پاکستانی مفاد یا امریکی مفاد
پاکستانی میں جو جنگ اس وقت قبائلی علاقہ جات اور سوات وغیرہ میں جاری ہے اس جنگ کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن کی طرف سے شاید ہم نے آنکھیں پوری طرح سے بند کی ہوئی ہیں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ امریکی مفادات کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں، امریکی ایڈونچر کے لیے اپنے ملک کا امن و سکون سب کچھ داو پر لگا دینا کیا عقلمندی ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے کیوں آخر کیوں یہ ساری خراب حالت 11/9 کے بعد ہوئی پہلے ہم نے طالبان کی پیٹھ میں خنجر گھونپاجن علاقوں میں انگریز داخل نہ ہوئے اور مذاکرات کرتے رہے وہاں امریکی ڈالروں کے چکر میں ہم گھس گئے اور اب بیٹھے رو رہے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔اس موضوع پر بات کرتے ہیں پہلے ایک وضاحت ایک بات جو یہاں نظر انداز کی جارہی ہے وہ یہ کہ یہ تمام حملے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے کیے جارہے ہیں نہ کہ افغان طالبان کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان ایک دوسری تنظیم ہے اس کا لیڈر بیت اللہ محسود ہے اس کے ترجمان حاجی عمر اس تنظیم کے ماتحت کئی قبائلی قبیلے کام کر رہے ہیں اس تنظم کی ہمدردیاں افغان طالبان کے ساتھ ہیںتاہم یہ اپمے فیصلوں میں خود مختار ہےمزید تفصیلات کے لیے دیکھیے ڈان کی یہ رپورٹ
http://www.dawn.com/2008/01/29/top18.htm
سوات میں مولوی فضل اللہ کا ہولڈ ہے یہ صوفی محمد (تحریک نفاذ شریعت محمدی) کے داماد ہیں اور انکی گرفتاری کے بعد اب اس علاقے کا کنٹرول ان کے پاس ہے ان کا تعلق پاکستانی طالبان سے بتایا جاتا ہے تاہم یہ اپنے معاملات میں کافی خودمختار بھی ہیں۔
اب ہم اس سارے معاملے کو خالصتا پاکستان کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
بی بی سی یہ یہ رپورٹ دیکھیے
"گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ کی سربراہی میں ’دہشت گردی’ کے خلاف شروع کی جانے والی نام نہاد عالمی جنگ میں عراق اور افغانستان کے بعد اگر کسی ملک نے سب سے بڑا نقصان اٹھایا ہے تو وہ شاید پاکستان ہی ہے۔گزشتہ ساڑھے چھ سال میں ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے ناطے پاکستان نے وہی بم دھماکے، خودکش حملے، مبینہ شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونےوالی شدید لڑائی، معصوم شہریوں کی ہلاکتیں اور نقل مکانی سمیت وہ سب کچھ دیکھا ہے جو مقبوضہ عراق اور افغانستان میں روز کا معمول بن چکاہے۔
ان ساڑھے چھ سال کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھر کرسامنے آئے ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ان مبینہ غیر ملکیوں کو پناہ دے رکھی ہے جو سرحد پار افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو فورسز پر حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔پاکستان نے سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں اور سرحد پار’دہشت گردی‘ کو روکنے کے لیے ستمبر دوہزار چھ میں شمالی وزیرستان میں طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا جسے امریکہ اور افغان حکومت نے’دہشت گردوں‘ کے ساتھ معاہدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
اس معاہدہ کے بعد افغان، امریکی اور نیٹو حکام کے علاوہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے ان الزامات میں مزید شدت آئی کہ قبائلی علاقوں سے طالبان جنگجو کی آمد میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں وہاں پر مبینہ شدت پسندی گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔
لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ستمبر دو ہزارسات میں اس معاہدے کے ٹوٹنے اور پاکستان کے اندر طالبان کی کاروائیوں میں اضافہ کے بعد ان الزامات میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ، افغان حکومت اور نیٹو فورسز نے مبینہ شدت پسندوں سے نمٹنے میں پاکستان کے کردار پر شک ظاہر کرتے ہوئے ایک ایسی پالیسی وضع کی جس سے افغانستان میں جاری مزاحمت کا رخ پاکستان کی طرف کیا گیا جس کے نتیجہ میں پاکستانی طالبان بھی ایسی ہی کارروائیوں پر مصروف ہوگئے اور ان کا افغان طالبان کے ساتھ عسکری تعاون ایک حد تک ختم ہوگیا۔
مرکز اور صوبہ سرحد میں قائم ہونے والی نئی حکومتوں کے اس اعلان نے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے امریکہ کو بظاہر اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستانی طالبان دوبارہ افغانستان کا رخ کرسکتے ہیں جس سے وہاں طالبان کی کمزور ہونے والی قوت میں پھر سے جان پڑ سکتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ طالبان کے ترجمان مولوی عمر نے بھی یہ واضح اعلان کردیا ہے کہ اگرمذاکرات کامیاب ہوگئے تو وہ پاکستان کے اندر اپنی سرگرمیاں ختم کرنے پر تیار ہوسکتے ہیں تاہم وہ افغانستان میں اپنا ’جہاد‘ جاری رکھیں گے۔
یہی خوف ہے جس نے رچرڈ باوچر اور نیگرو پونٹے کو شیڈول سے ہٹ کر خیبر سے لے کر کراچی تک دورہ کرنے پر مجبور کردیا۔ مگر حکمران اتحاد میں شامل سیاستدانوں آصف زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، اسفندیار ولی خان، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے ہونے والی ملاقاتوں میں انہیں بظاہر وہ سب کچھ شاید ہاتھ نہیں آیا جو ایک زمانہ میں’فرد‘ واحد انہیں دے سکتا تھا۔(
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/04/080403_pak_taliban_sen.shtml)
نئی حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بھی یہی ہے کہ وہ پس پردہ ہونے والے مذاکرات میں طالبان کو کس طرح اس بات پر قائل کرسکتی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ افغانستان میں بھی لڑنے کے لیے سرحد پار نہیں کریں گے۔ "
اس رپورٹ کا غور سے پڑھیے اور بتائے اگر مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہو جاتا ہے اور امن کے عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے ان مقامی طالبان کو اس بات پر راضی رکھ کر کہ امریکی مفادات کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال نہیں ہوگی باڑجوڑ، ڈومہ ڈلا ار مہمند ایجنسی جیسے واقعات نہیں ہوں گئے پھر ان مقامی طالبان کو ان کے کلچر کے مطابق وہ زندگی گزارنے کاحق دیا جائے جو وہ صدیوں سے گزار رہے ہیں تو اس میں کیا پاکستان کا بھلا نہیں ہے؟ 11/9 سے پہلے کا پاکستان چاہے کتنا برا کیوں نہ ہو اتنا غیر محفوظ کبھی نہیں تھا ایسا ہی ایک کامیاب امن معاہدہ جنگ کی آگ میں جلتے ہوئےوانا میں کیا گیا تھا آئیے اس کے بارے میں بھی پڑھتے ہیں
بی بی سی
"پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے بازار میں طالبان کا دفتر قائم ہے جس کے سامنے انہوں نے ناکہ لگا رکھا ہے، وہاں موجود مسلح طالبان بازار میں داخل ہونے والی ہرگاڑی پر نظر رکھتے ہیں۔
علاقے کے لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے طالبان کے دفتر سے رجوع کرتے ہیں جہاں پر فریقین سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مسئلے کو قبائلی روایات کے ذریعہ حل کرواناچاہتے ہیں یا شریعت کے تحت۔ یہ ہے آج کا وانا جہاں ایک سال قبل یعنی پندرہ اپریل دوہزار سات کو طالبان اور حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا۔
معاہدے سے پہلے وانا میں مقامی طالبان سربراہ مولوی نذیر کی سربراہی میں وزیر قبیلے نے سکیورٹی فورسز کی معاونت سے وہاں موجود ازبک جنگجؤوں کیخلاف آپریشن کیا تھا، جس کے بعد حکومت طالبان امن معاہدہ عمل میں آیا۔
میں جب وانا پہنچا تو کافی تگ و دو کے بعد مولوی نذیر سے ملاقات ہوئی۔ مگر انہوں نے ایف سی آر کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا اور میرے سوالات کے جواب میں الٹا مجھ سے پوچھا: ’آپ اس سے قبل بھی وانا آئے تھے کیا آپ نے کبھی بھی اس طرح کھلم کھلا گھومنے پھرنے کا تصور کیا تھا۔ اب اگر آپ پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈہ جانا چاہیں تو وہاں بڑے آرام سے آ جاسکتے ہیں۔وانا اور آس پاس کے علاقوں میں مکمل طور پر امن ہے۔ ایک قبائلی مشر ملک محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب سے طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے یہاں پر قتل، اغواء اور دیگر چھوٹے موٹے جرائم کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔
ان کے بقول کئی کئی مہینوں تک بند رہنے والے تمام راستے کھل گئے ہیں جبکہ تاجر اور زمیندار بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
تاہم طالبان کے علاوہ مقامی لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے سابق ایم این اے مولانا نور محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد علاقے میں سو فیصد امن لوٹ آیا ہے مگر مبینہ امریکی حملوں سے امن کے اس عمل کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔‘
ان کے بقول’نومنتخب مرکزی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کر رکھا ہے اس سے قبل وہ امریکہ پر یہ بات واضح کردیں کہ آئندہ ہونے والے معاہدے کے بعد اگرسرحد پار سے میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر خطے میں دیرپا امن لانا ممکن نہیں ہوگا۔‘
ایک سرکاری اہلکار کے مطابق وانا بازار میں ٹریفک کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے اور ٹریفک اصولوں کی خلاف ورزی پر دو ہزار تک جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ صرف طالبان اور سرکاری اہلکاروں کو اپنے گاڑی کے شیشے سیاہ رکھنے کی اجازت ہے۔قتل اور اغواء کی وارداتوں کو روکنا، قیمتوں کا کنٹرول اورافغانستان کو آٹے کی سمگلنگ کی روک تھام کی ذمہ داری بھی طالبان نے لے رکھی ہے۔ اہلکار کے مطابق طالبان کی تقریباً اٹھائیس گاڑیاں دن رات علاقے کا گشت کرتی ہیں اور اس دوران ہر مشکوک شخص سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں طالبان نےایک خود کش بمبار کو گرفتار کر کے اسے اپنے مرکز جسے موسیٰ قلعہ کا نام دیا گیا ہے میں قید کر لیا ہے۔
ایک برس قبل یہ تمام ریاستی ذمہ داریاں پولٹیکل انتظامیہ نے سنبھال رکھی تھیں۔ اب وانا میں فوج سمیت تمام سرکاری اہلکار اپنے اپنے دفاتر اور بیرکوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میں نے وانا میں وہ منظر بھی دیکھا کہ کل تک ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن فوجی اور طالبان آج سڑک پر قافلوں کی صورت میں جاتے ہوئے اوور ٹیک کرنے کے لیے بڑے آرام سے ایک دوسرے کی گاڑیوں کے لیے راستہ خالی کردیتے ہیں۔
البتہ فروری اور مارچ میں غیر ملکیوں کے دو مشکوک ٹھکانوں پر مبینہ میزائل حملوں کے نتیجہ میں بیس سے زائد غیر ملکیوں کی ہلاکت کے بعد یہ امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ طالبان نے ردعمل کے طور پر پاکستانی فوج پر خودکش حملہ کیا تھا جسکی ذمہ داری انہوں نے بعد میں قبول بھی کرلی۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں حملے امریکہ نے بغیر پائلٹ طیاروں سے کیے تھے جس میں بقول ان کے ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی غیر ملکی شامل نہیں تھا۔طالبان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں مگر میں نے وانا میں دو دن کے قیام کے دوران لڑکیوں کو برقعوں میں سکول جاتے ہوئے اور لڑکوں کو یونیفارم میں ملبوس فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا۔
دو سال قبل پڑوسی ایجنسی شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان نے فٹ بال کھلاڑیوں کو پکڑ کر انہیں سزائیں دی تھیں۔افغانستان میں بھی طالبان نے اپنی دور حکومت میں ایک پاکستانی ٹیم کو گرفتار کر لیا تھا اور سر منڈھوانے کے بعد انہیں واپس چھوڑ دیا تھا۔
اب آپ وانا میں اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے موسیقی بھی سن سکتے ہیں البتہ بازار میں سرعام موسیقی بجانے پر پابندی ہے۔ تین دن قبل طالبان نے پمفلٹ کےذریعے تمام دکانداروں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ دکانوں سے تصاویر اتار لیں ۔"
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/04/080415_wana_agreement_kakar.shtml
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان امن معاہدوں کے حق میں کون ہے اور مخالف کون
ان امن معاہدوں کے حق میں پاکستانی حکومت، پاکستان طالبان ، پاکستانی عوام،قبائلی عوام اور ساتھ ہی یہ بات دلچسپ ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین بھی ہے ملاحظہ کیجے
بی بی سی
برطانیہ کاموقف
"برطانوی وزیرخارجہ ڈیوِڈ ملی بینڈ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے شدت پسندوں کے ساتھ بات چیت کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی برطانیہ کے لیے اس لیے اہم ہے کہ ان کے ملک میں دہشتگردی کے خلاف ستّر فی صد تحقیقات کی کڑیاں پاکستان جا کر ملتی ہیں۔
برطانوی وزیرخارجہ پاکستان کے دو روزہ دورے پر گزشتہ روز پشاور پہنچے تھے جہاں انہوں نے صوبہ سرحد کے گورنر اور وزیر اعلی سمیت دیگر اہم راہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ تشدد ترک کرنے پر آمادہ ہوں، ان کو قومی دھارے میں شریک کرنا ضروری ہے۔۔۔۔۔"
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/04/080420_miliband_pak_sen.shtml
یورپی یونین کا موقف
"یورپی یونین کے خصوصی نمائندہ برائے امورِ خارجہ اور سکیورٹی پالیسیز خاویئر سولانہ نے کہا ہے کہ یورپی یونین حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستانی عسکریت پسندوں سے مفاہمت کے عمل کی حمایت کرتا ہے اور اگر افغانستان کی حکومت چاہے تو وہ بھی افغان طالبان سے بات کرسکتی ہے لیکن یورپی یونین القاعدہ کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں کی حامی نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بات منگل کو دفتر خارجہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔۔۔۔۔"
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/04/080422_pak_solana_as.shtml
اب آپ بتائیے ان مذاکرات سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہے اور مذاکرات ہونے چاہیں یا نہیں اس کا فیصلہ پاکستانی عوام اور حکومت کو کرنا ہے اس سلسلے میں پاکستانی صحافیوں کا بھی موقف میں پیش کرنا چاہتا ہوںلیکن بعد میں
چلتے چلتے ایک سروے۔ دیکھیے پاکستانی عوام کی خواہش کیا ہے اور یہ امریکی خواہش سے کس متضاد ہے
"As many as 44 per cent of Pakistanis think the United States poses the greatest threat to their personal safety. India is next at 14 per cent. By contrast, a mere six per cent feel Al Qaeda is a threat, with four per cent the Afghan Taliban and eight per cent the Pakistani Taliban.
Half of all Pakistanis want their government to negotiate and not fight Al Qaeda, with less than a third saying military action by the Pakistani government against Al Qaeda is called for.
For Pakistani Taliban, 58 per cent favour negotiations to 19 per cent for military action."
یہ سروے دو امریکی تھنک ٹینک کے کروائے ہوئے ہیں پوری خبر دیکھیے
http://www.dawn.com/2008/06/21/top6.htm
ساتھ ہی ایک اور اہم بات کہ شاید اب افغان طالبان کو پاکستان کو بطور پناہ گاہ استعمال کرنے میں اتنا انٹرسٹ نہ ہو کیوں اب وہ افغانستان میں کافی مضبوط ہو چکے ہیں دیکھیئے
"Significantly, the Taliban no longer need to retreat to the sanctuary of Pakistan's tribal areas when attacked by NATO - they now have secure bases deep in Khost.
This is the first time the Taliban have acquired such a tactical edge. The anti-Soviet mujahideen were in a similar position in 1988, a year before the Soviet withdrawal from Afghanistan, which it had invaded in 1979. "
http://www.atimes.com/atimes/South_Asia/JF28Df01.html
اب ہماری حکومت کو کرنا صرف اتنا ہے کہ امن مذاکرات کا عمل آگئے بڑھائیںطالبان کو ان کے کلچر کے مطابق جینے کی آزادی دیں اور اپنی بعض شرائط پر جیو اور جینے دو کے اصول پر رکھیں ساتھ ہی اپنی سرحدوں کی حفاظت کے سخت اقدامات کریں۔