یہاں کب کسی کے نشاں رہ گئے ہیں
جو مٹ کر چلے ہیں وہ سب کہہ گئے ہیں
۔۔دوسرا مصرع وا ضح نہیں۔ مٹنے سے یہاں کیا مراد؟
زمانے کی ساری خوشی تهی ہماری
زمانے کے سارے ستم سہہ گئے ہیں
÷÷زمانے کی خوشی والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔
کرو آج ماتم اے نوحہ گرو تم
سنا ہے تمہارے بهی کچه بہہ گئے ہیں
÷÷نوحہ گر کیا پہلے خاموش تھے جو ان کو ماتم کا مشورہ دیا جا رہا ہے؟ دوسرے مصرع میں بات مکمل نہیں، ’تمہارے کچھ رشتے دار، کچھ دوست، یا کم از م لوگ ہونا تھا۔
نہیں کوئی تیرے سوا اب ہمارا
ہمیں جاتے جاتے وہ کیا کہہ گئے ہیں
÷÷درست
دیئے کچه امیدوں کے جلتے ہیں اب بهی
مگر حسرتوں کے مکاں ڈه گئے ہیں
۔÷÷دو لخت شعر ہے۔ مکانوں اور دیون کا آپسی تعلق کچھ نظر نہیں آتا۔
عظیم اپنی منزل قریب آ گئی ہے
وہ دیکهو تو رہبر کہاں رہ گئے ہیں
÷÷درست، بلکہ خوب
مجموعی طور پر مجھے اس غزل میں قافیہ بلکہ تک بندی ہی زیادہ نظر آئی۔