عالم اسلام کی خود فریبی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
رسول ص کے توہین آمیز کارٹون کی اشاعت بہت غیر انسانی فعل ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔ اس موضوع پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ مگر میں یہاں اُن سوالات پر آ رہی ہوں جو مجھ پر واضح نہیں ہو رہے، اور نہ ہی میں ان کا جواب ڈھونڈ پا رہی ہوں۔

ان سوالات سے میرے ذہن میں جو الجھنیں ہیں وہ بہت لمبی ہیں۔ پتا نہیں میں یہ سوالات اور یہ الجھنیں آپ کی خدمت میں صحیح طور پر پیش کر پاؤں گی یا نہیں، مگر کوشش کرتی ہوں۔


پہلا سوال: اگر کوئی غیر مسلم، کسی غیر ملک میں رسول ص کی تضحیک کرتا ہے، تو اس کی شرعی سزا کیا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جو عرصہ دراز سے میں اٹھا رہی ہوں مگر کوئی مولوی صاحب کھل کر اس بات کا جواب نہیں دیتے۔

بہرحال کتب کے اندر مجھے اس کا جواب بہت پہلے مل گیا تھا، اور وہ یہ کہ اگر کوئی غیر مسلم رسول ص کی تضحیک کرتا ہے تو اسلامی شریعت اُس پر قتل کی کوئی شرعی سزا نافذ نہیں کرتی۔

رسول ص کا اپنا اسوہ حسنہ اس معاملے میں یہی تھا کہ وہ ایسے غیر مسلموں کے لیے دعا کرتے تھے کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اس سلسلے میں بہت سے واقعات اسلامی تاریخ میں محفوظ ہیں۔

غازی علم دین کو ہیرو بنانا

غازی علم دین نے ایک غیر مسلم ہندو کو اس بنیاد پر قتل کر دیا تھا کہ اُس نے رسول ص کی تضحیک کی تھی۔ اس بنیاد پر ہماری عوام نے اسے ہیرو بنا دیا، اور ہمارے مولوی طبقے نے کھل کر غازی علم دین اور عوام کی حمایت کی۔

میرا سوال یہی ہے کہ مولوی حضرات نے سب سے پہلے کھل عوام کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ کسی غیر مسلم کو کسی غیر اسلام ریاست میں کبھی بھی اس جرم کی پاداش میں قتل نہیں کر سکتے؟ یہ اللہ کی بنائی ہوئی اُس شریعت کا حکم ہے جسے ہر حال میں ہر مسلمان کو عمل کرنا ہے۔


مولوی حضرات نے اس شرعی حکم کو چھپایا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام عوام نے غازی علم دین کے اس فعل کی مذمت کرنے اور اسے دین اسلام کے خلاف قرار دینے کی بجائے اس خلاف شریعت عمل کو اسلام کی آواز بنا لیا اور غازی علم دین کو ہیرو بنا لیا۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں کئی Individual کیسز ایسے ہو چکے ہیں جہاں رسول ص کی تضحیک کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کچھ مسلمانوں نے کچھ غیر مسلموں کو قتل کر دیا ہے۔

اس معاملے میں مجھے علماء حضرات سب سے بڑے قصوروار نظر آتے ہیں، جنہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے چیزوں کو چھپایا ہوا ہے۔ اگر غازی علم دین کے واقعے پر ہی وہ کھل کر مذمت کر دیتے اور کھل کر اسلامی شریعت کا قانون عوام کو بتا دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔



سلمان رشدی کو انگلینڈ میں قتل کرنے کا فتویٰ


ایک طرف ہمیں بطور مسلمان یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم غیر مسلم ملک میں رہ رہے ہیں تو اُن کے قوانین کی پابندی ہم پر لازمی ہے۔

دوسری طرف آغا خمینی کی طرف سے فتویٰ آتا ہے کہ سلمان رشدی کو انگلینڈ میں ہی قتل کر دیا جائے۔

یہ ایک تضاد ہے اور منافقت ہے جو مجھے ہضم نہیں ہو سکتا۔ اور آغا خمینی اس مسئلے میں اکیلے نہیں، بلکہ ہزاروں لاکھوں فرزندانِ توحید سلمان رشدی کو انگلینڈ میں قتل کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ منافقت انہیں عین ایمان نظر آ رہی ہے۔

اس سلسلے میں اہل تشیع کی بڑی تعداد کو دیکھا ہے جو آغا خمینی کی اندھی تقلید کر رہی ہے۔ بیشک آغا خمینی بہت بڑی شخصیت تھے اور دوسرے حوالوں سے میں بھی اُن کی عزت کرتی ہوں، مگر یہ چیز بھی مجھے اس سے نہیں روک سکتی کہ میں اُن کے اس قدم کو غلط کہوں اور اس پر اعتراض نہ کروں۔

رسول ص کے کارٹون بالمقابل بدھا کے افغانستان میں مجسمے

رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون بنانا بہت غلط چیز ہے اور میری خواہش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر یہ معاہدہ طے پا جائے کہ ایسے تضحیک آمیز کاموں کو غیر قانون قرار دیا جائے۔

اس سلسلے میں مگر کچھ قوانین پہلے سے ہی عالمی سطح پر موجود ہیں کہ کسی کی عبادت گاہوں کو توڑ پھوڑ کا شکار نہیں بنایا جائے گا۔

مگر میں نے مسلمانوں کی (یا کم از کم اُن کے ایک حصہ کی) منافقت اُس وقت دیکھی جب طالبان نے افغانستان میں بدھا کے مجسمے توڑ ڈالے۔

چونکہ طالبان کا تعلق ادارہ دیو بند سے تھا، اس لیے انہوں نے کھل کر طالبان کی اس سلسلے میں حمایت کی (بلکہ کہنا چاہیے کہ اندھی حمایت کی)۔ اُن کی واحد دلیل یہ تھی کہ چونکہ اب افغانستان میں بدھ مت کے ماننے والے موجود نہیں ہیں، اس لیے ان بتوں کو ٹوڑ دیا جائے۔ بہت حیرت کی بات ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے تو اللہ اور رسول دنیا کے ہر کونے میں موجود رہیں، مگر بدھا، جو کہ بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے محترم ہے، اُس کو صرف بدھ ممالک تک ہی محدود کرنے کا فتوی جاری کر دیا جائے۔ اب یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟

کیا آپ لوگوں نے کبھی ان سوالات پر غور کیا کہ:

۔ کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر بدھا کے مجسمے توڑ دینا، یا پھر یہ ایک ہی معیار کے قبیح افعال ہیں؟

۔ اور کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر اُن پاکستانی کلیساؤں میں موجود مسیح ع کے بتوں کو توڑ دینا جو کہ عیسائیوں کے نزدیک ایسے ہی محترم ہیں جیسے ہمارے نزدیک رسول ص کی عزت؟ کتنے پاکستانی علماء اور مولوی حضرات ایسے تھے جنہوں نے کھل کر اس کی مذمت کی تھی؟
 

مہوش علی

لائبریرین
سومنات کا مندر اور محمود غزنوی

میرا آپ لوگوں سے سوال یہ ہے کہ کیا ہم بطور مسلمان اس بات کے لیے بھی تیار ہیں کہ ہندوؤں کے بتوں کی بے ادبی کرنے پر بھی وہی سزا ہو جو کہ رسول ص کی تضحیک کرنے پر؟

محمود غزنوی نے سومنات کا قلعہ فتح کر لیا۔ اس کے بعد اُس نے قصد کیا کہ وہ سومنات کے مندر کو ڈھا دے۔ ہندوؤں نے اُس کی بہت منت سماجت کی کہ وہ اُن کے بتوں کو چھوڑ دے، مگر اُس نے کہا کہ مجھے بت فروش کی جگہ بت شکن کہلوانا زیادہ پسند ہے۔ آج مسلمانوں کے نزدیک وہ بطور بت شکن ایک ہیرو ہے۔

مگر کیا یہ ایک صحیح بات ہے؟

مجھے شاید خود اس بات کا صحیح جواب معلوم نہیں۔ مگر میں سوچتی ہوں کہ یہ نوبت ہی کیوں آئی کہ ہندوؤں کو ضرورت پیش آئی کہ وہ اُسے روپے پیسے کا لالچ دیں کہ وہ اُن کے بتوں کو نہ توڑے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ خود اس مندر کو توڑنے کا کبھی ارادہ نہ کرتا۔ ۔۔۔ یعنی نہ وہ ایسا ارادہ کرتا، نہ ہندوؤں کو اسے پیسے کا لالچ دینا پڑتا، نہ اُس پر بت فروشی کا الزام آتا۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

نسیم حجازی اور دیگر مسلمان مورخین نے اس سلسلے میں محمود غزنوی کا دفاع کرنے کے لیے واحد دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ سومنات کے مندر سے ہندو پجاری ہندو عوام کو لڑنے کے لیے ابھارتے تھے، اس لیے اس مندر کو گرا دینا چاہیے تھا۔ مگر یہ ایک بہت بودا بہانہ ہے چونکہ سومنات کا قلعہ فتح ہونے کے بعد یہ چیز ختم ہو گئی تھی۔ اگر اس بہانے بازی کو مان لیا جائے تو پھر تو مسلمانوں کی تمام مساجد اس سلسلے میں ہی استعمال ہوتی ہیں کہ لوگوں کو جہاد کے لیے ابھارا جائے۔ تو کیا اس صورت میں غرناطہ اور اندلس میں عیسائیوں نے جو الحمراء اور دیگر مساجد کو شہید کر کے انہیں گرجوں میں تبدیل کر لیا، کیا وہ صحیح عمل تھا؟

فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔

محمود غزنوی کے مقابلے میں محمد بن قاسم ہے، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُس نے ہندوؤں کے کوئی مجسمے نہیں گرائے۔ دوسرا ایسا مسلمان فرمانروا سلطان صلاح الدین ایوبی تھا کہ جس نے عیسائیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کا مطالبہ اسلامی شریعت کرتی ہے۔

المختصر، اگر آج ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسا بین الاقوامی قانون ہونا چاہیے جو توھین رسالت پر قانونی سزا دے، تو ہمیں یہی حق ہندوؤں کے بتوں، عیسائیوں کے بتوں اور دیگر مذاہب کو بھی دینا ہو گا۔ کیا آپ لوگ اس بات کے لیے تیار ہیں؟
 

نعمان

محفلین
مہوش کم و بیش یہی سوالات مجھے پریشان کرتے ہیں۔ میں خود تو یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتا ہوں کہ یہ غیراسلامی حرکتیں میرے مذہب کا حصہ نہیں لیکن پھر مجھے احساس ہوتا ہے کہ ان غیراسلامی حرکتوں اور منافقتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مہوش یہ آپ نے بہت اچھا سوال اٹھایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر علماء دوہرا معیار رکھ رہے ہی جس کی وجہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ بیشتر مولوی حضرات محض دینی مدرسوں سے فارغ التحصیل ہیں اور مولویت ان کا پیشہ ہے۔ بہت ممکن ہے کہ کچھ کو دین کی صحیح فہم بھی نہ ہو (اور یہ بھی کہ کچھ دوسرے ’دنیوی‘ مدرسوں کے طلباء کی طرح محض نقل کر کے پاس ہو گئے ہوں)۔ ابو الکلام آزاد، مودودی اور سلیمان ندوی یا علی میاں جیسے اصحابِ فکر کا فقدان ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے علماء دین اور دنیا کو الگ نہ سمجھیں (جو ہے بھی نہیں، اسلام تو ایل ’پیکیج ڈیل‘ ہے) اور حالات سے صحیح واقفیت رکھیں۔
ویسے ابھی دو تین دن قبل ہی ڈاکٹر ذاکر نائک کی ویڈیو سی ڈی دیکھ رہا تھع جس میں کسی ھندو نے ہی مقبول فدا حسین کی ان پینٹنگس کی بات اٹھائی تھی جس میں سرسوتی کو عریاں دکھایا گیا تھا۔ اور ذاکر نائک نے حسین کی اس حرکت پر طعن و تشنیع کی تھی۔ ان کے الفاظ تھے۔
I strongly condemn it.
لیکن ذاکر نائک کو ہمارے مسلمان ہم وطن (پڑھیں ہنوستانی، پاکستانی بلکہ بّرِ صغیری) بھی کہاں عالِم مانیں گے، ان کی اہمیت تو محض ٹی وی پریزینٹر جیسی ہے اگرچہ ان کی تقریروں کے لوگ بہت مدّاح ہیں۔
میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے واقعات کو تین کیٹیگریز میں بانٹنا چاہئے۔
1۔ ایسی حرکات مسلم کریں اور ہدف غیر اسلام ہو۔
2۔ ایسی حرکات مسلم ہی کریں اور ہدف اسلام ہی ہو۔
3۔ ایسی حرکات غیر مسلم کریں اور ہدف اسلام ہو۔
پہلی صورت میں ان لوگوں کو بقول ذاکر نائک کنڈیم کرنا چاہئے، دوسری صورت میں آپ کو حق ہے کہ ان کو مرتد قرار دیں یا ان پر شریعت کی رو سے حد لاگو کریں۔ تیسری صورت میں محض اپنے غم و غصے کا اظہار ہی کیا جانا چاہئے، مجرمین کو سزا کا حق آپ کو شریعت نہیں عطا کرتی۔
 

جیسبادی

محفلین
گفتگو سے تھوڑا ہٹ کر۔ تازہ واقعات کا ایک خاص سیاق و سباق ہے جو زیادہ تر اخبارات نے بیان نہیں کیا یا بیان میں ڈنڈی ماری ہے۔ رابرٹ فسک نے ایک اچھا کالم لکھا ہے، اور یہاں بھی article
 

فرید احمد

محفلین
مہوش ، سلام
آپ کے سوالات کی تکمیل کے طور پر عرض ہے ( جواب کے طور پر نہیں ) کہ یہاں ان مولیوں کے فتاوی بھی نقل کر دو جنہوں نے کارٹونسٹ کو مارنے کا فتوی دیا ، ان کے متن کے ساتھ ۔
 

فرید احمد

محفلین
خداوندان محفل سے
آصف ، نبیل اور زکریا
عرض کہ اس ٹھریڈ کے عنوان میں منافقین سے کون مراد ہیں ؟
کیا کسی کو عام مسلمان کو یا مولوی کو منافق کہنا ان ضوابط کے موافق ہے جن کی پابندی ہم سب دوستان محفل سے چاہتے ہیں ؟ اور زکریا نے تو ایک صاحب کی پوسٹ سنسر بھی کر دی تھی !
فورم کے لیے مہوش کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں وارننگ دینا تو مناسب نہ ہوگا ، نہ ہی خود عنوان بدل دینا مناسب ہوگا، لیکن اے خداوندان محفل ذرا انہیں ایک درخواست تو کردیں تو ایسا عنوان بدل دیں۔
 

شعیب صفدر

محفلین
ویسے بخاری شریف جلد دوئم میں کعب ابن اشرف کا واقعہ ہے۔۔۔۔ اسے پڑھ لینا مہوش۔۔۔۔۔ دراصل اسلام کے ابتدائی دور کے واقعات (مکہ( اور بعد کے دور کے واقعات (مدینے میں) تھوڑا فرق کے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ویسے کئی ایسے واقعات ہے جن سے توہین رسالت کی سزا موت قرار پاتی ہے۔۔۔ اس بات سے ہٹ کر کہ کس نے کی کہاں کی۔۔۔۔ مکہ کا شاعر حطب کی مثال اس سلسلے میں موجود ہے کہ فتح مکہ پر رسول اللہ نے سب کو معاف کر دیا مگر اسے قتل کرنے کو کہا تھا کہ وہ رسول کی ذات کے خلاف شاعری کرتا تھا
فتح مکہ کے موقع پر بت شکنی کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔۔۔۔۔
 

فرید احمد

محفلین
بنیادی بات یہ ہے کہ توہین رسالت کا مرتکب کارٹونسٹ دوسرے ملک میں رہتا ہے ، اور اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ، نہ ہمارا نہ ہمارے ملک کا ، لہذا اس کے قتل کا حکم نہیں دے سکتے ، ٹھیک ، لیکن فقط یہ کہنا کہ توہین رسالت کا مرتکب واجب القتل ہے ، یہ ایک حکم شرعی اور اصول کا ذکر ہوا ، اسی کارٹونسٹ کے قتل کا فتوی نہ ہوا ،

آج کل تمام ممالک جمہوری کہلاتے ہیں ،اور سوائے اسرائیل اور کوئی دوسرا ہو تو معلوم نہیں ، کوئی دستوری اعتبار سے اسلام دشمنی پر نہیں چلتا ، لہذا ان ممالک کو کافر ملک کہنا درست نہیں ، نہ وہاں کا باشندہ واجب القتل ہے ،
وہاں رہنے والے مسلمان بھی وہاں کی شہریت اپنا کر قوانین کی پابندی کا وعدہ کر چکے ہیں ، لہذا اس کی پاسداری کرنا ان پر ضروری ہے ، اس تناظر میں اگر کوئی مفتی ( جس کو فتوی دینے کا اختیار ہو ، کسی تنظیم یا بڑے ادارے کا نام زد مفتی) اس کے قتل کا فتوی دیں تو بظاہر درست نہ ہوگا ۔
لیکن یہاں اصل سوال یہ ہے کہ
کس مولوی مفتی کارٹونسٹ کے قتل کا فتوی دیا ؟
افغانستان کے بودھا کا مسئلہ ذرا جدا ہے ،
یہ مجسمے عبادت کے لیے تھے، اس وقت مقام شرک نہ تھے تو علامت شرک تھے ، مسلمان شرک کو درست نہیں سمجھتے لہذا اسے مٹا دیا،
سوال یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان لوگوں کے نزدیک وہی حیثیت رکھتے ہیں جو مسلمان کے نزدیک کسی موری یا بت کی ہے ؟
اگر ہے تو انہیں چاہیے کہ ہر جگہ سے نام محمد مٹا دے ، درست !
لیکن کیا بودھا کے مجسمے گرانے والوں نے دوسروں کے معبودوں یا بتوں یا معزز پادریاں ، حواریین ، وغیرہ حضرات کی توہین بھی کبھی کی ؟
محمود غزنوی کو اسلام کا ہیرو ماننے کی بجائے مسلم ہیرو مانیے ، یہ بادشاہ اسلام کے نمائندے نہ تھے، مسلمان تھے ، پس ان کام اپنی بادشاہت کی وسعت دینے بھی ہو سکتا ہے ، اور اس بادشاہ نے اپنی خوش فہمی میں اسے اسلام کی خدمت سمجھا ہو تو یہ اس کی نیت ہے ، واقعتا یہ کام جہاد ہو ، اور بت شکنی درست ہو تو کل پتہ چلے گا ۔ یہاں بھی اصل بات یہ ہے کہ پہلے سے موجود بت توڑنا اور حکم دے کر کارٹون بنوانا اور بات ہے ۔
اور میری اوپر والی پوسٹ ذرا پھر سے ہر ایک پڑھ لیں
مہوش ،
وہ مولوی حضرات کے نام اور ان کے فتوے متن کے ساتھ ذکر کریں جنہوں نے قتل کا فتوی دیا ۔

اعجاز صاحب
آپ نے کچھ سنجیدگی سے مہوش کی بات پڑھی ہوتی ، کیا کوئی مولوی مفتی کا فتوی ایسا کہ اس کارٹونسٹ کو وہاں جا کر اتل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، کہیں آپ نے دیکھا ؟ ذرا ان مدرسوں میں جا آو جہاں وہ تعلیم پاتے ہیں ، پھر معلوم ہوگا کہ معیار علم و دانش کہاں کس درجہ کا ہے ؟
 

آصف

محفلین
فرید احمد نے کہا:
خداوندان محفل سے
آصف ، نبیل اور زکریا
عرض کہ اس ٹھریڈ کے عنوان میں منافقین سے کون مراد ہیں ؟
کیا کسی کو عام مسلمان کو یا مولوی کو منافق کہنا ان ضوابط کے موافق ہے جن کی پابندی ہم سب دوستان محفل سے چاہتے ہیں ؟ اور زکریا نے تو ایک صاحب کی پوسٹ سنسر بھی کر دی تھی !
فورم کے لیے مہوش کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں وارننگ دینا تو مناسب نہ ہوگا ، نہ ہی خود عنوان بدل دینا مناسب ہوگا، لیکن اے خداوندان محفل ذرا انہیں ایک درخواست تو کردیں تو ایسا عنوان بدل دیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں خداوندانِ محفل کہنا کچھ زیادتی ہے۔ یہ محفل ہم سب کی ہے۔
دوسرا یہاں کھلی بحث ہو رہی ہے۔ اور سب لوگ اچھے طریقے سے اپنا نقطہءنظر پیش کررہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں ہماری مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

->فرید: اسرائیل کے دستور میں اسلام دشمنی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ کیا آپ نے اسرائیل کا دستور پڑھا ہے؟
 

فرید احمد

محفلین
قتل کا فتوی دینے والے

قتل فتوی دینے والا صحافی
ڈنمار ک کے شیطان کارٹونسٹ کو قتل کرنے کیلئے انعام کا اعلان
منگل 21 فروری 2006
کوئٹہ (آن لائن ) پریس کلب دالبندین کے صدر اورضلع چاغی کے نامور صحافی علی دوست بلوچ نے دالبندین پریس کلب میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈنمار ک کے شیطان کارٹونسٹ کو جس شخص نے قتل کردیا وہ اپنی جانب سے 50 ہزار روپے اورایک نیاہنڈا موٹرسائیکل اس شخص کو انعام میں دینگے اس کے علاوہ قتل کرنے والے شخص کی غلامی کرنے پر تیار رہونگا انہوں نے پریس کانفرنس میں بتایاکہ میں میں صحافت سے تعلق رکھتاہوں لیکن میں اپنی آواز یہودیوں تک پہنچانے میں اکیلا کچھ نہیں کرسکتا میری آواز کو یہودیوں اوراس شیطان کارٹونسٹ تک پہنچانے میں میرے صحافی برادری اخبارات کے ایڈیٹرز اورکارکن میں مدد کریں شاید قیامت کے دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ہمیں نصیب ہو انہوں نے کہاکہ چند ہفتے قبل ڈنمار کے ایک شیطان کارٹونسٹ نے رحمت العالمین سرداردوجہاں اورخاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرکے ناقابل معافی جرم کا مرتکب ہوا اس جرم میں ان کے لئے صرف قتل واجب ہے شان رسالت میں گستاخی کرناتو دور کی بات ہے صرف کسی نے سوچا بھی ۔۔۔۔۔ مزید ۔
http://www.paktribune.com/urdu/index.php?action=shownewsdetail&id=2944

قتل کا فتوی دینے والا وزیر
کارٹونسٹ کے قتل پر 51 کروڑ روپے

متنازع کارٹونوں کی اشاعت پر دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر حاجی یعقوب علی نےڈنمارک کے متنازع کارٹونسٹ کے قتل پر 51 کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔
میرٹھ کے فیضِ اعظم کالج میں ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ڈنمارک کے متنازع کارٹونسٹ واجب القتل ہیں۔

ریاست اتر پردیش میں اقلیتوں کی بہبود کے وزیر حاجی یعقوب علی نے کہا ہے کہ متنازع کارٹونسٹ کے سر کے قیمت کے طور پر دی جانے والے رقم چندے کے ذریعے اکٹھی کی جائے گی اور خود چندے کی مہم شروع کریں گے۔

بی بی سی ہندی سروس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام کے کاٹونوں کی اشاعت پر احتجاج کرنے والے میرٹھ کے عوام نے خود یہ رقم اکٹھا کرنے کی پیش کش کر رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریلی میں موجود خواتین نے اپنے زیورات بیچ کر انعام کی رقم اکٹھی کرنے کی پیش کش کی ہے۔
حاجی یعقوب علی نے مسلمانوں پر زور دیا کہ احتجاج میں شامل ہو کر اسلام سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیں۔

احتجاجی ریلی کے موقع پر میرٹھ میں شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی۔ اس موقع پر مقررین نے ڈنمارک کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ معافی مانگے۔

مقررین نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈنمارک سے سفارتی تعلقات منقطع کر لے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/story/2006/01/060123_assam_alfa_zs.shtml
 

مہوش علی

لائبریرین
shoiab safdar نے کہا:
ویسے بخاری شریف جلد دوئم میں کعب ابن اشرف کا واقعہ ہے۔۔۔۔ اسے پڑھ لینا مہوش۔۔۔۔۔ دراصل اسلام کے ابتدائی دور کے واقعات (مکہ( اور بعد کے دور کے واقعات (مدینے میں) تھوڑا فرق کے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ویسے کئی ایسے واقعات ہے جن سے توہین رسالت کی سزا موت قرار پاتی ہے۔۔۔ اس بات سے ہٹ کر کہ کس نے کی کہاں کی۔۔۔۔ مکہ کا شاعر حطب کی مثال اس سلسلے میں موجود ہے کہ فتح مکہ پر رسول اللہ نے سب کو معاف کر دیا مگر اسے قتل کرنے کو کہا تھا کہ وہ رسول کی ذات کے خلاف شاعری کرتا تھا
فتح مکہ کے موقع پر بت شکنی کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔۔۔۔۔


محترم شعیب صفدر صاحب،

کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ خود ہی کعب ابن اشرف کا واقعہ تفصیل سے نقل کر دیتے۔ (یا کم از کم اختصار سے بیان فرما دیتے)۔


اور اگر حاطب کا واقعہ صحیح ہے، تو بھی اس کا اطلاق غیر مسلم ممالک پر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد پیش آیا تھا۔ حاطب کے سلسلے میں مجھے بہت سے شکوک و شبہات ہیں۔ جب تک تفصیل سے اس سلسلے میں موجود تمام شواہد پیش نہیں ہو جاتے، اُس وقت تک کسی فیصلہ پر پہنچنا میری ناقص رائے کے مطابق مناسب نہ ہو گا۔

اور جہاں تک کعبہ شریف میں بت شکنی کا تعلق ہے، تو اس پر اجماع ہے کہ یہ Exceptional Case ہے اور اس کی بنیاد پر ہمیں اجازت نہیں ہے کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرتے پھریں۔ امید ہے کہ اس مسئلے پر آپ بھی مجھ سے متفق ہوں گے۔


/////////////////////////

محترم فرید صاحب،

جہاں تک آپ کو تعلق ہے، تو مجھے اس چیز سے معذور سمجھیے کہ میں آپ کی ڈیمانڈز کو پورا کرتی پھروں۔ مجھے جو کچھ عرض کرنا تھا، وہ میں عرض کر چکی ہوں۔

جہاں تک موضوع کے ٹائیٹل کا تعلق تھا، تو وہ تبدیل کر کے "عالم اسلام کی خود فریبی" کر دیا گیا ہے (اگرچہ کہ میرے خیال میں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے، کیونکہ میرا مقصد یہ تھا کہ مسلمان صرف اپنے حقوق مانگنے کے پیچھے ہی نہ بھاگتے پھریں، بلکہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ کیا کیا گناہ کر رہے ہیں اور کس طرح غیر اقوام پر ظلم کر رہے ہیں)۔

اور مولوی طبقہ پر میرا اعتراض یہی ہے کہ وہ جذبات کو بھڑکانے کے لیے تو دھواں دھار تقاریر کرتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں ناسمجھ عوام غیر ملکی سفارت خانوں کو آگ لگاتی پھرتی ہے اور اپنے ملک کی ریاستی املاک کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتی۔ (بلکہ افریکہ کے ایک ملک میں تو انہوں نے ساٹھ ستر عیسائیوں کو ہی اس جرم کی پاداش میں جان سے مار دیا)
لیکن اگر یہی مولوی طبقہ خالی آگ لگانے والی تقاریر کی جگہ صحیح فہم اسلام بھی عوام تک پہنچائے کہ غیر ملکی سفارت خانوں کو آگ لگانا منع ہے، توہین رسالت کے جرم میں غیر مسلموں پر شرعی حد جاری نہیں کی جا سکتی ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ تو یہ اسلام کی بہتر خدمت ہوتی۔

مولوی طبقہ کے غلط رویہ ایک بہت بڑی مثال میں پہلے ہی نقل کر چکی ہوں کہ جب علم دین کا کیس ہوا تو اِس مولوی طبقے کی طرف سے کبھی بھی کھل کر عوام الناس کو یہ نہیں بتایا گیا کہ جو کچھ علم دین نے کیا ہے، اس میں اسلامی نقطہ نظر سے ایک غلط عنصر بھی شامل ہے۔
چنانچہ اسی مولوی طبقے کی طرف سے دین اسلام کی نشانیوں کو چھپانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ علم دین اس غلط فعل کے باوجود عوام الناس کا ہیرو بن گیا۔ اور اسی کے نتیجے میں اور بہت سے غیر مسلم بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہے۔

پھر انگلینڈ میں سلمان رشدی کے قتل کا فتوی آیا۔ تو ہمارے مولوی طبقے میں کتنے ہیں جنہوں نے کھل کر اس فتوے کو غیر اسلامی قرار دیا؟ اگر میں صحیح تناظر میں دیکھ رہی ہوں تو مولوی طبقے کی طرف سے ایک دوسرے پر کفر کے فتوؤں کی تعداد ہزاروں اور شاید لاکھوں تک جا پہنچے، مگر کیا وجہ ہے کہ سلمان رشدی کے قتل کی رد میں کھل کر ایک فتویٰ بھی نہیں آتا؟ اگر یہ منافقت کی نشانی نہیں تو پھر کیا ہے؟

اسی طرح اوپر فرید صاحب نے دو حضرات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس کارٹونسٹ کے قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اب کتنے مولوی حضرات ہیں جنہوں نے اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے عوام الناس تک صحیح فہم اسلام پہنچایا کہ یہ ارادے خلافِ اسلام ہیں اور خلافِ شریعت ہیں؟ یہ ایک اور منافقت کی نشانی ہے۔ کیا ہمارے مولوی حضرات سمجھتے ہیں کہ خود سے کھل کر فتوے نہ دینا کافی عمل ہے، مگر اس بات کی کھل کر اجازت ہے کہ دوسرے آگ اور خون پھیلانے کے ارادے کرتے رہیں اور مولوی حضرات آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں؟؟؟

یہ سلسلہ اسقدر واضح ہے کہ مجھے مزید لکھنے کی کوئی اور ضرورت نہیں۔

اسی طرح بدھا کے بتوں کا معاملہ ہے۔ اگر کسی کو اب بھی یہ فعل صحیح نظر آتا ہے تو مزید کچھ کہنا سننا فضول ہے۔ اسی طرح طالبان کی طرف سے یہ حکم کہ غیر مسلم زرد رنگ کا لباس پہنچیں وغیرہ وغیرہ ایسے افعال ہیں جن کو میں اپنے فہم کے مطابق کبھی صحیح نہیں مان سکتی۔

شکریہ۔
 
مہوش علی نے کہا:
رسول ص کے توہین آمیز کارٹون کی اشاعت بہت غیر انسانی فعل ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔ اس موضوع پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ مگر میں یہاں اُن سوالات پر آ رہی ہوں جو مجھ پر واضح نہیں ہو رہے، اور نہ ہی میں ان کا جواب ڈھونڈ پا رہی ہوں۔

ان سوالات سے میرے ذہن میں جو الجھنیں ہیں وہ بہت لمبی ہیں۔ پتا نہیں میں یہ سوالات اور یہ الجھنیں آپ کی خدمت میں صحیح طور پر پیش کر پاؤں گی یا نہیں، مگر کوشش کرتی ہوں۔


پہلا سوال: اگر کوئی غیر مسلم، کسی غیر ملک میں رسول ص کی تضحیک کرتا ہے، تو اس کی شرعی سزا کیا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جو عرصہ دراز سے میں اٹھا رہی ہوں مگر کوئی مولوی صاحب کھل کر اس بات کا جواب نہیں دیتے۔

بہرحال کتب کے اندر مجھے اس کا جواب بہت پہلے مل گیا تھا، اور وہ یہ کہ اگر کوئی غیر مسلم رسول ص کی تضحیک کرتا ہے تو اسلامی شریعت اُس پر قتل کی کوئی شرعی سزا نافذ نہیں کرتی۔

رسول ص کا اپنا اسوہ حسنہ اس معاملے میں یہی تھا کہ وہ ایسے غیر مسلموں کے لیے دعا کرتے تھے کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اس سلسلے میں بہت سے واقعات اسلامی تاریخ میں محفوظ ہیں۔

غازی علم دین کو ہیرو بنانا

غازی علم دین نے ایک غیر مسلم ہندو کو اس بنیاد پر قتل کر دیا تھا کہ اُس نے رسول ص کی تضحیک کی تھی۔ اس بنیاد پر ہماری عوام نے اسے ہیرو بنا دیا، اور ہمارے مولوی طبقے نے کھل کر غازی علم دین اور عوام کی حمایت کی۔

میرا سوال یہی ہے کہ مولوی حضرات نے سب سے پہلے کھل عوام کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ کسی غیر مسلم کو کسی غیر اسلام ریاست میں کبھی بھی اس جرم کی پاداش میں قتل نہیں کر سکتے؟ یہ اللہ کی بنائی ہوئی اُس شریعت کا حکم ہے جسے ہر حال میں ہر مسلمان کو عمل کرنا ہے۔


مولوی حضرات نے اس شرعی حکم کو چھپایا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام عوام نے غازی علم دین کے اس فعل کی مذمت کرنے اور اسے دین اسلام کے خلاف قرار دینے کی بجائے اس خلاف شریعت عمل کو اسلام کی آواز بنا لیا اور غازی علم دین کو ہیرو بنا لیا۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں کئی Individual کیسز ایسے ہو چکے ہیں جہاں رسول ص کی تضحیک کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کچھ مسلمانوں نے کچھ غیر مسلموں کو قتل کر دیا ہے۔

اس معاملے میں مجھے علماء حضرات سب سے بڑے قصوروار نظر آتے ہیں، جنہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے چیزوں کو چھپایا ہوا ہے۔ اگر غازی علم دین کے واقعے پر ہی وہ کھل کر مذمت کر دیتے اور کھل کر اسلامی شریعت کا قانون عوام کو بتا دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔



سلمان رشدی کو انگلینڈ میں قتل کرنے کا فتویٰ


ایک طرف ہمیں بطور مسلمان یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم غیر مسلم ملک میں رہ رہے ہیں تو اُن کے قوانین کی پابندی ہم پر لازمی ہے۔

دوسری طرف آغا خمینی کی طرف سے فتویٰ آتا ہے کہ سلمان رشدی کو انگلینڈ میں ہی قتل کر دیا جائے۔

یہ ایک تضاد ہے اور منافقت ہے جو مجھے ہضم نہیں ہو سکتا۔ اور آغا خمینی اس مسئلے میں اکیلے نہیں، بلکہ ہزاروں لاکھوں فرزندانِ توحید سلمان رشدی کو انگلینڈ میں قتل کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ منافقت انہیں عین ایمان نظر آ رہی ہے۔

اس سلسلے میں اہل تشیع کی بڑی تعداد کو دیکھا ہے جو آغا خمینی کی اندھی تقلید کر رہی ہے۔ بیشک آغا خمینی بہت بڑی شخصیت تھے اور دوسرے حوالوں سے میں بھی اُن کی عزت کرتی ہوں، مگر یہ چیز بھی مجھے اس سے نہیں روک سکتی کہ میں اُن کے اس قدم کو غلط کہوں اور اس پر اعتراض نہ کروں۔

رسول ص کے کارٹون بالمقابل بدھا کے افغانستان میں مجسمے

رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون بنانا بہت غلط چیز ہے اور میری خواہش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر یہ معاہدہ طے پا جائے کہ ایسے تضحیک آمیز کاموں کو غیر قانون قرار دیا جائے۔

اس سلسلے میں مگر کچھ قوانین پہلے سے ہی عالمی سطح پر موجود ہیں کہ کسی کی عبادت گاہوں کو توڑ پھوڑ کا شکار نہیں بنایا جائے گا۔

مگر میں نے مسلمانوں کی (یا کم از کم اُن کے ایک حصہ کی) منافقت اُس وقت دیکھی جب طالبان نے افغانستان میں بدھا کے مجسمے توڑ ڈالے۔

چونکہ طالبان کا تعلق ادارہ دیو بند سے تھا، اس لیے انہوں نے کھل کر طالبان کی اس سلسلے میں حمایت کی (بلکہ کہنا چاہیے کہ اندھی حمایت کی)۔ اُن کی واحد دلیل یہ تھی کہ چونکہ اب افغانستان میں بدھ مت کے ماننے والے موجود نہیں ہیں، اس لیے ان بتوں کو ٹوڑ دیا جائے۔ بہت حیرت کی بات ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے تو اللہ اور رسول دنیا کے ہر کونے میں موجود رہیں، مگر بدھا، جو کہ بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے محترم ہے، اُس کو صرف بدھ ممالک تک ہی محدود کرنے کا فتوی جاری کر دیا جائے۔ اب یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟

کیا آپ لوگوں نے کبھی ان سوالات پر غور کیا کہ:

۔ کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر بدھا کے مجسمے توڑ دینا، یا پھر یہ ایک ہی معیار کے قبیح افعال ہیں؟

۔ اور کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر اُن پاکستانی کلیساؤں میں موجود مسیح ع کے بتوں کو توڑ دینا جو کہ عیسائیوں کے نزدیک ایسے ہی محترم ہیں جیسے ہمارے نزدیک رسول ص کی عزت؟ کتنے پاکستانی علماء اور مولوی حضرات ایسے تھے جنہوں نے کھل کر اس کی مذمت کی تھی؟

مہوش آپ کے چند سوالوں سے تو میں متفق ہوں مگر مجھے لگتا ہے زورِ بیان میں آپ نے کچھ چیزوں کی حقیقت پر غور کیے بغیر ان میں تقابل شروع کردیا جو کہ قرینِ انصاف نہیں۔ آپ کا سوال ہے
کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر بدھا کے مجسمے توڑ دینا، یا پھر یہ ایک ہی معیار کے قبیح افعال ہیں؟

سب سے پہلے تو یہ دونوں افعال اپنی حقیقت میں جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا حقیقی تقابل کیا ہی نہیں جاسکتا۔ تضحیک کے عمل میں اخلاقی گراوٹ پائی جاتی ہے جب کہ توڑ پھوڑ کے عمل میں جذباتیت، غصہ اور کسی حد تک نفرت۔ بدھا کے مجسمے جس وقت توڑے گئے پوری دنیا بشمول مسلمان ممالک مخالف تھی اور جتنا اس مسئلہ کو اٹھایا گیا شاید ہی اس وقت کوئی اور مسئلہ اتنی شدت سے اٹھا۔ عالمی سطح پر اس کی مذمت ہی ہوئی تھی اور تقریبا تمام عالم نے یک زبان ہو کر اس فعل کی مذمت ہی کی تھی۔ طالبان بدھ کے مجسمو‌ں کو مسمار کردینے کے باوجود بدھ کی تضحیک کے مرتکب نہیں ہوئے تھے اور کسی بھی موقع پر انہوں نے بدھ کی شخصیت پر تنقید نہیں کی تھی۔ انہوں نے اپنے فہمِ اسلام کے مطابق بدھ کے مجسموں کو مسمار کیا جس پر بشمول پاکستان کے بہت سے مسلم ممالک نے روکنے کی کافی کوشش بھی کی۔ اب اس سوال کے دوسرے حصہ پر آتے ہیں، کیا بدھ کا مجسمہ توڑنا بدھ ازم کے ماننے والوں کے لیے اتنا ہی دل شکن اور ایمان شکن تھا جتنا مسلمانوں کے ان کے رسول کی تضحیک، جواب یقینا نہیں میں ہوگا کیونکہ بدھ ازم کی تعلیمات میں دنیا سے اتنا سروکار رکھا ہی نہیں جاتا اور دنیا کو پہلے ہی ظلم اور جاری وساری شر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دوسرا ان کے لیے پوری دنیا نے مل کر احتجاج کیا تھا اور کم از کم انہیں یہ اطمینان تھا کہ یہ فعل صرف ایک محدود طبقہ کا ہے۔
اب اس سوال کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ کیا دنیا بھر میں مسلمانوں کی مسجدیں اور قرآن کی جلدوں کے جلنے کے واقعات نہیں ہوتے؟ کتنی دفعہ اس پر مسلمانوں نے اس طرح سے احتجاج کیا ہے۔ مسلمانوں کی کتنی ہی مسجدیں گرجا گھر بن گئی کیا انہیں دوبارہ مسجدیں بنانے کے لیے مسلمانوں نے کوئی باقاعدہ تحریک چلائی(سپین اس کی سب سے بڑی مثال ہے)۔ روس کی ریاستوں میں صدیوں سے مسجدوں کو مقفل کر کے رکھا ہوا ہے کتنے مسلمانوں نے انہیں کھلوانے اور دوبارہ آباد کرنے کے لیے اپیل کی؟ اس طرح کی لاتعداد مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے ہر دفعہ ایسا عمل نہیں کیا اور بہت سے مسائل پر دوسرے ممالک کے قوانین پر سمجھوتا کرتے ہوئے خاموشی ہی اختیار کی۔ ہر بار تان مسلمانوں پر آکر ہی کیوں ٹوٹتی ہے کہ وہ صبر سے کام کیوں نہیں لیتے۔ کمزور ہونا اتنا بڑا جرم تو نہیں کہ ہر ظلم چپ چاپ سہنے کی نوید سنا دی جائے۔ کچھ بھی ہو گزرے یہی فرمان آئے کہ صبر سے کام لو ، کیا تمام اقوامِ عالم کو اس بات کی چھٹی مل گئ ہے کہ وہ جب چاہیں مسلمانوں کی تضحیک ، ان پر تشدد اور انہیں اصول سکھانے کے نام پر ان پر قابض ہو جائیں۔
 

زیک

مسافر
میں باقی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا مگر کیا یہ صحیح ہے کہ علم‌دین کو اس زمانے میں بھی ہیرو سمجھا گیا تھا؟ مجھے شبہ ہے کہ اس واقعے پر فلم بننے سے وہ ہیرو میں تبدیل ہوا۔ کوئی اور روشنی ڈالے گا اس پر (ایک نئی تھریڈ میں)؟
 
مہوش آپ کا ایک اور سوال ہے

اور کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر اُن پاکستانی کلیساؤں میں موجود مسیح ع کے بتوں کو توڑ دینا جو کہ عیسائیوں کے نزدیک ایسے ہی محترم ہیں جیسے ہمارے نزدیک رسول ص کی عزت؟ کتنے پاکستانی علماء اور مولوی حضرات ایسے تھے جنہوں نے کھل کر اس کی مذمت کی تھی؟


اس کا جواب وہی ہے جو بدھ کے مجسموں کا ہے اور شاید اتنا تو آپ بھی جانتی ہوگی کہ کوئی مسلمان حضرت عیسی کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو کر مسلمان رہ ہی نہیں سکتا اس لیے اس معاملےمیں تو مسلمانوں کے کردار کی تعریف بنتی ہے کہ یہ تمام مذاہبِ عالم کے پیروکاروں کی انتہائی عزت کرتے ہیں اور ان کی تکریم ایمان کا حصہ ہے۔

پاکستانی کلیساؤں میں موجود مسیح ع کے بتوں کو کب توڑا گیا اور اس پر کس نے حمایت کی اس پر ذرا تفصیل پیش کریں ، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ یہ واقعہ کبھی مشہور ہوا ہو۔ قرآن جلانے کے کئی واقعات تو پاکستان میں بھی کئی عیسائی حضرات نے کیے ہیں مگر کبھی بھی یہ اہم مسئلہ نہیں بنا اور آج بھی عیسائی اور مسلم حسنِ سلوک سے ہی رہتے ہیں اور کسی بھی موقع پر عیسائی برادری کے خلاف منظم تحریک نہیں اٹھی۔ کیا اس پر بھی کسی نے پاکستان کی تعریف کرنے کا سوچا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں 40 سے زیادہ عیسائیوں کی سیٹیں ہیں اور بے شمار گرجا گھر آج بھی اسی شان و شوکت سے ہیں جس سے وہ کئی صدیوں سے ہیں پاکستان میں۔ میں خود CATHEDRAL سکول سے پڑھا ہوں جس کے ہر سکول میں ایک بڑا گرجا گھر ہوتا ہے۔ ہماری اسمبلی میں باقاعدہ دعا ہوتی تھی جو کہ یقینا اسلامی طرز پر نہیں تھی اور اس بات پر کبھی کوئی معتر‌نہیں ہوا۔ پھر میں F.C.C (Forman Christian College میں پڑھا یہ بھی عیسائیوں کا ہی قائم کردہ کالج ہے گو کہ اس وقت اس میں شاذ و نادر ہی عیسائی رہ گئے تھے مگر آج بھی اسی نام سے ہے بلکہ اب تو دوبارہ عیسائی مشنری کے حوالے ہو گیا اور بھرپور احتجاج کے باوجود کیس عیسائی مشنری نے جیت لیا۔ اس کے علاوہ تین اور کالجز پر کیس جاری ہے اور شاید Kinnaird College کا کیس بھی عیسائی مشنی جیت چکی ہے اور وہ بھی ان کے حوالے ہو چکاہے یا جلد ہو جائے گا۔ اتنے بڑے واقعات کی موجودگی میں چند معمولی واقعات کو ہوا دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ چند شرپسند عناصر تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں انہیں نہ کوئی روک سکا اور نہ روک سکے گا ، ہمیشہ قوم کا مجموعی نقطہ نظر دیکھا جاتا ہے جو کہ پاکستانیوں کا اقلیتوں سے مل جل کر رہنے کا ہی ہے۔

مہوش آپ نے اس خبر کا تو فورا تذکرہ کر دیا

افریقہ کے ایک ملک میں تو انہوں نے ساٹھ ستر عیسائیوں کو ہی اس جرم کی پاداش میں جان سے مار دیا)

اور جو دو سو کے قریب مسلمانوں کو جان سے مارا عیسائیوں نے اسے آپ نے فراموش کردیا(نائیجریامیں ہوئے یہ واقعات)۔

مسلمانوں کی خود فریبی کا تو خاصہ چرچا ہے مجھے خوشی ہو گی کہ کبھی آپ اقوامِ عالم کی خود فریبی اور منافقت کا بھی ذکر کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
برادر محب علوی صاحب،

آپ کی تمام تر باتیں درست ہیں۔ میری مجبوری یہ ہے کہ مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اُن تمام کا ذکر کرنا ممکن نہیں۔ چونکہ باقی تمام مسائل پر کھل کر اخبارات اور ہر دوسری جگہ پر لکھا جاتا رہا ہے اور ابھی تک لکھا جا رہا ہے، اس لیے مجھے لگا کہ اُن چیزوں کو بھی زیرِ بحث لایا جائے جن پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی ہے۔

اور یہ وہ مسائل ہیں، جن کے متعلق کہا جاتا ہے "اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا"۔ میرے نزدیک یہ سب سے اہم مسائل ہوتے ہیں اور دوسروں کی تصحیح کرنے سے قبل بہت ضروری ہوتا ہے کہ اپنی اصلاح کر لی جائے۔

باقی میری نیت بالکل صاف ہے اور اللہ میرا گواہ ہے۔ اگر آپ کو یا کسی دیگر صاحب کو میری گذارشات سے تکلیف پہنچی ہو تو معذرت۔ میرا مقصد کسی کا دل دکھانا ہرگز نہیں، مگر وہ گناہ جو مجھے معاشرے میں نظر آ رہے ہیں اور میں دیکھ رہی ہوں کہ اُن کی اصلاح بغیر تنقید کیے ممکن نہیں، ان چیزوں پر روشنی ڈالنا میرا اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
زکریا نے کہا:
میں باقی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا مگر کیا یہ صحیح ہے کہ علم‌دین کو اس زمانے میں بھی ہیرو سمجھا گیا تھا؟ مجھے شبہ ہے کہ اس واقعے پر فلم بننے سے وہ ہیرو میں تبدیل ہوا۔ کوئی اور روشنی ڈالے گا اس پر (ایک نئی تھریڈ میں)؟

زکریا، جہاں تک میرا خیال ہے تو فلم بہت بعد میں جا کر بنی ہے۔ مگر علم دین کو غازی کا خطاب بہت پہلے ہی عطا ہو گیا تھا اور اس کے چرچے دور دور تک پھیل چکے تھے۔
آج تک تمام اخبارات اور رسائل میں صرف اُس کی تعریفیں ہی نظر آتی ہیں، لیکن میں ڈھونڈتی ہی رہ گئی کہ کسی صاحب دین و فہم نے عوام الناس تک یہ حقیقت پہنچانے کی کوشش بھی کی ہو کہ یہ غلط فعل تھا۔ افسوس کہ یہ حسرت میرے دل میں ہی رہ گئی۔
 

زیک

مسافر
مہوش علی نے کہا:
جہاں تک میرا خیال ہے تو فلم بہت بعد میں جا کر بنی ہے۔ مگر علم دین کو غازی کا خطاب بہت پہلے ہی عطا ہو گیا تھا اور اس کے چرچے دور دور تک پھیل چکے تھے۔

اوکے۔

آج تک تمام اخبارات اور رسائل میں صرف اُس کی تعریفیں ہی نظر آتی ہیں، لیکن میں ڈھونڈتی ہی رہ گئی کہ کسی صاحب دین و فہم نے عوام الناس تک یہ حقیقت پہنچانے کی کوشش بھی کی ہو کہ یہ غلط فعل تھا۔ افسوس کہ یہ حسرت میرے دل میں ہی رہ گئی۔

میں ہوں نا :wink:
 

جعفری

محفلین
مہوش، آپ نے ایکدم سے بہت سے سوالات کر ڈالے ھیں، مگر میری نظر میں، اِن سب کا جواب موجود ہے اور وہ ہے ھماری عدالتوں کے پاس۔(ماسوائے سومنات کے مندرکے)۔

مولوی، علٰماء “سیاستداں“ جتنے مرضی فتوے صادر کردیں، آخری فیصلہ اسلام میں عدالتوں کے پاس ہے۔ آپکے سوالات جو کارٹونز، غازی علم دین، بُدھا اور رُشدی کے بارے میں ھیں اِن کے جوابات اسلامی فقہ (Jurisprudence ) میں موجود ھیں۔ ھمیں اِن کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔

مگر۔۔۔۔۔ اگر تو ھمیں اِس بات کا دعویٰ کہ پاکستان کی عدالتیں سیکولر ھیں تو پھر مولوی، علٰماء کے فتوے برحق ھیں اور اُن پر عمل کروانا بھی اُنہی کا کام ہے۔

مگر فرض کریں پاکستان کی عدالتیں سیکولرنہیں ھیں۔ اور پاکستانی عدلیہ کے ادارے رسول ص کی تضحیک کو اسلام کے خلاف ایک ایکٹ سمجھتے ھیں ، تو کیا وہ اُس کارٹونسٹ یا رُشدی کو پکڑ کر ایک پاکستانی عدالت میں اس لیئے پیش کر سکتے ھیں کہ ھمیں اِنصاف ملے؟ کیا پاکستانی عدلیہ کے ادارے یہ کام کر سکتے ھیں؟ سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ ھمارا اور پاکستانی عدلیہ کے اداروں کا اپنی عدالتوں پر کتنا یقیں ہے۔ اور اسی میں تمام سوالوں کا جواب موجود ہے۔



ویسے ازسرِ راہ ۔۔۔اگر آپ کیرن آرمسٹرونگ کی کتاب محمد کا پہلا باب دیکھیں تو اُس میں رسول ص کی تضحیک کے حوالے سے ایک اسلامی عدالت کا فیصلہ اور واقعہ درج ہے۔





 

جعفری

محفلین
آج تک تمام اخبارات اور رسائل میں صرف اُس کی تعریفیں ہی نظر آتی ہیں، لیکن میں ڈھونڈتی ہی رہ گئی کہ کسی صاحب دین و فہم نے عوام الناس تک یہ حقیقت پہنچانے کی کوشش بھی کی ہو کہ یہ غلط فعل تھا۔ افسوس کہ یہ حسرت میرے دل میں ہی رہ گئی۔
ایا غازی علم دین کا پھانسی چڑھنا اس چیز کی دلیل نہیں ہے کہ اُنہوں نے کوئی غلط کام کیا تھا؟ قانون اپنے ہاتھ میں لینا یقینا غلطی تھی۔ مگر بات پھر وہیں آجاتی ہے، ایکforeign impotent عدالت کے ھوتے ہوے وہ کیا کرتے؟ وہی جو آج کے یورپی مسلمان کر رہے ھہیں؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top