طاہر القادری سپریم کورٹ میں

عائشہ خٹک

محفلین
2l8w6sw.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
محترم قیصرانی صاحب، کوارنٹو کو بنیاد بنا کر وفاداری مشکوک ٹھہرانا دل کو جچتا نہیں۔ پھر یہ کہ درخواست مسترد کرنے کا کوئی شائستہ طریقہ بھی ہو سکتا تھا۔ عدالت یہ بھی سوچے کہ قادری صاحب کے غلط یا درست لاکھوں مداح ہیں۔ تین دن تک انھیں عدالت میں ذلیل کر کے ان کے پیروکاروں میں جو اضطراب پھیلایا گیا اس سے ملک و قوم کی کون سی خدمت ہوئی؟ کیا عدالت یہ سب نواز شریف صاحب کو خوش کرنے کے لیے کر رہی ہے؟ اس سے تو بہتر ہوتا کہ ٹکنیکل اعتراض لگا کردرخواست رجسٹرار آفس سے ہی واپس کر دی جاتی۔میرے خیال میں تو قادری صاحب کے ساتھیوں میں پائی جانے والی بے چینی ان کی تحریک کو مزید ہنگامہ خیز بنائے گی۔

ایک بے رہنما قوم کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں!
کوارنٹو کی تفصیل جو میں نے گذشتہ صفحات پر دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ تکنیکی طور پر آپ عدالت سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ آیا میری درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں۔ جب تک عدالت آپ کی بات سن نہ لے، کیسے فیصلہ دے سکتی ہے یا رجسٹرار کا کام تو نہیں کہ وہ فیصلہ کر دے۔ اس طرح تو وہ عدالت کے اختیارات میں دخل دے رہا ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ کیا قادری کے پاس وکالت یا قانون کی کوئی ڈگری ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنا کیس خود لڑنے پہنچے؟ ہر بندے کا اپنا دائرہ عمل ہوتا ہے۔ اگر وہ اس سے تجاوز کرے تو غلطی کرتا ہے۔ جتنا بڑا اسے دنیاوی اعتبار سے سمجھا جائے گا اتنی چھوٹی غلطی پر اتنا بڑا رد عمل سامنے آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مثال سامنے ہے۔ کبھی کمپیوٹرز کی بنیادی معلومات کے بارے یا طبی امراض کے بارے ان کے کالم پڑھے؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کوارنٹو کی تفصیل جو میں نے گذشتہ صفحات پر دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ تکنیکی طور پر آپ عدالت سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ آیا میری درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں۔ جب تک عدالت آپ کی بات سن نہ لے، کیسے فیصلہ دے سکتی ہے یا رجسٹرار کا کام تو نہیں کہ وہ فیصلہ کر دے۔ اس طرح تو وہ عدالت کے اختیارات میں دخل دے رہا ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ کیا قادری کے پاس وکالت یا قانون کی کوئی ڈگری ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنا کیس خود لڑنے پہنچے؟ ہر بندے کا اپنا دائرہ عمل ہوتا ہے۔ اگر وہ اس سے تجاوز کرے تو غلطی کرتا ہے۔ جتنا بڑا اسے دنیاوی اعتبار سے سمجھا جائے گا اتنی چھوٹی غلطی پر اتنا بڑا رد عمل سامنے آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مثال سامنے ہے۔ کبھی کمپیوٹرز کی بنیادی معلومات کے بارے یا طبی امراض کے بارے ان کے کالم پڑھے؟
اس بات پر میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ قادری صاحب کسی ٹھہرے مزاج کے وکیل کی خدمات حاصل کرتے تو ملک مفت کے ہیجان سے بچا رہتا۔ انھوں نے وہی کیا جو ایک "نیم حکیم" کر سکتا تھا۔ مگر اس کے باوجود مجھے بڑا گلہ جج صاحبان سے بھی ہے۔ جج صاحبان کا مقام تو یہ ہے کہ مجرموں سے معاملہ کرتے وقت بھی اپنے منصب کا خیال رکھتے ہیں۔ کرسیِ انصاف کا جذبات اور لیڈری سے کیا کام؟ اس ملک کا بیڑہ غرق پہلے لیڈر جنرلوں، لیڈر دکانداروں، لیڈر جاگیرداروں وغیرہ وغیرہ نے کیا ۔ اب لیڈر جج بھی سامنے آ گئے۔ کبھی کوئی "لیڈر لیڈر" بھی سامنے آئے گا؟
 

قیصرانی

لائبریرین
اس بات پر میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ قادری صاحب کسی ٹھہرے مزاج کے وکیل کی خدمات حاصل کرتے تو ملک مفت کے ہیجان سے بچا رہتا۔ انھوں نے وہی کیا جو ایک "نیم حکیم" کر سکتا تھا۔ مگر اس کے باوجود مجھے بڑا گلہ جج صاحبان سے بھی ہے۔ جج صاحبان کا مقام تو یہ ہے کہ مجرموں سے معاملہ کرتے وقت بھی اپنے منصب کا خیال رکھتے ہیں۔ کرسیِ انصاف کا جذبات اور لیڈری سے کیا کام؟ اس ملک کا بیڑہ غرق پہلے لیڈر جنرلوں، لیڈر دکانداروں، لیڈر جاگیرداروں وغیرہ وغیرہ نے کیا ۔ اب لیڈر جج بھی سامنے آ گئے۔ کبھی کوئی "لیڈر لیڈر" بھی سامنے آئے گا؟
ہمارے چیف جسٹس اس قابل ہوتے تو کیا ہی بات تھی۔ انتہائی ناکارہ شخص کو محض اس لئے چیف جسٹس بنا دیا گیا کہ اس نے پی سی او کے تحت حلف لیا۔ بعد میں بے شک اپنے تھوکے کو چاٹتا رہا (یہ اردو کا محاورہ ہے، تاہم اگر برا محسوس ہو تو کوئی کم برا محاورہ بتا دیجیئے۔ میں بدل دوں گا)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
میں نے آج خود "رانا مبشر"کو اپنے پروگرام میں "مردوں سے گفتگو" کی ویڈیو کا مذاق اڑاتے دیکھا۔ یاد رکھیے اگر کسی ایک شخص کے بھی مذہبی عقائد مجروح ہوئے ہوں تو یہ ایک غیر انسانی بات ہو گی۔ یہاں تو قادری صاحب کے ہزاروں (شاید لاکھوں) پیروکاروں اور پاکستان کے ایک کروڑ سے زائد شیعہ حضرات کے جذبات کا معاملہ ہے۔ مذہب کو پیچ میں نہ لایا جائے۔ باقی تنقید تو سیاست کے کھیل کا حصہ ہے۔ ہم کس منہ سے دنیا والوں کو گستاخانہ خاکے بنانے سے روکتے ہیں۔ ہم تو خود ایک دوسرے کے عقائد کا احترام نہیں کرتے۔
رانا مبشر کے پروگرام میں اگر ایسی بحث ہوئی ہے تو اس کی تائید نہیں کی جا سکتی ۔۔۔ پاکستان میں اب بھی اسی فی صد علاقوں میں پی ٹی وی دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ وہاں تو کوئی ایسی بحث سرے سے نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ بڑے بڑے نجی ٹی وی چینلز پر بھی ایسی کوئی بحث غالباَ نہیں ہوئی ۔۔۔ رانا مبشر جس ٹی وی نیٹ ورک سے متعلق ہیں، وہ خاصا غیر معروف ہے ۔۔۔۔ لیکن وہاں پر بھی اس موقع پر ایسی بحث مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔۔۔ خیر، آپ بے فکر رہیے ۔۔۔ طاہر القادری صاحب پہلے بھی کئی بار اسی طرح منظر عام پر آ چکے ہیں، اور اپنا پرنور چہرہ دکھا کر منظرنامے سے غائب بھی ہوتے رہے ہیں ۔۔۔ اس لیے خاطر جمع رکھیے ۔۔۔۔ وہ اپنی ذات کی وجہ سے پوری قوم کو مصیبت میں کیوں ڈالیں گے؟ آپ کو خواہ مخواہ ہی فکر لاحق ہو رہی ہے ۔۔۔۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
رانا مبشر کے پروگرام میں اگر ایسی بحث ہوئی ہے تو اس کی تائید نہیں کی جا سکتی ۔۔۔ پاکستان میں اب بھی اسی فی صد علاقوں میں پی ٹی وی دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ وہاں تو کوئی ایسی بحث سرے سے نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ بڑے بڑے نجی ٹی وی چینلز پر بھی ایسی کوئی بحث غالباَ نہیں ہوئی ۔۔۔ رانا مبشر جس ٹی وی نیٹ ورک سے متعلق ہیں، وہ خاصا غیر معروف ہے ۔۔۔ ۔ لیکن وہاں پر بھی اس موقع پر ایسی بحث مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔۔۔ خیر، آپ بے فکر رہیے ۔۔۔ طاہر القادری صاحب پہلے بھی کئی بار اسی طرح منظر عام پر آ چکے ہیں، اور اپنا پرنور چہرہ دکھا کر منظرنامے سے غائب بھی ہوتے رہے ہیں ۔۔۔ اس لیے خاطر جمع رکھیے ۔۔۔ ۔ وہ اپنی ذات کی وجہ سے پوری قوم کو مصیبت میں کیوں ڈالیں گے؟ آپ کو خواہ مخواہ ہی فکر لاحق ہو رہی ہے ۔۔۔ ۔
امید تو مجھے بھی یہی ہے۔ خدشات کی بنیاد انگریزی کا یہ محاورہ ہے کہ "بہترین کی امید رکھیں لیکن بد ترین کے لیے تیار رہیں"۔ میری امیدیں اور خدشات تو سراسر ذاتی ہیں۔ مگر کار پردازانِ امورِ مملکت پر لازم ہے کہ وہ اس محاورے سے ہدایت حاصل کریں۔ رہی بات میڈیا کی، تو ابتدا میں جو چیز مشرف کا کارنامہ لگتی تھی اب ایک لعنت محسوس ہونے لگ گئی ہے۔ کچھ نہ کچھ روک ٹوک تو ضرور ہونی چاہئے۔ میرے خیال میں ہم سب کو میڈیا کے منفی عمل کی جانب لوگوں کی توجہ زیادہ زور شور سے مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے نام پر ریٹنگ حاصل کرنےاور مال بنانے کی دوڑ پورے معاشرے میں بے چینی پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔ جان ٹرو وولٹا کی ایک فلم "مَیڈ سٹی" یاد آ رہی ہے جس میں بریکینگ نیوز کی خاطر جنونی صحافیوں کی دوڑیں با لآخر ایک غریب سیکیورٹی گارڈ کی جان لے لیتی ہیں۔

ہمیں قدرت نے لفظوں سے کھیلنے کا ہنر دیا ہے۔ آپ سب سمجھتے ہیں کہ ہم مثبت تحریروں کے ذریعے نفرتوں اور جہالت کو ختم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اگر ایک ایسے پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی جائے جس کی پہنچ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ہو تو ہی فائدہ ہو گا۔ اس جیسے دھاگوں سے جس میں دو چار لوگ ایک دوسرے سے مکالمہ کر رہے ہوں کوئی مثبت تبدیلی آنے والی نہیں۔ میں اس معاملے میں با لکل کورا ہوں کہ تمام عمر تنہائی اور اپنی ہی صحبت میں گزاری۔ سوشل میڈیا کا بس سرسری استعمال ہی آتا ہے۔ ہے کوئی مشورہ؟
 
بھائی ہم نے تو عقائد کی بات ہی نہیں کی ایک بنیادی سوال کیا ہے کہ کیا خدا کے نزدیک سب ایک جیسے نہیں ۔
ہاں میرے کہنے کے انداز پر ضرور یہ کہا جا سکتے ہیں کہ میں طنز کر رہا ہوں ۔ اگر کسی کو دکھ ہوا ہو تو معافی چاہتا ہو۔
خدا کے نزدیک سب ایک جیسے نہیں ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ سب کو ایک جیسا ہی پیدا کرتا :)
 

آبی ٹوکول

محفلین
تفصيل
ڈاکٹر طاہر القادری کی الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے خلاف درخواست اور سپریم کورٹ کا فیصلہ



اسلام آباد… سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے خلاف آئینی تقاضوں کے مطابق تشکیل نو سے متعلق ڈاکٹر طاہر القادری کی درخواست سماعت کے تیسرے روز خارج کردی ہے۔ جس کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی سماعت میں پہلا سوال میرے locus standi کے بارے میں تھا اور اصل کیس یعنی "الیکشن کمیشن کی آئینی تقاضوں کے مطابق تشکیل نو" کی سماعت شروع ہی نہیں ہوئی تھی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے اور میں چیلنج کے ساتھ کہ رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل اور اراکین کی تقرری سے قبل پاکستان کے آرٹیکل 213 کے تحت جو سماعت ہونی تھی، وہ سماعت ہی نہیں ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مقدمہ کی سماعت میں پارلیمانی کمیٹی کا ریکارڈ منگوایا جاتا اور اس کے چیئرمین سید خورشید شاہ صاحب کو بلایا جاتا، کیمرہ منگوایا جاتا، proceedings of the meeting منگوائی جاتیں۔ تب minutes of the meeting کے مندرجات سے معلوم ہوجاتا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے وقت سماعت نہیں ہوئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں بھی اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے یہ غیر آئینی تشکیل تھی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ پہلے دن چند منٹس کا وقت ملا اور کل اور آج سماعت ہوئی ہے۔ دو دنوں کی سماعت میں صرف locus standi کو زیر بحث لایا گیا ہے جس میں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت پٹیشن دائر کرنے والا entitled ہے۔ میں نے عدالتی فیصلہ جات کے چھ PLDs کے بھی حوالے دیے کہ اگر کوئی معاملہ قومی مفاد اور عوامی دل چسپی کا ہو اور بنیادی حقوق مجروح ہوں تو کوئی تیسری چیز پوچھنے کی اجازت نہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے بتایا کہ عدالت نے اصل کیس پر آنے کی بجائے پہلے دن سے ہی میری دہری شہریت کا مسئلہ اٹھایا۔ میں سپریم کورٹ کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے پوری قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے دو دن میں اصل پٹیشن کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھنے دیا گیا۔ کل جب میں نے پٹیشن پڑھنا شروع کی تو عدالت نے ایک لفظ بھی سنے بغیر سب سے پہلے دہری شہریت کا سوال کیا۔ یوں سارا دن دہری شہریت کے تصور پر حملے ہوتے رہے حالانکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھوں پاکستانی وطن عزیز کے سچے وفادار ہیں۔ یہ دہری شہریت رکھنے والے ہی پاکستان کی معیشت میں اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بھیجتے ہیں۔ انہی کے مالی تعاون سے یہاں کے لوگ اور ادارے تنخواہیں لیتے ہیں۔ ملکی معیشت میں ان کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ دہری شہریت دوسرے ملک کے قانون اور حلف کے تحت ہوتی ہے۔ اس قانون اور حلف کو بنیاد بنا کر میری اور کئ ملین پاکستانیوں کی وفاداری پر حملہ کیا گیا ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلق کو مشکوک بنایا گیا ہے۔ لہٰذا میں نے چیف جسٹس صاحب کو کہا کہ آپ نے خود پرویز مشرف کی آمریت کے تحت حلف لیا تھا؛ آپ نے پہلے آئین پاکستان کا حلف لے کر ایک وفاداری لی، دوسری وفاداری پرویز مشرف کی آمریت سے LFO کے تحت لی ۔ اگر دو حلف لینے سے آپ کی وفاداری مشکوک نہیں ہوتی تو میری وفاداری کس طرح مشکوک ہوتی ہے؟ مستزاد یہ کہ جب آپ بحال ہوئے تو آج تک آپ نے آئین پر نیا حلف نہیں لیا بلکہ پرویز مشرف والے اسی حلف کی بناء پر یہاں موجود ہیں۔ لہٰذا میں یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ وہی چیف جسٹس نہیں ہیں جن کا پہلا حلف آئیں پر تھا اور دوسرا حلف پرویز مشرف کے LFO پر تھا؟
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ جہاں تک پٹیشن خارج ہونے کا تعلق ہے تو عدالت سماعت کے بغیر کل ہی اپنا ذہن بتا چکی تھی۔ آج کے تمام اخبارات میں سرخیاں لگی ہوئی ہیں کہ "الیکشن کمیشن کو نہیں توڑا جائے گا"، "سیاسی نظام لپیٹنے کی کسی غیر ملکی کو اجازت نہیں دی جائے گی"۔ ڈاکٹر قادری نے کہا کہ مجھے غیر ملکی کہ کر توہین کی گئی ہے۔ میں پاکستانی ہوں، پاکستان کا آئین و قانون دوسرے ملک کی شہریت کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ "دہری شہریت والا نظام بدل نہیں سکتا" اور "غیر ملکی" کہنا میری اور ملین پاکستانیوں کی توہین ہے۔ یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے اور قطعا آئین و قانون کے مطابق نہیں دیا گیا بلکہ بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہے۔ یہ فیصلہ کئی ملین پاکستانی شہریوں کے حقوق کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور پاکستان کا آئین و قانون مجھے بھی اس حق سے محروم نہیں کرتا۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
امید تو مجھے بھی یہی ہے۔ خدشات کی بنیاد انگریزی کا یہ محاورہ ہے کہ "بہترین کی امید رکھیں لیکن بد ترین کے لیے تیار رہیں"۔ میری امیدیں اور خدشات تو سراسر ذاتی ہیں۔ مگر کار پردازانِ امورِ مملکت پر لازم ہے کہ وہ اس محاورے سے ہدایت حاصل کریں۔ رہی بات میڈیا کی، تو ابتدا میں جو چیز مشرف کا کارنامہ لگتی تھی اب ایک لعنت محسوس ہونے لگ گئی ہے۔ کچھ نہ کچھ روک ٹوک تو ضرور ہونی چاہئے۔ میرے خیال میں ہم سب کو میڈیا کے منفی عمل کی جانب لوگوں کی توجہ زیادہ زور شور سے مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے نام پر ریٹنگ حاصل کرنےاور مال بنانے کی دوڑ پورے معاشرے میں بے چینی پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔ جان ٹرو وولٹا کی ایک فلم "مَیڈ سٹی" یاد آ رہی ہے جس میں بریکینگ نیوز کی خاطر جنونی صحافیوں کی دوڑیں با لآخر ایک غریب سیکیورٹی گارڈ کی جان لے لیتی ہیں۔

ہمیں قدرت نے لفظوں سے کھیلنے کا ہنر دیا ہے۔ آپ سب سمجھتے ہیں کہ ہم مثبت تحریروں کے ذریعے نفرتوں اور جہالت کو ختم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اگر ایک ایسے پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی جائے جس کی پہنچ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ہو تو ہی فائدہ ہو گا۔ اس جیسے دھاگوں سے جس میں دو چار لوگ ایک دوسرے سے مکالمہ کر رہے ہوں کوئی مثبت تبدیلی آنے والی نہیں۔ میں اس معاملے میں با لکل کورا ہوں کہ تمام عمر تنہائی اور اپنی ہی صحبت میں گزاری۔ سوشل میڈیا کا بس سرسری استعمال ہی آتا ہے۔ ہے کوئی مشورہ؟

مکالمہ جاری رہنا چاہیے ۔۔۔ چاہے وہ دو چار لوگوں کے درمیان ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔ یہ فورم بھی تو ایک آئینہ ہے ۔۔۔ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا عکس ان سطور سے جھلکتا ہے ۔۔۔ اسی طرح فیس بک پر بھی مکالمہ چل رہا ہوتا ہے ۔۔۔ اور سوشل میڈیا کے دیگر فورمز پر بھی ۔۔۔ ہم سب صرف اردو فورم ہی سے تو متعلق نہیں ہیں، فیس بک پر بھی ہم ہی جیسے لوگ تبصرے فرماتے ہیں اور دیگر فورمز پر بھی ۔۔۔ وہاں پر بھی اب توازن کی صورت نظر آنے لگ گئی ہے ۔۔۔ ہم عبوری دور سے گزر رہے ہیں ۔۔۔ اور جب یہ دور گزر جائے گا تو پھر سوشل میڈیا پر بھی متوازن انداز میں ہی مکالمہ ہوا کرے گا ۔۔۔ اسی فورم کو دیکھ لیجیے ۔۔۔ یہاں پر بھی موڈریٹرز موجود ہیں جو ہم سب کو ایک "ٹریک" پر رکھنے کا ہنر جانتے ہیں ۔۔۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ہر اچھے فورم پر ایسا ہی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔۔ یوں مکالمہ آگے بڑھتا ہے ۔۔۔ اور کیتھارسس بھی ہو جاتا ہے ۔۔۔ یقین جانیے ۔۔۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اس دنیا میں جیسے ایک انقلاب سا آ گیا ہے ۔۔۔ ہاں یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اسی سوشل میڈیا پر ہونے والے کیتھارسس کی وجہ سے شاید بہت سے انقلاب آنے سے پہلے ہی "دم توڑ" گئے ہیں ۔۔۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ایک تازہ خبر جس نے مجھے کافی حیران کیا ہے۔ سن کر باقی دوست بھی شاید حیران ہوں۔ ہمارے ایک نہایت اچھے جاننے والے طاہر قادری صاحب کے بہت پرانے سپورٹر ہیں اور ان کے جلسے میں بھی شریک تھے۔ انھوں نے میرے بھائی کوقادری صاحب سے حال ہی میں ہونے والی ایک نجی محفل کا حال بیان کیا۔ فرماتے ہیں کہ قادری صاحب نے کہا کہ " بیٹا مجھے علم ہے کہ ہماری پارٹی کمزور ہے اور اس وقت سب کچھ بدل ڈالنے کی یا انتخابات میں بڑی کامیابی کے قابل نہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کو 'ان لوگوں' کے رحم و کرم پر تو نہیں چھوڑ سکتے۔ کچھ نہ کچھ ہمت تو کرنی ہی پڑے گی"۔

وہ لوگ جو یہ سمجھ رہےہیں یا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قادری صاحب خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں شاید اندر کے حالا ت سے واقف نہیں۔ میں تو اب کم از کم یہ سمجھ سکتا ہوں کہ غلط یا درست، قادری صاحب جو بھی کر رہے ہیں، کا فی کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اب جلد کینیڈا یا کہیں اور جانے والے نہیں۔ انھیں اب غالبًا انتخابات کا انتظار رہے گا۔ اگر انتخابات ہوئے (مجھے تو اب بھی یقین نہیں کہ کیسے ہوں گے!) تو ظاہراً اکثر سیٹیں پھر نواز شریف اور پی پی پی کو ملنے کا امکان ہے۔ اس صورت میں پی ٹی آئی نتائج کو مسترد کر دے گی اور شاید بڑی احتجاجی تحریک شروع کر دے۔ اس وقت قادری صاحب ایک بڑی مضبوط اخلاقی پوزیشن پر نظر آئیں گے جس کا محور ہو گا "کیوں ، میں نہ کہتا تھا"۔

لگتا ہے حالات ایک اور مارشل لاء یا پھر قومی حکومت کی طرف جا رہے ہیں۔ کیانی صاحب کے بھی آخری چند ماہ رہ گئے ہیں ۔ نہ جانے اگلا چیف کیا رویہ اپنائے گا؟
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک تازہ خبر جس نے مجھے کافی حیران کیا ہے۔ سن کر باقی دوست بھی شاید حیران ہوں۔ ہمارے ایک نہایت اچھے جاننے والے طاہر قادری صاحب کے بہت پرانے سپورٹر ہیں اور ان کے جلسے میں بھی شریک تھے۔ انھوں نے میرے بھائی کوقادری صاحب سے حال ہی میں ہونے والی ایک نجی محفل کا حال بیان کیا۔ فرماتے ہیں کہ قادری صاحب نے کہا کہ " بیٹا مجھے علم ہے کہ ہماری پارٹی کمزور ہے اور اس وقت سب کچھ بدل ڈالنے کی یا انتخابات میں بڑی کامیابی کے قابل نہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کو 'ان لوگوں' کے رحم و کرم پر تو نہیں چھوڑ سکتے۔ کچھ نہ کچھ ہمت تو کرنی ہی پڑے گی"۔

وہ لوگ جو یہ سمجھ رہےہیں یا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قادری صاحب خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں شاید اندر کے حالا ت سے واقف نہیں۔ میں تو اب کم از کم یہ سمجھ سکتا ہوں کہ غلط یا درست، قادری صاحب جو بھی کر رہے ہیں، کا فی کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اب جلد کینیڈا یا کہیں اور جانے والے نہیں۔ انھیں اب غالبًا انتخابات کا انتظار رہے گا۔ اگر انتخابات ہوئے (مجھے تو اب بھی یقین نہیں کہ کیسے ہوں گے!) تو ظاہراً اکثر سیٹیں پھر نواز شریف اور پی پی پی کو ملنے کا امکان ہے۔ اس صورت میں پی ٹی آئی نتائج کو مسترد کر دے گی اور شاید بڑی احتجاجی تحریک شروع کر دے۔ اس وقت قادری صاحب ایک بڑی مضبوط اخلاقی پوزیشن پر نظر آئیں گے جس کا محور ہو گا "کیوں ، میں نہ کہتا تھا"۔

لگتا ہے حالات ایک اور مارشل لاء یا پھر قومی حکومت کی طرف جا رہے ہیں۔ کیانی صاحب کے بھی آخری چند ماہ رہ گئے ہیں ۔ نہ جانے اگلا چیف کیا رویہ اپنائے گا؟
اگلے چیف کی حد تک، چاہے وہ چیف جسٹس ہوں (کہ موجودہ چیف کی سروس کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے) یا پھر آرمی کے چیف، دونوں ہی موجودہ چیفوں سے بہتر ہوں گے کہ پہلے کے سامنے مثال ہے کہ کیا نہیں کرنا اور دوسرے کے سامنے کہ کیا کرنا ہے :)
 

شیزان

لائبریرین
ہمارے ہاں ہمیشہ پریشر گروپس کی سیاست سے ڈرا جاتا ہے۔۔ یہ نہ ہوا تو ایسے ہو جائے گا، وہ نہ ہوا تو ویسے ہو جائے گا۔۔
کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ اگر کسی بڑی پارٹی کو بھی دبائیں گے۔۔۔ ان کے مینڈیٹ کی توہین کریں گے تو ان کے ووٹرز بھی بہت "بڑی"احتجاجی تحریک شروع کر سکتے ہیں۔۔ اقلیتوں سے ڈرنے والوں کو اکثریت کی ناراضگی سے بھی خائف ہونا چاہیئے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اگلے چیف کی حد تک، چاہے وہ چیف جسٹس ہوں (کہ موجودہ چیف کی سروس کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے) یا پھر آرمی کے چیف، دونوں ہی موجودہ چیفوں سے بہتر ہوں گے کہ پہلے کے سامنے مثال ہے کہ کیا نہیں کرنا اور دوسرے کے سامنے کہ کیا کرنا ہے :)
غضب کا تبصرہ ہے!
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ایک تازہ خبر جس نے مجھے کافی حیران کیا ہے۔ سن کر باقی دوست بھی شاید حیران ہوں۔ ہمارے ایک نہایت اچھے جاننے والے طاہر قادری صاحب کے بہت پرانے سپورٹر ہیں اور ان کے جلسے میں بھی شریک تھے۔ انھوں نے میرے بھائی کوقادری صاحب سے حال ہی میں ہونے والی ایک نجی محفل کا حال بیان کیا۔ فرماتے ہیں کہ قادری صاحب نے کہا کہ " بیٹا مجھے علم ہے کہ ہماری پارٹی کمزور ہے اور اس وقت سب کچھ بدل ڈالنے کی یا انتخابات میں بڑی کامیابی کے قابل نہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کو 'ان لوگوں' کے رحم و کرم پر تو نہیں چھوڑ سکتے۔ کچھ نہ کچھ ہمت تو کرنی ہی پڑے گی"۔

وہ لوگ جو یہ سمجھ رہےہیں یا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قادری صاحب خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں شاید اندر کے حالا ت سے واقف نہیں۔ میں تو اب کم از کم یہ سمجھ سکتا ہوں کہ غلط یا درست، قادری صاحب جو بھی کر رہے ہیں، کا فی کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اب جلد کینیڈا یا کہیں اور جانے والے نہیں۔ انھیں اب غالبًا انتخابات کا انتظار رہے گا۔ اگر انتخابات ہوئے (مجھے تو اب بھی یقین نہیں کہ کیسے ہوں گے!) تو ظاہراً اکثر سیٹیں پھر نواز شریف اور پی پی پی کو ملنے کا امکان ہے۔ اس صورت میں پی ٹی آئی نتائج کو مسترد کر دے گی اور شاید بڑی احتجاجی تحریک شروع کر دے۔ اس وقت قادری صاحب ایک بڑی مضبوط اخلاقی پوزیشن پر نظر آئیں گے جس کا محور ہو گا "کیوں ، میں نہ کہتا تھا"۔

لگتا ہے حالات ایک اور مارشل لاء یا پھر قومی حکومت کی طرف جا رہے ہیں۔ کیانی صاحب کے بھی آخری چند ماہ رہ گئے ہیں ۔ نہ جانے اگلا چیف کیا رویہ اپنائے گا؟

ہنگ پارلیمنٹ بن گئی تو کافی کم زور حکومت بنے گی مرکز میں ۔۔۔ اور اسٹیبلشمنٹ کی تمنا بھی یہی ہے ۔۔۔ کسی کو عمران خان یا طاہر القادری سے دل چسپی نہیں ہے بھائی ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ ایک حد تک ہی ان کی مدد کرتی ہے ۔۔۔ ویسے بھی فوج کو کیا پڑی ہے کہ وہ پاکستان میں انقلاب برپا کروا دے ۔۔۔ انقلاب تو اُلٹا ان کے گلے پڑ جائے گا ۔۔۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے نتائج کے مسترد کر دینے سے بھی کچھ نہیں بنے گا ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش فقط یہ ہے کہ کسی بھی طرح کوئی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہ کرے ۔۔۔ اور لگتا یہی ہے کہ ان کی خواہش پوری ہونے جا رہی ہے ۔۔۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فوج اپنے من پسند سیاست دانوں کے ذریعے "نیک مقاصد" حاصل کرنے کی خواہاں ہے، اُن کو چاہیے کہ وہ فی الفور اپنی "عینک" کا نمبر بدل لیں ۔۔۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ہمارے ہاں ہمیشہ پریشر گروپس کی سیاست سے ڈرا جاتا ہے۔۔ یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ اگر کسی بڑی پارٹی کو بھی دبائیں گے،، ان کے مینڈیٹ کی توہین کریں گے تو ان کے ووٹرز بھی "بڑی"احتجاجی تحریک شروع کر سکتے ہیں۔۔ اقلیتوں سے ڈرنے والوں کو اکثریت کی ناراضگی سے بھی خائف ہونا چاہیئے
کیا ہی اچھا ہو کہ تمام لوگ دوسروں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کرنے لگیں۔ ویسے بڑی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی صلاحیت پہلے تو صرف جماعت اسلامی یا پی پی پی کے پاس تھی اب شاید پی ٹی آئی کے پاس بھی ہو۔مزید براں لگتا ہےکہ پی پی پی اور جماعت ِ اسلامی دونوںجماعتیں ہی یہ صلاحیت کافی حد تک کھو چکی ہیں۔ رہ گئے نواز شریف تو ان کے پاس ووٹ تو بہت ہوں گے مگر ڈنڈے کھانے والے کم کم کہ پاکستان کا کاروباری اور مڈل کلاس طبقہ ووٹ تو سکتا ہے پر ڈنڈے نہیں کھا سکتا۔ میرے اکثر جاننے والے ن لیگ کے ووٹر ہیں۔ ان کی ہمدردی کبھی ووٹ سے آگے نہیں جاتی کہ (مجھ سمیت) آسانی کی زندگی گزارنے والے جیل اور لاٹھی سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا ملک الموت سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نواز شریف مشرف کے دور میں ہمارے گھر سے تین کلومیٹر دوری پر واقع ایئر پورٹ پر اترے تھے تو چند پولیس والوں کو ڈاج دے کر محض عمران خان ہی ان کی سپورٹ میں وہاں پہنچ پائے تھے۔ نواز شریف کے لاکھوں پنڈی وال ہمدرد ٹی وی پر تماشا ہی دیکھتے رہے۔ مجھے خواجہ سعد رفیق کی بے بس نگاہوں کا منظر آج بھی یاد ہے۔ کتنی آسانی سے مشرف نے زبردستی نواز شریف صاحب کو زبردستی واپس جدہ بھجوا دیا تھا۔

خلاصہ یہ کہ اس وقت ایجی ٹیشن کی سیاست کرنے کی صلاحیت صرف پی ٹی آئی اور قادری صاحب کے پاس ہے۔ باقیوں کے سپورٹر میری طرح بس "ووٹ" کے غازی ہیں! (میں تو ووٹ کا غازی بھی نہیں کہ گھر سے باہر نکلنے کو بھی قیامت سمجھتا ہوں اور محض اس زحمت سے بچنے کے لیے وفاقی حکومت میں اٹھارہ گریڈ کی سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا! )۔
 

کاشفی

محفلین
"جس بستی میں ایسا انصاف کرنے والے انسان رہتے ہوں، وہ کسی الّو کی نحوست کی وجہ سے ویران نہیں ہوتی":):):)
(حکایات ِ رومی میں سے ایک حکایت)
بہت ہی خوب!
بھائی بات دراصل یہ ہے کہ قادری صاحب کے خلاف اکھٹے ہونے والے چالیس چوروں اور چالیس چوروں کے لیئے ہمدردی رکھنے والوں کو ایک آنکھ والے خوبصورت انسان کے غیرمنصافانہ فیصلوں سے بستی کے ویران ہونے کی کوئی پریشانی نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ویرانی انسان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ الّوؤں کی وجہ سے ہے۔۔۔جو کہ چالیس چوروں سے ہمدردی رکھنے والے اُلّوؤں کی شکل میں بستی میں موجود ہیں۔۔۔


چالیس چور: مطلب چالیس چوروں کا آئین کے آرٹیکلز 62، 63 اور 218 کے مکمل طور پر نفاظ میں ڑ سے ڑولا پانے کی خاطر اکھٹے ہو جانا۔۔ انگریزی میں پیار سے اس کو Forty (40) Thieves کہتے ہیں۔۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ہنگ پارلیمنٹ بن گئی تو کافی کم زور حکومت بنے گی مرکز میں ۔۔۔ اور اسٹیبلشمنٹ کی تمنا بھی یہی ہے ۔۔۔ کسی کو عمران خان یا طاہر القادری سے دل چسپی نہیں ہے بھائی ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ ایک حد تک ہی ان کی مدد کرتی ہے ۔۔۔ ویسے بھی فوج کو کیا پڑی ہے کہ وہ پاکستان میں انقلاب برپا کروا دے ۔۔۔ انقلاب تو اُلٹا ان کے گلے پڑ جائے گا ۔۔۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے نتائج کے مسترد کر دینے سے بھی کچھ نہیں بنے گا ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش فقط یہ ہے کہ کسی بھی طرح کوئی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہ کرے ۔۔۔ اور لگتا یہی ہے کہ ان کی خواہش پوری ہونے جا رہی ہے ۔۔۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فوج اپنے من پسند سیاست دانوں کے ذریعے "نیک مقاصد" حاصل کرنے کی خواہاں ہے، اُن کو چاہیے کہ وہ فی الفور اپنی "عینک" کا نمبر بدل لیں ۔۔۔
اسٹیبلشمنٹ کے اپنے حالات اتنے کمزور ہیں کہ ان کے کسی منصوبے پر یقین کرنا مشکل لگتا ہے۔ میں نے تقریبا دس سال سرکاری افسری کی۔ سرکار کا اندر کا حال پہلے کے مقابلے میں اب بہت پتلا ہے۔ نالائقی کے سبب سول اسٹیبلشمنٹ تو سمجھو بیٹھ ہی چکی ہے۔ وہ گئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ تو وہ پہلے ہی چو مکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ نئے محاذ شاید نہ کھولے کہ اب بین الاقوامی مدد بھی حاصل نہیں ہو رہی۔ اوپر سے بگڑتے مالی حالات۔ اتنی بے یقینی پہلے کبھی نہ تھی۔
 

شیزان

لائبریرین
کیا ہی اچھا ہو کہ تمام لوگ دوسروں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کرنے لگیں۔ ویسے بڑی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی صلاحیت پہلے تو صرف جماعت اسلامی یا پی پی پی کے پاس تھی اب شاید پی ٹی آئی کے پاس بھی ہو۔مزید براں لگتا ہےکہ پی پی پی اور جماعت ِ اسلامی دونوںجماعتیں ہی یہ صلاحیت کافی حد کت کھو چکی ہیں۔ رہ گئے نواز شریف تو ان کے پاس ووٹ تو بہت ہوں گے مگر ڈنڈے کھانے والے کم کم کہ پاکستان کا کاروباری اور مڈل کلاس طبقہ ووٹ تو سکتا ہے پر ڈنڈے نہیں کھا سکتا۔ میرے اکثر جاننے والے ن لیگ کے ووٹر ہیں۔ ان کی ہمدردی کبھی ووٹ سے آگے نہیں جاتی کہ (مجھ سمیت) آسانی کی زندگی گزارنے والے جیل اور لاٹھی سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا ملک الموت سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نواز شریف مشرف کے دور میں ہمارے گھر سے تین کلومیٹر دوری پر واقع ایئر پورٹ پر اترے تھے تو چند پولیس والوں کو ڈاج دے کر محض عمران خان ہی ان کی سپورٹ میں وہاں پہنچ پائے تھے۔ نواز شریف کے لاکھوں پنڈی وال ہمدرد ٹی وی پر تماشا ہی دیکھتے رہے۔ مجھے خواجہ سعد رفیق کی بے بس نگاہوں کا منظر آج بھی یاد ہے۔ کتنی آسانی سے مشرف نے زبردستی نواز شریف صاحب کو زبردستی واپس جدہ بھجوا دیا تھا۔

خلاصہ یہ کہ اس وقت ایجی ٹیشن کی سیاست کرنے کی صلاحیت صرف پی ٹی آئی اور قادری صاحب کے پاس ہے۔ باقیوں کے سپورٹر میری طرح بس "ووٹ" کے غازی ہیں! (میں تو ووٹ کا غازی بھی نہیں کہ گھر سے باہر نکلنے کو بھی قیامت سمجھتا ہوں اور محض اس زحمت سے بچنے کے لیے وفاقی حکومت میں اٹھارہ گریڈ کی سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا! )۔

آپ ووٹ کے غازی نہیں گفتار کے غازی ہیں کاشف صاحب۔۔ ماشاء اللہ آپ کی اس تھریڈ میں نان اسٹاپ پوسٹس سے پتا چل رہا ہے۔۔
گھر میں بیٹھے بیٹھے آپ نے ایک ذہن بنا لیا ہے۔۔ ذرا باہر نکلا کریں ، تازہ ہوا کھایا کریں تاکہ ذہن سے مایوسی کے بادل چھٹیں اور جن کی آپ درپردہ حمایت میں رطب اللسان ہیں۔ ان کی کھل کر حمایت کرنے کا حوصلہ پیدا کر سکیں۔۔دراصل آپ اندرونی کشمکش کا شکار ہیں۔۔
پرویز مشرف جیسا آمر اس وقت بھی حکومت میں ہوتا تو وہ قادری جی کو بھی زبردستی کینیڈا کے جہاز پر سوار کر ڈالتا۔۔ نواز شریف سے آپ کو لگتا ہے کوئی خاص نقصان پہنچا ہے۔۔ اس لیے آپ کی ہر پوسٹ میں اس کی جھلک موجود ہے۔۔ پر چلیے آپ نے یہ تو مانا کہ ان کے پاس ووٹ کی طاقت موجود ہے۔۔ اور اگر الیکشن ہوں تو اس میں ووٹ کی طاقت ہی کام کرتی ہے۔۔ ہاں مارشل لا کے لیے صرف ایک ہی طاقت ضروری ہوتی ہے۔۔ ایجی ٹیشن پھیلا ڈالو اور مارشل لا لگا ڈالو۔۔ مہرے چاہے کوئی بھی ہوں۔۔ اور ایسے مہرے ہمیشہ اور با آسانی ان قوتوں کو ہر دور میں دستیاب ہو جاتے ہیں۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
عجیب بحث چل پڑی ہے ۔۔۔ کوئی ہمیں بھی سمجھا دے کہ قادری صاحب کے کن مریدین کو ڈنڈے پڑے ہیں ۔۔۔ یا عمران خان کے کن چاہنے والوں کا سواگت لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے ہوا ہے ۔۔۔ یہ پارٹیاں بھی دوسری پارٹیوں کی طرح ہی ہیں ۔۔۔ صرف تبدیلی کا نعرہ لے کر سیاست کے میدان میں کود پڑی ہیں ۔۔۔ ان دو پارٹیوں کو اسٹیبلشمنٹ سے بڑی امیدیں ہیں لیکن ابھی ان کی مراد بر نہیں آئی ۔۔۔ سلسلہء اسٹیبلشیہ والے بھی صرف اپنے ہاں بیعت ہی کرتے ہیں، اس کے بعد وہ آپ کو حلقہء ارادت سے کب نکال دیں؟ مریدوں کو شاید اس کی بھی خبر نہیں ہوتی ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ تو سب سے بڑھ کر سٹیٹس کو کی حامی ہوتی ہے ۔۔۔ بس ان کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی کسی بھی طرح کمانڈنگ پوزیشن میں نہ آ جائے ۔۔۔ انقلاب لانے کے لیے عمران خان یا طاہر القادری قطعی طور پر ناموزوں شخصیات ہیں ۔۔۔ سچ پوچھیے تو ہمیں پاکستان میں ایک طویل عرصے تک کوئی انقلاب آتا ہوا نظر نہیں آتا ۔۔۔ لسانی، مذہبی اور جغرافیائی حوالے سے تقسیم در تقسیم معاشرے میں یک دم بڑی تبدیلی نہیں آتی ۔۔۔ پاکستان میں کسی ایک نظام کو تواتر سے چلنے دیا جائے ۔۔۔ شاید رفتہ رفتہ بہتری کی کوئی صورت نکل آئے ۔۔۔
 
Top