آپ ووٹ کے غازی نہیں گفتار کے غازی ہیں کاشف صاحب۔۔ ماشاء اللہ آپ کی اس تھریڈ میں نان اسٹاپ پوسٹس سے پتا چل رہا ہے۔۔
گھر میں بیٹھے بیٹھے آپ نے ایک ذہن بنا لیا ہے۔۔ ذرا باہر نکلا کریں ، تازہ ہوا کھایا کریں تاکہ ذہن سے مایوسی کے بادل چھٹیں اور جن کی آپ درپردہ حمایت میں رطب اللسان ہیں۔ ان کی کھل کر حمایت کرنے کا حوصلہ پیدا کر سکیں۔۔دراصل آپ اندرونی کشمکش کا شکار ہیں۔۔
پرویز مشرف جیسا آمر اس وقت بھی حکومت میں ہوتا تو وہ قادری جی کو بھی زبردستی کینیڈا کے جہاز پر سوار کر ڈالتا۔۔ نواز شریف سے آپ کو لگتا ہے کوئی خاص نقصان پہنچا ہے۔۔ اس لیے آپ کی ہر پوسٹ میں اس کی جھلک موجود ہے۔۔ پر چلیے آپ نے یہ تو مانا کہ ان کے پاس ووٹ کی طاقت موجود ہے۔۔ اور اگر الیکشن ہوں تو اس میں ووٹ کی طاقت ہی کام کرتی ہے۔۔ ہاں مارشل لا کے لیے صرف ایک ہی طاقت ضروری ہوتی ہے۔۔ ایجی ٹیشن پھیلا ڈالو اور مارشل لا لگا ڈالو۔۔ مہرے چاہے کوئی بھی ہوں۔۔ اور ایسے مہرے ہمیشہ اور با آسانی ان قوتوں کو ہر دور میں دستیاب ہو جاتے ہیں۔۔
آپ کی مردم شناسی کی صلاحیت کو داد دیتا ہوں۔ آپ کی یہ بات درست ہے کہ میں نے ذہن گھر میں بیٹھے بیٹھے بنایا ہے۔آپ کی یہ بات بھی درست کہ میں گفتار کا غازی ہوں! صرف ایک اندازہ غلط نکلا کہ میں اندرونی کشمکش کا شکار ہوں۔ نواز شریف سے اختلاف کی وجہ ان کی شدت پسندوں کے لیے ہمدردی (اور کچھ خواہ مخواہ کا بیر جیسےاپنی امی کے سمجھانے کے باوجود مجھے کدو زہر لگتے ہیں! ) اور شہباز شریف کی وزن سے گرا کر غلط شعر پڑھنے کی عادت ہے! ان کے ووٹ کی طاقت کا اب بھی اعتراف ہے ۔ پر ووٹ تو صرف الیکشن میں کام آتا ہے۔ اب کیا کیا جائے کہ اس ملک میں "الیکشن سے آگے جہاں اور بھی ہیں"۔ قادری صاحب کی بات بھی اس لیے سنتا ہوں کہ وہ نواز شریف کی خوب کلاس لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ سب سے ہٹ کر کچھ الگ کرنے کا یارا رکھتے ہیں۔ میں ٹھہرا غالب کا ہم خیال جو کہہ گیا کہ: "نہ می رویم بہ راہی کہ کاروان رفتست"۔ باقی اگر کبھی قادری صاحب بھی "کچھ" بنے تو میرے "غیظ و غضب" سے نہ بچ پائیں گے کہ میرے مزاج میں "ثبات تو بس ایک تغیر" کو ہے۔ آج ہی ڈھائی ہزار روپیہ فی گھنٹہ کی نوکری بس اس لیے چھوڑ دی کہ بور ہو گیا تھا!
میرے مایوس المزاج ہونے سے متعلق آپ کااندازہ بھی درست ہے۔ البتہ اس کی وجہ وہ نہیں جو آپ سمجھے۔ میری 'یاسیت نگاری' کا مسئلہ کافی گھمبیر ہے اور بقول غالب:
فنا تعلیمِ درسِ بے خودی، ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر
(ضرورت پڑے تو تشریح کے لیے رجوع کریں "علمی گائیڈ اردو ایڈوانس بی اےسال دوم" کہ میں نے بھی اس شعر کی تشریح وہیں سے پڑھی تھی )۔
چونکہ کافی سارے درست اندازے لگا کر آپ اپنی نفسیات دانی کی دھاک بٹھا ہی چکے ہیں (اور مجھ سے داد بھی پا چکے)، لہٰذا مزید "تحلیلِ نفسی کے لیے "درخواست" کروں گا کہ "
آپ کی شاعری کے سیکشن"میں میری شاعری کے کچھ دھاگوں پر نظر دوڑائیں کہ اس کا بہت سا حصہ مرا آئینہ ذات ہے۔ اپنی شاعری پر بھی آپ کے تبصرے (اور میری نفسیات کے مزید کچھ پوشیدہ پہلوؤں پر روشنی) کا بے چینی سے انتظار کروں گا۔(اقبال تو اقبال سے آگاہ نہیں ہے!)
رہی بات نان سٹاپ لکھنے کی، تو اس کی وجہ یہ ہے برسوں بعد پھر سے شعر و نثر لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ اب مشق تو کرنی ہی ہے۔ چاہے موضوعِ سخن سیاست ہی کیوں نہ ہو ۔ اوپر سے سو فیصد بیکار ہوں کہ پکی نوکری تو دو برس پہلے چھوڑ دی تھی۔ اب میں ہوں اور مری فرصت (یا پھر "ماتمِ یک شہرِ آرزو") ۔ یا سوتا ہوں یا لکھتا پڑھتا ہوں! ویسے دو ہی دنوں میں قلم میں کافی روانی آ گئی ہے۔ موازنہ کیجے میری کل اور آج کے مراسلات کا۔ فرق صاف ظاہر نظر آئے گا۔ آج صبح تو کمال ہی ہو گیا۔ آنکھ کھلتے ہی بستر میں کم و بیش "چار سال بعد" ایک شعر کی آمد ہوئی۔ شعرمیری
اس پرانی غزل کا ہے (اور سچ تو یہ ہے کہ پوری غزل کے ساتھ ہی مزہ دےگا):
اُف وہ حسن آرائیِ فطرت کہ ہنگامِ غروب
ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا
سچ پوچھیے تو مجھے بڑا مزہ آ رہا ہے۔ اور سب سی اچھی بات کہ بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ اوپر سے پھر سے "آمد" کا آغاز نعمت نہیں تو کیا ہے؟