کوارنٹو کی تفصیل جو میں نے گذشتہ صفحات پر دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ تکنیکی طور پر آپ عدالت سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ آیا میری درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں۔ جب تک عدالت آپ کی بات سن نہ لے، کیسے فیصلہ دے سکتی ہے یا رجسٹرار کا کام تو نہیں کہ وہ فیصلہ کر دے۔ اس طرح تو وہ عدالت کے اختیارات میں دخل دے رہا ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ کیا قادری کے پاس وکالت یا قانون کی کوئی ڈگری ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنا کیس خود لڑنے پہنچے؟ ہر بندے کا اپنا دائرہ عمل ہوتا ہے۔ اگر وہ اس سے تجاوز کرے تو غلطی کرتا ہے۔ جتنا بڑا اسے دنیاوی اعتبار سے سمجھا جائے گا اتنی چھوٹی غلطی پر اتنا بڑا رد عمل سامنے آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مثال سامنے ہے۔ کبھی کمپیوٹرز کی بنیادی معلومات کے بارے یا طبی امراض کے بارے ان کے کالم پڑھے؟محترم قیصرانی صاحب، کوارنٹو کو بنیاد بنا کر وفاداری مشکوک ٹھہرانا دل کو جچتا نہیں۔ پھر یہ کہ درخواست مسترد کرنے کا کوئی شائستہ طریقہ بھی ہو سکتا تھا۔ عدالت یہ بھی سوچے کہ قادری صاحب کے غلط یا درست لاکھوں مداح ہیں۔ تین دن تک انھیں عدالت میں ذلیل کر کے ان کے پیروکاروں میں جو اضطراب پھیلایا گیا اس سے ملک و قوم کی کون سی خدمت ہوئی؟ کیا عدالت یہ سب نواز شریف صاحب کو خوش کرنے کے لیے کر رہی ہے؟ اس سے تو بہتر ہوتا کہ ٹکنیکل اعتراض لگا کردرخواست رجسٹرار آفس سے ہی واپس کر دی جاتی۔میرے خیال میں تو قادری صاحب کے ساتھیوں میں پائی جانے والی بے چینی ان کی تحریک کو مزید ہنگامہ خیز بنائے گی۔
ایک بے رہنما قوم کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں!
اس بات پر میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ قادری صاحب کسی ٹھہرے مزاج کے وکیل کی خدمات حاصل کرتے تو ملک مفت کے ہیجان سے بچا رہتا۔ انھوں نے وہی کیا جو ایک "نیم حکیم" کر سکتا تھا۔ مگر اس کے باوجود مجھے بڑا گلہ جج صاحبان سے بھی ہے۔ جج صاحبان کا مقام تو یہ ہے کہ مجرموں سے معاملہ کرتے وقت بھی اپنے منصب کا خیال رکھتے ہیں۔ کرسیِ انصاف کا جذبات اور لیڈری سے کیا کام؟ اس ملک کا بیڑہ غرق پہلے لیڈر جنرلوں، لیڈر دکانداروں، لیڈر جاگیرداروں وغیرہ وغیرہ نے کیا ۔ اب لیڈر جج بھی سامنے آ گئے۔ کبھی کوئی "لیڈر لیڈر" بھی سامنے آئے گا؟کوارنٹو کی تفصیل جو میں نے گذشتہ صفحات پر دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ تکنیکی طور پر آپ عدالت سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ آیا میری درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں۔ جب تک عدالت آپ کی بات سن نہ لے، کیسے فیصلہ دے سکتی ہے یا رجسٹرار کا کام تو نہیں کہ وہ فیصلہ کر دے۔ اس طرح تو وہ عدالت کے اختیارات میں دخل دے رہا ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ کیا قادری کے پاس وکالت یا قانون کی کوئی ڈگری ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنا کیس خود لڑنے پہنچے؟ ہر بندے کا اپنا دائرہ عمل ہوتا ہے۔ اگر وہ اس سے تجاوز کرے تو غلطی کرتا ہے۔ جتنا بڑا اسے دنیاوی اعتبار سے سمجھا جائے گا اتنی چھوٹی غلطی پر اتنا بڑا رد عمل سامنے آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مثال سامنے ہے۔ کبھی کمپیوٹرز کی بنیادی معلومات کے بارے یا طبی امراض کے بارے ان کے کالم پڑھے؟
ہمارے چیف جسٹس اس قابل ہوتے تو کیا ہی بات تھی۔ انتہائی ناکارہ شخص کو محض اس لئے چیف جسٹس بنا دیا گیا کہ اس نے پی سی او کے تحت حلف لیا۔ بعد میں بے شک اپنے تھوکے کو چاٹتا رہا (یہ اردو کا محاورہ ہے، تاہم اگر برا محسوس ہو تو کوئی کم برا محاورہ بتا دیجیئے۔ میں بدل دوں گا)اس بات پر میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ قادری صاحب کسی ٹھہرے مزاج کے وکیل کی خدمات حاصل کرتے تو ملک مفت کے ہیجان سے بچا رہتا۔ انھوں نے وہی کیا جو ایک "نیم حکیم" کر سکتا تھا۔ مگر اس کے باوجود مجھے بڑا گلہ جج صاحبان سے بھی ہے۔ جج صاحبان کا مقام تو یہ ہے کہ مجرموں سے معاملہ کرتے وقت بھی اپنے منصب کا خیال رکھتے ہیں۔ کرسیِ انصاف کا جذبات اور لیڈری سے کیا کام؟ اس ملک کا بیڑہ غرق پہلے لیڈر جنرلوں، لیڈر دکانداروں، لیڈر جاگیرداروں وغیرہ وغیرہ نے کیا ۔ اب لیڈر جج بھی سامنے آ گئے۔ کبھی کوئی "لیڈر لیڈر" بھی سامنے آئے گا؟
رانا مبشر کے پروگرام میں اگر ایسی بحث ہوئی ہے تو اس کی تائید نہیں کی جا سکتی ۔۔۔ پاکستان میں اب بھی اسی فی صد علاقوں میں پی ٹی وی دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ وہاں تو کوئی ایسی بحث سرے سے نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ بڑے بڑے نجی ٹی وی چینلز پر بھی ایسی کوئی بحث غالباَ نہیں ہوئی ۔۔۔ رانا مبشر جس ٹی وی نیٹ ورک سے متعلق ہیں، وہ خاصا غیر معروف ہے ۔۔۔۔ لیکن وہاں پر بھی اس موقع پر ایسی بحث مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔۔۔ خیر، آپ بے فکر رہیے ۔۔۔ طاہر القادری صاحب پہلے بھی کئی بار اسی طرح منظر عام پر آ چکے ہیں، اور اپنا پرنور چہرہ دکھا کر منظرنامے سے غائب بھی ہوتے رہے ہیں ۔۔۔ اس لیے خاطر جمع رکھیے ۔۔۔۔ وہ اپنی ذات کی وجہ سے پوری قوم کو مصیبت میں کیوں ڈالیں گے؟ آپ کو خواہ مخواہ ہی فکر لاحق ہو رہی ہے ۔۔۔۔میں نے آج خود "رانا مبشر"کو اپنے پروگرام میں "مردوں سے گفتگو" کی ویڈیو کا مذاق اڑاتے دیکھا۔ یاد رکھیے اگر کسی ایک شخص کے بھی مذہبی عقائد مجروح ہوئے ہوں تو یہ ایک غیر انسانی بات ہو گی۔ یہاں تو قادری صاحب کے ہزاروں (شاید لاکھوں) پیروکاروں اور پاکستان کے ایک کروڑ سے زائد شیعہ حضرات کے جذبات کا معاملہ ہے۔ مذہب کو پیچ میں نہ لایا جائے۔ باقی تنقید تو سیاست کے کھیل کا حصہ ہے۔ ہم کس منہ سے دنیا والوں کو گستاخانہ خاکے بنانے سے روکتے ہیں۔ ہم تو خود ایک دوسرے کے عقائد کا احترام نہیں کرتے۔
امید تو مجھے بھی یہی ہے۔ خدشات کی بنیاد انگریزی کا یہ محاورہ ہے کہ "بہترین کی امید رکھیں لیکن بد ترین کے لیے تیار رہیں"۔ میری امیدیں اور خدشات تو سراسر ذاتی ہیں۔ مگر کار پردازانِ امورِ مملکت پر لازم ہے کہ وہ اس محاورے سے ہدایت حاصل کریں۔ رہی بات میڈیا کی، تو ابتدا میں جو چیز مشرف کا کارنامہ لگتی تھی اب ایک لعنت محسوس ہونے لگ گئی ہے۔ کچھ نہ کچھ روک ٹوک تو ضرور ہونی چاہئے۔ میرے خیال میں ہم سب کو میڈیا کے منفی عمل کی جانب لوگوں کی توجہ زیادہ زور شور سے مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے نام پر ریٹنگ حاصل کرنےاور مال بنانے کی دوڑ پورے معاشرے میں بے چینی پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔ جان ٹرو وولٹا کی ایک فلم "مَیڈ سٹی" یاد آ رہی ہے جس میں بریکینگ نیوز کی خاطر جنونی صحافیوں کی دوڑیں با لآخر ایک غریب سیکیورٹی گارڈ کی جان لے لیتی ہیں۔رانا مبشر کے پروگرام میں اگر ایسی بحث ہوئی ہے تو اس کی تائید نہیں کی جا سکتی ۔۔۔ پاکستان میں اب بھی اسی فی صد علاقوں میں پی ٹی وی دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ وہاں تو کوئی ایسی بحث سرے سے نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ بڑے بڑے نجی ٹی وی چینلز پر بھی ایسی کوئی بحث غالباَ نہیں ہوئی ۔۔۔ رانا مبشر جس ٹی وی نیٹ ورک سے متعلق ہیں، وہ خاصا غیر معروف ہے ۔۔۔ ۔ لیکن وہاں پر بھی اس موقع پر ایسی بحث مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔۔۔ خیر، آپ بے فکر رہیے ۔۔۔ طاہر القادری صاحب پہلے بھی کئی بار اسی طرح منظر عام پر آ چکے ہیں، اور اپنا پرنور چہرہ دکھا کر منظرنامے سے غائب بھی ہوتے رہے ہیں ۔۔۔ اس لیے خاطر جمع رکھیے ۔۔۔ ۔ وہ اپنی ذات کی وجہ سے پوری قوم کو مصیبت میں کیوں ڈالیں گے؟ آپ کو خواہ مخواہ ہی فکر لاحق ہو رہی ہے ۔۔۔ ۔
خدا کے نزدیک سب ایک جیسے نہیں ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ سب کو ایک جیسا ہی پیدا کرتابھائی ہم نے تو عقائد کی بات ہی نہیں کی ایک بنیادی سوال کیا ہے کہ کیا خدا کے نزدیک سب ایک جیسے نہیں ۔
ہاں میرے کہنے کے انداز پر ضرور یہ کہا جا سکتے ہیں کہ میں طنز کر رہا ہوں ۔ اگر کسی کو دکھ ہوا ہو تو معافی چاہتا ہو۔
امید تو مجھے بھی یہی ہے۔ خدشات کی بنیاد انگریزی کا یہ محاورہ ہے کہ "بہترین کی امید رکھیں لیکن بد ترین کے لیے تیار رہیں"۔ میری امیدیں اور خدشات تو سراسر ذاتی ہیں۔ مگر کار پردازانِ امورِ مملکت پر لازم ہے کہ وہ اس محاورے سے ہدایت حاصل کریں۔ رہی بات میڈیا کی، تو ابتدا میں جو چیز مشرف کا کارنامہ لگتی تھی اب ایک لعنت محسوس ہونے لگ گئی ہے۔ کچھ نہ کچھ روک ٹوک تو ضرور ہونی چاہئے۔ میرے خیال میں ہم سب کو میڈیا کے منفی عمل کی جانب لوگوں کی توجہ زیادہ زور شور سے مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے نام پر ریٹنگ حاصل کرنےاور مال بنانے کی دوڑ پورے معاشرے میں بے چینی پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔ جان ٹرو وولٹا کی ایک فلم "مَیڈ سٹی" یاد آ رہی ہے جس میں بریکینگ نیوز کی خاطر جنونی صحافیوں کی دوڑیں با لآخر ایک غریب سیکیورٹی گارڈ کی جان لے لیتی ہیں۔
ہمیں قدرت نے لفظوں سے کھیلنے کا ہنر دیا ہے۔ آپ سب سمجھتے ہیں کہ ہم مثبت تحریروں کے ذریعے نفرتوں اور جہالت کو ختم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اگر ایک ایسے پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی جائے جس کی پہنچ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ہو تو ہی فائدہ ہو گا۔ اس جیسے دھاگوں سے جس میں دو چار لوگ ایک دوسرے سے مکالمہ کر رہے ہوں کوئی مثبت تبدیلی آنے والی نہیں۔ میں اس معاملے میں با لکل کورا ہوں کہ تمام عمر تنہائی اور اپنی ہی صحبت میں گزاری۔ سوشل میڈیا کا بس سرسری استعمال ہی آتا ہے۔ ہے کوئی مشورہ؟
اگلے چیف کی حد تک، چاہے وہ چیف جسٹس ہوں (کہ موجودہ چیف کی سروس کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے) یا پھر آرمی کے چیف، دونوں ہی موجودہ چیفوں سے بہتر ہوں گے کہ پہلے کے سامنے مثال ہے کہ کیا نہیں کرنا اور دوسرے کے سامنے کہ کیا کرنا ہےایک تازہ خبر جس نے مجھے کافی حیران کیا ہے۔ سن کر باقی دوست بھی شاید حیران ہوں۔ ہمارے ایک نہایت اچھے جاننے والے طاہر قادری صاحب کے بہت پرانے سپورٹر ہیں اور ان کے جلسے میں بھی شریک تھے۔ انھوں نے میرے بھائی کوقادری صاحب سے حال ہی میں ہونے والی ایک نجی محفل کا حال بیان کیا۔ فرماتے ہیں کہ قادری صاحب نے کہا کہ " بیٹا مجھے علم ہے کہ ہماری پارٹی کمزور ہے اور اس وقت سب کچھ بدل ڈالنے کی یا انتخابات میں بڑی کامیابی کے قابل نہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کو 'ان لوگوں' کے رحم و کرم پر تو نہیں چھوڑ سکتے۔ کچھ نہ کچھ ہمت تو کرنی ہی پڑے گی"۔
وہ لوگ جو یہ سمجھ رہےہیں یا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قادری صاحب خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں شاید اندر کے حالا ت سے واقف نہیں۔ میں تو اب کم از کم یہ سمجھ سکتا ہوں کہ غلط یا درست، قادری صاحب جو بھی کر رہے ہیں، کا فی کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اب جلد کینیڈا یا کہیں اور جانے والے نہیں۔ انھیں اب غالبًا انتخابات کا انتظار رہے گا۔ اگر انتخابات ہوئے (مجھے تو اب بھی یقین نہیں کہ کیسے ہوں گے!) تو ظاہراً اکثر سیٹیں پھر نواز شریف اور پی پی پی کو ملنے کا امکان ہے۔ اس صورت میں پی ٹی آئی نتائج کو مسترد کر دے گی اور شاید بڑی احتجاجی تحریک شروع کر دے۔ اس وقت قادری صاحب ایک بڑی مضبوط اخلاقی پوزیشن پر نظر آئیں گے جس کا محور ہو گا "کیوں ، میں نہ کہتا تھا"۔
لگتا ہے حالات ایک اور مارشل لاء یا پھر قومی حکومت کی طرف جا رہے ہیں۔ کیانی صاحب کے بھی آخری چند ماہ رہ گئے ہیں ۔ نہ جانے اگلا چیف کیا رویہ اپنائے گا؟
غضب کا تبصرہ ہے!اگلے چیف کی حد تک، چاہے وہ چیف جسٹس ہوں (کہ موجودہ چیف کی سروس کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے) یا پھر آرمی کے چیف، دونوں ہی موجودہ چیفوں سے بہتر ہوں گے کہ پہلے کے سامنے مثال ہے کہ کیا نہیں کرنا اور دوسرے کے سامنے کہ کیا کرنا ہے
ایک تازہ خبر جس نے مجھے کافی حیران کیا ہے۔ سن کر باقی دوست بھی شاید حیران ہوں۔ ہمارے ایک نہایت اچھے جاننے والے طاہر قادری صاحب کے بہت پرانے سپورٹر ہیں اور ان کے جلسے میں بھی شریک تھے۔ انھوں نے میرے بھائی کوقادری صاحب سے حال ہی میں ہونے والی ایک نجی محفل کا حال بیان کیا۔ فرماتے ہیں کہ قادری صاحب نے کہا کہ " بیٹا مجھے علم ہے کہ ہماری پارٹی کمزور ہے اور اس وقت سب کچھ بدل ڈالنے کی یا انتخابات میں بڑی کامیابی کے قابل نہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کو 'ان لوگوں' کے رحم و کرم پر تو نہیں چھوڑ سکتے۔ کچھ نہ کچھ ہمت تو کرنی ہی پڑے گی"۔
وہ لوگ جو یہ سمجھ رہےہیں یا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قادری صاحب خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں شاید اندر کے حالا ت سے واقف نہیں۔ میں تو اب کم از کم یہ سمجھ سکتا ہوں کہ غلط یا درست، قادری صاحب جو بھی کر رہے ہیں، کا فی کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اب جلد کینیڈا یا کہیں اور جانے والے نہیں۔ انھیں اب غالبًا انتخابات کا انتظار رہے گا۔ اگر انتخابات ہوئے (مجھے تو اب بھی یقین نہیں کہ کیسے ہوں گے!) تو ظاہراً اکثر سیٹیں پھر نواز شریف اور پی پی پی کو ملنے کا امکان ہے۔ اس صورت میں پی ٹی آئی نتائج کو مسترد کر دے گی اور شاید بڑی احتجاجی تحریک شروع کر دے۔ اس وقت قادری صاحب ایک بڑی مضبوط اخلاقی پوزیشن پر نظر آئیں گے جس کا محور ہو گا "کیوں ، میں نہ کہتا تھا"۔
لگتا ہے حالات ایک اور مارشل لاء یا پھر قومی حکومت کی طرف جا رہے ہیں۔ کیانی صاحب کے بھی آخری چند ماہ رہ گئے ہیں ۔ نہ جانے اگلا چیف کیا رویہ اپنائے گا؟
کیا ہی اچھا ہو کہ تمام لوگ دوسروں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کرنے لگیں۔ ویسے بڑی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی صلاحیت پہلے تو صرف جماعت اسلامی یا پی پی پی کے پاس تھی اب شاید پی ٹی آئی کے پاس بھی ہو۔مزید براں لگتا ہےکہ پی پی پی اور جماعت ِ اسلامی دونوںجماعتیں ہی یہ صلاحیت کافی حد تک کھو چکی ہیں۔ رہ گئے نواز شریف تو ان کے پاس ووٹ تو بہت ہوں گے مگر ڈنڈے کھانے والے کم کم کہ پاکستان کا کاروباری اور مڈل کلاس طبقہ ووٹ تو سکتا ہے پر ڈنڈے نہیں کھا سکتا۔ میرے اکثر جاننے والے ن لیگ کے ووٹر ہیں۔ ان کی ہمدردی کبھی ووٹ سے آگے نہیں جاتی کہ (مجھ سمیت) آسانی کی زندگی گزارنے والے جیل اور لاٹھی سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا ملک الموت سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نواز شریف مشرف کے دور میں ہمارے گھر سے تین کلومیٹر دوری پر واقع ایئر پورٹ پر اترے تھے تو چند پولیس والوں کو ڈاج دے کر محض عمران خان ہی ان کی سپورٹ میں وہاں پہنچ پائے تھے۔ نواز شریف کے لاکھوں پنڈی وال ہمدرد ٹی وی پر تماشا ہی دیکھتے رہے۔ مجھے خواجہ سعد رفیق کی بے بس نگاہوں کا منظر آج بھی یاد ہے۔ کتنی آسانی سے مشرف نے زبردستی نواز شریف صاحب کو زبردستی واپس جدہ بھجوا دیا تھا۔ہمارے ہاں ہمیشہ پریشر گروپس کی سیاست سے ڈرا جاتا ہے۔۔ یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ اگر کسی بڑی پارٹی کو بھی دبائیں گے،، ان کے مینڈیٹ کی توہین کریں گے تو ان کے ووٹرز بھی "بڑی"احتجاجی تحریک شروع کر سکتے ہیں۔۔ اقلیتوں سے ڈرنے والوں کو اکثریت کی ناراضگی سے بھی خائف ہونا چاہیئے
بہت ہی خوب!"جس بستی میں ایسا انصاف کرنے والے انسان رہتے ہوں، وہ کسی الّو کی نحوست کی وجہ سے ویران نہیں ہوتی"
(حکایات ِ رومی میں سے ایک حکایت)
اسٹیبلشمنٹ کے اپنے حالات اتنے کمزور ہیں کہ ان کے کسی منصوبے پر یقین کرنا مشکل لگتا ہے۔ میں نے تقریبا دس سال سرکاری افسری کی۔ سرکار کا اندر کا حال پہلے کے مقابلے میں اب بہت پتلا ہے۔ نالائقی کے سبب سول اسٹیبلشمنٹ تو سمجھو بیٹھ ہی چکی ہے۔ وہ گئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ تو وہ پہلے ہی چو مکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ نئے محاذ شاید نہ کھولے کہ اب بین الاقوامی مدد بھی حاصل نہیں ہو رہی۔ اوپر سے بگڑتے مالی حالات۔ اتنی بے یقینی پہلے کبھی نہ تھی۔ہنگ پارلیمنٹ بن گئی تو کافی کم زور حکومت بنے گی مرکز میں ۔۔۔ اور اسٹیبلشمنٹ کی تمنا بھی یہی ہے ۔۔۔ کسی کو عمران خان یا طاہر القادری سے دل چسپی نہیں ہے بھائی ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ ایک حد تک ہی ان کی مدد کرتی ہے ۔۔۔ ویسے بھی فوج کو کیا پڑی ہے کہ وہ پاکستان میں انقلاب برپا کروا دے ۔۔۔ انقلاب تو اُلٹا ان کے گلے پڑ جائے گا ۔۔۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے نتائج کے مسترد کر دینے سے بھی کچھ نہیں بنے گا ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش فقط یہ ہے کہ کسی بھی طرح کوئی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہ کرے ۔۔۔ اور لگتا یہی ہے کہ ان کی خواہش پوری ہونے جا رہی ہے ۔۔۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فوج اپنے من پسند سیاست دانوں کے ذریعے "نیک مقاصد" حاصل کرنے کی خواہاں ہے، اُن کو چاہیے کہ وہ فی الفور اپنی "عینک" کا نمبر بدل لیں ۔۔۔
کیا ہی اچھا ہو کہ تمام لوگ دوسروں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کرنے لگیں۔ ویسے بڑی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی صلاحیت پہلے تو صرف جماعت اسلامی یا پی پی پی کے پاس تھی اب شاید پی ٹی آئی کے پاس بھی ہو۔مزید براں لگتا ہےکہ پی پی پی اور جماعت ِ اسلامی دونوںجماعتیں ہی یہ صلاحیت کافی حد کت کھو چکی ہیں۔ رہ گئے نواز شریف تو ان کے پاس ووٹ تو بہت ہوں گے مگر ڈنڈے کھانے والے کم کم کہ پاکستان کا کاروباری اور مڈل کلاس طبقہ ووٹ تو سکتا ہے پر ڈنڈے نہیں کھا سکتا۔ میرے اکثر جاننے والے ن لیگ کے ووٹر ہیں۔ ان کی ہمدردی کبھی ووٹ سے آگے نہیں جاتی کہ (مجھ سمیت) آسانی کی زندگی گزارنے والے جیل اور لاٹھی سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا ملک الموت سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نواز شریف مشرف کے دور میں ہمارے گھر سے تین کلومیٹر دوری پر واقع ایئر پورٹ پر اترے تھے تو چند پولیس والوں کو ڈاج دے کر محض عمران خان ہی ان کی سپورٹ میں وہاں پہنچ پائے تھے۔ نواز شریف کے لاکھوں پنڈی وال ہمدرد ٹی وی پر تماشا ہی دیکھتے رہے۔ مجھے خواجہ سعد رفیق کی بے بس نگاہوں کا منظر آج بھی یاد ہے۔ کتنی آسانی سے مشرف نے زبردستی نواز شریف صاحب کو زبردستی واپس جدہ بھجوا دیا تھا۔
خلاصہ یہ کہ اس وقت ایجی ٹیشن کی سیاست کرنے کی صلاحیت صرف پی ٹی آئی اور قادری صاحب کے پاس ہے۔ باقیوں کے سپورٹر میری طرح بس "ووٹ" کے غازی ہیں! (میں تو ووٹ کا غازی بھی نہیں کہ گھر سے باہر نکلنے کو بھی قیامت سمجھتا ہوں اور محض اس زحمت سے بچنے کے لیے وفاقی حکومت میں اٹھارہ گریڈ کی سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا! )۔