مشکور ہوں محمود بھائی! آپ نے انتہائی اہم بات کی جانب توجہ دلائی۔
آپ نے درست کہا کہ سریانی زبان کا تذکرہ ہماری کتابوں میں ملتا ہے، حتی کہ احادیث کی بعض کتب میں یہاں تک مروی ہے کہ یہ عالم برزخ اور قیامت کی بھی زبان ہوگی۔ سیوطی، ابن شیبہ وغیرہ نے روایت کیا ہے (یہ احادیث ضرور کسی علت کی بنا پر معلول ہوگی، ابن ابی حاتم نے بھی بعض کو العلل میں جگہ دی ہے۔ تاہم اس وقت ان احادیث کے ضعف اور سقم پر کلام مقصود نہیں، اس کا محل کہیں اور ہے)۔
اور پچھلے مراسلوں میں ذکر نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ سُریانی زبان عبرانی کے بعد معرض وجود میں آئی، البتہ نظام حرکات اسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے عبرانی میں، جس کا تذکرہ ہوچکا۔
سریانی سامی زبانوں میں سے ہے اور آرامی زبان سے نکلی ہے۔ آرامی اپنے دور ترقی میں دو لہجہ میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک عراق میں رائج تھا اور دوسرا شام میں۔ بس یہی نقطہ آغاز ہے سریانی کا۔ گوکہ سریانی نے اس کے بھی بہت بعد پرپرزے نکالے۔ غالباً پہلی یادوسری صدی عیسوی میں۔ اور چوتھی صدی عیسوی میں مسیحی مدارس نے اس کی ترقی میں زبردست کردار ادا کیا۔ آج بھی اس کا شمار مسیحیت کی اہم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔عیسائیوں نے اس زبان کو کبھی مٹنے نہیں دیا۔
اسلامی دور میں بھی یہ زبان خوب پھلی پھولی۔ لیکن جس طرح اندلس میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ سے عبرانی فنا بر دوش ہوگئی تھی، اسی طرح خلافت عباسیہ پر تاتاری یلغار کے نتیجہ میں سریانی بھی زوال آمادہ ہوگئی۔ لیکن عیسائی کنیسہ نے اس کو ناپید ہونے بچالیا۔آج یہ زبان کئی ممالک میں موجود ہے۔ یہاں ہندوستان میں بھی کیرالا میں پائی جاتی ہے۔
ایک اہم بات، جس طرح عربی میں ادب مہجر کا وجود ہے، اسی طرح سریانی میں بھی ادب مہجر پایا جاتا ہے۔سویڈن حکومت کا خاصی تعاون رہا ہے۔
اس بارے میں مزید تفصیل کا یہ عبرانی دھاگہ متحمل نہیں، اس لیے معذرت۔
لیکن ہمارا ارادہ ہے کہ عبرانی کے بعد سریانی کے کم ازکم ابجد اور بنیادی قواعد یہاں محفل میں پیش کریں۔ واللہ ہوالموفق۔
محمود احمد غزنوی