان دے رہا تھا اسی دور ہی میں ہوگیا تھا ۔بڑی ہمشیرہ جو شادی شدہ تھیں کہا کرتی تھیں کہ زبیر ایک وقت آئے گا کہ اس حرام کمائی کے باعث تمہاری دعا بھی قبول نہ ہو گی آپ یقین کریں کہ اس کاروبار میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کو سامان سپلائی کیا مگر گنتی کے دو تین مرد ایسے ملے جو رشوت نہ لیتے تھے باقی سب خوب دبا کر لیتے تھے اور خواتین میں سے صرف ایک خاتون ملیں جو کالج کی پرنسپل تھیں جنہوں نے رشوت لی باقی کسی نے نہ لی ۔ ۱۹۸۰ میں مجھے بھی اس حقیقت کا احساس ہوا کہ اتنے اچھے کاروبار سے کوئی جائداد وغیرہ بن نہیں رہی بس اچھا کھا پی کر ہی گزارہ ہو رہا ہے ۔ میں نے اللہ سے توبہ کی اور دعا کی کہ مجے کوئی اور کاروبار پر لگادے ۔ حالات نے پلٹہاکھایا اور میں نے جنرل سٹور کھول لیا ۔ کوہاٹ میں نیشنل فوڈز کی ڈسٹریبیوٹر شپ لی محنت کی صبح سات بجے دکان کھولتا اور رات گیارہ بجے بند کرتا ۔ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے بہت ذمہ داری تھی کاروبا ر سے اخراجات اچھی طرح پورے ہو رہے تھے بہنٰیں ایم فل اور ماسٹرز وغیرہ کررہی تھیں یونیورسٹی پشاور میں تھی ہاسٹل اور تعلیمی اخراجات اللہ کی مدد سے پورے ہورہے تھے والد صاحب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے اور میں ابھی تک میٹرک کا میٹرک ۔ دوست احباب اور تعلیمی اداروں کے پرانے گاہک مجھے بہت کہتے کہ ساتھ ساتھ ٹھیکیداری بھی کرتے رہو یہ ایک ایسا ٹیکنیکل کام تھا جو تجربے ہی سے آتا ہے مگر میں انکار کرتا رہا ۔ ۱۹۸۱ آگیا میں نے سوچا کہ ایف اے کر ہی لوں ا۹۸۲ میں میٹرک کے چودہ سال بعد میں نے ایف کیا کتنا وقت برباد ہوا حساب آپ کریں اور ۱۹۸۴ میں پشاور یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا ۔ ۱۹۸۳ میں میری دکان کی روزانہ کی سیل چار ہزار سے اوپر ہوتی اور نیشنل فوڈز کی آمدن علیحدہ تھی معقول آمدن تھی دوستوں کی ترغیب کی وجہ سے میں نے دوبارہ پانچ چھے ٹھیکے لے لئے ۔ اب اللہ کی قدرت دیکھیے کہ جس دکان سے میں روزانہ چار پانچ ہزار کی سیل لے کر جاتا ایک دن میں صرف چالیس روپے یعنی دس دس کے چار نوٹ لے کر رات کو گیا ۔ وجہ سمجھ میں یہی آئی کہ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ بندہ پھر گندگی اور غلاظت کیطرف جارہا ہے تو حلال کی کمائی بند کردی ۔ بڑا زور دار جھٹکا تھا ۔ خیر توبہ کا دروازہ تو بند نہیں ہوتا ۔ جیسے ہی ٹھیکے ختم ہوئے میں نے ہمیشہ کے لیے ٹھیکیداری چھوڑ دی ۔ اب قدرت نے کچھ اور منظر دکھائے کوہاٹ کے ایک اس دور کے کروڑ پتی تاجر کو جو بزرگ تھے اپنے بیٹے کی شادی کے موقعے پر کسی کی ہوائی فئر نگ کی وجہ سے پولیس نے گرفتار کر لیا ہتھکڑیاں لگائیں اور تھانے لے گئے گو کہ ان کی ضمانت ہو گئی لیکن مجھ پر شدید اثر ہوا کہ دکاندار کی کیا عزت ہے دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میرے سامنے کا دکاندار بیمار ہو گیا دکان بند ہو گئی خرچہ بڑھتے رہے اور آمدن ختم ہو گئی تو میں نے سوچا زبیر اگر تم بیمار ہو گئے تو یہ سارا کیا ہوگا میرا تو کوئی بھی نہ تھا والد صاحب ضعیف تھے۔ اسی دوران پاک فضائیہ میں ملازمت کا اشتہار آگیا ، تدریس کے لئے جونئر کمیشنڈ آ فیسر کی اسامیاں تھیں گریجویٹ مانگے تھے درخواست دی ٹیسٹ وغیرہ پاس کیے اور ۱۹۸۵ میں پاک فضا ئیہ میں بھرتی ہو گیا ۔شعبہ تدریس تھا ۱۹۹۴ میں بی اے کے تقریباً دس سال بعد اردو میں ایم اے کیا بعد میں فضائیہ کے تعلقات عامہ شعبے میںآ گیا جہاں سے ۲۰۰۸ میں اعزازی فلائیٹ لیفٹنٹ کے طور پر ریٹائر ہوا ۔ اللہ کا شکر ہے اب میری اولاد مکمل حلال کمائی پر پرورش پا رہی ہے گو کہ جائداد نام کی کوئی شے نہیں مگر سکون ہے۔ میں نے جو سیکھا وہ یہ کہ ہر امر کا ایک وقت مقرر ہے جو اس وقت واقعہ ہوتا ہے کوشش فرض ہے کہ نہ جانے وہ وقت کب ہو ۔حلال کی کمائی میں جو سکوں اور عزت ہے وہ حرام میں نہیں ہے کسی کی حق تلفی نہ کریں آپ کی حق کی حفاظت اللہ کرتا ہے ۔ کسی ظاہری حیثیت کو مت دیکھیں ہو سکتا ہے وہ شخص آپ سے زیادہ خوبیوں کا مالک ہو کیونکہ اللہ تبارک ٰ تعالیٰ انسان کو وہ تمام صلا حیتیں عطا کر کے اس دنیا میں بھیجتے ہیں جو اس کے زندگی کے سفر میں کام آتی ہیں
بہت ہی پیار ےساتھیو ! آپ نے میری سر گزشت پڑھی یقیناً دل گردے کا کام ہے ایک بوڑھے کی اتنی لمبی داستان پڑھنا ۔اس کے لیے میں آ پ کا بے حد مشکور ہوں ۔ اللہ آپ سب کےحلال رزق میں کشادگی عطا فرمائے اور دونوں جہانوں کی کامیابیاں اور خوشیاں عطا فرمائے اور میرا سفر آسان کردے (آمین) آج چھے ستمبر کو میری بیٹی سیدہ آمنہ بتول کی ۲۳ ویں سالگرہ ہے اس کے متعلق میں اگلے ماہ تحریر کرونگا بشرط زندگی۔
 

نیلم

محفلین
آپ کی بات سے مجھےبھی اپنی کچھ دن پہلےکی بات یادآگئی .باقی سب کو شائد بہت عام سی لگے .
میں اور میری سسٹر بازار میں تھے تو وہاں ایک گداگر عورت اور اُس کےساتھ ایک سپیشل پرسن تھا.اور وہ میرے پاس آئےاور مجھ سےپیسےمانگےمیں نے10 کا نوٹ نکال کے اُس کودیااور وہ چلے گئے.پھر کچھ دن بعدمیں اور میری سسٹر پھر بازار گہیں تو وہ ہی گداگر مجھےدوبارہ نظر آئے.لیکن اس بار میں نے اپنے دل میں سوچاکہ ان کوتو میں نے پہلے بھی خیرات دی تھی.اور میرےدل میں یہ بات آئی کہ مستحق کو پیسے دینے سے پیسوں میں کمی نہیں آتی بلکہ ڈبل ہوکےواپس ملتےہیں.تو مجھے تو نہیں ملے.اور ابھی میں یہ بات سوچ کےچند قدم آگےبڑھی تھی کہ میں نے دیکھاکہ 20 کا نوٹ زمین پہ میرے پاوں کےپاس پڑھا ہوا ہے.میں اپنے دل میں فورا شرمندہ ہوئی کہ میں نےوہ پیسے ڈبل کی لالچ میں نہیں دیےتھےلیکن پھربھی میرے دماغ میں یہ بات کیوں آئی. اور وہ نوٹ اُٹھالیاکہ یہ میں اُسی ماں بیٹے کو دوں گی.میں اُنھیں ڈھونڈتی رہی.لیکن اُس دن وہ مجھے دوبارہ نہیں ملے.
واقعی اللہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہےکوئی وسوسہ بھی ہمارےدل میں آتاہےوہ اُس سے بھی باخبر ہے.
محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، مغل ، نایاب ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا بہت شکریہ ، آپ کی حوصلہ افزائی سے ایک اور واقعہ سناتا چلوں یار یہ جو ہم جیسے بوڑھے ہتے ہیں نا انہیں واقعات سنانے کی عادت ہوتی ہے اور آپ جیسے بچے بعض اوقات مجبوراً سنتے رہتے ہیں ۔ اور اردو محفل تو ایک ایسا فورم ہے کہ آ پ بولتے رہیں ۔ بہر حال یہ جو واقعہ سنا رہا ہوں یہ سبق آموز ہے​
یہ ۱۹۹۳ کی بات ہے میں ملازمت کے سلسلے میں ملیر کینٹ کراچی میں مقیم تھا ۔۔تنخواہ کم تھی اور ہر ملازم کیطرح مہینے کے آخر میں تو حالات نازک ہی ہوتے ہیں ایسے ہی شائد مہینے کی بیس تاریخ تھی جیب میں ایک پچاس کا نوٹ تھا یا شائد گھر میں کچھ سکے ہوں ۔ عصر کی نماز مسجد میں ادا کر رہا تھا کہ نظر ایک ضعیف نادار شخص پر پڑی ۔میرے دل میں ایک دم ایک خیال ؤیا اور میں نے وہ پچاس کا نوٹ اس کو دے دیا حالانکہ وہ گدا گر نہ تھا اور اللہ سے عرض کی کہ مولا ! اب تو اپنا وعدہ پورا کر اور مجھے دس گنا عطا فرما ۔​
اگلے دن جب میں دفتر گیا تو دس گارہ بجے کے قریب ٹی سی ایس والا آیا اور کوہاٹ سے والد صاحب کا ایک لفافہ دے گیا کھول کر دیکھا تو اس میں ایک ہزار کا نوٹ تھا ۔ حالانکہ میں نے کبھی اپنی تنگ دستی کا ذکر والد مر حوم سے نہ کیا تھا آج کل تو ٹی سی ایس سے رقم نہیں جاتی اس وقت شائد سکیننگ مشین نہ تھی ۔ اب ایک جانب تو پیسے مل جانے کی خوشی تھی اور جانب وہ تشکر کے جذبات تھے کہ کس طرح میرے خالق نے اپنے انتہائی گنہگار بے بس بندے کی لاج رکھی​
ساتھیوں سے درخواست ہے کہ اب حوصلہ افزائی نہ فرمائیں ورنہ داستانوں کے صفحات کھلتے جائیں گے​
اللہ محفل کے تمام ساتھیوں کو دونوں جہانوں کی خوشیں اور نعمتیں عطا فرمائے (آمین)​
 

نیلم

محفلین
نیلم لکھا کریں جو پڑھتے ہیں وہ لکھتے ہیں جو لکھتے ہیں وہ پڑھتے ہیں
کیتھارسس صحت کے لیے ضروری ہے ۔ خوش نصیب ہیں جنہیں پڑھنے اور سننے والا کوئی اور پھر اس مصروف دور میں مل جائے ۔ ضرور لکھیں ۔ دیواروں سے باتیں کرنا اچھا نہیں ہوتا ۔ لکھیں اور خوب لکھیں
یہ میرےلیے ہے یا نایاب بھائی کے لیے؟سٹارٹ میں نام تو میرا ہےلیکن اقتباس نایاب بھائی کا؟کچھ سمجھ نہیں آیا.معذرت کے ساتھ
 

سید زبیر

محفلین
آپ کی بات سے مجھےبھی اپنی کچھ دن پہلےکی بات یادآگئی .باقی سب کو شائد بہت عام سی لگے .
میں اور میری سسٹر بازار میں تھے تو وہاں ایک گداگر عورت اور اُس کےساتھ ایک سپیشل پرسن تھا.اور وہ میرے پاس آئےاور مجھ سےپیسےمانگےمیں نے10 کا نوٹ نکال کے اُس کودیااور وہ چلے گئے.پھر کچھ دن بعدمیں اور میری سسٹر پھر بازار گہیں تو وہ ہی گداگر مجھےدوبارہ نظر آئے.لیکن اس بار میں نے اپنے دل میں سوچاکہ ان کوتو میں نے پہلے بھی خیرات دی تھی.اور میرےدل میں یہ بات آئی کہ مستحق کو پیسے دینے سے پیسوں میں کمی نہیں آتی بلکہ ڈبل ہوکےواپس ملتےہیں.تو مجھے تو نہیں ملے.اور ابھی میں یہ بات سوچ کےچند قدم آگےبڑھی تھی کہ میں نے دیکھاکہ 20 کا نوٹ زمین پہ میرے پاوں کےپاس پڑھا ہوا ہے.میں اپنے دل میں فورا شرمندہ ہوئی اور وہ نوٹ اُٹھالیاکہ یہ میں اُسی ماں بیٹے کو دوں گی.میں اُنھیں ڈھونڈتی رہی.لیکن اُس دن وہ مجھے دوبارہ نہیں ملے.
واقعی اللہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہےکوئی وسوسہ بھی ہمارےدل میں آتاہےوہ اُس سے بھی باخبر ہے.

بیٹا رانی اپنوں کو کبھی نہ آزمانا ۔ رب تو اپنا ہے لاڈ دکھاو ۔ بھروسہ کامل کرو مگر محتاط ہوکر اللہ آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے
 

نیلم

محفلین
بیٹا رانی اپنوں کو کبھی نہ آزمانا ۔ رب تو اپنا ہے لاڈ دکھاو ۔ بھروسہ کامل کرو مگر محتاط ہوکر اللہ آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے
آمین .پیسےدیتےہوئےمیرےدل میں یہ نیت بلکل نہیں تھی کہ مجھےڈبل چاہیے.میں کون سا بہت بڑی رقم دے رہی تھی .لیکن شیطان بھی توہےنہ جو ہمیں ہر وقت بہکاتارہتاہے.بہت خوبصورت بات کی آپ نے،بہت شکریہ
 

باباجی

محفلین
محترم شمشاد ، رانا ، تعبیر ، محمود احمد غزنوی ، گمنام زندگی ، نیرنگ خیال ، فرحت کیانی ،یوسف ثانی ،مغل ، نایاب ، نیلم ، بابا جی اور عزیزم فاتح ! سچ بیتی کی پسندیدگی کا اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ ،
آج جو اپنی زندگی کا پورا ورق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں آپ جیسے نوجوانوں کے لیے بہت سبق ہے
۱۹۶۸ میں میں نے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۲ سےمیٹرک کیا اور گونمنٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لے لیا یہ دور پاکستان میں سیاست کے آغاز کا دور تھا ہر طرف ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہورہے تھے کیا مشرقی پاکستان اور کیا مغربی پاکستان ، ہمارا نیا نیا خون تھا میری عمر پندرہ سال کی تھی مگر آج کے بچوں کی طرح پپو بچہ نہ تھا سٹریٹ لرننگ بہت تھی ہاں زندگی میں سٹریٹ لرننگ بہت کام آتی ہے آج کی سیاست میں آصف زرداری ، رحمان ملک اور الطاف حسین کو یہ علم حاصل ہے جبکہ بیشتر سیاستدان ،ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے ہیں۔ ہاں تو بات ہورہی تھی داخلہ لینے کے بعد ہم بھی اسی کو اپنی زندگی سمجھے اور اپنے مقصد سے دور ہوتے گئے نتیجہ یہ نکلا جو ایف اے ۱۹۷۰ میں کرنا تھا وہ ۱۹۷۲ تک نہ ہوسکا اور میٹرک کے میٹرک ہی رہے ۔آخر تعلیم کو خیر آباد کہا اور فرنٹیر کیمیکلز کے نام سے سائنسی آلات اور کیمیکلز کی دکان کھول لی ۔ یہا ں آپ کو عجیب بات بتاوں ہم بعض دفعہ آدمی کے ظاہر کو دیکھ کر بہت غلط اندازہ لگا لیتے ہیں ۔ جن صاحب نے مجھے اس دکان کا مشورہ دیا تھا وہ درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کرتے تھے اس زمانے میں درہ آدم خیل اسلحے کے لئے ملک اور بیرون ملک مشہور تھا ۔ ان صاحب کی سفید ڈاڑھی آنکھوں سے تھوڑا نیچے سے شروع ہوتی تھی اور کنگ سٹارک کی سگریٹ پیتے تھے ۔ان سے ملاقات لاہور میں اپننے چچا کی ورکشاپ میں ہوئی وہ وہاں اپنی کوئی مشین بنانے آئے تھے مزے کی بات بتاوں چچا نے دوران گفتگو کوئی لفظ انگریزی کا بول دیا تو ان صاحب نے اپنے چار دن کے قیام میں ایک لفظ اردو کا نہیں بولا انگریزی ہی میں گفتگو کرتے انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا یہ عبد الرحمان آفریدی پٹھان مجھ سے بہت شفقت سے ملا ۔میں گاہے گاہے گپ شپ کے لیے اور مشوروں کے لیے ان کے پاس درہ آدم خیل جاتا ۔بہر حال ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے میں نے کیمیکلز کا کا روبار شروع کیا۔ صوبہ سرحد میں یہ اپنی نوعیت کی تیسری اور کوہاٹ میں واحد دکان تھی بہت کامیابی ہوئی ۔ بے پناہ پیسہ کمایا ڈیرہ اسماعیل خان کی آخری سرحد پروہا سے لے کر دیر ، لنڈیکوتل ، پارہ چنار ،وزیرستان اور مردان پشاور ایبٹ آباد تک میرے ٹھیکے چلتے تھے ۔ میرے مرحوم والد اور بڑی ہمشیرہ میرے کاروبار سے نا خوش تھے ۔کیونکہ بغیر رشوت دئے ٹھیکہ نہیں ملتا اور کیمیکلز و سا ئنسی آلات ، میں اتنی دھاندلی اور دو نمبری ہے کہ الاماں الحفیظ ۔ چونے کا پانی ، کیلشیم ہائیڈرو آکسائد کہلاتا ہے اور اس دور میں ۱۵ پیسےمیں بننے والی بوتل چالیس روپے کی بیچتا تھا ، اسی طرح پھتکڑی ،ایلم پوٹاش ، دھوبی سوڈا ، کیلشیم کاربونیٹ وغیرہ اس کے علاوہ زووالوجی لیبارٹری کے لئے محفوظ اور حنوط شدہ جانور ، ان کی علیحدہ داستان ہے ۔بلی کی کھالیں بھی سائنسی سامان بھی آتی تھی ۔ مضمون طویل ہو رہا ہے خیر اگر پڑھنا چاہیں تو قسطوں میں پڑھ لیجیے گا ۔ ایک دفعہ میران شاہ کے بیس مڈل سکولوں کے لئے ریڈی ایٹر کی ڈیمانڈ آئی میں نے اپنی دانست میں گاڑی کے ریڈیایٹر کے ٹن کے ماڈل کا اندزہ لگایا اور بتیس روپے فی کا ریٹ دے دیا یہ انہیں بیس درجن چاہیے تھے ریٹ منظور ہوگیاجب میں لاہور کے آبکاری روڈ ، انارکلی کی مارکیٹ میں گیا تو پتہ چلا کہ یہ شیشے کی ایک ٹیوب ہوتی ہے جو چھے روپے درجن ہے ۔ میں نے وہ سپلائی کردی منافع کا حساب آپ لگا لیں ۔ بہر حال والد مرحوم اور بڑی ہمشیرہ کی مخالفت کے باوجود میں یہ کاروبار کرتا رہا ۔ والدہ کا انتقال جب میں چھٹی جماعت کا امتحان دے رہا تھا اسی دور ہی میں ہوگیا تھا ۔بڑی ہمشیرہ جو شادی شدہ تھیں کہا کرتی تھیں کہ زبیر ایک وقت آئے گا کہ اس حرام کمائی کے باعث تمہاری دعا بھی قبول نہ ہو گی آپ یقین کریں کہ اس کاروبار میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کو سامان سپلائی کیا مگر گنتی کے دو تین مرد ایسے ملے جو رشوت نہ لیتے تھے باقی سب خوب دبا کر لیتے تھے اور خواتین میں سے صرف ایک خاتون ملیں جو کالج کی پرنسپل تھیں جنہوں نے رشوت لی باقی کسی نے نہ لی ۔ ۱۹۸۰ میں مجھے بھی اس حقیقت کا احساس ہوا کہ اتنے اچھے کاروبار سے کوئی جائداد وغیرہ بن نہیں رہی بس اچھا کھا پی کر ہی گزارہ ہو رہا ہے ۔ میں نے اللہ سے توبہ کی اور دعا کی کہ مجے کوئی اور کاروبار پر لگادے ۔ حالات نے پلٹہاکھایا اور میں نے جنرل سٹور کھول لیا ۔ کوہاٹ میں نیشنل فوڈز کی ڈسٹریبیوٹر شپ لی محنت کی صبح سات بجے دکان کھولتا اور رات گیارہ بجے بند کرتا ۔ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے بہت ذمہ داری تھی کاروبا ر سے اخراجات اچھی طرح پورے ہو رہے تھے بہنٰیں ایم فل اور ماسٹرز وغیرہ کررہی تھیں یونیورسٹی پشاور میں تھی ہاسٹل اور تعلیمی اخراجات اللہ کی مدد سے پورے ہورہے تھے والد صاحب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے اور میں ابھی تک میٹرک کا میٹرک ۔ دوست احباب اور تعلیمی اداروں کے پرانے گاہک مجھے بہت کہتے کہ ساتھ ساتھ ٹھیکیداری بھی کرتے رہو یہ ایک ایسا ٹیکنیکل کام تھا جو تجربے ہی سے آتا ہے مگر میں انکار کرتا رہا ۔ ۱۹۸۱ آگیا میں نے سوچا کہ ایف اے کر ہی لوں ا۹۸۲ میں میٹرک کے چودہ سال بعد میں نے ایف کیا کتنا وقت برباد ہوا حساب آپ کریں اور ۱۹۸۴ میں پشاور یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا ۔ ۱۹۸۳ میں میری دکان کی روزانہ کی سیل چار ہزار سے اوپر ہوتی اور نیشنل فوڈز کی آمدن علیحدہ تھی معقول آمدن تھی دوستوں کی ترغیب کی وجہ سے میں نے دوبارہ پانچ چھے ٹھیکے لے لئے ۔ اب اللہ کی قدرت دیکھیے کہ جس دکان سے میں روزانہ چار پانچ ہزار کی سیل لے کر جاتا ایک دن میں صرف چالیس روپے یعنی دس دس کے چار نوٹ لے کر رات کو گیا ۔ وجہ سمجھ میں یہی آئی کہ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ بندہ پھر گندگی اور غلاظت کیطرف جارہا ہے تو حلال کی کمائی بند کردی ۔ بڑا زور دار جھٹکا تھا ۔ خیر توبہ کا دروازہ تو بند نہیں ہوتا ۔ جیسے ہی ٹھیکے ختم ہوئے میں نے ہمیشہ کے لیے ٹھیکیداری چھوڑ دی ۔ اب قدرت نے کچھ اور منظر دکھائے کوہاٹ کے ایک اس دور کے کروڑ پتی تاجر کو جو بزرگ تھے اپنے بیٹے کی شادی کے موقعے پر کسی کی ہوائی فئر نگ کی وجہ سے پولیس نے گرفتار کر لیا ہتھکڑیاں لگائیں اور تھانے لے گئے گو کہ ان کی ضمانت ہو گئی لیکن مجھ پر شدید اثر ہوا کہ دکاندار کی کیا عزت ہے دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میرے سامنے کا دکاندار بیمار ہو گیا دکان بند ہو گئی خرچہ بڑھتے رہے اور آمدن ختم ہو گئی تو میں نے سوچا زبیر اگر تم بیمار ہو گئے تو یہ سارا کیا ہوگا میرا تو کوئی بھی نہ تھا والد صاحب ضعیف تھے۔ اسی دوران پاک فضائیہ میں ملازمت کا اشتہار آگیا ، تدریس کے لئے جونئر کمیشنڈ آ فیسر کی اسامیاں تھیں گریجویٹ مانگے تھے درخواست دی ٹیسٹ وغیرہ پاس کیے اور ۱۹۸۵ میں پاک فضا ئیہ میں بھرتی ہو گیا ۔شعبہ تدریس تھا ۱۹۹۴ میں بی اے کے تقریباً دس سال بعد اردو میں ایم اے کیا بعد میں فضائیہ کے تعلقات عامہ شعبے میںآ گیا جہاں سے ۲۰۰۸ میں اعزازی فلائیٹ لیفٹنٹ کے طور پر ریٹائر ہوا ۔ اللہ کا شکر ہے اب میری اولاد مکمل حلال کمائی پر پرورش پا رہی ہے گو کہ جائداد نام کی کوئی شے نہیں مگر سکون ہے۔ میں نے جو سیکھا وہ یہ کہ ہر امر کا ایک وقت مقرر ہے جو اس وقت واقعہ ہوتا ہے کوشش فرض ہے کہ نہ جانے وہ وقت کب ہو ۔حلال کی کمائی میں جو سکوں اور عزت ہے وہ حرام میں نہیں ہے کسی کی حق تلفی نہ کریں آپ کی حق کی حفاظت اللہ کرتا ہے ۔ کسی ظاہری حیثیت کو مت دیکھیں ہو سکتا ہے وہ شخص آپ سے زیادہ خوبیوں کا مالک ہو کیونکہ اللہ تبارک ٰ تعالیٰ انسان کو وہ تمام صلا حیتیں عطا کر کے اس دنیا میں بھیجتے ہیں جو اس کے زندگی کے سفر میں کام آتی ہیں
بہت ہی پیار ےساتھیو ! آپ نے میری سر گزشت پڑھی یقیناً دل گردے کا کام ہے ایک بوڑھے کی اتنی لمبی داستان پڑھنا ۔اس کے لیے میں آ پ کا بے حد مشکور ہوں ۔ اللہ آپ سب کےحلال رزق میں کشادگی عطا فرمائے اور دونوں جہانوں کی کامیابیاں اور خوشیاں عطا فرمائے اور میرا سفر آسان کردے (آمین) آج چھے ستمبر کو میری بیٹی سیدہ آمنہ بتول کی ۲۳ ویں سالگرہ ہے اس کے متعلق میں اگلے ماہ تحریر کرونگا بشرط زندگی۔

بہت خوب سّید صاحب
بے شک سچ کا بہت اثر ہوتا ہے۔مجھ پر بہت اثر ہوا اور یقیناً اس کو پڑھنے والے تمام قارئین پر ہوگا
اللہ آپ کو خوش رکھے اور صحت عطا فرمائے سیّد صاحب آپ کی یہ سچ بیتیاں پڑھنے کے لیئے بیتابی بڑھتی جا رہی ہے
آپ سے درخواست ہے کہ آپ یہ سلسلہ جاری رکھیے گا
اور ہماری طرف سے آپ کی گڑیا کو سالگرہ مبارک
 

باباجی

محفلین
آپ کی بات سے مجھےبھی اپنی کچھ دن پہلےکی بات یادآگئی .باقی سب کو شائد بہت عام سی لگے .
میں اور میری سسٹر بازار میں تھے تو وہاں ایک گداگر عورت اور اُس کےساتھ ایک سپیشل پرسن تھا.اور وہ میرے پاس آئےاور مجھ سےپیسےمانگےمیں نے10 کا نوٹ نکال کے اُس کودیااور وہ چلے گئے.پھر کچھ دن بعدمیں اور میری سسٹر پھر بازار گہیں تو وہ ہی گداگر مجھےدوبارہ نظر آئے.لیکن اس بار میں نے اپنے دل میں سوچاکہ ان کوتو میں نے پہلے بھی خیرات دی تھی.اور میرےدل میں یہ بات آئی کہ مستحق کو پیسے دینے سے پیسوں میں کمی نہیں آتی بلکہ ڈبل ہوکےواپس ملتےہیں.تو مجھے تو نہیں ملے.اور ابھی میں یہ بات سوچ کےچند قدم آگےبڑھی تھی کہ میں نے دیکھاکہ 20 کا نوٹ زمین پہ میرے پاوں کےپاس پڑھا ہوا ہے.میں اپنے دل میں فورا شرمندہ ہوئی کہ میں نےوہ پیسے ڈبل کی لالچ میں نہیں دیےتھےلیکن پھربھی میرے دماغ میں یہ بات کیوں آئی. اور وہ نوٹ اُٹھالیاکہ یہ میں اُسی ماں بیٹے کو دوں گی.میں اُنھیں ڈھونڈتی رہی.لیکن اُس دن وہ مجھے دوبارہ نہیں ملے.
واقعی اللہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہےکوئی وسوسہ بھی ہمارےدل میں آتاہےوہ اُس سے بھی باخبر ہے.
بہت مفید سبق ملا آپ کو
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوب سّید صاحب
بے شک سچ کا بہت اثر ہوتا ہے۔مجھ پر بہت اثر ہوا اور یقیناً اس کو پڑھنے والے تمام قارئین پر ہوگا
اللہ آپ کو خوش رکھے اور صحت عطا فرمائے سیّد صاحب آپ کی یہ سچ بیتیاں پڑھنے کے لیئے بیتابی بڑھتی جا رہی ہے
آپ سے درخواست ہے کہ آپ یہ سلسلہ جاری رکھیے گا
اور ہماری طرف سے آپ کی گڑیا کو سالگرہ مبارک:cry:
شکریہ میری جان یہ کہانی پھر سہی
 

عاطف بٹ

محفلین
لیجئے میری ایک دلچسپ سچ بیتی پیش خدمت ہے!

دنیا ٹیلیویژن میں ملازمت پر آئے کچھ ہی روز گزرے تھے تو پتہ چلا کہ ابا جی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک لنگوٹیا دوست یہاں انتظامیہ میں کسی اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ ایک روز ان سے سرِراہ ملاقات ہوئی تو میں نے سلام کیا اور حال احوال پوچھا۔ میں اپنی 'افسر مخالف طبیعت' کی وجہ سے اس ملاقات سے پہلے یا اس کے بعد انہیں کبھی نہیں ملا۔ کچھ دنوں کے بعد ابا جی کا فون آیا۔ میں نے فون اٹھا کر سلام کیا جس کا جواب دینے کے فورآ بعد ابا حضور نے بتایا کہ ان کے پاس فلاں صاحب آئے تھے۔ اب میں نے جان بخشی کے لئے فوری طور پر کہا کہ میں دفتر میں بہت زیادہ مصروف ہوتا ہوں اس لئے ان سے آج تک صرف ایک ہی بار ملاقات ہو پائی ہے۔ ابا جی بولے، جو لوگ ہماری عزت کرتے ہیں ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہئے، آج وہ جس وقت بھی دفتر آئیں تم ان کے کمرے میں جا کر ان سے معافی مانگو گے اور اس کے بعد مجھے فون کرکے بتاؤ گے۔ میرے پاس حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔
وہ صاحب دفتر آئے تو میں ان کے کمرے میں گیا جہاں ان سمیت چار پانچ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے جا کر سلام کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہی کہا، توں اپنے آپ نوں کی سمجھنا ایں؟
میں نے کہا، کجھ وی نئیں، میں اپنی غلطی تے شرمندہ واں تے معافی منگن آیا واں۔
وہ بولے، میں بچپن توں تیری دادی تے اپنی ماں چہ کوئی فرق نئیں کیتا کدی، تیرے ابو تے میں آپس چہ سکے بھراواں طرحاں واں تے توں ایڈا وڈا ہوگیا ایں کہ توں مینوں سلام تک نئیں کیتا اج تک۔
میں نے دوبارہ کہا، میں واقعی شرمندہ واں، مینوں انج نئیں سی کرنا چاہی دا، میں معافی منگنا واں۔
انہوں نے کہا، مینوں اج ملے سن تیرے ابو تے میں اونہاں نوں کہیا کہ تسی دس دیو کہ چاچا میں واں کہ اوہ، ساڈے دونہاں چوں وڈا کون اے، جے اوہ وڈا اے تے میں روز جا کے سلام کرلواں کراں گا اونہوں۔
میں نے تیسری بار ان کے حضور درخواست کی، مینوں احساس اے کہ میں غلط کیتا اے ایسے لئی معافی منگن آیا واں۔
وہ بولے، اچھا ٹھیک اے، چل جا!!!
اپنی سیٹ پر آ کر ہدایات کے مطابق ابا جی کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ میں نے معافی مانگ لی ہے اور یہ سن کر وہ خوش ہوئے تو میری جان میں جان آئی۔۔۔
 

باباجی

محفلین
جناب syed Zubair کی کہانی سے مجھے کچھ یاد آگیا
اس میں جو مرکزی کردار ہے میں ان کا نام نہیں بتاؤں گا کیونکہ پردہ رکھنا اللہ کا حکم ہے
یہ بات میں صرف عبرت حاصل کرنے کے لیئے آپ حضرات کے گوش گزار رہا ہوں نہ کہ کسی کی تضحیک کے لیئے ۔

تو جناب
یہ بات تب کی ہے جب ہم لوگ کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں رہا کرتے تھے ۔ ہمارے پڑوس میں ایک فیملی رہا کرتی تھی ۔
ماشاءاللہ بہت خوشحال لوگ تھے۔ ہمارے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ انکل کے پاس بڑی گاڑی تھی اور اکثر میری اور ان کی فیملی
کوئی نہ کوئی گھومنے پھرنے کا پروگرام بناتے تھے۔
پھر ہم لوگ دوسرے علاقے میں شفٹ ہوگئے اور ملنا ملانا کم ہوتے ہوتے بلاآخر نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ اور پھر تو جناب ان کی فیملی کے ساتھ
سمجھیں بدقسمتی کا ایسا دور شروع ہوا جو شاید آج بھی جاری ہے ۔
وہ انکل کراچی میں ایک سرکاری محکمہ میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے خوب رشوت لی اور ناجائز کمائی کی اور شاید آج بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم دلوائی اور شہر کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں اچھی خاصی رقوم خرچ کرکے پڑھایا۔
ان کا بڑا بیٹا مزید تعلیم کے لیئے کینیڈا گیا اور وہیں سیٹل ہوگیا اور آج تک واپس نہیں آیا۔
ان کی بیوی ان سے لڑکر علیحدہ ہوگئی۔
ان ایک ہی بیٹی ہے اس نے اپنے باپ سے بھی بڑی عمر کے ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر سے پسند کی شادی کرلی اور کچھ عرصے بعد
طلاق کا داٖغ اور اپنی کچھ مہینے کی بیٹی کو لے کر اپنی والدہ کے پاس آگئی۔
ان کے دوسرے بیٹے نے انجینئرنگ میں اعلٰی ڈگری حاصل کی اور ایک سرکاری ادارے میں اعلٰی جاب حاصل کی لیکن اچانک اس کا
ذہنی توازن خراب ہوگیا اور اسے کچھ ذہنی امراض کے ہسپتال میں رہنا پڑا۔اسے نوکری سے فارغ کردیا گیا۔
ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے باپ پر کئی دفعہ ہاتھ اٹھایا۔
انکل کو فالج ہوا جس کی وجہ وہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتے۔

تو مجھے یہ سب لقمہ حرام کا نتیجہ نظر آتا ہے اور میں کانپ کے رہ جاتا ہوں۔
اور اللہ کا صد لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس نے اپنے کرم سے آج تک ناجائز کمائی سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اللہ ہم سب کو لقمہ حرام کھانے اور کمانے سے محفوظ رکھے۔
 
Top