طلاق کا مسئلہ: برطانیہ میں عورتیں حلالہ کے نام پر عصمت لٹا بیٹھتی ہیں

شمشاد

لائبریرین
اسلام دین فطرت ہے اور اس میں کوئی بھی قانون فطرت کے خلاف نہیں۔۔۔ ۔ اسلام نے نکاح کو انتہائی آسان اور طلاق کو بہت ہی مشکل بنایا ہے۔۔۔
لیکن ہمارے مولویوں نے برعکس کے کر کے نکاح کو انتہائی مشکل اور طلاق کو بہت ہی آسان کر دیا ہے۔۔۔
ہمارے فقہ کے مطابق ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں نہیں ہو جاتیں کیونکہ ایسا عقلا ناممکن ہے۔۔۔ چونکہ جب پہلی بار طلاق دی تو وہ عورت اس کی بیوی ہی نہیں رہی۔۔۔ جب وہ عورت اس کی بیوی نہیں تو دوسری اور تیسری بار طلاق کی نوبت ہرگز نہیں پہنچتی۔۔۔ طلاق صرف اس کو دی جاسکتی ہے جو شرعا اس کی بیوی ہو۔۔ جبکہ وہ عورت پہلی طلاق پر اس سے جدا ہو گئی۔۔۔ اور اس کے لیے اجنبی بن گئی۔
اسی طرح سے غصہ یا نیند کی حالت میں یا اسی طرح مذاق میں طلاق کہنے سے بھی طلاق نہیں ہوتا۔۔۔ چونکہ طلاق کے لیے قصد اور ارادہ ، عربی صیغہ اور دو عادل لوگوں کی گواہی فقہ جعفری میں ضروری ہے۔۔ ان تمام شرائط کی موجودگی میں تین بار طلاق کی نوبت شاذ ونادر ہی آتی ہے۔۔

طلاق کسی بھی حالت میں دی جائے، طلاق ہو جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق، طلاق نہیں ہوتی، غلط ہے۔
طلاق دی ہی غصہ کی حالت میں جاتی ہے۔ پیار سے تو کوئی بھی طلاق نہیں دیتا۔
 

حسینی

محفلین
طلاق کسی بھی حالت میں دی جائے، طلاق ہو جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق، طلاق نہیں ہوتی، غلط ہے۔
طلاق دی ہی غصہ کی حالت میں جاتی ہے۔ پیار سے تو کوئی بھی طلاق نہیں دیتا۔

طلاق دینے کے لیے غصہ شرط نہیں۔۔۔ بلکہ بعض دفعہ نفرت یا گھریلو مجبوریاں وغیرہ بھی طلاق کی وجہ ہو سکتی ہیں۔۔
ممکن ہے آپس میں پیار ہو۔۔۔ لیکن کوئی مجبوری ان کو طلاق تک لےجائے۔۔
غصہ کی حالت میں چونکہ قصد اور ارادہ سلب ہو جاتا ہے۔۔۔ اور شیطان اس پر سوار ہوتا ہے۔۔۔ اور گواہ کا بھی مسئلہ ہے۔۔۔ تو اس لیے کہا تھا طلاق نہیں ہوتا۔۔
 

دوست

محفلین
طلاق غصے میں ہو یہ نہ ہو، ایک ہی سانس کی تین طلاقوں کو تین طلاق شمار کرنا ظلمِ عظیم ہے۔ جس کا نتیجہ اس جوڑے کے لیے اکثر ساری عمر کے پچھتاوے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور جلتی پر تیل دین میں اضافے کرنے والے فتوی دے کر چھڑک جاتے ہیں کہ ایک سانس کی تین کا مطلب تم لوگ الگ ہو چکے ہو۔
 

حسینی

محفلین
طلاق غصے میں ہو یہ نہ ہو، ایک ہی سانس کی تین طلاقوں کو تین طلاق شمار کرنا ظلمِ عظیم ہے۔ جس کا نتیجہ اس جوڑے کے لیے اکثر ساری عمر کے پچھتاوے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور جلتی پر تیل دین میں اضافے کرنے والے فتوی دے کر چھڑک جاتے ہیں کہ ایک سانس کی تین کا مطلب تم لوگ الگ ہو چکے ہو۔

یہی تو میں بار بار کہ رہا ہوں دوست بھائی کہ پہلے طلاق کے بعد ان کے آپس کا رشتہ ختم ہوگیا، وہ میاں بیوی ہی نہیں رہے اور اجنبی بن گئے ۔۔۔۔۔۔۔ تو دوسری اور تیسری طلاق کس عنوان کے تحت ٹھیک ہوگا؟؟
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی اگر آیت پیش کر کے بین السطور یہ ”اجازت“ موجود ہے والی بات مجھے بھی سمجھا دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔۔۔ ہم تو طالب حقیقت ہیں جہاں سے بھی مل جائے۔۔۔ ۔
منتظر رہوں گا۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اے مومنو! اگر تم عورتوں سے نکاح کے بعد انہیں ہاتھ لگانے (مجامعت) سے پہلےطلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے (الاحزاب۔49) تمام مفسرین یہاں ”منکوحہ کو ہاتھ لگانے“ سے مراد جنسی تعلق یعنی مجامعت قرار دیتے ہیں۔ تاہم جس منکوحہ کی رخصتی ہوگئی ہو اور اس کی اپنے شوہر کے ساتھ ”خلوت صحیحہ“ ہوچکی ہو (خواہ عملاً فعل مجامعت قرار نہ پایا ہو) اس کی بھی عدت ہوگی

عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اُن کی عدت تین مہینے ہیں۔ یہی حکم اُن کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہے (طلاق-4) ۔ اس دوسرے جملے سے مراد نابالغ لڑکیاں ہی ہیں، مفسرین کے مطابق۔

ان دونوں آیات کو ”ملا کر“ پڑھئے تو آپ کو ”اجماع امت کے موقف“ کی صداقت ان قرآنی آیات سے واضح ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ قرآن و احادیث میں جنسی معاملات میں ہدایات عموماً ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان ہوئے ہیں۔ پہلی آیت میں کہا جارہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ غیر مدخولہ کو اگر طلاق دی جائے تو ایسی عورت پر کوئی عدت لازم نہیں ہے۔ اور دوسری آیت میں کہا جارہا ہے کہ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو (یعنی وہ نابالغ ہوں)، ان کی عدت تین مہینے ہے۔ نابالغہ پر عدت اسی وقت واجب ہوگی جب وہ ”مدخولہ“ بھی ہو۔ گویا نکاح کے بعد نابالغہ سے مجامعت کی جاسکتی ہے، جبھی تو نابالغہ کی عدت ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب

پس نوشت: واضح رہے کہ یہ میری ”ذاتی رائے“ نہیں ہے کہ میں اس کا اہل ہی نہیں۔ میں نے تو اہل سنت والجماعت کے علماء کی بھاری اکثریت کی رائے کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ متعدد اقلیتی مسالک کے فقہا، نکاح، طلاق، عدت سمیت بہت سے عائلی و دیگر مسائل میں ”اجماع امت“ کو تسلیم نہیں کرتے۔
 

یوسف-2

محفلین
آپ کی باقی ساری باتوں سے تو میں بالکل متفق ہوں۔۔۔ بلکہ آپ نے میرے منہ کی باتیں چھین لی ہیں۔
لیکن!!!!!!!!!!!!!
آپ کی یہ بولڈ شدہ عبارتیں آپس میں ٹکرا نہیں رہیں کیا؟؟؟
جب پہلے کہ چکے کہ حیض یا حمل میں تھی اور طلاق دینے سے قرآن کے قانون کی قانون شکنی ہوئی ہے۔۔۔ پس قانون شکنی والے کام سے اجتناب کرنا چاہیے یعنی ایسی حالت میں طلاق نہیں دینا چاہیے۔ ۔ ۔ پس حیض میں طلاق نہیں ہوتی والی بات بالکل غلط کیسے ہو گئی؟؟؟
ہاں البتہ حالت حمل میں ظاہرا طلاق دیا جا سکتا ہے۔۔۔ ۔
واللہ اعلم بالصواب
قانون شکنی سے یقیناً اجتناب کرنا چاہئے یعنی حالت حیض میں طلاق نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی اس طہر میں طلاق دینی چاہئے جس میں مجامعت کی گئی ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہین کہ اس صورت میں طلاق دیئے جانے کی صورت میں طلاق نافذ ہی نہیں ہوگی۔ طلاق نافذ ہوگی لیکن ایسا شوہر قانون شکنی پر گناہ گار ہوگا۔ یہی اجماع امت ہے۔ (گو کہ یہاں بھی فقہی اختلاف اپنی جگہ موجود ہے)
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف-2

محفلین
طلاق دینے کے لیے غصہ شرط نہیں۔۔۔ بلکہ بعض دفعہ نفرت یا گھریلو مجبوریاں وغیرہ بھی طلاق کی وجہ ہو سکتی ہیں۔۔
ممکن ہے آپس میں پیار ہو۔۔۔ لیکن کوئی مجبوری ان کو طلاق تک لےجائے۔۔
غصہ کی حالت میں چونکہ قصد اور ارادہ سلب ہو جاتا ہے۔۔۔ اور شیطان اس پر سوار ہوتا ہے۔۔۔ اور گواہ کا بھی مسئلہ ہے۔۔۔ تو اس لیے کہا تھا طلاق نہیں ہوتا۔۔
ابو داؤد کی اس حدیث کی رو سے نکاح، طلاق اور رجعت میں قصد اور ارادہ یا نیت شرط نہیں ہے۔ بلا نیت طلاق کے الفاظ ادا کرنے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بلا نیت الفاظ یا ”عمل“ سے رجوع کرنے سے بھی رجوع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کسی کی ”نیت“ اگر نہ بھی ہو، لیکن اگر گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیں، مہر کے ساتھ تو نکاح بھی نافذ ہوجاتا ہے۔
محض مکالمہ اور بحث کی خاطر تھوڑی دیر کے لئے اس حدیث کو ”رَد“ کردیجئے۔ پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد لڑکا یا لڑکی کسی بھی ناپسندیدہ بات پر نکاح سے ہی یہ کہہ کر ”مکر“ جائے کہ میں نے تو نکاح کی نیت ہی نہیں کی تھی تو قاضی، عدالت، اہل خانہ کیا کر لیں گے؟ پتہ نہیں کتنی شادیاں، ”ہونے“ کے بعد ”ختم“ ہوجائیں گی کہ شادی کے بعد ”ناپسندیدہ باتوں“ کا تو ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ شادی ہال میں بھی۔ اسی طرح چونکہ طلاق و رجعت کا شوہر کو ”یکطرفہ اختیار“ ہوتا ہے، لہٰذا کوئی بھی ”شریر شوہر“ طلاق دینے کے بعد ”مکر“ جائے کہ میری تو طلاق کی نیت ہی نہیں تھی یا ”رجوع“ کرنے کے بعد مکر جائے کہ میری تو رجوع کرنے کی نیت ہی نہیں تھی۔۔۔ اس طرح تو ایک شریر شوہر اپنی بیوی کو مسلسل تنگ کرتا رہے گا۔ لہٰذا کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اس حدیث پر ”ایمان“ لے آیا جائے۔

سنن ابوداؤد شریف ج۱ ص۲۹۸ میں حدیث پاک ہے (حدیث نمبر:۱۸۷۵)۔’’ عن ابی هريرۃ ان رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النکاح والطلاق والرجعة۔ ‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ہیں جن کو سنجیدگی سے اداکرنا سنجیدگی ہے اور مذاق ودل لگی سے اداکرنا بھی سنجیدگی ہے (۱)نکاح (۲)طلاق (۳)رجعت۔
 

نادر علی

محفلین
معافی چاہوں گا حضور نہ میں عالم نہ میں فاضل نہ مفتی نہ قاضی ہو ۔ جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہماری باتیں آپس میں ٹکراتی رہیں گی اور ہم پاگلوں کی طرح آپس میں بحث کرتے رہیں گے جس کا کوئی حل نہیں ملے گا ۔
طلاق کے کئے طریقہ کار ہیں مگر جب جس چیز کی قانونی حیثیت نہ ہو تو وہ بے کار رہتی ہے مثلاً اگر آپ کوئی پلاٹ خریدتے ہیں اور اُس کی رجسٹری یا اسٹام لکھواتے ہیں تب جا کر اُس کی قانونی حیثیت پر پورا اُترتی نہیں تو آپ اُس پلاٹ کے مالک نہیں بنتے ۔ یہ تو تھی قانونی لحاظ سے ۔
اگر شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو اُس میں بھی گواہی ضروری ہے ۔ مثلاً نکاح کے وقت ہمیں کیوں گواہ کی ضرورت ہے ؟
اور طلاق کے وقت کوئی نہ بھی ہو تو ہم اُسے طلاق مان لیتے ہیں ۔ میرے ذہن کے مطابق طلاق اُس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اُس کی قانونی حیثیت نہ ہو ۔ آپ اُس دور کی باتیں کرتے ہیں جب اسلام نافذالعمل تھا اور اپنے فتوے بھی شریعت کے لحاظ سے دیتے ہیں اور آپ سب لوگ قانون تو چاہتے ہیں مگر شریعت نہیں ۔ یہ بے ایمانی کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم لوگ نہ دین کے رہتے ہیں نہ دنیا کے ۔
جہاں پر شریعت نافذالعمل ہوگی ، وہاں پر تو آپ اس کو ’’طلاق‘‘ تصور ہوگی وہ بھی اپنے مسلک کی روشنی میں ، نہ کہ کئی مسالک سے فتوے لے کر ۔
اور جہاں پر کوئی اور قانون نافذ ہوگا تو اُس قانون کی پابندی کے تحت طلاق تصور ہوگی ۔ مثلاً اگر آپ نے کسی کو زبانی طلاق دے دی ہے اور قانونی تقاضے پورے نہیں کئے ہیں تو وہ عورت آپ کو عدالت لے جانے کی حق رکھتی ہے ۔
یہ سب اپنے اپنے مسلک اور قانون کے مسائل ہیں ۔
 
طلاق غصے میں ہو یہ نہ ہو، ایک ہی سانس کی تین طلاقوں کو تین طلاق شمار کرنا ظلمِ عظیم ہے۔ جس کا نتیجہ اس جوڑے کے لیے اکثر ساری عمر کے پچھتاوے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور جلتی پر تیل دین میں اضافے کرنے والے فتوی دے کر چھڑک جاتے ہیں کہ ایک سانس کی تین کا مطلب تم لوگ الگ ہو چکے ہو۔

اس موضوع پر ایک فلم بھی دیکھی تھی"لے گیا صدام" اس میں بھی اسی بعد کے پچھتاوے اور پھر حلالہ کے بعد کے پچھتاوے سبھی عکس بند کیے گئے ہیں۔

اور نصیحت کی گئی ہے کہ دماغ کو کنٹرول میں رکھا جائے اور جذبات کے نتائج ذرا اندازہ لگا لیا جائے۔
 

یوسف-2

محفلین
میں

بھی یہی چاہتا ہوں کہ کسی بھی آیت یا حدیث کو کوٹ ( کاپی پیسٹ ) کرنے کے بجائے اپنا استدلا ل پیش کیا جائے ۔ اور پھر اپنے دلائل اور استدلال کو قرآن و حدیث سے بعد میں ثابت کیا جائے
تاکہ پہلے آپ کی فکر اور بات واضع ہو ۔ کیونکہ کسی بھی حدیث اور آیت کو جب کوٹ کیا جاتا ہے تو کئی مکتبِ فکر اپنی اپنی فکر کے مطابق ان آیت اور احادیث کی تشریح کر رہے ہوتے ہیں ۔ پھر گلاس آدھا خالی یا آدھا بھرا ہوا نظر آنے لگتا ہے ۔
بصد احترام اس ”اُلٹی ترتیب“ سے اختلاف کی اجازت چاہتا ہوں :) اسلام می ہم جیسوں کی رائے کی کوئی وقعت نہیں ہے، خواہ ہم کتنے ہی بڑے عالم اور علامہ کیوں نہ ہوں۔
  1. اگر اسلام کے حوالہ سے کوئی بات، کوئی مسئلہ زیر بحث کرنا ہے تو سب سے پہلے، قرآن کی آیت اور متعلقہ حدیث پیش کی جائے گی
  2. پھر یہ بتلایا جائے گا کہ اس مسئلہ پر قرآن و حدیث کے فرمان پر دور رسالت و دور صحابہ میں کس طرح عمل کیا جاتا رہا ہے
  3. اس کے بعد تابعین، اور دینی اسکالرز، فقہا کی اکثریتی رائے (اجماع امت) پیش کی جائے گی۔
  4. اس کے بعد اپنی اپنی رائے پیش کی جاسکتی ہے کہ مجھے مندرجہ بالا ایک تا تین نکات پر فلاں فلاں سے اتفاق ہے اور فلاں فلاں سے اختلاف ہے اور میری رائے یہ ہے۔ لہٰذا جو لوگ مجھے ”مانتے“ ہیں، وہ ”میری بات“ کو فالو کریں اور جو ایک تا تین کی باتوں کو ”مانتے“ ہیں وہ انہی پر عمل کریں۔ :)
 

حسینی

محفلین
خفیہ حلالہ سینٹر کے مولوی نے مختلف مردوں سے میرا بار بار حلالہ کرایا
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

128934_l.jpg

لندن (رپورٹ، آصف ڈار) اپنے شوہر کے ہاتھوں بیک وقت طلاق حاصل کرکے ایک خفیہ حلالہ سینٹر پہنچنے والی ایک پاکستانی مسلمان عورت کا کہنا ہے کہ ایک نام نہاد مولوی نے اسے کئی مردوں کے پاس بھیج کر اس کا حلالہ کردیا اور جب وہ تنگ آگئی اس نے مولوی کی بات ماننے سے انکار کردیا اور واپس اپنے شوہر کے پاس چلی گئی مگر مولوی نے اس کے ذہن پر اس قدر منفی اثرات ڈالے کہ وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی۔ پاکستان سے شادی کرکے مڈلینڈز میں سیٹل ہونے والی اس عورت نے اپنی جی پی کو بتایا کہ اس کے شوہر نے غصے میں آکر اسے تین طلاقیں دے دی تھیں۔ چونکہ اس نے پاکستان میں اپنے والدین سے سن رکھا تھا کہ شوہر اگر تین بار طلاق کہہ دے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنا شک دور کرنے کے لئے ایک اور پاکستانی عورت کی مدد سے خفیہ حلالہ سینٹر پہنچ گئی جہاں پر بیٹھے ہوئے نام نہاد مولوی نے اس سے کہا کہ اب وہ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے اور اسے حلالہ کرنا ہوگا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کو چھوڑ کر اپنی ایک دوست کے ساتھ رہنے لگ پڑی تھی کیونکہ وہ سمجھنے لگی تھی کہ اب اس کا شوہر اس کے لئے غیر مرد بن گیا ہے۔ حالانکہ اس کے شوہر نے اسے بارہا سمجھایا اور ایک فتویٰ بھی لاکر دکھایا کہ ان کی طلاق نہیں ہوئی مگر اس نے اپنے شوہر کی بات نہیں سنی بلکہ مولوی کے کہنے میں آکر اس نے مولوی کے بتائے ہوئے ایک مرد کے ساتھ ایک رات کے لئے حلالہ کرلیا تاہم جب وہ کچھ دن بعد وہ اسی مولوی کے پاس دوبارہ گئی تو اس نے اسے بتایا کہ اس کا حلالہ موثر نہیں ہوا۔ لہٰذا اسے ایک مرتبہ پھر حلالہ کرنا پڑے گا۔ اس عورت کی داستان سننے والی جی پی نے جنگ لندن کو اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ چونکہ یہ سادہ لوح عورت مولوی کے چنگل میں پھنس گئی تھی اس لئے مولوی نے خود بھی اس کے ساتھ ایک رات کے لئے حلالہ کیا اور اس کی عزت کو مذہب کی آڑ میں تار تار کیا گیا۔ اس کے اب یہ عورت سمجھتی ہے کہ اس کی سخت توہین کی گئی ہے۔ اس لئے اس کو ڈپریشن ہوگیا ہے اور وہ دل ہی دل میں یہ سمجھتی ہے کہ اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ دھوکہ کررہی ہے جسے اس کے حلالوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ حلالہ کا شکار ہونے والی عورتوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک پاکستان نژاد برطانوی سوشل ورکر نے بتایا کہ ان کے پاس اس قسم کے بہت زیادہ کیس آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر اوقات ان کے پاس ایسے سادہ لوح جینوئین افراد آتے ہیں جو بعض مولویوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہوتے ہیں اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے لئے مشورہ مانگتے ہیں مگر قانون ان کی اس لئے مدد نہیں کرسکتا کہ چونکہ حلالہ کرانے والی عورت خود اپنی اور اپنے شوہر کی مرضی سے حلالہ مولوی کے ساتھ نکاح کرتی ہے۔ چونکہ اس کو ریپ نہیں کہا جاسکتا اس لئے پولیس اس پر کارروائی نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ویسے بھی یہ لوگ اپنی عزت کے ڈر سے معاملے کو زیادہ اچھالنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایک ایسی عورت بھی آئی تھی جس کے شوہر نے اسے غصے میں طلاق دے دی مگر بعد میں وہ سخت نادم ہوا اور وہ دونوں ایک مولوی کے پاس گئے۔ مولوی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کسی سے حلالہ کرالیں مگر انہوں نے اپنی بدنامی سے بچنے کے لئے مولوی کو حلالہ کرنے کی درخواست دی۔ مولوی نے وعدہ کیا کہ وہ اگلے ہی روز اس عورت کو طلاق دیدے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اگلے روز اس عورت کا سابق شوہر آیا مولوی سے طلاق کا تقاضا کیا تو اس نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ وہ اپنی بیوی کو کسی بھی صورت میں طلاق نہیں دے گا۔ اس شخص نے مولوی کی بہت منتیں کیں مگر وہ نہ مانا۔ چنانچہ اس کے شوہر کو اس معاملے میں محلے اور مسجد کے دوسرے لوگوں کو ملوث کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مولوی کو مارپیٹ کر طلاق پر آمادہ کیا۔ اس سوشل ورکر نے کہا کہ بعض نام نہاد مولوی نو مسلم عورتوں کو سخت پریشان کرتے ہیں اور حلالہ کے نام پر ان کا سخت جنسی استحصال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نومسلم عورتیں معلومات نہ رکھنے کی وجہ سے ہر چھوٹی موٹی بات پوچھنے مولویوں کے پاس جاتی ہیں مگر ان میں سے بعض مولوی ان کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کر انہیں داغ دار کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کئی نومسلم عورتیں آئی ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر شکایت کی ہے۔ ان میں سے بعض عورتیں اب اسلامی فلاحی اداروں میں بھی مقیم ہیں۔ جہاں ان کی بحالی کا کام ہورہا ہے۔ لندن سے تعلق رکھنے والے ایک سنگل مدر نے اپنا نام افشاء نہ کرنے کی شرط پر جنگ کو بتایا کہ وہ دو مردوں کے درمیان پنگ پانگ بن گئی تھی جس کے بعد اس نے شادیوں سے توبہ کرلی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی کہ اس کے اپنے شوہر کے ساتھ اختلافات ہوگئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرکے طلاق لے لی۔ اس نے بتایا کہ کچھ عرصہ بعد اس نے ایک اور مرد کے ساتھ شادی کرلی مگر ایک دن اس نے غصے میں آکر اسے طلاق دے دی جس کے بعد وہ سخت پریشان بھی ہوا اس نے بتایا کہ وہ اپنے اس شوہر کو نہیں چھوڑنا چاہتی تھی چنانچہ وہ ایک مفتی کے پاس پہنچ گئی جس نے اسے مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ شادی کرکے اس سے طلاق لے لے تو اس کا حلالہ ہوجائے گا اور پھر وہ اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ دوبارہ شادی کرسکتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا ہی کیا اور اپنے پہلے شوہر کو دوبارہ شادی اور طلاق دینے پر آمادہ کریں۔ جب وہ طلاق لے کر دوسرے شوہر کے پاس آئی تو اس نے اسے دوبارہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جب وہ پھر مفتی کے پاس گئی تو اس نے کہا کہ اگر اب وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ تیسری مرتبہ شادی کرنا چاہتی ہے اسے کسی اور کے ساتھ حلالہ کرنا پڑے گا۔ اس نے بتایا کہ وہ حلالوں سے تنگ آگئی ہے اور اب اس نے کسی سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا چھوٹا بیٹا اپنی ماں کو شوہر تبدیل کرتے ہوئے دیکھ کر بڑا نہ ہو۔ حلالہ کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کا نکتہ نظر ایک ہی ہے کہ حلالہ محض اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ اس عورت کی اپنے شوہر کے پاس جانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے۔ بلکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طلاق کے بعد اگر کوئی عورت حلالہ کے ارادے کے بغیر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرلے اور کچھ عرصے بعد ان دونوں میں طلاق ہوجائے تو وہ دوبارہ شادی کرسکتے ہیں۔ تاہم حلالہ کے نام پر شادی کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں دی گئی۔ اس بارے میں برطانیہ کے مقتدر علماء کرام کا کہنا ہے کہ بعض نام نہاد مولویوں اور مفاد پرستوں نے مذہب کے نام پر دوکانیں لگا رکھی ہیں اور لوگوں کی بھاری اکثریت ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ ان علماء نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں نکاح، شادی، طلاق، خلع وغیرہ کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ صرف مستند اداروں میں ہی جائیں اور ایسے لوگوں کے ہتھے نہ چڑھیں جو عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سینٹر کے اندر حلالہ کے حوالے سے جنگ لندن میں ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں معروف عالم دین مولانا شفیق الرحمن اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو انتہائی سنگین قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے برطانوی مسلمانوں کے ہزاروں گھر تباہ ہورہے ہیں۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=128934
 

arifkarim

معطل
فیک رپورٹ ----ڈیسک میں بیٹھ کر روزانہ سیکڑوں ایسی فرضی رپورٹیں تیار کی جا سکتی ہیں ۔حیرت ہے جنگ جیسا معتبر اخبار بھی اس طرح کی بے بنیاد خبریں شائع کرتا ہے ۔
تو کیا یہ بھی فرضی کہانیاں ہیں؟
The Rochdale sex trafficking gang was a group of men who preyed on under-age teenage girls in Rochdale, Greater Manchester, England. They were convicted of sex trafficking on 8 May 2012; other offences included rape, trafficking girls for sex and conspiracy to engage in sexual activity with a child.[1] 47 girls were identified as victims of child sexual exploitation during the police investigation.[2][3][4] The men were all British Pakistanis (except for one from Afghanistan) and from Muslim backgrounds, and the girls were White; this has led to national discussion of whether the crimes were racially motivated, or, conversely, whether the early failure to investigate them was linked to the authorities' fear of being accused of racism.[5]
http://en.wikipedia.org/wiki/Rochdale_sex_trafficking_gang
 

arifkarim

معطل
یہی تو میں بار بار کہ رہا ہوں دوست بھائی کہ پہلے طلاق کے بعد ان کے آپس کا رشتہ ختم ہوگیا، وہ میاں بیوی ہی نہیں رہے اور اجنبی بن گئے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ تو دوسری اور تیسری طلاق کس عنوان کے تحت ٹھیک ہوگا؟؟
ایک بار کہنے یا بار بار کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جب تک طلاق کے پیپرز پر دستخط نہیں ہوتے، طلاق نہیں ہو سکتی!
 

arifkarim

معطل
بصد احترام اس ”اُلٹی ترتیب“ سے اختلاف کی اجازت چاہتا ہوں :) اسلام می ہم جیسوں کی رائے کی کوئی وقعت نہیں ہے، خواہ ہم کتنے ہی بڑے عالم اور علامہ کیوں نہ ہوں۔:)
تو وہ جو نام نہاد "علما" خبر میں حلالہ کرواتے پھر رہے ہیں کیا وہ ہم جیسے نہیں ہیں؟
 

arifkarim

معطل
چند خفیہ حلالہ مراکز اور بعض ایجنٹوں کی وجہ سے عورتوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے مگر یہ علماء کرام اس مسئلہ کو اس لئے سامنے نہیں لاتے کہ کمیونٹی مزید بدنام ہوگی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشادفرمایا عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ یعنی علم ختم ہوجائےگا۔ اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہونگی ان کے علما آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین ہونگے۔ (عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ۔ اُن کے علماء کی اب نشاندہی ہوگئی کہ اُن کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں بد ترین ہوں گے) ان میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور ان میں ہی لَوٹ جائیں گے یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔

(بہیقی بحوالہ مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ۳۸ کنزالعمّال ۶ صفحہ ۴۳)

یعنی تمام خرابیوں کی جَڑ مولوی ہونگے۔اور وہی ہرقسم کے فساد کا سرچشمہ ہوں گے۔ فرمایا آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے اور میری اُمّت میں میری طرف منسوب ہورہے ہوں گے لیکن فرمایا عُلَمَآءُ ھُمْ ہوں گے یہ اُن لوگوں کے علماء ہوں گے میرے ساتھ ان کا کوئی رُوحانی تعلق نہیں ہوگا۔
پھر ایک اور موقع پر آقا علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

تَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ فَزْعَۃٌ فَیَصِیْرُالنَّاسُ اِلَی عُلَمَاءِھِمْ فَاِذَا ھُمْ قِرَدَۃٌ وَ خَنَازِیْرُ۔
(کنزالعمّال جلد ۷ صفحہ ۱۹۰)

یعنی میری اُمّت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں جھگڑے ہوں گے لڑائیاں ہوں گی۔ اختلافات پیدا ہوجائیں گے بظاہر تو لوگ یعنی عوام الناس ہی لڑتے ہیں لیکن ان کا کوئی قصور نہیں ہوگا وہ اپنے علماء کی طرف رجوع کریں گے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آخر اُن کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے، وہ کیوں فتنہ و فساد کا شکار ہوگئے ہیں۔ پس جب وہ اپنے علماء کے پاس رہنمائی کی اُمید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے۔ یعنی وہ علماء نہیں ہیں بلکہ سؤراوربندر ہیں۔

اسلامی لغت:
مولوی: آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق
حلالہ سنٹر: فحاشی سنٹر
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بار کہنے یا بار بار کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جب تک طلاق کے پیپرز پر دستخط نہیں ہوتے، طلاق نہیں ہو سکتی!
یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ کاغذات پر جب تک دستخط نہیں ہوں گے، طلاق نہیں ہو گی۔

اسلام میں منہ سے ایک دفعہ کہہ دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
معروف عالم دین مولانا شفیق الرحمن اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو انتہائی سنگین قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے برطانوی مسلمانوں کے ہزاروں گھر تباہ ہورہے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ مسلمان پاکستان میں ہوں یا برطانیہ میں، تباہی انکا مقدر ہے کیونکہ انکے اوپر آسمان کے نیچے سب سے بدترین مخلوق سوار ہے۔
 
Top