عبید انصاری
محفلین
بھئی میں نے تو "ملکی قوانین" کی رو سے کہا ہے۔ اور شاید عبد الرحمٰن بھائی نے بھی۔ باقی آپ کی قسمت ہے۔اب یہ تو عبید بھائی بتائیں گے۔
بھئی میں نے تو "ملکی قوانین" کی رو سے کہا ہے۔ اور شاید عبد الرحمٰن بھائی نے بھی۔ باقی آپ کی قسمت ہے۔اب یہ تو عبید بھائی بتائیں گے۔
اپنے اسپ تخیل کو ذرا کنٹرول کیجیے۔دونوں چیزیں؟؟
مرغِ تخیل نے اونچی اڑان بھری تھی۔اپنے اسپ تخیل کو ذرا کنٹرول کیجیے۔
آدھے کام ہی گنوائے۔ایک ہاتھ میں لپ اسٹک ، دوسرے میں موبائل ، ایک کان پریشر ککر کی سیٹی پر ، دوسرا واٹس اپ کی نوٹیفکیشن پر ، ایک آنکھ ٹی وی پر ، دوسری شوہر کی حرکتوں پر ، آخر کون کہتا ہے عورت کی زندگی آسان ہے ۔
بھیا یہ تو صرف لمحے بھر کے کام ہیں۔آدھے کام ہی گنوائے۔
(جاپان کے لوگ جہاں انگریزی لکھنا اور پڑھنا خوب جانتے ہیں، وہاں سننے اور بولنے میں اتنے ہی تہی دست ہیں۔ اس میں جاپانی لوگوں سے زیادہ جاپانی زبان کی صوتی کم مائیگی کو بہت زیادہ دخل ہے۔ جاپانی زبان میں چند آوازیں بالکل ناپید ہیں، جس کی وجہ سے جاپانی لوگوں کے لیے دوسری زبانوں کے تلفظ میں فرق کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس پس منظر میں درج ذیل لطیفہ ملاحظہ کریں)
بل کلنٹن جاپان کا دورہ کر رہا تھا اور جاپانی وزیراعظم کو انگریزی بالکل نہیں بولنا آتی تھی۔ اس لیے وزیراعظم کو بارہا اس مکالمے کی مشق کروائی گئی کہ جب آپ کلنٹن سے ہاتھ ملائیں تو
آپ کو کہنا ہے: ہاؤ آر یُو؟
جواب میں کلنٹن کہے گا: آئی ایم فائن۔ وٹ اباؤٹ یُو؟
آپ نے کہنا ہے: مِی ٹُو
کافی دن اس مشق کا سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ کلنٹن کی آمد کی گھڑی آن پہنچی۔ ائیر پورٹ پر جاپانی وزیراعظم نے کلنٹن کا استقبال کیا تو جو مکالمہ ہوا وہ درج ذیل ہے۔
جاپانی وزیراعظم (تلفظ بھولتے ہوئے): ہُو آر یُو؟
بل کلنٹن (ہنستے ہوئے مذاقا): آئی ایم ہیلری ز ہسبنڈ
جاپانی وزیراعظم (بھولنے کے خوف میں): مِی ٹُو
ہاں ، یاد آیا رمضان شریف ختم ہوچکا ہے۔
میرے ساتھ ایک پاکستانی یہاں کام کر کرہا ہے۔ اب اسی کو بلواتا ہوں۔آپ تو مراسلہ در مراسلہ ہمیں دام میں لا رہے ہیں۔
اسے کہتے ہیں: چنگی طرح پھڑ، فیر چھڈیں ناں
مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس کا حج مقبول ہوا اسے حج سعادت لگتی ہے اور جس کا مقبول نہیں ہوا اسے مشقت8 یا 9 سال پہلے کی بات ہے۔ میرا ایک ہمسایہ حج کر کے واپس گھر پہنچا تواس سے ملاقات کرنے میں بھی چلا گیا۔ اس سے گلے ملتے ہی جو پہلی بات اس نے مجھ سے کہی وہ یہ تھی: اللہ کبھی بھی کسی کو وہاں جانے کی توفیق نہ بخشے۔
میں نے پوچھا حاجی صاحب کیا ہوگیا آپ کو، کیوں بد دعا دے رہے ہو؟
جواب میں اس نے کہا: ارے آپ کو پتا نہیں وہاں لوگوں کی کتنی بھیڑ ہوتی ہے۔ پھر اس نے اس بھیڑ کو جن جانوروں کےساتھ تشبیہ دی،اگر میں یہاں وہی الفاظ دہراوَں تو میرا اکاوَنٹ آج اور ابھی مقفل کردیا جاےَ گا۔
دوسرے ہی سال وہی شخص پھر حج کرنے گیا۔ اس بار اس کی بیوی اور بہو بھی اس کے ساتھ تھی۔
اس کی واپسی پر میرے والد صاحب نے مجھ سے کہا کہ جاوَ اس سے ملاقات کرکے آوَ ورنہ اسے برا لگے گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں ہرگز نہ جاوَں گا۔ ابھی میں پچھلے سال کی بد دعا نہیں بھولا ہوں۔
قبولیت کی تو خدا ہی جانے۔مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس کا حج مقبول ہوا اسے حج سعادت لگتی ہے اور جس کا مقبول نہیں ہوا اسے مشقت
نظر والوں کو دنیا میں بھی پتا چل جاتا ہے کچھ نہ کچھقبولیت کی تو خدا ہی جانے۔
زیادہ امکان یہی ہے کہ فیک ویڈیو ہو گی۔سنجیدہ سی گفتگو ہونے لگ گئی ہے لطیفوں کی لڑی میں مگر بہر حال مجھے بھی ایک پرانی 'سنی سنائی' بات یاد آ گئی ہے جس کے مطابق ایک خاتون نے کعبتہ اللہ کی صفائی (یا پتا نہیں خوبصورتی) کے متعلق شاید کہا تھا کہ اس سے زیادہ صاف تو میرے گھر کا غسل خانہ ہے....بعد میں اس پر عذاب الہی کی ویڈیو بہت وائرل ہوئی ان دنوں. اس کا جسم اور آواز جانور کے بن چکے تھے.
میں نے ایک ہی بار وہ ویڈیو دیکھی تھی مگر جتنا ڈر لگا کہ اج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں. مجھے علم نہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے کہ اس پر یہ عذاب اسی بات کی وجہ سے آیا یا نہیں اور واقعی یہ عذاب ہی تھا یا آزمائش یا کمپیوٹر سائنس، مگر جو بھی تھا نہایت بھیانک تھا.
ربطمیں نے اب بھی ربط ویڈیو کو ڈھونڈ کر بغیر دیکھے ڈال دیا ہے، اس امید کے ساتھ کہ یہ وہی ہوگی، کیونکہ مجھے واقعی بعض تصاویر سے ڈر لگتا ہے اور یہ ان میں سے ایک تھی.
کوئی چنگا جیا حل دسو ۔