طالبان کے تحت آج ان علاقوں کی صورتحال

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
ہم لوگ سوئے ہوئے ہیں اور اپنی طرف بڑھتے ہوئے فتنوں کو دیکھنے کے قابل نہیں۔ بلکہ دیکھتے ہیں تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔

میں بات کا آغاز آج جنگ اخبار کے ادارئیے سے کر رہی ہوں۔ بات کی اہمیت کے پیش نظر صرف لنک دینے کی بجائے میں اسے پورا ادھر پیش کر رہی ہوں، کیونکہ ان میں بہت سے نکات پر مجھے تبصرہ کرنا ہے۔

///////////////////////////////////////


صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں شرپسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں تشویشناک رخ اختیار کرتی نظر آرہی ہیں۔ خود کو مقامی طالبان کہنے والے عناصر بعض قبائلی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ جنڈولہ جیسے نیم قبائلی علاقے اور سوات جیسے بندوبستی علاقے میں سیکورٹی فورسز، امن کمیٹی کے ارکان اور حکومت کے حامی قبائل پر جس انداز میں حملے کررہے ہیں وہ کسی منظم و مربوط منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کو تفتیش کیلئے لے جانے کے بہانے اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ صوبہ سرحد کے سب سے بڑے تدریسی ہسپتال سے مسیحی فرقے کے افراد کے اغوا کے واقعے کے بعد ان کی بحفاظت واپسی تو ہوگئی مگر عسکریت پسندوں کی طرف سے فوجی چھاؤنی کے علاقے تک اپنی رسائی کے اشارے صورت حال کی سنگینی ظاہر کررہے ہیں۔ ملک کے ایک حصے میں پائے جانے والے یہ سنگین حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ لوگ، خاص طور پر سیاسی عناصر معاملات کو صرف اپنی پارٹی اور گروپ کے مفادات کے حوالے سے دیکھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سالمیت اور صوبہ سرحد میں حکومتی عملداری مستحکم بنانے کی تدابیر پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں مل جل کر کام کریں۔
پچھلے کئی روز سے تواتر کے ساتھ ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں فریقین کے کئی درجن افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ چوکیوں پر حملوں کے بعد خاصہ دار فورس کے افراد کو اغوا کیا گیا ہے۔ سویلین افراد پر حملے کئے جارہے ہیں۔ پچھلے ہفتے قافلے کی صورت میں پارا چنار جانے والے جن آٹھ افراد کو اغوا کیا گیا تھا ان کو تشدد کے بعد ذبح کرکے لاشوں کے ٹکڑے سڑک پر پھینک دیئے گئے۔ ان افراد کا قصور صرف اتنا تھا کہ ان کے قبیلے نے حکومتی عملداری میں امن و امان کی بحالی کی حمایت کی ہے۔ جو لوگ اپنی تشریح کے مطابق اسلامی حمیت کو اپنی انتہا پسندانہ کارروائیوں کا جواز بتاتے ہیں، وہ اس قسم کی بہیمانہ حرکتیں کرکے دنیا کے سامنے اسلام کی ایسی تصویر پیش کررہے ہیں جس کا دین متین سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ سیاسی ، نظریاتی یا دوسری نوعیت کے اختلافات کہاں نہیں ہوتے۔ لیکن ان کو بنیاد بنا کر انسانی جانوں سے کھیلنا انتہائی افسوسناک فعل ہے۔ پھر لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو سڑک پر پھینکنا بے حرمتی کی انتہا ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ قبائلی روایات میں اس کی گنجائش ہے۔ دین متین کی تعلیمات کے تحت تو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی لاشوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرز عمل سے بعض حلقوں کے اس شبہے کو تقویت پہنچتی ہے کہ گوانتانا موبے یا دوسرے مقامات سے تربیت لیکر آنے والے کچھ لوگ اسلام کا نام لیکر اور انتہا پسندانہ نعرے لگا کر ان قوتوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا اور عالم اسلام کو جنگ کا ایندھن بنانا چاہتی ہیں۔ اورکزئی ایجنسی کے مختلف مقامات سے بعض مبینہ سماج دشمن افراد کا اغوا کرکے جرائم کے خاتمے کی کوشش کا تاثر دیا گیا ہے مگر اس ساری کارروائی کے پس پردہ عناصر کا حقیقی مقصد حکومتی عملداری کو چیلنج کرنا معلوم ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کو سزا دینے کا دنیا بھر میں رائج اور اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی درست طریقہ یہ ہے کہ انہیں پکڑ کر حکومت کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکے۔ مگر خود کو طالبان یا علم دین کی طلب رکھنے والوں کا نام دینے والے عناصر نے ان میں سے چھ افراد کو قتل کرکے ان کی لاشیں اورکزئی ایجنسی کے علاقے غلجو بازارمیں پھینک دیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک اطلاع جنوبی وزیرستان سے ملحقہ نیم قبائلی علاقے جنڈولہ پر بیت اللہ محسود کے حامیوں کے مبینہ قبضے کی ہے۔ جبکہ خیبر ایجنسی میں پیر کے روز خاصہ دار فورس کی چیک پوسٹوں پر حملہ ایسے وقت کیا گیا جب اس سے چند گھنٹے قبل ایک سترہ سالہ نوجوان کی خودکش دھماکے کی کوشش ناکام بنا کر اسے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔ دوسری جانب سوات کی تحصیل مٹہ میں سیکورٹی فورسز کے قافلے پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد علاقے میں غیرمعینہ مدت کے لئے کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ کالا کوٹ ، چار باغ اور سمٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کئے گئے۔ چار سدہ سے دو افراد کو اغوا کرنے اور جمرود میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما مولانا گل رحیم کے قتل کی بھی اطلاعات ہیں۔
اگرچہ جنڈولہ میں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی آمد کے بعد اب عسکریت پسندوں کو پسپا ہونا پڑا ہے مگر صورت حال کی مجموعی سنگینی کا اندازہ قومی اسمبلی میں فاٹا اور صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ارکان کے ردعمل سے کیا جاسکتا ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ معاملات کو تدبر و ہوشمندی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے۔ ارکان کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے حالات کو بہتر رخ دینے میں مدد نہیں ملے گی بلکہ اس کا الٹا اثر ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان نے تو صوبہ سرحد کے ہاتھ سے نکلنے تک کے خدشات ظاہر کئے اور سرحد و بلوچستان کے حالات پر تفصیلی بحث کے لئے قومی اسمبلی کا بند کمرے کا اجلاس بلانے پر زور دیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ رحمٰن ملک نے نکتہ ہائے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر ہے اور ایک ہفتے کے اندر محدود آپریشن کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور کی صورت حال تشویشناک نہیں ہے، حکومت سو نہیں رہی ہے بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔

پہلا:
جنڈولہ میں امین کمیٹی کے 24 افراد کے مارے جانے پر بی بی سی کی رپورٹ یہاں پڑھیں طالبان انہیں قتل کر دینے کے اپنے سر سے یہ جرم ٹالنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے بھیجے گئے یہ امن کمیٹی کے اراکین لوٹ مار کر رہے تھے اس لیے طالبان نے انہیں پکڑ کر قتل کر دیا۔


دوسرا:
عیسائی برادری کے 25 لوگوں کا دن دھاڑے کھلے عام پشاور سے بنا کسی وجہ کے اغوا۔ وجہ ان انتہا پسندوں کا دوسری اقلیتوں کو وارننگ دینا کہ وہ یہ علاقے چھوڑ کر چلے جائیں، یا پھر انہیں کسی وقت بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔ ان اقلیتوں کے کوئی حقوق نہیں، اگر ہیں تو شاید زرد رنگ کے کپڑے انکا مقدر ہیں۔
مزید یہ کام پشاور میں فوجی چھاونی میں آ کر کیا گیا اور یہ بھی ایک وہ پیغام ہے جس پر مولانا فضل الرحمان اور دیگر سرجد اسمبلی کے اراکین نے توجہ دلائی ہے۔

تیسرا
امن کی بات چیت کے باوجود فوج پر حملے اور خاصہ دار فورس کے لوگوں کو اغوا کرنا


چوتھا
پچھلے ہفتے قافلے کی صورت میں پارا چنار جانے والے جن آٹھ افراد کو اغوا کیا گیا تھا ان کو تشدد کے بعد ذبح کرکے لاشوں کے ٹکڑے سڑک پر پھینک دیا گیا
اس سے قبل پاڑہ چنار جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر حملہ کر کے انہیں لوٹ لیا گیا اور 4 افراد کو قتل کر دیا گیا۔
[نوٹ: پشاور پاڑہ چنار جانے والی سڑک انتہا پسندوں کی وجہ سے کئی ماہ سے بند ہے ۔ مزید آگے ]


پانچواں
جماعت اسلامی کے مولانا گل رحیم صاحب کا انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ۔ درحقیقت اُن تمام افراد کی ان علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے جو کہ علاقوں میں طالبان کی بجائے قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔


چھٹا
انگلش اخبار "ڈان" کی خبر کہ انتہا پسند اپنی دہشت گرد کاروائیوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اب پشاور پر آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں۔
یہی خبر بی بی سی کے اردو سیکشن میں جہاں انہوں نے مزید بتایا ہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی نے طالبان کے ساتھ جتنے بھی امن معاہدے کرنے کی کوشش کی ہے وہ ویسے ہیں برباد ہوئی ہیں جیسا کہ پرویز مشرف صاحب کے دور میں طالبان کے ساتھ کیے گئے امن معاہدوں کے ساتھ ہوا۔
بی بی سی کی ہی پشاور کے حوالے سے ایک اور خبر "فوج کو طالبان کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار دے دیا گیا"



ساتواں
کرم ایجینسی میں انتہا پسندوں کی طرف سے پشاور پاڑہ چنار سڑک کی بندش۔
ہسپتالوں میں ادویات اور آکسیجن کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے کئی بچے ہلاک [رپورٹ بحوالہ جنگ اخبار] ۔۔۔ کیا یہ وہی رویہ نہیں کہ جس کی وجہ سے عراق میں کئی ہزار بچے ادویات کی کمی کی وجہ سے مارے گئے؟ مگر جب یہی کام یہ انتہا پسند کریں گے تو بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ کام حلال ہو جائے گا۔
انتہا پسندوں کا فیصلہ کہ اپر کرم ایجنسی سے کوئی اہل تشیع لوئر کرم ایجنسی نہیں آ سکتا۔ گورنمنٹ کی اہل تشیع افراد کو پیشکش کہ وہ پیسے دے کر ہیلی کاپٹروں سے اپنے گھروں کو جائیں۔
پاڑہ چنار جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر حملے [نوٹ: یہ ٹرک بہت ہمت کر کے فوج کی سرکردگی میں پاڑہ چنار سامان پہنچانا چاہ رہے تھے]۔ نتیجے میں چار ٹرک ڈرائیور ہلاک۔
کرم ایجنسی کی دس لاکھ آبادی، اپنے ہی ملک میں محصور۔
پاکستانی آٹا افغانستان تو سمگل ہو سکتا ہے، مگر اپنے ہی ملک کے ان دس لاکھ آبادی والوں کو اس آٹے کی منتقلی کی بندش۔
لنک

آٹھواں
انتہا پسندوں کے لڑکیوں کے سکولوں اور کالجز پر بموں سےحملے اور طالبات کے والدین کو دھمکیاں [ابن حسن برادر کے دلائل کا جواب اُن کے تھریڈ میں انشاء اللہ]۔
حجاموں اور سی ڈیز کی دکانوں پر بم حملے۔


نواں
دو تنظیموں کا آپس میں اس فاٹا علاقے میں ٹکراو۔ [ایک کا نام صدر الاسلام تھا اور دوسری کا نام ؟؟؟ [مجھے یاد نہیں۔ اگر کسی کے پاس اس خبر کا لنک ہے تو پلیز پوسٹ کیجئیے]۔
بہرحال، ان میں سے ایک بریلوی تنظیم ہے جبکہ دوسری طالبان کی حمایت یافتہ تنظیم۔
اور مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کے انتہا پسند اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت نہیں کر سکتے [ان میں دوسروں کے ساتھ Co-Exist کرنے کا کوئی مادہ نہیں۔ اب چاہے یہ عیسائی ہوں تو یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ اہل تشیع ہوں تو یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ بریلوی ہوں تب یہ انہیں ماریں گیں، اگر یہ اے این پی والے ہوں تب یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ پیپلز پارٹی والے ہوں تب یہ ان پر خود کش حملہ کریں گے، اگر یہ فوج کے جوان ہوں جو قانون کی بالادستی قائم کرنا چاہیں تو یہ انہیں ماریں گے۔ ۔۔۔۔
تو جس علاقے میں یہ طالبان انتہا پسند ہوں گے، وہاں صرف اور صرف یہ ہو سکتے ہیں اور باقی سب کا یہ قتل کر دیں گے۔
 

ساجداقبال

محفلین
آپکی بات بالکل بجا ہے کہ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے لیکن کیا آپکے ذہن میں‌ اسکا کوئی حل بھی ہے؟
کرم ایجنسی والا مسئلہ خالص فرقہ واریت کی پیداوار ہے۔ میں‌ شکر کرتا ہوں‌ کہ اسمیں طالبان انوالو نہیں ورنہ تباہی کہیں زیادہ ہوتی۔ وہاں‌ صرف اہل تشیع نہیں، اہلسنت سے بھی زیادتی ہوئی۔ وجہ ظاہر ہے دونوں فرقوں‌ میں‌ شرپسندوں کی موجودگی۔ جنہوں‌ نے دس لاکھ لوگوں کی جان کو عذاب ڈالا ہوا ہے۔ اس مسئلے پر ہمیشہ سے ماضی کی حکومتوں نے کچھ نہیں‌ کیا۔ اور مزید خوفناک یہ کہ فرقہ واریت کے ایک اور بڑے گڑھ ہنگو میں‌ بھی طالبان کی آمد ہو چکی ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
میں اسے الٹ سرخی جماتا ہوں:

مشرف کے تحت باقی ملک کی صورتحال

اس کے تحت مزید خیالات کا اظہار کیجئے۔
 

ساجداقبال

محفلین
میں اسے الٹ سرخی جماتا ہوں:

مشرف کے تحت باقی ملک کی صورتحال

اس کے تحت مزید خیالات کا اظہار کیجئے۔
حوصلہ جناب۔ بقول زرداری مشرف ماضی کا حصہ ہیں۔ سو موجودہ صورتحال کے زرداری ذمہ دار ہوئے۔ مشرف تو بار بار راشدقریشی کو پمز تیمارداری کے فون کر رہے ہونگے۔ ہاں‌ انکے نو سالہ دور سیاہ پر بات ضرور کی جائے۔
 
بھائی امریکہ کی طرف اب جو تگنی امداد ملنے والی ہے اس کو اب جگہ دینی ہوگی نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن پر پتھراؤ تو دوسری طرف جماعت اسلامی جماعت اسلامی جماعت اسلامی اور پھر آہستہ سے مولانا گل رحیم صاحب کا قتل اممممم آپس میں لڑاؤ اور تماشائی بنو مگر جو لوگ شیر کی شکار کے لیے جاتے ہیں وہ اپنے اوپر مکھیوں وغیرہ کو نہیں چھیڑتے ورنہ پھر انہی کے ساتھ لگے رہے اور شیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اس دن جنگ کی یہ خبر دیکھی تو ہر تیسرے فقرے کے بعد جماعت اسلامی کا نام تو بس ذہن میں ویسے ہی ایک شبہ پیدا ہونے لگا کہ مسلمانوں کو دوبارا آپس میں لڑانے کا ایک نیا چال چل رہا ہے

اللہ اکبر کبیرا میرا رب سب سے بہترین منصوبہ ساز ہے اے رب شہداء و مجاہدین اے میرے خالق و مالک تو بہترین منصوبہ ساز ہے تو کفر کے منصوبے انہی پر الٹا دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
یہ لوگ اسے قتال کا نام دیتے ہیں ۔ جہاں دلائل نہ ملیں بیرونی سازشیں کہ کر ذم داری ختم ۔ در حقیقت ان کا سب سے بڑا قصور ہے کہ انہوں نے مذھب کے لبادے میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ ہمارا مذھب تو ہمیں کسی غیر ملک میں بھی اس ملک کے قوانین کی اتباع کا حکم دیتا ہے جب تک کہ وہ قوانین براہ راست ہمارے دین سے متصادم نہ ہوں ۔ چہ جائیکہ اپنے ہی ملک میں ریاست در ریاست قائم کرنا ۔ لاقانونیت کو مذھب کا نام دے کر جائز قرار دینا ۔ ٹارگٹ کلنگ ۔ ڈکیتیاں ۔ اغوا ۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا ۔ عوام میں سے جتنے بھی بردبار افراد ہیں یا تھے انکا قتل کرنا ۔ امن کمیٹیوں کے افراد کا قتل ۔ سرکاری ہیلتھ ورکرز کا قتل ۔ افواج پاکستان کے ارکان کا قتل ۔ کسی کو بھی مخبری کے الزام میں قتل ۔ لوٹ مار کے الزام میں قتل ۔ غرضیکہ کون سی لاقانونیت ہے جو یہ ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الم۔۔۔۔۔۔۔ان نہیں کر رہے ۔ پھر دعویٰ کرتے ہیں جی ہم تو جہاد کر رہے ہیں ۔ کہاں کا جہاد کیسا جہاد ۔ یہ فس۔۔۔۔۔۔اد ہے ۔



ایک آیت مبارکہ کا اجمالی مفہوم درج ذیل ہے ۔

"اور جب ان سے کہاجاتا ہے کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں"
 
جی ہاں‌جہاد تو بے چارے امریکی کررہے ہیں جو ملکوں ملکوں‌ قبضہ کرکے جہاد کررہے ہیں۔ اور باقی جو مزاحمت کررہے ہیں وہ فساد۔
 
ہم لوگ سوئے ہوئے ہیں اور اپنی طرف بڑھتے ہوئے فتنوں کو دیکھنے کے قابل نہیں۔ بلکہ دیکھتے ہیں تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔

میں بات کا آغاز آج جنگ اخبار کے ادارئیے سے کر رہی ہوں۔ بات کی اہمیت کے پیش نظر صرف لنک دینے کی بجائے میں اسے پورا ادھر پیش کر رہی ہوں، کیونکہ ان میں بہت سے نکات پر مجھے تبصرہ کرنا ہے۔۔۔۔
بہن پوری تصویر دیکھیں گی تو بات سمجھ میں اجائے گی۔ قتل عام چاہے افغانستان میں‌ہو یا عراق میں یا پاکستان کے سرحدی علاقے میں۔ یہ سب امریکی جارحیت کے باعث ہے۔ امریکی جارحیت ختم ہوجائے مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ذرا غورکریں‌کوئی اپ کے گھر پا اکر قبضہ کرلے اور اپ کمزوری میں کچھ نہ کرسکیں تو موقع پاتے کچھ تو کریں گی ہی۔ اگر اپ غدر مچاتی ہیں اور محلے والے کہیں کہ یہ تو فساد مچارہی ہیں تو کیا یہ درست ہوگا؟ اپکا مسئلہ جب حل ہوگا جب اپکے گھر سے زبردستی کا قبضہ ختم ہوگا۔
 
ایسا ہی ایک اور عنواں اور بھی ذہن میں‌آ رہا ہے جیسا کہ محسن حجازی بھائی نے بیان کیا ہے

عراق و افغانستان امریکی استبداد کے تحت
 
یعنی آپ مانتے ہیں کہ کمزور اگر غدر مچائے گا تو اپنا ہی گھر خراب کرے گا کیا میں درست کہ رہا ہوں ۔۔۔؟ کیا اس کمزوری اور بقول آپ کے لاچاری میں اپنے ہی گھر میں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنا جائز قرار پا جائے گا۔۔۔؟ یا ریاست کے اندر ریاست کا قیام درست ہو گا ۔۔۔؟
 
جناب میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہاتھی کو پوراہاتھی کے طور پر دیکھیے۔ صرف ٹانگ یا سونڈ ہاتھی نہیں۔ یہ ہاتھی کا صرف ایک حصہ ہے۔
 

وجی

لائبریرین
مہوش صاحبہ ایک طرف آپ کچھ صحافیوں پر تنقید کر رہیں ہیں اور ادھر کچھ اور صحافیوں پر یقین کرتے ہوئے طالبان کے خلاف بات کر رہیں ہیں پشتون اپنی روایتوں پر چلنے والے لوگ ہیں اور اس کے لئے وہ جان بھی دیتے ہیں
اسی ایک روایت پر ایک فلم بنی The Beast اس کو ضرور دیکھئے گا
کچھ آفاکہ ہوگا آپ کو :)
 

ساجداقبال

محفلین
اچھا تو اگر آپ ہمیں مکمل ہاتھی دکھا پائیں تو عین نوازش ہوگی
یہ دیکھ لیں‌ جی:
african-elephant2.jpg

:grin::grin::grin::grin:
 

مہوش علی

لائبریرین
ذرا غورکریں‌کوئی اپ کے گھر پا اکر قبضہ کرلے اور اپ کمزوری میں کچھ نہ کرسکیں تو موقع پاتے کچھ تو کریں گی ہی۔ اگر اپ غدر مچاتی ہیں اور محلے والے کہیں کہ یہ تو فساد مچارہی ہیں تو کیا یہ درست ہوگا؟ اپکا مسئلہ جب حل ہوگا جب اپکے گھر سے زبردستی کا قبضہ ختم ہوگا۔

بھائی جی، آپکی بات امریکہ والی بات اپنی جگہ صحیح ہو گی، مگراپنی پوسٹ کے حوالے سے آپ سے ایک درخواست ہے۔

آپ اوپر میری پوسٹ کو ایک بار پھر پڑھ کر بتائیے کہ ان میں جتنے بھی پوائنٹ اٹھائے گئے ہیں، ان میں سے کتنوں کا تعلق امریکہ سے ہے اور کتنے طالبان کے پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی عوام اور حکومت کے خلاف کردہ جرائم ہیں؟

کیا امریکہ کے خلاف لڑنے کا طریقہ یہی رہ گیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر انہیں پاکستانی عوام و حکومت کے خلاف اپنے جرائم کرنے کا کھلا لائسنس دے دیا جائے؟
 
میں اسے الٹ سرخی جماتا ہوں:

مشرف کے تحت باقی ملک کی صورتحال

اس کے تحت مزید خیالات کا اظہار کیجئے۔

آپ کی اس سرخی پر اپنے ذہن میں تیرتے ہوئے بے شمار افکار اور تصویروں کو ان دو لفظوں میں سموتا ہوں:

(۱)‌ خون۔

(۲)‌ خرابہ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امن کميٹی کے 28 ارکان کی ہلاکت کے افسوس ناک واقعے کے ضمن ميں کچھ نقاط نہايت اہم ہيں۔

اس واقعے کا سب سے اہم پہلو يہ ہے کہ مرنے والے بے گناہ امريکی نہيں بلکہ پاکستانی شہری تھے۔ ليکن اس سے بھی زيادہ اہميت کی بات يہ ہے کہ وہ ايسی کميٹی کے ايما پر وہاں گئے تھے جو حکومت پاکستان نے تشکيل دی تھی۔

اب تک اس واقعے کی جو تفصيلات موصول ہوئ ہيں اس کے مطابق بدھ کے روز حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ امن کميٹی کے 28 افراد کی لاشيں جنوبی وزيرستان کے قريب قبائلی علاقے سے ملی ہيں۔ ڈسٹرک آفيسر برکت الللہ مروت کے مطابق پير کے روز جنڈولہ کے مقام پر بيت الللہ محسود کی فورسز کی جانب سے امن کميٹی کے ممبران پر حملہ کيا گيا۔ قبائلی عمائدين کے مطابق اس حملے کا مقصد بيت الللہ محسود کی جانب سے اس علاقے ميں کسی بھی حکومتی گروپ کے اثرورسوخ کو روکنا ہے۔ قبائلی علاقے کے رہنما مرزا جہادی کے مطابق "يہ کاروائ قبائلی علاقوں کے ليے ايک پيغام ہے کہ جو بھی حکومت کا ساتھ دے گا اس کا یہی انجام ہو گا"۔

مقامی اخبار کو طالبان کی جانب سے جاری کردہ بيان کے مطابق "ان کميٹی ممبران کی موت کی وجہ ان کی جانب سے حکومت پاکستان کی حمايت ہے"۔

يہ نقطہ بہت اہم ہے کہ طالبان کے ترجمان کے مطابق ہر وہ شخص جو حکومت پاکستان کی نمايندگی کر رہا ہے، وہ دشمن تصور کيا جائے گا اور اس کی سزا موت ہے۔ کسی بھی محب وطن پاکستانی کے ليے يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ان عناصر کی حمايت کرے جو نا صرف يہ کہ دانستہ پاکستان کے شہريوں کو قتل بھی کر رہے ہيں اور پاکستان کے نظام حکومت کو بھی ماننے سے انکاری ہيں۔

ڈيرہ اسماعيل خان کے ايک اخبار نويس سيلاب محسود کو طالبان کے ترجمان مولوی عمر کا جو پيغام موصول ہوا ہے اس کے مطابق ان 28 لوگوں کو طالبان کی قائم کردہ عدالت کی جانب سے سزا کا مستحق قرار ديا گيا تھا۔ مولوی عمر کی جانب سے جو مزيد تفصيلات موصول ہوئ ہيں اس کے مطابق يہ 28 افراد ان 30 افراد پر مشتمل امن کميٹی کے ممبر تھے جنھيں پير کے روز جنڈولہ کے قريب اغوا کيا گيا تھا۔ اس کے بعد انھيں 50 ميل دور رگزئ کے مقام پر لے جايا گيا جو بيت الللہ محسود کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ يہاں پر ان افراد پر طالبان کی عدالت ميں مقدمہ چلايا گيا اور انھيں سزا دی گئ۔ اس گروپ کے دو ارکان ابھی تک لاپتہ ہيں۔

حکومت پاکستان کی جانب سے جو امن کميٹی بنائ گئ تھی اس ميں 200 سے 300 کے قريب ممبران شامل تھے اور ان کی قيادت حاجی ترکستان کر رہے تھے جن کا تعلق بھٹانی قبيلے سے ہے جو روايتی طور پر محسود قبيلے کے مخالف رہے ہيں۔

طالبان کی جانب سے 28 افراد کے قتل کے بعد جنڈولہ ميں حاجی ترکستان کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئ مگر وہ بچ نکلنے ميں کامياب ہو گئے جس کے بعد انکے اور کميٹی کے ديگر ارکان کے گھروں کو آگ لگا دی گئ۔ علاقے ميں طالبان کی بھڑتی ہوئ قوت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے فوری بعد طالبان نے ٹنک کے علاقے کا گھيراؤ کر کے بھٹانی قبيلے کے افراد کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے ديا۔ بدھ کی رات تک بھٹانی قبيلے کا ايک گاؤں مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے اور دوسرے گاؤں کو رات نو بجے تک علاقہ چھوڑنے کا وقت ديا گيا ہے۔

امن کميٹی کے ممبران کا قتل طالبان کی جانب سے شروع کی جانے والی انھی کاروائيوں کا تسلسل ہے جن کے آغاز ميں اورکزئ ايجنسی ميں 6 افراد کو مجرم قرار دے کر سر عام قتل کر ديا گيا۔

اس فورم پر کچھ دوستوں نے ان واقعات کا ذمہ دار براہ راست امريکہ کو قرار ديا ہے۔ ان کی منطق کے مطابق اگر امريکہ افغانستان ميں طالبان کے خلاف کاروائ نہ کرتا تو پاکستان ميں ان کے اثرورسوخ ميں اضافہ نہيں ہوتا۔

اس نقطے کے حوالے سے جذباتی رائے زنی سے قطع نظر کچھ تاريخی اور دستاويزی حقائق بھی پيش نظر رکھيں۔ ميں نے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے قريب 30 کے قريب دستاويز حاصل کی ہيں -ان رپورٹوں ميں متعدد بار حکومت پاکستان کے اہلکاروں کو يہ باور کروايا گيا کہ طالبان کی حمايت اور حکومت سازی کے عمل ميں ان کی پشت پناہی علاقے ميں ان کے اثر ورسوخ کو بڑھائے گی جس کے نتيجے ميں نہ صرف اس علاقے ميں بلکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔ امريکی حکومت کی جانب سے رپورٹوں کا يہ سلسلہ 90 کی دہاہی کے آغاز سے شروع ہو کر 11 ستمبر 2001 کے واقعے تک جاری رہا۔ اس دوران اسامہ بن لادن نے افغانستان واپس آ کر القائدہ کو منظم کرنا شروع کر ديا اور کئ ممالک ميں امريکی عمارات پر دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ ليکن 11 ستمبر 2001 کا واقعہ وہ لمحہ تھا جب امريکی حکومت نے براہ راست افغانستان ميں کاروائ کا فيصلہ کيا۔ اس دوران بھی طالبان کو قريب 2 ماہ کا موقع دياگيا کہ اگر وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کرديں تو جنگ کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بھی 5 وفود طالبان سے مذاکرات کے ليے بھيجے گئے مگر ان کی جانب سے مسلسل انکار کے بعد افغانستان ميں کاروائ کا آغاز کيا گيا۔

ميں امريکی حکومت کی جانب سے حکومت پاکستان کو طالبان کے حوالے سے بھيجی جانے والی دستاويز پہلے بھی اس فورم پر پيش کر چکا ہوں ليکن موضوع کے اعتبار سے ان کی اہميت کے پيش نظر ميں دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔

قريب دس سال کے عرصے پر محيط ان دستاويزی ثبوتوں کی موجودگی ميں، جن ميں بار بار طالبان کی حوالے سے دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کيا گيا ہے کيا يہ دعوی کرنا درست ہے کہ پاکستان ميں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی ذمہ داری امريکہ پر عائد ہوتی ہے؟


نومبر7 1996 کی اس دستاويز ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کی براہراست فوجی امداد پر تشويش کا اظہار کيا گيا ہے۔ اس دستاويز ميں ان خبروں کی تصديق کی گئ ہے کہ آئ – ايس – آئ افغانستان ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس ميں آئ – ايس – آئ کے مختلف اہلکاروں کا افغانستان ميں دائرہ کار کا بھی ذکر موجود ہے۔

http://d3d12.usaupload.net/8v5u31ydud4/1214592844/4c291e4a97435fd52638c1ed46c5e155/17.pdf

ستمبر26 2000 کو يو – ايس – اسٹیٹ ڈيپارٹمنٹ کی اس رپورٹ ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کو فوجی کاروائيوں کے ليے پاکستانی حدود کے اندر اجازت دينے پر شديد خدشات کا اظہار ان الفاظ ميں کيا گيا ہے
"يوں تو پاکستان کی جانب سے طالبان کی امداد کاقی عرصے سے جاری ہے ليکن اس حمايت ميں موجودہ توسيع کی ماضی ميں مثال نہيں ملتی"۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کو اپنی کاروائيوں کے ليے پاکستان کی سرحدی حدود کے اندر سہوليات مہيا کرنے کے علاوہ پاکستانی شہری بھی استعمال کر رہا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان کی پختون فرنٹير کور افغانستان ميں طالبان کے شانہ بشانہ لڑائ ميں ملوث ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/01f1b3ad83838be4eff2f8de76ba230b/34.pdf

اگست 1996 ميں سی – آئ – اے کی اس دستاويز کے مطابق حرکت الانصار نامی انتہا پسند تنظيم جسے حکومت پاکستان کی حمايت حاصل رہی ہے، کے حوالے سے خدشات کا اظہار کيا گيا ہے۔ حرکت الانصار کی جانب سے غير ملکی شہريوں پر حملے اور عالمی دہشت گردی کے حوالے سے اپنے دائرہ کار کو وسيع کرنے کی غرض سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط مستقبل ميں اس جماعت کی جانب سے امريکہ کے خلاف دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستانی اينٹيلی جينس انتہا پسند تنظيم حرکت الانصار کو مالی امداد مہيا کرتی ہے مگر اس کے باوجود يہ تنظيم اسامہ بن لادن سے تعلقات بڑھانے کی خواہش مند ہے جو کہ مستقبل ميں نہ صرف اسلام آباد بلکہ امريکہ کے ليے دہشت گردی کے نئے خطرات کو جنم دے گا۔ اس تنظيم کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ہوائ جہازوں کے استعمال کے بھی شواہد ملے ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/1f37d729470ae63b6269df04aa93a09d/10.pdf

فروری6 1997 کی اس دستاویز ميں امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ايک حکومتی اہلکار کو يہ باور کرايا گيا ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں اسامہ بن لادن، طالبان اور حرکت الانصار کے درميان بڑھتے ہوئے تعلقات پر شديد تشويش ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے حرکت الانصار کی پشت پناہی کے حوالے سے پاکستانی حکومتی اہلکار کا يہ دعوی تھا کہ اس تنظيم کی کاروائيوں پر مکمل کنٹرول ہے اور اس حوالے سے مستقبل ميں پکستان کو کوئ خطرات درپيش نہیں ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/68a0c9308a5afd0a41f1d5bb1be3547e/16.pdf

جنوری 16 1997 کی اس دستاويز کے مطابق طالبان کی انتہا پسند سوچ کا پاکستان کے قبائلی علاقے ميں براہراست اثرات کے خطرے کے حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف يہ تھا کہ "يہ مسلہ فوری ترجيحات ميں شامل نہيں ہے"۔ کابل ميں طالبان کی موجودہ حکومت پاکستان کے بہترين مفاد ميں ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/db68f0deaabeebf7559deae59692d26d/20.pdf

اکتوبر 22 1996 کی اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس –آئ کے طالبان کے ساتھ روابط کا دائرہ کار اس سے کہيں زيادہ وسيع ہے جس کا اظہار حکومت پاکستان امريکی سفارت کاروں سے کرتی رہی ہے۔ آئ – ايس – آئ ايک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ذريعے طالبان کو امداد مہيا کرتی رہی ہے۔ اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس – آئ طالبان کو اسلحہ مہيا کرنے ميں براہراست ملوث ہے اور اس حوالے سے پاکستانی سفارت کار دانستہ يا کم علمی کی وجہ سے غلط بيانی سے کام ليتے رہے ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/8c2201940dc63d8410443727e58f8259/15.pdf

امريکی انٹيلی جينس کی اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کی فوجی امداد ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی اس تشويش کا بھی ذکر ہے کہ پاکستان ميں پختون آبادی کو طالبان کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے حکوت پاکستان طالبان کو اپنی پاليسيوں ميں اعتدال پيدا کرنے کے ليے اپنا رول ادا کرے گی۔

http://d3d34.usaupload.net/pjv32v60qv3/1214593036/3972073c622c059ec146aee1670952ad/8.pdf

اگست 27 1997 کی اس دستاويز کے مطابق افغانستان کے مسلئے کے حوالے سے پاکستان کا کردار محض مصالحتی نہيں ہے بلکہ پاکستان براہراست فريق ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/ad2a82ec087692d8ca09a839bcca6282/24.pdf

دسمبر 22 1995 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے تہران اور تاشقند کو اس يقين دہانی کے باوجود کہ پاکستان طالبان کو کنٹرول کر سکتا ہے، امريکی حکومتی حلقے اس حوالے سے شديد تحفظات رکھتے ہيں۔ اس دستاويز ميں امريکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کی طالبان کی پشت پناہی کی پاليسی کو افغانستان ميں قيام امن کے ليے کی جانے والی عالمی کوششوں کی راہ ميں رکاوٹ قرار ديا ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/86350d52d25d1db592666ca548ff96ab/talib7.pdf

اکتوبر 18 1996 کو کينيڈين اينٹيلی ايجنسی کی اس دستاويز کے مطابق کابل ميں طالبان کی توقع سے بڑھ کر کاميابی خود حکومت پاکستان کے لیے خدشات کا باعث بن رہی ہے اور طالبان پر حکومت پاکستان کا اثر ورسوخ کم ہونے کی صورت ميں خود پاکستان کے ليے نئے چيليجنز پيدا ہو جائيں گے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/38ce9e2e9d204c8b65fa714223d991e3/14.pdf

مارچ 9 1998 کی اس دستاويز ميں اسلام آباد ميں امريکی ڈپٹی چيف آف مشن ايلن ايستھم اور پاکستان کے دفتر خارجہ کے ايک اہلکار افتخار مرشد کی ملاقات کا ذکر ہے جس ميں امريکی حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن سے منسوب حاليہ فتوے اور پاکستان ميں حرکت الانصار کے ليڈر فضل الرحمن خليل کی جانب سے اس فتوے کی تحريری حمايت کے حوالے سے امريکی حکومت کے خدشات کا اعادہ کيا گيا۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/0075ce8eb1423409319f61d7d2cc858f/talib6.pdf

ستمبر 28 1998 اور 25 مارچ 1999 کی ان دو دستاويزات ميں امريکی حکومت نے ان خدشات کا اظہار کيا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثر ورسوخ کے باوجود اسامہ بن لادن کی بازيابی ميں اپنا کردار ادا نہيں کر رہا۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/cbb665c1d9a39360ffbcd4240075885c/31.pdf
http://f4.filecrunch.com/files/20080422/ecdcde1d3a3282bf0d3d1ad615c22a76/33.pdf

دسمبر 5 1994 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی افغانستان کی سياست ميں براہراست مداخلت اور طالبان پر آئ – ايس – آئ کے اثرورسوخ کے سبب طالبان قندھار اور قلات پر قبضہ کرنے ميں کامياب ہوئے۔ پاکستان کی اس غير معمولی مداخلت کے سبب اقوام متحدہ ميں افغانستان کے خصوصی ايلچی محمود ميسٹری کی افغانستان مين قيام امن کی کوششوں ميں شديد مشکلات حائل ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/d3141a5aecbcf05106a2e4a47408c82a/1.pdf

جنوری 29 1995 کی اس دستاويز میں حکومت پاکستان کے اہلکاروں کی جرنل دوسطم سے ملاقات کا ذکر ہے جس ميں انھيں يہ باور کروايا گيا کہ طالبان ان کے خلاف کاروائ نہيں کريں گے ليکن اس يقين دہانی کے باوجود مئ 1997 ميں مزار شريف پر قبضہ کر کے انھيں جلاوطن ہونے پر مجبور کر ديا۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/37cb9801c12216ed18b8e97a3496cd09/2.pdf

اکتوبر 18 1995 کی اس دستاويز ميں افغانستان ميں پاکستانی سفير قاضی ہمايوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کيا ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/470022dec9e017a858995fa0219a1edb/4.pdf

ستمبر 30 1996 کو کابل ميں طالبان کے قبضے کے چار دن بعد سی – آئ – اے کی جانب سے اس دستاويز ميں طالبان کی جانب سے دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی کے حوالے سے غير متوازن پاليسی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گيا ہے۔

http://d3d34.usaupload.net/dao4ewxyk6o/1214593149/223db4dd3de2d628580e6e9bf6597a45/11.pdf

اکتوبر 2 1996 کی اس دستاويز ميں آئ – ايس – آئ کی جانب سے 30 سے 35 ٹرک اور 15 سے 20 تيل کے ٹينکر افغانستان منتقل کرنے کا حوالہ ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/f98c7f435dbe8fb7c77c055f0ec9066b/12.pdf

نومبر 12 1996 کی اس دستاویز ميں طالبان کے ترجمان ملا غوث کے توسط سے اس دعوے کا ذکر ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان ميں موجود نہيں ہيں۔ اس دستاويز ميں اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں لانے اور طالبان سے متعارف کروانے ميں پاکستان کے براہراست کردار کا بھی ذکر ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/1bdff013ab95c947f7dfc8869c82df83/18.pdf

مارچ 10 1997 کی اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کے حوالے سے پاليسی ميں تبديلی کا عنديہ ديا گيا ہے ليکن آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی بھرپور حمايت کا اعادہ کيا گيا ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/d33d2ca51dfd0255def4ff21fef5571f/21.pdf

جولائ 1 1998 کی اس دستاويز ميں پاکستان کے ايٹمی دھماکے کے بعد نئ سياسی فضا کے پس منظر ميں پاکستان کی جانب سے پہلی بار کھلم کھلا طالبان کی پشت پناہی کا اعادہ کيا گيا۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/0c46d21f4c8909ddd238a522b9b987b6/talib8.pdf

اگست 6 1998 کی اس دستاويز ميں ايک رپورٹ کے حوالے سے يہ باور کرايا گيا کہ طالبان کی صفوں ميں 20 سے 40 فيصد فوجی پاکستانی ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/90ee9df87ff7bdd4818d83bb9b82d12d/30.pdf


طالبان اور پاکستان کی يہی وہ تاريخ ہے جس کے نتيجے ميں امريکی حکومتی حلقوں ميں پاکستان کے سرحدی علاقوں ميں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر شديد تشويش پائ جاتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

arifkarim

معطل
فواد اس سیاسی تحریر کو پڑھنے کا میرے پاس تو ٹائم نہیں، نا جانے آپ کے پاس یہ سب لکھنے کیلئے کہاں سے وقت آتا ہے؟ ! :)
 

فرضی

محفلین
اب تک اس واقعے کی جو تفصيلات موصول ہوئ ہيں اس کے مطابق بدھ کے روز حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ امن کميٹی کے 28 افراد کی لاشيں جنوبی وزيرستان کے قريب قبائلی علاقے سے ملی ہيں۔ ڈسٹرک آفيسر برکت الللہ مروت کے مطابق پير کے روز جنڈولہ کے مقام پر بيت الللہ محسود کی فورسز کی جانب سے امن کميٹی کے ممبران پر حملہ کيا گيا۔ قبائلی عمائدين کے مطابق اس حملے کا مقصد بيت الللہ محسود کی جانب سے اس علاقے ميں کسی بھی حکومتی گروپ کے اثرورسوخ کو روکنا ہے۔ قبائلی علاقے کے رہنما مرزا جہادی کے مطابق "يہ کاروائ قبائلی علاقوں کے ليے ايک پيغام ہے کہ جو بھی حکومت کا ساتھ دے گا اس کا یہی انجام ہو گا"۔



ڈيرہ اسماعيل خان کے ايک اخبار نويس سيلاب محسود کو طالبان کے ترجمان مولوی عمر کا جو پيغام موصول ہوا ہے اس کے مطابق ان 28 لوگوں کو طالبان کی قائم کردہ عدالت کی جانب سے سزا کا مستحق قرار ديا گيا تھا۔ مولوی عمر کی جانب سے جو مزيد تفصيلات موصول ہوئ ہيں اس کے مطابق يہ 28 افراد ان 30 افراد پر مشتمل امن کميٹی کے ممبر تھے جنھيں پير کے روز جنڈولہ کے قريب اغوا کيا گيا تھا۔ اس کے بعد انھيں 50 ميل دور رگزئ کے مقام پر لے جايا گيا جو بيت الللہ محسود کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ يہاں پر ان افراد پر طالبان کی عدالت ميں مقدمہ چلايا گيا اور انھيں سزا دی گئ۔ اس گروپ کے دو ارکان ابھی تک لاپتہ ہيں۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

ڈیجیٹل فواد بھائی۔۔ اتنی لمبی چوڑی پوسٹ لکھنے میں اپ نے بار بار اللہ کے نام کو غلط لکھا ہے۔۔ امید ہے آئندہ اللہ لفظ دھیان سے لکھیں گے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top