مہوش علی
لائبریرین
ہم لوگ سوئے ہوئے ہیں اور اپنی طرف بڑھتے ہوئے فتنوں کو دیکھنے کے قابل نہیں۔ بلکہ دیکھتے ہیں تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔
میں بات کا آغاز آج جنگ اخبار کے ادارئیے سے کر رہی ہوں۔ بات کی اہمیت کے پیش نظر صرف لنک دینے کی بجائے میں اسے پورا ادھر پیش کر رہی ہوں، کیونکہ ان میں بہت سے نکات پر مجھے تبصرہ کرنا ہے۔
///////////////////////////////////////
پہلا:
جنڈولہ میں امین کمیٹی کے 24 افراد کے مارے جانے پر بی بی سی کی رپورٹ یہاں پڑھیں طالبان انہیں قتل کر دینے کے اپنے سر سے یہ جرم ٹالنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے بھیجے گئے یہ امن کمیٹی کے اراکین لوٹ مار کر رہے تھے اس لیے طالبان نے انہیں پکڑ کر قتل کر دیا۔
دوسرا:
عیسائی برادری کے 25 لوگوں کا دن دھاڑے کھلے عام پشاور سے بنا کسی وجہ کے اغوا۔ وجہ ان انتہا پسندوں کا دوسری اقلیتوں کو وارننگ دینا کہ وہ یہ علاقے چھوڑ کر چلے جائیں، یا پھر انہیں کسی وقت بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔ ان اقلیتوں کے کوئی حقوق نہیں، اگر ہیں تو شاید زرد رنگ کے کپڑے انکا مقدر ہیں۔
مزید یہ کام پشاور میں فوجی چھاونی میں آ کر کیا گیا اور یہ بھی ایک وہ پیغام ہے جس پر مولانا فضل الرحمان اور دیگر سرجد اسمبلی کے اراکین نے توجہ دلائی ہے۔
تیسرا
امن کی بات چیت کے باوجود فوج پر حملے اور خاصہ دار فورس کے لوگوں کو اغوا کرنا
چوتھا
پچھلے ہفتے قافلے کی صورت میں پارا چنار جانے والے جن آٹھ افراد کو اغوا کیا گیا تھا ان کو تشدد کے بعد ذبح کرکے لاشوں کے ٹکڑے سڑک پر پھینک دیا گیا
اس سے قبل پاڑہ چنار جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر حملہ کر کے انہیں لوٹ لیا گیا اور 4 افراد کو قتل کر دیا گیا۔
[نوٹ: پشاور پاڑہ چنار جانے والی سڑک انتہا پسندوں کی وجہ سے کئی ماہ سے بند ہے ۔ مزید آگے ]
پانچواں
جماعت اسلامی کے مولانا گل رحیم صاحب کا انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ۔ درحقیقت اُن تمام افراد کی ان علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے جو کہ علاقوں میں طالبان کی بجائے قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔
چھٹا
انگلش اخبار "ڈان" کی خبر کہ انتہا پسند اپنی دہشت گرد کاروائیوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اب پشاور پر آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں۔
یہی خبر بی بی سی کے اردو سیکشن میں جہاں انہوں نے مزید بتایا ہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی نے طالبان کے ساتھ جتنے بھی امن معاہدے کرنے کی کوشش کی ہے وہ ویسے ہیں برباد ہوئی ہیں جیسا کہ پرویز مشرف صاحب کے دور میں طالبان کے ساتھ کیے گئے امن معاہدوں کے ساتھ ہوا۔
بی بی سی کی ہی پشاور کے حوالے سے ایک اور خبر "فوج کو طالبان کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار دے دیا گیا"
ساتواں
کرم ایجینسی میں انتہا پسندوں کی طرف سے پشاور پاڑہ چنار سڑک کی بندش۔
ہسپتالوں میں ادویات اور آکسیجن کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے کئی بچے ہلاک [رپورٹ بحوالہ جنگ اخبار] ۔۔۔ کیا یہ وہی رویہ نہیں کہ جس کی وجہ سے عراق میں کئی ہزار بچے ادویات کی کمی کی وجہ سے مارے گئے؟ مگر جب یہی کام یہ انتہا پسند کریں گے تو بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ کام حلال ہو جائے گا۔
انتہا پسندوں کا فیصلہ کہ اپر کرم ایجنسی سے کوئی اہل تشیع لوئر کرم ایجنسی نہیں آ سکتا۔ گورنمنٹ کی اہل تشیع افراد کو پیشکش کہ وہ پیسے دے کر ہیلی کاپٹروں سے اپنے گھروں کو جائیں۔
پاڑہ چنار جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر حملے [نوٹ: یہ ٹرک بہت ہمت کر کے فوج کی سرکردگی میں پاڑہ چنار سامان پہنچانا چاہ رہے تھے]۔ نتیجے میں چار ٹرک ڈرائیور ہلاک۔
کرم ایجنسی کی دس لاکھ آبادی، اپنے ہی ملک میں محصور۔
پاکستانی آٹا افغانستان تو سمگل ہو سکتا ہے، مگر اپنے ہی ملک کے ان دس لاکھ آبادی والوں کو اس آٹے کی منتقلی کی بندش۔
لنک
آٹھواں
انتہا پسندوں کے لڑکیوں کے سکولوں اور کالجز پر بموں سےحملے اور طالبات کے والدین کو دھمکیاں [ابن حسن برادر کے دلائل کا جواب اُن کے تھریڈ میں انشاء اللہ]۔
حجاموں اور سی ڈیز کی دکانوں پر بم حملے۔
نواں
دو تنظیموں کا آپس میں اس فاٹا علاقے میں ٹکراو۔ [ایک کا نام صدر الاسلام تھا اور دوسری کا نام ؟؟؟ [مجھے یاد نہیں۔ اگر کسی کے پاس اس خبر کا لنک ہے تو پلیز پوسٹ کیجئیے]۔
بہرحال، ان میں سے ایک بریلوی تنظیم ہے جبکہ دوسری طالبان کی حمایت یافتہ تنظیم۔
اور مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کے انتہا پسند اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت نہیں کر سکتے [ان میں دوسروں کے ساتھ Co-Exist کرنے کا کوئی مادہ نہیں۔ اب چاہے یہ عیسائی ہوں تو یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ اہل تشیع ہوں تو یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ بریلوی ہوں تب یہ انہیں ماریں گیں، اگر یہ اے این پی والے ہوں تب یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ پیپلز پارٹی والے ہوں تب یہ ان پر خود کش حملہ کریں گے، اگر یہ فوج کے جوان ہوں جو قانون کی بالادستی قائم کرنا چاہیں تو یہ انہیں ماریں گے۔ ۔۔۔۔
تو جس علاقے میں یہ طالبان انتہا پسند ہوں گے، وہاں صرف اور صرف یہ ہو سکتے ہیں اور باقی سب کا یہ قتل کر دیں گے۔
میں بات کا آغاز آج جنگ اخبار کے ادارئیے سے کر رہی ہوں۔ بات کی اہمیت کے پیش نظر صرف لنک دینے کی بجائے میں اسے پورا ادھر پیش کر رہی ہوں، کیونکہ ان میں بہت سے نکات پر مجھے تبصرہ کرنا ہے۔
///////////////////////////////////////
صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں شرپسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں تشویشناک رخ اختیار کرتی نظر آرہی ہیں۔ خود کو مقامی طالبان کہنے والے عناصر بعض قبائلی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ جنڈولہ جیسے نیم قبائلی علاقے اور سوات جیسے بندوبستی علاقے میں سیکورٹی فورسز، امن کمیٹی کے ارکان اور حکومت کے حامی قبائل پر جس انداز میں حملے کررہے ہیں وہ کسی منظم و مربوط منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کو تفتیش کیلئے لے جانے کے بہانے اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ صوبہ سرحد کے سب سے بڑے تدریسی ہسپتال سے مسیحی فرقے کے افراد کے اغوا کے واقعے کے بعد ان کی بحفاظت واپسی تو ہوگئی مگر عسکریت پسندوں کی طرف سے فوجی چھاؤنی کے علاقے تک اپنی رسائی کے اشارے صورت حال کی سنگینی ظاہر کررہے ہیں۔ ملک کے ایک حصے میں پائے جانے والے یہ سنگین حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ لوگ، خاص طور پر سیاسی عناصر معاملات کو صرف اپنی پارٹی اور گروپ کے مفادات کے حوالے سے دیکھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سالمیت اور صوبہ سرحد میں حکومتی عملداری مستحکم بنانے کی تدابیر پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں مل جل کر کام کریں۔
پچھلے کئی روز سے تواتر کے ساتھ ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں فریقین کے کئی درجن افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ چوکیوں پر حملوں کے بعد خاصہ دار فورس کے افراد کو اغوا کیا گیا ہے۔ سویلین افراد پر حملے کئے جارہے ہیں۔ پچھلے ہفتے قافلے کی صورت میں پارا چنار جانے والے جن آٹھ افراد کو اغوا کیا گیا تھا ان کو تشدد کے بعد ذبح کرکے لاشوں کے ٹکڑے سڑک پر پھینک دیئے گئے۔ ان افراد کا قصور صرف اتنا تھا کہ ان کے قبیلے نے حکومتی عملداری میں امن و امان کی بحالی کی حمایت کی ہے۔ جو لوگ اپنی تشریح کے مطابق اسلامی حمیت کو اپنی انتہا پسندانہ کارروائیوں کا جواز بتاتے ہیں، وہ اس قسم کی بہیمانہ حرکتیں کرکے دنیا کے سامنے اسلام کی ایسی تصویر پیش کررہے ہیں جس کا دین متین سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ سیاسی ، نظریاتی یا دوسری نوعیت کے اختلافات کہاں نہیں ہوتے۔ لیکن ان کو بنیاد بنا کر انسانی جانوں سے کھیلنا انتہائی افسوسناک فعل ہے۔ پھر لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو سڑک پر پھینکنا بے حرمتی کی انتہا ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ قبائلی روایات میں اس کی گنجائش ہے۔ دین متین کی تعلیمات کے تحت تو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی لاشوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرز عمل سے بعض حلقوں کے اس شبہے کو تقویت پہنچتی ہے کہ گوانتانا موبے یا دوسرے مقامات سے تربیت لیکر آنے والے کچھ لوگ اسلام کا نام لیکر اور انتہا پسندانہ نعرے لگا کر ان قوتوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا اور عالم اسلام کو جنگ کا ایندھن بنانا چاہتی ہیں۔ اورکزئی ایجنسی کے مختلف مقامات سے بعض مبینہ سماج دشمن افراد کا اغوا کرکے جرائم کے خاتمے کی کوشش کا تاثر دیا گیا ہے مگر اس ساری کارروائی کے پس پردہ عناصر کا حقیقی مقصد حکومتی عملداری کو چیلنج کرنا معلوم ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کو سزا دینے کا دنیا بھر میں رائج اور اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی درست طریقہ یہ ہے کہ انہیں پکڑ کر حکومت کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکے۔ مگر خود کو طالبان یا علم دین کی طلب رکھنے والوں کا نام دینے والے عناصر نے ان میں سے چھ افراد کو قتل کرکے ان کی لاشیں اورکزئی ایجنسی کے علاقے غلجو بازارمیں پھینک دیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک اطلاع جنوبی وزیرستان سے ملحقہ نیم قبائلی علاقے جنڈولہ پر بیت اللہ محسود کے حامیوں کے مبینہ قبضے کی ہے۔ جبکہ خیبر ایجنسی میں پیر کے روز خاصہ دار فورس کی چیک پوسٹوں پر حملہ ایسے وقت کیا گیا جب اس سے چند گھنٹے قبل ایک سترہ سالہ نوجوان کی خودکش دھماکے کی کوشش ناکام بنا کر اسے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔ دوسری جانب سوات کی تحصیل مٹہ میں سیکورٹی فورسز کے قافلے پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد علاقے میں غیرمعینہ مدت کے لئے کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ کالا کوٹ ، چار باغ اور سمٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کئے گئے۔ چار سدہ سے دو افراد کو اغوا کرنے اور جمرود میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما مولانا گل رحیم کے قتل کی بھی اطلاعات ہیں۔
اگرچہ جنڈولہ میں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی آمد کے بعد اب عسکریت پسندوں کو پسپا ہونا پڑا ہے مگر صورت حال کی مجموعی سنگینی کا اندازہ قومی اسمبلی میں فاٹا اور صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ارکان کے ردعمل سے کیا جاسکتا ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ معاملات کو تدبر و ہوشمندی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے۔ ارکان کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے حالات کو بہتر رخ دینے میں مدد نہیں ملے گی بلکہ اس کا الٹا اثر ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان نے تو صوبہ سرحد کے ہاتھ سے نکلنے تک کے خدشات ظاہر کئے اور سرحد و بلوچستان کے حالات پر تفصیلی بحث کے لئے قومی اسمبلی کا بند کمرے کا اجلاس بلانے پر زور دیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ رحمٰن ملک نے نکتہ ہائے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر ہے اور ایک ہفتے کے اندر محدود آپریشن کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور کی صورت حال تشویشناک نہیں ہے، حکومت سو نہیں رہی ہے بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔
پہلا:
جنڈولہ میں امین کمیٹی کے 24 افراد کے مارے جانے پر بی بی سی کی رپورٹ یہاں پڑھیں طالبان انہیں قتل کر دینے کے اپنے سر سے یہ جرم ٹالنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے بھیجے گئے یہ امن کمیٹی کے اراکین لوٹ مار کر رہے تھے اس لیے طالبان نے انہیں پکڑ کر قتل کر دیا۔
دوسرا:
عیسائی برادری کے 25 لوگوں کا دن دھاڑے کھلے عام پشاور سے بنا کسی وجہ کے اغوا۔ وجہ ان انتہا پسندوں کا دوسری اقلیتوں کو وارننگ دینا کہ وہ یہ علاقے چھوڑ کر چلے جائیں، یا پھر انہیں کسی وقت بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔ ان اقلیتوں کے کوئی حقوق نہیں، اگر ہیں تو شاید زرد رنگ کے کپڑے انکا مقدر ہیں۔
مزید یہ کام پشاور میں فوجی چھاونی میں آ کر کیا گیا اور یہ بھی ایک وہ پیغام ہے جس پر مولانا فضل الرحمان اور دیگر سرجد اسمبلی کے اراکین نے توجہ دلائی ہے۔
تیسرا
امن کی بات چیت کے باوجود فوج پر حملے اور خاصہ دار فورس کے لوگوں کو اغوا کرنا
چوتھا
پچھلے ہفتے قافلے کی صورت میں پارا چنار جانے والے جن آٹھ افراد کو اغوا کیا گیا تھا ان کو تشدد کے بعد ذبح کرکے لاشوں کے ٹکڑے سڑک پر پھینک دیا گیا
اس سے قبل پاڑہ چنار جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر حملہ کر کے انہیں لوٹ لیا گیا اور 4 افراد کو قتل کر دیا گیا۔
[نوٹ: پشاور پاڑہ چنار جانے والی سڑک انتہا پسندوں کی وجہ سے کئی ماہ سے بند ہے ۔ مزید آگے ]
پانچواں
جماعت اسلامی کے مولانا گل رحیم صاحب کا انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ۔ درحقیقت اُن تمام افراد کی ان علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے جو کہ علاقوں میں طالبان کی بجائے قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔
چھٹا
انگلش اخبار "ڈان" کی خبر کہ انتہا پسند اپنی دہشت گرد کاروائیوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اب پشاور پر آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں۔
یہی خبر بی بی سی کے اردو سیکشن میں جہاں انہوں نے مزید بتایا ہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی نے طالبان کے ساتھ جتنے بھی امن معاہدے کرنے کی کوشش کی ہے وہ ویسے ہیں برباد ہوئی ہیں جیسا کہ پرویز مشرف صاحب کے دور میں طالبان کے ساتھ کیے گئے امن معاہدوں کے ساتھ ہوا۔
بی بی سی کی ہی پشاور کے حوالے سے ایک اور خبر "فوج کو طالبان کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار دے دیا گیا"
ساتواں
کرم ایجینسی میں انتہا پسندوں کی طرف سے پشاور پاڑہ چنار سڑک کی بندش۔
ہسپتالوں میں ادویات اور آکسیجن کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے کئی بچے ہلاک [رپورٹ بحوالہ جنگ اخبار] ۔۔۔ کیا یہ وہی رویہ نہیں کہ جس کی وجہ سے عراق میں کئی ہزار بچے ادویات کی کمی کی وجہ سے مارے گئے؟ مگر جب یہی کام یہ انتہا پسند کریں گے تو بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ کام حلال ہو جائے گا۔
انتہا پسندوں کا فیصلہ کہ اپر کرم ایجنسی سے کوئی اہل تشیع لوئر کرم ایجنسی نہیں آ سکتا۔ گورنمنٹ کی اہل تشیع افراد کو پیشکش کہ وہ پیسے دے کر ہیلی کاپٹروں سے اپنے گھروں کو جائیں۔
پاڑہ چنار جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر حملے [نوٹ: یہ ٹرک بہت ہمت کر کے فوج کی سرکردگی میں پاڑہ چنار سامان پہنچانا چاہ رہے تھے]۔ نتیجے میں چار ٹرک ڈرائیور ہلاک۔
کرم ایجنسی کی دس لاکھ آبادی، اپنے ہی ملک میں محصور۔
پاکستانی آٹا افغانستان تو سمگل ہو سکتا ہے، مگر اپنے ہی ملک کے ان دس لاکھ آبادی والوں کو اس آٹے کی منتقلی کی بندش۔
لنک
آٹھواں
انتہا پسندوں کے لڑکیوں کے سکولوں اور کالجز پر بموں سےحملے اور طالبات کے والدین کو دھمکیاں [ابن حسن برادر کے دلائل کا جواب اُن کے تھریڈ میں انشاء اللہ]۔
حجاموں اور سی ڈیز کی دکانوں پر بم حملے۔
نواں
دو تنظیموں کا آپس میں اس فاٹا علاقے میں ٹکراو۔ [ایک کا نام صدر الاسلام تھا اور دوسری کا نام ؟؟؟ [مجھے یاد نہیں۔ اگر کسی کے پاس اس خبر کا لنک ہے تو پلیز پوسٹ کیجئیے]۔
بہرحال، ان میں سے ایک بریلوی تنظیم ہے جبکہ دوسری طالبان کی حمایت یافتہ تنظیم۔
اور مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کے انتہا پسند اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت نہیں کر سکتے [ان میں دوسروں کے ساتھ Co-Exist کرنے کا کوئی مادہ نہیں۔ اب چاہے یہ عیسائی ہوں تو یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ اہل تشیع ہوں تو یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ بریلوی ہوں تب یہ انہیں ماریں گیں، اگر یہ اے این پی والے ہوں تب یہ انہیں ماریں گے، اگر یہ پیپلز پارٹی والے ہوں تب یہ ان پر خود کش حملہ کریں گے، اگر یہ فوج کے جوان ہوں جو قانون کی بالادستی قائم کرنا چاہیں تو یہ انہیں ماریں گے۔ ۔۔۔۔
تو جس علاقے میں یہ طالبان انتہا پسند ہوں گے، وہاں صرف اور صرف یہ ہو سکتے ہیں اور باقی سب کا یہ قتل کر دیں گے۔