عشق

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
عشق کو مطمئن نہ رکھ حسن کے اعتماد پر
وھ تجھے آزما چکا، تواسے آزمائے جا
(جگر مراد آبادی)
 

حجاب

محفلین
عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
تنہا کبھي وہ ملے تو
اس کو سناؤں باتيں دل کي
اس کو بتاؤں حال اپنا
اس سے کہوں کہ اس کے بنا
دن کيسے گزرتا ہے
رات کيسے ڈھلتي ہے
سورج کے نکلتے وقت
جان کيسي سلگتي ہے
دھڑکن کيسے مچلتي ہے
بے چيني کے عالم ميں
کيا کروں بالم ميں
دل کو کيسے بہلاؤں
بيتابيوں کے موسم ميں

تنہا کبھي وہ ملے تو
محبت کے درد بتاؤں اسے
پيار کے کچھ تقاضے ہیں
پيار کا روگ لگاؤں اسے
چاہت کے رنگوں ميں رنگوں اسے
عشق کا روپ ديکھاؤں اسے
تنہا تنہا رہنے والا
جھل مل جھل مل اس کا روپ
سب ہي کے ساتھ وہ رہتا ہے
پر چپ چاپ سا کچھ لگتا ہے
سب ميرے بھي اپنے ہیں
مگر وہ سب سے اپنا لگتا ہے

تنہا کبھي وہ ملے تو

اس سے کہوں کہ اس کے بناء
ميں رہ نہیں سکتي
جدائي کا دکھ يوں
ميں سہہ نہيں سکتي
ليکن
اب اگر وہ

تنہا کبھي وہ ملے تو

ميں جانتي ہو
تنہائي کے يہ لمحے
يونہي سرک جائيں گے
ميں کچھ نہ کہہ پاؤں گي
لفظ حلق ميں اٹک جائیں گے
کچھ دير وہ رکے گا
ميري طرف بھي ديکھے گا
ميري ہاتھوں کي کپکپاہٹ
ميري جھکي پلکوں کي جنبش
ميرے بند ہونٹوں کي لرزش
کو ديکھ کر وہ
يقينا مسکرائےگا
ميں کچھ نہ بھي کہوں تو
وہ خود ہي سمجھ جائے گا
يہ ديوانگي عشق کي
کس سے بھلا چھپ سکي ہے​
 

الف عین

لائبریرین
شعرِ شور انگیز ایک اور
تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھتی کبھو
اب دیدۂ تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا
 

عمر سیف

محفلین
عشق کرنا ہے تو یہ عہد بھی کرنا ہوگا
اب نا خوسیوں کا گزر اس طرح آساں ہوگا
اور بھی جینا ہے یہ سوچ کہ ڈر لگتا ہے
تیرے بن جینا تو بس پوت سے بدتر ہوگا ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top