مقدس
لائبریرین
113
(231)
الگ ہے اور کیا فائدہ جو ناک چوٹی کاٹ کراسے نکالنا پڑا۔" اور پھر میں نے زور دے کر کہا:
"میں آپ کو روزانہ میٹھے ٹکڑے پکا کر کھلاؤں گی۔"
رفیق نے کہا "جھوٹی چڑیل کہیں کی سب خود کھا جائے گی۔۔۔ آپ اس کی باتوں میں نہ آئیے گا۔"
افضل بھائی کے ہوش اڑ گئے۔ رفیق نے وہ ملامت کی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔"میں نہیں سمجھتی تھی کہ آُ مجھے اس لائق نہ سمجیھں گے اور اس مردی پر عاشق ہو جائیں گے۔ صورت نہ شکل۔ بھاڑ میں ستے نکل۔ پھوہڑیا کہیں کی۔ جہاں جائے گی مار جوتیاں نکالی جائے گی' بڑی آئی وہاں سے۔"
افضل بھائی بچے نہ تھے۔ ان کے ہوش جاتے رہے۔ اٹھ کر بھاگنے جو لگے تو میں نے ہاتھ پکڑا لیکن اماں جان کی جو آواز آئی تو ہم نے چھوڑ دیا۔ ہم دونوں اپنے کمرے میں آئے۔ ہنسنے کی کوشش کی مگر بجائے ہنسی کے غصہ اور رنج تھا، رفیق اپنے گھر جانے والی تھی۔ مگر اس وقت رک گئی اور ہم دونوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اس بیہودہ افضل بھائی سے اب نہیں ملیں گے۔ شام کو رفیق چلی گئی۔
شام کا ذکر تھا کہ گھر میں ایک اضطراب و ہیجان کی صورت پیش ہو گئی۔ والد صاحب بار بار کہہ رہے تھے۔ "بڑے شرم کی بات ہے۔" عجلت اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے۔ میں کچھ نہ سمجھ سکی سوا اس کے کہ حامد خاں کا معاملہ ہے، اس وجہ سے میں چپ رہی۔ مگر میرے دل کو فکر لگ گئی۔ ابا جان امی جان کو لے کر علیحدہ باغ کی طرف والے برآمدے میں گئے۔ افضل بھائی اپنے کمرے میں بند تھے اور میں چپکے سے غسل خانے میں پہنچ کر لگی کان لگا کر باتیں سننے۔ جو کچھ بھی میں نے سنا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ"بڑی شرم کی بات ہے!" کیونکہ حامد خاں دو دن سے تقیسم جائیداد کے لیے جھگڑ رہے تھے جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ ان کے وکیل کا نوٹس آیا ہے کہ تین یوم کے اندر اندر حساب فہمی کر کے چپے چپے کا بٹوارہ کردو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک شخص بیٹے کی طرح ایک لڑکے کی پرورش کرتا ہے۔ اس کی جائیداد اپنی جائیداد سمجھ کر دیکھتا بھالتا ہے۔ حد یہ کہ اپنی بیٹی دینا منظور کر لیتا ہے اور لڑکے بدتمیزی ملاحظہ ہو کہ اس محسن کے احسانات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "اکبر کے ساتھ جو بیرم خان نے کیا۔ اس سے انکار نہیں مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ بجائے اکبر کے دلی کے تحت کے مالک خانخاناں رہیں۔" غضب خدا کا۔ "والد صاحب نے کہا۔ "اس بدتمیز چھوکرے نے میرا نام بیرم خاں رکھ دیا۔ لوگوں سے کہتا ہے کہ میں بیرم خاں ہوں!"
نتیجہ ظاہر ہے۔ "ہم اپنی لڑکی ایسے سرکش کو کیوں دیں؟"
(231)
الگ ہے اور کیا فائدہ جو ناک چوٹی کاٹ کراسے نکالنا پڑا۔" اور پھر میں نے زور دے کر کہا:
"میں آپ کو روزانہ میٹھے ٹکڑے پکا کر کھلاؤں گی۔"
رفیق نے کہا "جھوٹی چڑیل کہیں کی سب خود کھا جائے گی۔۔۔ آپ اس کی باتوں میں نہ آئیے گا۔"
افضل بھائی کے ہوش اڑ گئے۔ رفیق نے وہ ملامت کی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔"میں نہیں سمجھتی تھی کہ آُ مجھے اس لائق نہ سمجیھں گے اور اس مردی پر عاشق ہو جائیں گے۔ صورت نہ شکل۔ بھاڑ میں ستے نکل۔ پھوہڑیا کہیں کی۔ جہاں جائے گی مار جوتیاں نکالی جائے گی' بڑی آئی وہاں سے۔"
افضل بھائی بچے نہ تھے۔ ان کے ہوش جاتے رہے۔ اٹھ کر بھاگنے جو لگے تو میں نے ہاتھ پکڑا لیکن اماں جان کی جو آواز آئی تو ہم نے چھوڑ دیا۔ ہم دونوں اپنے کمرے میں آئے۔ ہنسنے کی کوشش کی مگر بجائے ہنسی کے غصہ اور رنج تھا، رفیق اپنے گھر جانے والی تھی۔ مگر اس وقت رک گئی اور ہم دونوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اس بیہودہ افضل بھائی سے اب نہیں ملیں گے۔ شام کو رفیق چلی گئی۔
شام کا ذکر تھا کہ گھر میں ایک اضطراب و ہیجان کی صورت پیش ہو گئی۔ والد صاحب بار بار کہہ رہے تھے۔ "بڑے شرم کی بات ہے۔" عجلت اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے۔ میں کچھ نہ سمجھ سکی سوا اس کے کہ حامد خاں کا معاملہ ہے، اس وجہ سے میں چپ رہی۔ مگر میرے دل کو فکر لگ گئی۔ ابا جان امی جان کو لے کر علیحدہ باغ کی طرف والے برآمدے میں گئے۔ افضل بھائی اپنے کمرے میں بند تھے اور میں چپکے سے غسل خانے میں پہنچ کر لگی کان لگا کر باتیں سننے۔ جو کچھ بھی میں نے سنا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ"بڑی شرم کی بات ہے!" کیونکہ حامد خاں دو دن سے تقیسم جائیداد کے لیے جھگڑ رہے تھے جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ ان کے وکیل کا نوٹس آیا ہے کہ تین یوم کے اندر اندر حساب فہمی کر کے چپے چپے کا بٹوارہ کردو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک شخص بیٹے کی طرح ایک لڑکے کی پرورش کرتا ہے۔ اس کی جائیداد اپنی جائیداد سمجھ کر دیکھتا بھالتا ہے۔ حد یہ کہ اپنی بیٹی دینا منظور کر لیتا ہے اور لڑکے بدتمیزی ملاحظہ ہو کہ اس محسن کے احسانات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "اکبر کے ساتھ جو بیرم خان نے کیا۔ اس سے انکار نہیں مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ بجائے اکبر کے دلی کے تحت کے مالک خانخاناں رہیں۔" غضب خدا کا۔ "والد صاحب نے کہا۔ "اس بدتمیز چھوکرے نے میرا نام بیرم خاں رکھ دیا۔ لوگوں سے کہتا ہے کہ میں بیرم خاں ہوں!"
نتیجہ ظاہر ہے۔ "ہم اپنی لڑکی ایسے سرکش کو کیوں دیں؟"