اے عشق ہمیں، برباد نہ کر
برباد نہ کر ، برباد نہ کر
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
ہم بُھولوں ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
تُو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر یوں بیداد نہ کر
راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر روتے ہیں
رو رو کر دعائیں کرتے ہیں
آنکھوں میں تصور، دل میں خلش
سر دُھنتے ہیں ، آہیں بھرتے ہیں
اے عشق یہ کیسا روگ لگا
جیتے ہیں ظالم نہ مرتے ہیں
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر
جس سے دن سے بندھا ہے دھیان تیرا
گھبرائے ہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے
شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کُملائےکی پُھولوں کی طرح
کُملائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر ، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں ، برباد نہ کر
برباد نہ کر ، برباد نہ کر
اپنا یہ عالم ہے خود سے بھی اپنے زخم چھپاتے ہیں
لوگوں کو یہ فکر کہ کوئی موضوع تشہیر بنے
تم نے فراز اس عشق میں سب کچھ کھو کر بھی کیا پایا ہے
وہ بھی تو ناکام ِ وفا تھے جو غالب اور میر بنے