ماوراء
محفلین
بساط جاں پہ عذاب اترتے ہیں کس طرح
شب و روز دل پہ عتاب گزرتے ہیں کس طرح
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
یہ جو لوگ سے چھپے ہوئے ہیں، پس دوستاں
تو یہ کون ہیں ؟
یہ جو روگ سے چھپے ہوئے ہیں،پس جسم و جاں
تو یہ کس لیے ؟
یہ جو کان ہیں میرے آہٹوں پہ لگے ہوئے
تو یہ کیوں بھلا ؟
یہ جو لوگ پیچھے پڑے ہوئے ہیں فضول میں
انہیں کیا پتہ،انہیں کیا خبر
کسی راہ کے کسی موڑ پر جو انہیں ذرا
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے۔