محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
غربت کا مارا عیسیٰ دبئی کمانے پہنچا تو قسمت مہربان رہی۔
اُلٹے سیدھے دو چار جیک پاٹ لگے تو پیسوں میں کھیلنے لگا۔
ترقی کرتے کرتے بڑا بزنس مین بنا اور دفتر آسمان کو چھوتی اونچی عمارت میں بنا لیا۔
بوڑھے باپ کی یاد آئی تو اسے وزٹ ویزا بھیج کر بلوایا،
ڈرائیور کو نشانی بتا کر ایئرپورٹ لینے بھیجا۔
باوردی ڈرائیور چمچماتی لمبی کار میں ایئرپورٹ سے لایا۔
دفتر والی بلڈنگ میں لگی شیشے والی لفٹ میں سوار کرا کے اوپر لیجانے لگا۔
پہلی بار لفٹ میں سوار بوڑھا خوفزدہ باہر کے مناظر دیکھنے لگا۔
ساتھ والی عمارتیں نیچے رہ گئیں۔
بادل بھی نیچے رہ گئے تو خوف سے نکلتی جان کے ساتھ ڈرتے ڈرتے ڈرائیور سے پوچھا:
(پتر مینوں کیڑھے عیسیٰ کول لےکے چلا ایں )
اُلٹے سیدھے دو چار جیک پاٹ لگے تو پیسوں میں کھیلنے لگا۔
ترقی کرتے کرتے بڑا بزنس مین بنا اور دفتر آسمان کو چھوتی اونچی عمارت میں بنا لیا۔
بوڑھے باپ کی یاد آئی تو اسے وزٹ ویزا بھیج کر بلوایا،
ڈرائیور کو نشانی بتا کر ایئرپورٹ لینے بھیجا۔
باوردی ڈرائیور چمچماتی لمبی کار میں ایئرپورٹ سے لایا۔
دفتر والی بلڈنگ میں لگی شیشے والی لفٹ میں سوار کرا کے اوپر لیجانے لگا۔
پہلی بار لفٹ میں سوار بوڑھا خوفزدہ باہر کے مناظر دیکھنے لگا۔
ساتھ والی عمارتیں نیچے رہ گئیں۔
بادل بھی نیچے رہ گئے تو خوف سے نکلتی جان کے ساتھ ڈرتے ڈرتے ڈرائیور سے پوچھا:
(پتر مینوں کیڑھے عیسیٰ کول لےکے چلا ایں )