مہوش علی
لائبریرین
رسول ص کے توہین آمیز کارٹون کی اشاعت بہت غیر انسانی فعل ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔ اس موضوع پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ مگر میں یہاں اُن سوالات پر آ رہی ہوں جو مجھ پر واضح نہیں ہو رہے، اور نہ ہی میں ان کا جواب ڈھونڈ پا رہی ہوں۔
ان سوالات سے میرے ذہن میں جو الجھنیں ہیں وہ بہت لمبی ہیں۔ پتا نہیں میں یہ سوالات اور یہ الجھنیں آپ کی خدمت میں صحیح طور پر پیش کر پاؤں گی یا نہیں، مگر کوشش کرتی ہوں۔
پہلا سوال: اگر کوئی غیر مسلم، کسی غیر ملک میں رسول ص کی تضحیک کرتا ہے، تو اس کی شرعی سزا کیا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو عرصہ دراز سے میں اٹھا رہی ہوں مگر کوئی مولوی صاحب کھل کر اس بات کا جواب نہیں دیتے۔
بہرحال کتب کے اندر مجھے اس کا جواب بہت پہلے مل گیا تھا، اور وہ یہ کہ اگر کوئی غیر مسلم رسول ص کی تضحیک کرتا ہے تو اسلامی شریعت اُس پر قتل کی کوئی شرعی سزا نافذ نہیں کرتی۔
رسول ص کا اپنا اسوہ حسنہ اس معاملے میں یہی تھا کہ وہ ایسے غیر مسلموں کے لیے دعا کرتے تھے کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اس سلسلے میں بہت سے واقعات اسلامی تاریخ میں محفوظ ہیں۔
غازی علم دین کو ہیرو بنانا
غازی علم دین نے ایک غیر مسلم ہندو کو اس بنیاد پر قتل کر دیا تھا کہ اُس نے رسول ص کی تضحیک کی تھی۔ اس بنیاد پر ہماری عوام نے اسے ہیرو بنا دیا، اور ہمارے مولوی طبقے نے کھل کر غازی علم دین اور عوام کی حمایت کی۔
میرا سوال یہی ہے کہ مولوی حضرات نے سب سے پہلے کھل عوام کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ کسی غیر مسلم کو کسی غیر اسلام ریاست میں کبھی بھی اس جرم کی پاداش میں قتل نہیں کر سکتے؟ یہ اللہ کی بنائی ہوئی اُس شریعت کا حکم ہے جسے ہر حال میں ہر مسلمان کو عمل کرنا ہے۔
مولوی حضرات نے اس شرعی حکم کو چھپایا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام عوام نے غازی علم دین کے اس فعل کی مذمت کرنے اور اسے دین اسلام کے خلاف قرار دینے کی بجائے اس خلاف شریعت عمل کو اسلام کی آواز بنا لیا اور غازی علم دین کو ہیرو بنا لیا۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں کئی Individual کیسز ایسے ہو چکے ہیں جہاں رسول ص کی تضحیک کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کچھ مسلمانوں نے کچھ غیر مسلموں کو قتل کر دیا ہے۔
اس معاملے میں مجھے علماء حضرات سب سے بڑے قصوروار نظر آتے ہیں، جنہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے چیزوں کو چھپایا ہوا ہے۔ اگر غازی علم دین کے واقعے پر ہی وہ کھل کر مذمت کر دیتے اور کھل کر اسلامی شریعت کا قانون عوام کو بتا دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔
سلمان رشدی کو انگلینڈ میں قتل کرنے کا فتویٰ
ایک طرف ہمیں بطور مسلمان یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم غیر مسلم ملک میں رہ رہے ہیں تو اُن کے قوانین کی پابندی ہم پر لازمی ہے۔
دوسری طرف آغا خمینی کی طرف سے فتویٰ آتا ہے کہ سلمان رشدی کو انگلینڈ میں ہی قتل کر دیا جائے۔
یہ ایک تضاد ہے اور منافقت ہے جو مجھے ہضم نہیں ہو سکتا۔ اور آغا خمینی اس مسئلے میں اکیلے نہیں، بلکہ ہزاروں لاکھوں فرزندانِ توحید سلمان رشدی کو انگلینڈ میں قتل کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ منافقت انہیں عین ایمان نظر آ رہی ہے۔
اس سلسلے میں اہل تشیع کی بڑی تعداد کو دیکھا ہے جو آغا خمینی کی اندھی تقلید کر رہی ہے۔ بیشک آغا خمینی بہت بڑی شخصیت تھے اور دوسرے حوالوں سے میں بھی اُن کی عزت کرتی ہوں، مگر یہ چیز بھی مجھے اس سے نہیں روک سکتی کہ میں اُن کے اس قدم کو غلط کہوں اور اس پر اعتراض نہ کروں۔
رسول ص کے کارٹون بالمقابل بدھا کے افغانستان میں مجسمے
رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون بنانا بہت غلط چیز ہے اور میری خواہش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر یہ معاہدہ طے پا جائے کہ ایسے تضحیک آمیز کاموں کو غیر قانون قرار دیا جائے۔
اس سلسلے میں مگر کچھ قوانین پہلے سے ہی عالمی سطح پر موجود ہیں کہ کسی کی عبادت گاہوں کو توڑ پھوڑ کا شکار نہیں بنایا جائے گا۔
مگر میں نے مسلمانوں کی (یا کم از کم اُن کے ایک حصہ کی) منافقت اُس وقت دیکھی جب طالبان نے افغانستان میں بدھا کے مجسمے توڑ ڈالے۔
چونکہ طالبان کا تعلق ادارہ دیو بند سے تھا، اس لیے انہوں نے کھل کر طالبان کی اس سلسلے میں حمایت کی (بلکہ کہنا چاہیے کہ اندھی حمایت کی)۔ اُن کی واحد دلیل یہ تھی کہ چونکہ اب افغانستان میں بدھ مت کے ماننے والے موجود نہیں ہیں، اس لیے ان بتوں کو ٹوڑ دیا جائے۔ بہت حیرت کی بات ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے تو اللہ اور رسول دنیا کے ہر کونے میں موجود رہیں، مگر بدھا، جو کہ بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے محترم ہے، اُس کو صرف بدھ ممالک تک ہی محدود کرنے کا فتوی جاری کر دیا جائے۔ اب یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
کیا آپ لوگوں نے کبھی ان سوالات پر غور کیا کہ:
۔ کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر بدھا کے مجسمے توڑ دینا، یا پھر یہ ایک ہی معیار کے قبیح افعال ہیں؟
۔ اور کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر اُن پاکستانی کلیساؤں میں موجود مسیح ع کے بتوں کو توڑ دینا جو کہ عیسائیوں کے نزدیک ایسے ہی محترم ہیں جیسے ہمارے نزدیک رسول ص کی عزت؟ کتنے پاکستانی علماء اور مولوی حضرات ایسے تھے جنہوں نے کھل کر اس کی مذمت کی تھی؟
ان سوالات سے میرے ذہن میں جو الجھنیں ہیں وہ بہت لمبی ہیں۔ پتا نہیں میں یہ سوالات اور یہ الجھنیں آپ کی خدمت میں صحیح طور پر پیش کر پاؤں گی یا نہیں، مگر کوشش کرتی ہوں۔
پہلا سوال: اگر کوئی غیر مسلم، کسی غیر ملک میں رسول ص کی تضحیک کرتا ہے، تو اس کی شرعی سزا کیا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو عرصہ دراز سے میں اٹھا رہی ہوں مگر کوئی مولوی صاحب کھل کر اس بات کا جواب نہیں دیتے۔
بہرحال کتب کے اندر مجھے اس کا جواب بہت پہلے مل گیا تھا، اور وہ یہ کہ اگر کوئی غیر مسلم رسول ص کی تضحیک کرتا ہے تو اسلامی شریعت اُس پر قتل کی کوئی شرعی سزا نافذ نہیں کرتی۔
رسول ص کا اپنا اسوہ حسنہ اس معاملے میں یہی تھا کہ وہ ایسے غیر مسلموں کے لیے دعا کرتے تھے کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اس سلسلے میں بہت سے واقعات اسلامی تاریخ میں محفوظ ہیں۔
غازی علم دین کو ہیرو بنانا
غازی علم دین نے ایک غیر مسلم ہندو کو اس بنیاد پر قتل کر دیا تھا کہ اُس نے رسول ص کی تضحیک کی تھی۔ اس بنیاد پر ہماری عوام نے اسے ہیرو بنا دیا، اور ہمارے مولوی طبقے نے کھل کر غازی علم دین اور عوام کی حمایت کی۔
میرا سوال یہی ہے کہ مولوی حضرات نے سب سے پہلے کھل عوام کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ کسی غیر مسلم کو کسی غیر اسلام ریاست میں کبھی بھی اس جرم کی پاداش میں قتل نہیں کر سکتے؟ یہ اللہ کی بنائی ہوئی اُس شریعت کا حکم ہے جسے ہر حال میں ہر مسلمان کو عمل کرنا ہے۔
مولوی حضرات نے اس شرعی حکم کو چھپایا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام عوام نے غازی علم دین کے اس فعل کی مذمت کرنے اور اسے دین اسلام کے خلاف قرار دینے کی بجائے اس خلاف شریعت عمل کو اسلام کی آواز بنا لیا اور غازی علم دین کو ہیرو بنا لیا۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں کئی Individual کیسز ایسے ہو چکے ہیں جہاں رسول ص کی تضحیک کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کچھ مسلمانوں نے کچھ غیر مسلموں کو قتل کر دیا ہے۔
اس معاملے میں مجھے علماء حضرات سب سے بڑے قصوروار نظر آتے ہیں، جنہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے چیزوں کو چھپایا ہوا ہے۔ اگر غازی علم دین کے واقعے پر ہی وہ کھل کر مذمت کر دیتے اور کھل کر اسلامی شریعت کا قانون عوام کو بتا دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔
سلمان رشدی کو انگلینڈ میں قتل کرنے کا فتویٰ
ایک طرف ہمیں بطور مسلمان یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم غیر مسلم ملک میں رہ رہے ہیں تو اُن کے قوانین کی پابندی ہم پر لازمی ہے۔
دوسری طرف آغا خمینی کی طرف سے فتویٰ آتا ہے کہ سلمان رشدی کو انگلینڈ میں ہی قتل کر دیا جائے۔
یہ ایک تضاد ہے اور منافقت ہے جو مجھے ہضم نہیں ہو سکتا۔ اور آغا خمینی اس مسئلے میں اکیلے نہیں، بلکہ ہزاروں لاکھوں فرزندانِ توحید سلمان رشدی کو انگلینڈ میں قتل کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ منافقت انہیں عین ایمان نظر آ رہی ہے۔
اس سلسلے میں اہل تشیع کی بڑی تعداد کو دیکھا ہے جو آغا خمینی کی اندھی تقلید کر رہی ہے۔ بیشک آغا خمینی بہت بڑی شخصیت تھے اور دوسرے حوالوں سے میں بھی اُن کی عزت کرتی ہوں، مگر یہ چیز بھی مجھے اس سے نہیں روک سکتی کہ میں اُن کے اس قدم کو غلط کہوں اور اس پر اعتراض نہ کروں۔
رسول ص کے کارٹون بالمقابل بدھا کے افغانستان میں مجسمے
رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون بنانا بہت غلط چیز ہے اور میری خواہش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر یہ معاہدہ طے پا جائے کہ ایسے تضحیک آمیز کاموں کو غیر قانون قرار دیا جائے۔
اس سلسلے میں مگر کچھ قوانین پہلے سے ہی عالمی سطح پر موجود ہیں کہ کسی کی عبادت گاہوں کو توڑ پھوڑ کا شکار نہیں بنایا جائے گا۔
مگر میں نے مسلمانوں کی (یا کم از کم اُن کے ایک حصہ کی) منافقت اُس وقت دیکھی جب طالبان نے افغانستان میں بدھا کے مجسمے توڑ ڈالے۔
چونکہ طالبان کا تعلق ادارہ دیو بند سے تھا، اس لیے انہوں نے کھل کر طالبان کی اس سلسلے میں حمایت کی (بلکہ کہنا چاہیے کہ اندھی حمایت کی)۔ اُن کی واحد دلیل یہ تھی کہ چونکہ اب افغانستان میں بدھ مت کے ماننے والے موجود نہیں ہیں، اس لیے ان بتوں کو ٹوڑ دیا جائے۔ بہت حیرت کی بات ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے تو اللہ اور رسول دنیا کے ہر کونے میں موجود رہیں، مگر بدھا، جو کہ بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے محترم ہے، اُس کو صرف بدھ ممالک تک ہی محدود کرنے کا فتوی جاری کر دیا جائے۔ اب یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
کیا آپ لوگوں نے کبھی ان سوالات پر غور کیا کہ:
۔ کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر بدھا کے مجسمے توڑ دینا، یا پھر یہ ایک ہی معیار کے قبیح افعال ہیں؟
۔ اور کیا رسول ص کے تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنا بڑا قبیح فعل ہے یا پھر اُن پاکستانی کلیساؤں میں موجود مسیح ع کے بتوں کو توڑ دینا جو کہ عیسائیوں کے نزدیک ایسے ہی محترم ہیں جیسے ہمارے نزدیک رسول ص کی عزت؟ کتنے پاکستانی علماء اور مولوی حضرات ایسے تھے جنہوں نے کھل کر اس کی مذمت کی تھی؟