عام انتخابات 2018: حلقہ جاتی سیاست!

اے خان

محفلین
صوابی میں تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک طرف ٹکٹ ہولڈر امیدوار ترکئی گروپ جسے لوٹا گروپ بھی کہہ سکتے ہیں. دوسری طرف پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن جو بطور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں.
 
صوابی میں تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک طرف ٹکٹ ہولڈر امیدوار ترکئی گروپ جسے لوٹا گروپ بھی کہہ سکتے ہیں. دوسری طرف پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن جو بطور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں.
ترکئی وہی ہیں نا، جن کی پہلے اپنی پارٹی تھی، اور اب تحریک انصاف میں ضم کر لی ہے؟
 
تو ترکئی تو وہاں سے خود بھی جیتتے رہے ہیں، اب تحریک انصاف کی جانب سے انھیں ٹکٹ نہ ملتا تو وہ آزاد حیثیت میں بھی لڑ کر جیت جاتے۔ جیتنے کے لحاظ سے تو بہتر فیصلہ نہیں کیا؟
 

اے خان

محفلین
تو ترکئی تو وہاں سے خود بھی جیتتے رہے ہیں، اب تحریک انصاف کی جانب سے انھیں ٹکٹ نہ ملتا تو وہ آزاد حیثیت میں بھی لڑ کر جیت جاتے۔ جیتنے کے لحاظ سے تو بہتر فیصلہ نہیں کیا؟
جیتنے کے لحاظ سے یہ ایک بہتر فیصلہ ہے. لیکن سب کی سب ٹکٹیں ترکئی خاندان کو دی گئی ہیں. اور نظریاتی کارکنان کو ایک ٹکٹ بھی نہیں ملا اس وجہ ایک گروپ علیحدہ ہوگیا. اور ترکئی خاندان سے منصبدار کے سید خاندان نے راہیں جدا کرلی ہیں اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اس کے مقابل کھڑے ہیں. ترکئی خاندان کے لیے بڑا دھچکا ہے کیونکہ منصبدار کے سید کافی اثر رسوخ رکھتے ہیں. اور ان کا ووٹ بینک بھی کافی بڑا ہے. اور اس کا فائدہ عوامی نیشنل پارٹی کو ملے گا کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ووٹ وہی کا وہی ہے اور ترکئی خاندان کا ووٹ دو گروپوں میں تقسیم ہوگیا ہے.
 

جان

محفلین
اسلام آباد کے تین حلقہ جات ہیں۔
این اے 52
اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ہیں، جو پہلے بھی ایم این اے تھے۔ تحریکِ انصاف کے امیدوار خرم نواز ہیں، پچھلے انتخابات میں یہاں سے الیاس مہربان تھے۔
پچھلے انتخابات میں ن لیگ کافی مارجن سے جیتی تھی۔ مگر اس بار ن لیگ کا ایک مضبوط علاقہ بہارہ کہو اس حلقہ سے نکل گیا ہے۔ جس کے سبب مقابلہ زور دار ہونے کا امکان ہے۔ بہارہ کہو نکلنے سے پیپلزپارٹی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کا امیدوار افضل کھوکھر ہے، اور کھوکھر برادری کا اس حلقہ میں کافی ووٹ ہے۔

این اے 53
یہ حلقہ اب اس لیے اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ یہاں سے تحریکِ انصاف کے سربراہ خود الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہاں سے لڑنے کا منصوبہ نہیں تھا، لیکن تین چار بڑے گروپس میں شدید اختلاف ہونے کی وجہ سے عمران خان کو آنا پڑا، کیونکہ تحریکِ انصاف کسی صورت اسلام آباد کو کمزور نہیں چھوڑنا چاہتی۔
جواب میں مسلم لیگ، کہ جس کے پاس اس حلقہ کے لیے کو مناسب نام موجود نہیں تھا، اور کچھ لوکل رہنماؤں نے کاغذات جمع کروائے تھے۔ مگر عمران خان کے اس حلقہ میں آنے پر اب غالباً سردار مہتاب عباسی کو یہاں سے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تیسرا اہم نام اس حلقہ میں ایم ایم اے سے میاں محمد اسلم صاحب کا ہے، جو یہاں سے ایم این اے بھی رہ چکے ہیں، مگر 2008 میں بائیکاٹ اور پھر 2013 میں ن اور پی ٹی آئی کے درمیان پولرائزیشن کے سبب تیسرے نمبر پر رہے۔ مگر اب سابقہ ایم این اے اسد عمر کی حلقہ میں عدم موجودگی اور پارلیمنٹ میں بھی کوئی خاص کردار ادا نہ کرنے کے سبب ان کے پاس الیکشن مہم کے لیے ایک بڑا ہتھیار اپنے دور کی کارکردگی یے، کہ جس کے مقابلے میں سابقہ ن کے ایم این اے انجم عقیل اور اسد عمر کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی ہے۔

این اے 54
اس حلقہ سے اہم امیدوار تحریکِ انصاف کے اسد عمر ہیں، مقابلہ پر ن کے دو امیدواروں میں مقابلہ ہے، ایک تو سابق ایم این اے انجم عقیل خان ہے، اور دوسرا ایک یو سی کا چئرمین حفیظ الرحمٰن ٹیپو ہے۔ اس کو بلدیاتی نمائندگان کی حمایت حاصل ہے۔ انجم عقیل اپنے مقدمات کی وجہ سے بھی کافی بدنام ہو چکا ہے۔ اور یہاں سے بھی تیسرے امیدوار ایم ایم اے کے میاں اسلم ہیں، اس حلقہ میں آنے والے دیہی علاقہ میں انھوں نے بہت کام کروایا تھا، جس کے ابھی تک لوگ معترف ہیں۔ اور سابقہ الیکشن میں بھی ان کو زیادہ ووٹ اسی علاقہ سے ملے تھے۔

لیکن اسلام آباد کے شہری علاقہ سے بالخصوص پی ٹی آئی سے وابستہ ووٹر برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے پارٹی کو ووٹ دینا ہے، کام کی اتنی اہمیت نہیں۔

اب ایک دلچسپ صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان کو ہرانے کی خاطر ن لیگ ایم ایم اے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہے، اس صورت میں مقابلہ بہت دلچسپ ہو جائے گا۔

بادی النظر میں 52 سے ن لیگ، اور 53 ،54 سے پی ٹی آئی ہی فیورٹ ہیں۔


یہ سراسر میرا اپنی معلومات کے مطابق تجزیہ ہے، اختلاف کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ :)
حلقہ قومی اسمبلی 52 میں خرم نواز کا کافی ووٹ بینک ہے اور وہ اس حلقے میں پچھلے دو تین سالوں سے کافی ایکٹیو ہے۔ طارق فضل چوہدری کی پرفارمنس بھی اس قدر بہتر نہیں رہی۔ اس لیے مجھے اس حلقے میں بھی تحریک انصاف فیورٹ نظر آتی ہے۔
 
حلقہ قومی اسمبلی 52 میں خرم نواز کا کافی ووٹ بینک ہے اور وہ اس حلقے میں پچھلے دو تین سالوں سے کافی ایکٹیو ہے۔ طارق فضل چوہدری کی پرفارمنس بھی اس قدر بہتر نہیں رہی۔ اس لیے مجھے اس حلقے میں بھی تحریک انصاف فیورٹ نظر آتی ہے۔
جی، طارق فضل کو ایک بڑا دھچکا بہارہ کہو کے اس حلقہ سے نکلنے پر بھی لگا ہے۔ لیکن خرم نواز ایکٹو ہونے کے باوجود نیا ہے، اور طارق فضل چوہدری کام نہ کرنے کے باوجود مسلسل دوسری دفعہ منتخب ہو چکا ہے۔ کام اس نے پہلے بھی نہیں کروایا تھا۔ اس لیے میرے نزدیک ابھی بظاہر اسی کی برتری ہے۔ لیکن تحریک انصاف اسے ہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
 
اندازہ ہے کہ ن لیگ چوہدری نثار کے مقابلے میں امیدوار نہ کھڑا کرے۔
اور اگر نون لیگ کا امیدوار بھی ہوا تو ایک امکان یہ بھی ہے کہ چوہدری نثار اینٹی نواز ووٹ کو تقسیم کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ویسے اب کھل کر نواز شریف کے خلاف بیان بازی کرنے کی وجہ سے یہ تو مشکل ہے کہ ن یہاں سے اپنا امیدوار نہ کھڑا کرے۔
 

فرقان احمد

محفلین
نیشنل اسمبلی کے لئے اس طرح کی کوئی تفصیل مل جائے تو کیا ہی بات ہے
2018 House Race ratings | The Cook Political Report
یہ کام ادارہ جاتی سطح پر ممکن ہے تاہم فی الوقت تو پارٹیوں نے امیدوار تک فائنل نہیں کیے ہیں۔ شاید عید کے ایک ہفتے بعد تک حتمی امیدواروں کی فہرست میدان میں آ جائے گی۔ اس کے بعد ٹی وی چینلز، اخبارات کے کالمز اور سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف حلقوں میں عوامی رجحانات کا کسی حد تک اندازہ لگایا جا سکے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے اب کھل کر نواز شریف کے خلاف بیان بازی کرنے کی وجہ سے یہ تو مشکل ہے کہ ن یہاں سے اپنا امیدوار نہ کھڑا کرے۔
ہمارے خیال میں میاں نواز شریف چوہدری نثار کے مقابلے میں امیدوار کھڑے کر کے بہتر سیاسی چال چل سکتے ہیں۔ یوں شاید تحریکِ انصاف کامیاب ہو جائے گی تاہم چوہدری صاحب اسمبلی میں نہ پہنچ پائیں گے۔ چوہدری نثار اس وقت کم خطرناک ہیں۔ اگر وہ آزاد حیثیت میں جیت کر اسمبلی کا حصہ بن گئے تو مسلم لیگ ن کے لیے زیادہ خطرناک شخصیت ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہماری خیال میں یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے چوہدری نثار کے خلاف امیدوار کھڑا کرنے کے بعد تحریکِ انصاف کسی ایک حلقے سے چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں اپنے امیدوار کو دستبردار کروا دے۔
 
ہمارے خیال میں میاں نواز شریف چوہدری نثار کے مقابلے میں امیدوار کھڑے کر کے بہتر سیاسی چال چل سکتے ہیں۔ یوں شاید تحریکِ انصاف کامیاب ہو جائے گی تاہم چوہدری صاحب اسمبلی میں نہ پہنچ پائیں گے۔ چوہدری نثار اس وقت کم خطرناک ہیں۔ اگر وہ آزاد حیثیت میں جیت کر اسمبلی کا حصہ بن گئے تو مسلم لیگ ن کے لیے زیادہ خطرناک شخصیت ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہماری خیال میں یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے چوہدری نثار کے خلاف امیدوار کھڑا کرنے کے بعد تحریکِ انصاف کسی ایک حلقے سے چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں اپنے امیدوار کو دستبردار کروا دے۔
جی یہی کہا کہ اصل نقصان اس میں ن لیگ کا ہے۔
بالفرض چوہدری نثار جیت بھی جاتا ہے، تو اب نواز شریف اسے واپس نہیں لینا چاہے گا، اور وہ بھی اب شاید واپس جانے کا نہ سوچے۔
 

فرقان احمد

محفلین
جی یہی کہا کہ اصل نقصان اس میں ن لیگ کا ہے۔
بالفرض چوہدری نثار جیت بھی جاتا ہے، تو اب نواز شریف اسے واپس نہیں لینا چاہے گا، اور وہ بھی اب شاید واپس جانے کا نہ سوچے۔
نقصان تو نون لیگ کا ہے تاہم کم شدت کا نقصان یہی ہو گا کہ چوہدری صاحب بھی ہار جائیں اور اسمبلی کا حصہ نہ بننے پائیں۔ ہمارے خیال میں میاں نواز شریف کی یہی پالیسی رہے گی کہ نون لیگ بھلے ہار جائے تاہم چوہدری صاحب بھی جیتنے نہ پائیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ بھی یاد رہے کہ چوہدری نثار علی خان صرف پاناما ایشو کی وجہ سے اتنے 'گرم' نہیں ہیں؛ یہ معاملات پہلے سے کافی حد تک ٹیڑھے چلے آ رہے ہیں۔ وہ 2013ء میں بھی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے۔ شاید وہ تب وزیراعلیٰ پنجاب بننا چاہتے تھے۔ اور، اب بھی وہ کم از کم وزارتِ اعلیٰ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اُن کی بھی پشت پر موجود ہے یا ضرورت پڑنے پر انہیں بھی آگے لانے کا سوچ سکتی ہے تاہم اس کے لیے چوہدری صاحب کو دیگر سیاست دانوں سے میل جول بڑھانا ہو گا۔ ہمارے خیال میں چوہدری نثار علی خان ڈرائینگ روم کی سیاست پر زیادہ یقین رکھتے ہیں جس کے باعث وہ بس اپنے حلقے تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔
 
نقصان تو نون لیگ کا ہے تاہم کم شدت کا نقصان یہی ہو گا کہ چوہدری صاحب بھی ہار جائیں اور اسمبلی کا حصہ نہ بننے پائیں۔ ہمارے خیال میں میاں نواز شریف کی یہی پالیسی رہے گی کہ نون لیگ بھلے ہار جائے تاہم چوہدری صاحب بھی جیتنے نہ پائیں۔

میاں صاحب کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ نون لیگ بھلے الیکشن ہار جائے لیکن چوہدری صاحب اور پرویز مشرف اپنی سی نہ کرپائیں اور ان سے ٹکراکر بدلہ لیا جائے۔

ادھر زرداری کی پالیسی کچھ مختلف ہے۔ وہ بدلے کے بجائے مفاہمت میں یقین رکھتے ہین۔ بیوی کو ماردیا گیا ہے
خیر ہے، چار کی مزید گنجائش پیدا ہوگئی۔ اب آگے بڑھ کر اپنی باری کو یقینی بنایا جائے!!!
 

عباس اعوان

محفلین
پشتونوں کی سابقہ روایت کو دیکھ کر اور خیبر پختون خوا میں نظریاتی کارکنوں کی بغاوت کے بعد تحریک انصاف کا بستر گول ہی سمجھیں۔ اِس بار پختون خوا میں ایم ایم اے اور این پی کی مخلوط حکومت یقینی ہے۔
سویپنگ سٹیٹمنٹ کی بجائے اگر حلقہ جات کی صورتحال(لڑی کے عنوان کے مطابق) کے بارے میں بتائیں تو کچھ اندازہ ہو۔
 

آصف اثر

معطل
عمران خان: ایک بات ہے بس، خیبر پختونخواہ پاکستان کے سب صوبوں میں واحد صوبہ ہے جو کسی جماعت کو دوسری بار موقع نہیں دیتا، وہ صرف ایک بار موقع دیتا ہے۔ بی بی سی انٹرویو
 

آصف اثر

معطل
صوابی میں تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک طرف ٹکٹ ہولڈر امیدوار گروپ، جسے لوٹا گروپ بھی کہہ سکتے ہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن جو بطور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں.
بونیر، سوات اور مالاکنڈ میں بھی یہی کچھ چل رہاہے۔
 

جان

محفلین
ہمارے خیال میں میاں نواز شریف چوہدری نثار کے مقابلے میں امیدوار کھڑے کر کے بہتر سیاسی چال چل سکتے ہیں۔ یوں شاید تحریکِ انصاف کامیاب ہو جائے گی تاہم چوہدری صاحب اسمبلی میں نہ پہنچ پائیں گے۔ چوہدری نثار اس وقت کم خطرناک ہیں۔ اگر وہ آزاد حیثیت میں جیت کر اسمبلی کا حصہ بن گئے تو مسلم لیگ ن کے لیے زیادہ خطرناک شخصیت ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہماری خیال میں یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے چوہدری نثار کے خلاف امیدوار کھڑا کرنے کے بعد تحریکِ انصاف کسی ایک حلقے سے چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں اپنے امیدوار کو دستبردار کروا دے۔
چوہدری نثار ایسا بھاری پتھر ہے جسے اپنی کشتی میں رکھنا اپنی کشتی کو خود ڈبونے کے مترادف ہے۔ اس لیے مستقبل میں شاید تحریک انصاف بھی اسے برداشت نہ کر سکے۔
 

فرقان احمد

محفلین
چوہدری نثار ایسا بھاری پتھر ہے جسے اپنی کشتی میں رکھنا اپنی کشتی کو خود ڈبونے کے مترادف ہے۔ اس لیے مستقبل میں شاید تحریک انصاف بھی اسے برداشت نہ کر سکے۔
ہمارے خیال میں منیر نیازی مرحوم نے اپنی نظم 'ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں' چوہدری نثار علی خان صاحب کے لیے ہی لکھ چھوڑی ہے۔
 
Top