باقی تو سب ٹھیک ہے۔ لیکن ایک استاد ہونے کی حیثیت سے میرا تجربہ تو یہ ہے کہ میں بسا اوقات سب کچھ جانتے بوجھتے بھی بچوں کے سامنے انجان بن جاتا ہوں اور وہ خوش ہو جاتے ہیں کہ واہ! استاد کو پتہ ہی نہیں چلا۔:)
میرے نزدیک بعض اوقات بچے کی غلطی کو نظر انداز کرنا مناسب ہوتا ہے۔
اور میرے خیال میں اکثر اساتذہ بچے کی "دو نمبریوں" کو بخوبی سمجھ جاتے ہیں لیکن بچوں کی رعایت سے نظر انداز کرتے ہیں۔
میں نے ایک سکول کے سٹاف روم میں اساتذہ کے لئے رہنما ہدایات دیکھی تھیں ان میں یہ بھی لکھا تھا بچوں کے کینے کو کیسے ہینڈل کیا جائے ان میں نظر انداز کرنا بھی شامل تھا۔
 
لئیق احمد بھائی جان ،آپ والا ٹیچرتوپھربھی رحم والا تھا ،سوائے تھوڑا موٹا ہونے کے علاوہ اس میں کوئی برائی نہیں تھی بلکہ لاکھوں میں ایک تھا ۔ ہمارا ٹیچر تو بات بات پر ڈیریکٹ مرغا بنادیا کرتا تھا اور کتاب کاپیوں سے بھرا بیگ کمر پر رکھ دیتا تھا۔اگر آپ پہلے بتاتے تو میں آپ سے Teacher Swaping کرتا ۔ پھر مزا آجاتا قسم سے!
سیکنڈ ائیر کے طلباء کے ساتھ بھی ایسا بہیمانہ سلوک ؟ ہمیں تو کالج جانے کی خوشی ہی اس بات کی ہوئی تھی کہ وہاں "کٹ" نہیں پڑے گی۔
 

سید عمران

محفلین
سیکنڈ ائیر کے طلباء کے ساتھ بھی ایسا بہیمانہ سلوک ؟ ہمیں تو کالج جانے کی خوشی ہی اس بات کی ہوئی تھی کہ وہاں "کٹ" نہیں پڑے گی۔
لیکن اس مراسلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ اسکول کا ٹارچر سیل ہے یا کالج کا؟؟؟
:idontknow::idontknow::idontknow:
 
2018-03-30_18.08.21.jpg
 

جاسمن

لائبریرین
.. میں کل سے " دھاڑیں مار مار" کر ہنس رہا ہوں اور " زارو قطار" قہقہے لگارہا ہوں۔
میرا ایک دوست پرائیویٹ سکول میں ٹیچر ہے اور میٹرک کی اردو کی کلاس پڑھاتاہے ‘ اس نے اپنے سٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ جواب میں جو سامنے آیا وہ اپنی جگہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ املاء سے تشریح تک سٹوڈنٹس نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی ہے۔
میں نے اپنے دوست کی اجازت سے اِن پیپرز میں سے اپنے کالم کے لیے نقل "ماری " ہے‘ اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ بھرا ہوا ہے۔
سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب ۔۔۔۔ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ
’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر "چونک" میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی "چونک " میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی "باجائے" وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔۔!!!‘‘

اگلا شعر تھا ,
رنجش ہی سہی ‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
۔۔آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ ..
مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ
’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں "مہندی حسن" نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔‘‘

تیسرا شعر تھا۔۔۔!!!
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا ۔۔۔
میں تو دریاہوں سمندر میں اتر جاؤں گا .
ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کر دیا۔۔۔پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ
’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتاہے ‘ اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔۔۔!!!

اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں ۔۔۔
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ..

ایک سقراط نے اس کو یوں لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک "پونچا" ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام "دار" پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہاہے کہ بے شک اسے " سُوئے" مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں "دار " تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔۔۔!!!‘‘

اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ۔۔۔
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ..

جواب تھا کہ
’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی "محارت" سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں‘ اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں

اگلا شعر پھر بڑا مشکل تھا ۔۔۔!!!

سرہانے میر کے آہستہ بولو ۔۔۔
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے .

نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ
’’اس شعر میں "حامد میر " نے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے‘ وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں‘ رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی ‘ ہر روز شیو کرتے ہوئے اُنہیں "ٹک" (زخم) بھی لگ جاتاہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیں کہ میرے سرہانے آہستہ بولو' مجھے " ٹَک " لگا ھے " ۔

اگلا شعر پھر ایک نیا امتحان تھا۔۔۔!!!

محبت مجھے اُن جوانو ں سے ہے ۔۔. ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ..

ایک محنت کش سٹوڈنٹ نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ
’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر "کمند" ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں۔۔۔‘‘۔

آخری شعر یہ تھا۔۔۔!!!

نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا ۔۔۔۔
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے

علامہ اقبال کے اس شعر سے بھرپور " انتقام " لیتے ہوئے ایک لڑکی نے لکھا کہ
’’اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتاہے اور لگتا ہے شاعر کے گھر میں نہ یو۔ پی ۔ایس ہے نہ چارجنگ والا پنکھا‘ اسی لیے وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کوفوری طور پر "نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم" بنانے چاہئیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے‘ اس شعر میں شاعر نے ڈھکے چھپے لفظوں میں واضح کر دیا ہے کہ جب تک "کالا باغ نشیمن" نہیں بنے گا‘ بجلی کا "ماسالا" حل نہیں ہوگا۔
#copied
 

عباس اعوان

محفلین
.. میں کل سے " دھاڑیں مار مار" کر ہنس رہا ہوں اور " زارو قطار" قہقہے لگارہا ہوں۔
میرا ایک دوست پرائیویٹ سکول میں ٹیچر ہے اور میٹرک کی اردو کی کلاس پڑھاتاہے ‘ اس نے اپنے سٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ جواب میں جو سامنے آیا وہ اپنی جگہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ املاء سے تشریح تک سٹوڈنٹس نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی ہے۔
میں نے اپنے دوست کی اجازت سے اِن پیپرز میں سے اپنے کالم کے لیے نقل "ماری " ہے‘ اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ بھرا ہوا ہے۔
سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب ۔۔۔۔ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ
’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر "چونک" میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی "چونک " میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی "باجائے" وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔۔!!!‘‘

اگلا شعر تھا ,
رنجش ہی سہی ‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
۔۔آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ ..
مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ
’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں "مہندی حسن" نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔‘‘

تیسرا شعر تھا۔۔۔!!!
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا ۔۔۔
میں تو دریاہوں سمندر میں اتر جاؤں گا .
ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کر دیا۔۔۔پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ
’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتاہے ‘ اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔۔۔!!!

اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں ۔۔۔
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ..

ایک سقراط نے اس کو یوں لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک "پونچا" ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام "دار" پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہاہے کہ بے شک اسے " سُوئے" مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں "دار " تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔۔۔!!!‘‘

اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ۔۔۔
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ..

جواب تھا کہ
’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی "محارت" سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں‘ اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں

اگلا شعر پھر بڑا مشکل تھا ۔۔۔!!!

سرہانے میر کے آہستہ بولو ۔۔۔
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے .

نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ
’’اس شعر میں "حامد میر " نے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے‘ وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں‘ رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی ‘ ہر روز شیو کرتے ہوئے اُنہیں "ٹک" (زخم) بھی لگ جاتاہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیں کہ میرے سرہانے آہستہ بولو' مجھے " ٹَک " لگا ھے " ۔

اگلا شعر پھر ایک نیا امتحان تھا۔۔۔!!!

محبت مجھے اُن جوانو ں سے ہے ۔۔. ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ..

ایک محنت کش سٹوڈنٹ نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ
’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر "کمند" ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں۔۔۔‘‘۔

آخری شعر یہ تھا۔۔۔!!!

نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا ۔۔۔۔
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے

علامہ اقبال کے اس شعر سے بھرپور " انتقام " لیتے ہوئے ایک لڑکی نے لکھا کہ
’’اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتاہے اور لگتا ہے شاعر کے گھر میں نہ یو۔ پی ۔ایس ہے نہ چارجنگ والا پنکھا‘ اسی لیے وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کوفوری طور پر "نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم" بنانے چاہئیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے‘ اس شعر میں شاعر نے ڈھکے چھپے لفظوں میں واضح کر دیا ہے کہ جب تک "کالا باغ نشیمن" نہیں بنے گا‘ بجلی کا "ماسالا" حل نہیں ہوگا۔
#copied
گل نوخیز اختر کی تحریر ہے شاید۔
 
Top