موت کا خوف ہو کیا عشق کے دیوانے کو موت خود کانپتی ہے عشق کے دیوانے سے (ساحر ہوشیارپوری)
شمشاد لائبریرین مئی 7، 2006 #301 موت کا خوف ہو کیا عشق کے دیوانے کو موت خود کانپتی ہے عشق کے دیوانے سے (ساحر ہوشیارپوری)
شمشاد لائبریرین مئی 7، 2006 #303 حسن بے عشق کہیں رہ نہیں سکتا زندہ بج گئی شمع بھی پروانے کے جل جانے سے (ساحر ہوشیارپوری)
ظ ظفری لائبریرین مئی 8، 2006 #304 وہ کھیلا تھا اس کمال سے عشق کی بازی میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک (تاجدار عادل)
شمشاد لائبریرین مئی 8، 2006 #305 اس خوش نگاہ کے عشق سے پرہیز کیجیو ‘میر‘ جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار دیکھنا
شمشاد لائبریرین مئی 16، 2006 #306 بحر عشق میں ڈوب کے دیکھ کبھی جامِ محبت پی کے دیکھ کبھی ہر طرف تیرا ہی عکس نظر آئے گا میری آنکھوں میں پیار سے دیکھ کبھی غرور ہے تجھے اپنی زلفوں کی چھاؤں کا میری پلکوں کی چھاؤں میں بیٹھ کے دیکھ کبھی
بحر عشق میں ڈوب کے دیکھ کبھی جامِ محبت پی کے دیکھ کبھی ہر طرف تیرا ہی عکس نظر آئے گا میری آنکھوں میں پیار سے دیکھ کبھی غرور ہے تجھے اپنی زلفوں کی چھاؤں کا میری پلکوں کی چھاؤں میں بیٹھ کے دیکھ کبھی
ماوراء محفلین مئی 19، 2006 #307 ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا ! جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا ! کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن،رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن جہان حُسن ملا وہاں بیٹھ گئے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا شبِ ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا، کبھی بیت کہے ، لکھی چاندنگر کبھی کوہ سے جاسر پھوڑ مرے، کبھے قیس کو جا استاد کیا یہی عشق بالآخر روگ بنا، کہ ہے چاہ کے ساتھ بجگ بنا جسے بننا تھا عیش وہ سوگ بنا، بڑا مَن کے نگر میں فساد کیا اب قربت و صحبتِ یار کہاں، اب و عارض و زلف و کنار کہاں اب اپنا بھی میر سا عالم ہے، ٹک دیکھ لیا جی شاد کیا ابنِ انشاء
ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا ! جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا ! کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن،رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن جہان حُسن ملا وہاں بیٹھ گئے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا شبِ ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا، کبھی بیت کہے ، لکھی چاندنگر کبھی کوہ سے جاسر پھوڑ مرے، کبھے قیس کو جا استاد کیا یہی عشق بالآخر روگ بنا، کہ ہے چاہ کے ساتھ بجگ بنا جسے بننا تھا عیش وہ سوگ بنا، بڑا مَن کے نگر میں فساد کیا اب قربت و صحبتِ یار کہاں، اب و عارض و زلف و کنار کہاں اب اپنا بھی میر سا عالم ہے، ٹک دیکھ لیا جی شاد کیا ابنِ انشاء
ظ ظفری لائبریرین مئی 27، 2006 #309 عشق دریا ہے، جو تیرے وہ تہی دست رہے وہ جو ڈوبے تھے، کسی اور کنارے نکلے
شمشاد لائبریرین مئی 27، 2006 #310 وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے جو عشق کو کام سمجھتے تھے یا کام سے عاشقی کرتے تھے ہم جیتے جی مصروف رہے کچھ عشق کیا کچھ کام کیا کام عشق کے آڑے آتا رہا اور عشق سے کام الجھتا رہا پھر آخر تنگ آ کر ہم نے دونوں کو آدھورا چھوڑ دیا
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے جو عشق کو کام سمجھتے تھے یا کام سے عاشقی کرتے تھے ہم جیتے جی مصروف رہے کچھ عشق کیا کچھ کام کیا کام عشق کے آڑے آتا رہا اور عشق سے کام الجھتا رہا پھر آخر تنگ آ کر ہم نے دونوں کو آدھورا چھوڑ دیا
ظ ظفری لائبریرین مئی 27، 2006 #311 جنونِ عشق کی رسمِ عجیب کیا کہنا میں اُن سے دور وہ میرے قریب کیا کہنا
شمشاد لائبریرین مئی 27، 2006 #312 چلی یاں تو بات تھی عشق کی مرا راز “ راز “ رہا نہیں میں رہا ہوں ازل سے “ نامراد“ کبھی“ سرفراز“ رہا نہیں
چلی یاں تو بات تھی عشق کی مرا راز “ راز “ رہا نہیں میں رہا ہوں ازل سے “ نامراد“ کبھی“ سرفراز“ رہا نہیں
شمشاد لائبریرین مئی 27، 2006 #313 کبھی اچھا بُرا سوچا نہیں ہے محبت عقل کو سودا نہیں ہے صراطِ عشق پر مُڑ کر نہ دیکھو پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے
کبھی اچھا بُرا سوچا نہیں ہے محبت عقل کو سودا نہیں ہے صراطِ عشق پر مُڑ کر نہ دیکھو پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے
شمشاد لائبریرین مئی 27، 2006 #314 کبھی اچھا بُرا سوچا نہیں ہے محبت عقل کو سودا نہیں ہے صراطِ عشق پر مُڑ کر نہ دیکھو پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے
کبھی اچھا بُرا سوچا نہیں ہے محبت عقل کو سودا نہیں ہے صراطِ عشق پر مُڑ کر نہ دیکھو پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے
شمشاد لائبریرین مئی 27، 2006 #315 عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فراز پھر بھی ہم اہلِ محبت کی مثالوں میں رہے ہیں
الف عین لائبریرین مئی 28، 2006 #316 ترے صدقے، بتا اے فطرتِ عشق آفریں مجھ کو پڑھا لکھا تھا جو کچھ، یاد اب وہ کیوں نہیں مجھ کو راز چاندپوری (باقیاتِ راز)
ترے صدقے، بتا اے فطرتِ عشق آفریں مجھ کو پڑھا لکھا تھا جو کچھ، یاد اب وہ کیوں نہیں مجھ کو راز چاندپوری (باقیاتِ راز)
ظ ظفری لائبریرین مئی 28، 2006 #317 وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا عشق کے باب میں سب جُرم ہمارے نکلے
شمشاد لائبریرین مئی 29، 2006 #319 عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے کشتہِ دشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمارِ دوست (غالب)