شمشاد
لائبریرین
اسلام دین فطرت ہے اور اس میں کوئی بھی قانون فطرت کے خلاف نہیں۔۔۔ ۔ اسلام نے نکاح کو انتہائی آسان اور طلاق کو بہت ہی مشکل بنایا ہے۔۔۔
لیکن ہمارے مولویوں نے برعکس کے کر کے نکاح کو انتہائی مشکل اور طلاق کو بہت ہی آسان کر دیا ہے۔۔۔
ہمارے فقہ کے مطابق ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں نہیں ہو جاتیں کیونکہ ایسا عقلا ناممکن ہے۔۔۔ چونکہ جب پہلی بار طلاق دی تو وہ عورت اس کی بیوی ہی نہیں رہی۔۔۔ جب وہ عورت اس کی بیوی نہیں تو دوسری اور تیسری بار طلاق کی نوبت ہرگز نہیں پہنچتی۔۔۔ طلاق صرف اس کو دی جاسکتی ہے جو شرعا اس کی بیوی ہو۔۔ جبکہ وہ عورت پہلی طلاق پر اس سے جدا ہو گئی۔۔۔ اور اس کے لیے اجنبی بن گئی۔
اسی طرح سے غصہ یا نیند کی حالت میں یا اسی طرح مذاق میں طلاق کہنے سے بھی طلاق نہیں ہوتا۔۔۔ چونکہ طلاق کے لیے قصد اور ارادہ ، عربی صیغہ اور دو عادل لوگوں کی گواہی فقہ جعفری میں ضروری ہے۔۔ ان تمام شرائط کی موجودگی میں تین بار طلاق کی نوبت شاذ ونادر ہی آتی ہے۔۔
طلاق کسی بھی حالت میں دی جائے، طلاق ہو جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق، طلاق نہیں ہوتی، غلط ہے۔
طلاق دی ہی غصہ کی حالت میں جاتی ہے۔ پیار سے تو کوئی بھی طلاق نہیں دیتا۔