محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
یہ سکھایا ہے کرونا نے سبق آداب کایہ عجب وبا ہے جہان میں، ہے عجیب قسم کا وایرس
کہ جو چپ ہے، اس کا تو شور ہے، ہے سکوت جب کوئی چیخ دے
آخرش لوگوں سے چھوٹا بے تکلف چھینکنا
آخری تدوین:
یہ سکھایا ہے کرونا نے سبق آداب کایہ عجب وبا ہے جہان میں، ہے عجیب قسم کا وایرس
کہ جو چپ ہے، اس کا تو شور ہے، ہے سکوت جب کوئی چیخ دے
ہ سکھایا ہے کرونا نے سبق آداب کا
آخرش لوگوں سے چھوٹا بے تکلف چھینکنا
اس کے ہی الطاف کی تفسیر ہےیسے گزر گئی ہے مری عمر رواں تو
مجھ کو تو شب ہجر میں جاں سے گزرنا تھا
اب جو بولوں تو کھول کر رکھ دوں
بھید سارے جو تھے چھپانے کے
یہ جو خاموش لگ رہا ہے جہاں
تیری دلچسپ گفتگو کے بغیر
دکھ یہ ہے کہ اب . درد بھی دینے نہیں آتا
ہر شب جو میرے خواب میں تھا ساتھ مسلسل
یا رب مرے اساتذہ کی ہر گھڑی ہو خیریہ جو مٹھاس لہجے میں آئی کسی کے ہے
بے شک یہ فیض بھی کسی استاد ہی کا ہے
یہ فراموشی کا چلن عام ہے مگر یہ ہنر آتا ہے
میں یاد رکھتا ہوں جو مجھے بھول جاتا ہے
Pa
یاد کرتا ہوں وہ گھڑیاں ، پہنے پھرتے تھے جنہیں
کیسے بے وقعت ہوئے ہیں ان کے کل پرزے خلیل
یادوں کے اک ہجوم نے گھیرا ہے مجھے اکمللوٹ کر شام گھر بھی جانا ہے
درد یہ بھی ابھی اٹھانا ہے
یادوں کے اک ہجوم نے گھیرا ہے مجھ کو پھریادوں کے اک ہجوم نے گھیرا ہے مجھے اکمل
جو کہتا ہے غلط ہے کہ میں تنہا ہوں آج کل
یادوں کے اک ہجوم نے گھیرا ہے مجھے اکمل
جو کہتا ہے غلط ہے کہ میں تنہا ہوں آج کل