عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
آمین
معذرت آپ کے سوالوں کے جوب میں کچه نہیں کہہ سکا
 

الف عین

لائبریرین
یہاں کب کسی کے نشاں رہ گئے ہیں
جو مٹ کر چلے ہیں وہ سب کہہ گئے ہیں
۔۔دوسرا مصرع وا ضح نہیں۔ مٹنے سے یہاں کیا مراد؟

زمانے کی ساری خوشی تهی ہماری
زمانے کے سارے ستم سہہ گئے ہیں
÷÷زمانے کی خوشی والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔

کرو آج ماتم اے نوحہ گرو تم
سنا ہے تمہارے بهی کچه بہہ گئے ہیں
÷÷نوحہ گر کیا پہلے خاموش تھے جو ان کو ماتم کا مشورہ دیا جا رہا ہے؟ دوسرے مصرع میں بات مکمل نہیں، ’تمہارے کچھ رشتے دار، کچھ دوست، یا کم از م لوگ ہونا تھا۔

نہیں کوئی تیرے سوا اب ہمارا
ہمیں جاتے جاتے وہ کیا کہہ گئے ہیں
÷÷درست

دیئے کچه امیدوں کے جلتے ہیں اب بهی
مگر حسرتوں کے مکاں ڈه گئے ہیں
۔÷÷دو لخت شعر ہے۔ مکانوں اور دیون کا آپسی تعلق کچھ نظر نہیں آتا۔

عظیم اپنی منزل قریب آ گئی ہے
وہ دیکهو تو رہبر کہاں رہ گئے ہیں
÷÷درست، بلکہ خوب
مجموعی طور پر مجھے اس غزل میں قافیہ بلکہ تک بندی ہی زیادہ نظر آئی۔
 

عظیم

محفلین
آج سوچا تها کچھ نہ بولوں گا
چپ کے آنچل میں چهپ کے سو لوں گا

میرے لفظوں کو تولنے والے
تیرا اک اک بیان تولوں گا

دل کے زخموں کا کیا کروں ظالم
داغ دامن کے خیر دهو لوں گا

تو جو کہہ دے تو رازداں میرے
ساری دنیا کے راز کهولوں گا

کم نصیبی ہو یا مری غفلت
دهول ہوگی جدهر کو ہو لوں گا

تیرے اک اک ستم پہ دلبر، میں
عمر باقی کی ہنس کے رو لوں گا

اک نظر دیکهنے دے ورنہ سن
روزِ محشر نہ آنکھ کهولوں گا

سامنے آ کہ اب نہیں ممکن
تجھ کو دیکهے بغیر سو لوں گا

مجھ کو کہتے ہو کیوں برا صاحب
عیدِ قرباں ہے جان تو لوں گا

مجھ کو نفرت ہے تیری گلیوں سے
شہر ِغفلت ہے سچ تو بولوں گا

دور اپنوں سے غیر میں مر کے
خود ہی لاشے کا بهار ڈهو لوں گا

پاس بیٹهے ہیں میرے چارا گر
کیوں میں اپنا جگر ٹٹولوں گا

میرے مالک تو نم ذرا کر دے
بیج ہستی میں دم کے بو لوں گا

اس سے زیادہ نجانے کیا جگ میں
سب سے میٹها عظیم بولوں گا

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دور کشتی سے اب کنارہ کر
غرق دریا میں ہر ستارا کر

اب تو رنگت ہی جا چکی ہو گی
میرا لہجہ نہ تو سنوارا کر

کس نے رکها ہے یاد مجھ کو بهی
میرے مالک کوئی اشارہ کر

دل یہ کہتا ہے کیوں پکاروں میں
اس ستم گر کو تو پکارا کر

چهوڑ آوں گا تیرے پیچھے سب
جانے والے نہ بے سہارا کر

اس سے پہلے کہ جاں چلی جائے
دل کے زخموں کا کوئی چارہ کر

اک قیامت سی جاں میں اٹهتی ہے
زلف جاناں نہ بل اتارا کر

جاتے جاتے وہ کہہ گیا مجھ سے
میری یادوں کے سنگ گزارا کر

مجھ سے دنیا عظیم کہتی ہے
ذکر کرنا ہے گر ہمارا کر

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


غم کا پوچهو حساب دے دیں گے
سیدها سیدها جواب دے دیں گے

روز محشر کو تم سے ہر جائی
ہم کو اپنا ثواب دے دیں گے

دل جو دیتے ہیں جان تک اپنی
اس کو اک دن جناب دے دیں گے

دهول راہوں میں کیوں اڑاتے ہو
تم کو رستے سراب دے دیں گے

کیوں ڈراتے ہو ان کو محشر سے
جان خانہ خراب دے دیں گے

ساری دنیا کے میکدے ہم کو
ایک قطرہ شراب دے دیں گے ؟

ہم نے مانگی تهی اک خوشی اس سے
جس نے لکها عذاب دے دیں گے

اپنے دل سے لگا کے رکهو گر
تم کو غم کی کتاب دے دیں گے

ان سے پوچهو عظیم خوابوں میں
ہم کو آ کر گلاب دے دیں گے ؟

 
اچھی غزل ھے داد قبول فرمائیں.

یه مصرع اس ناچیز کے ادراک سے باھر ھے اگر تھوڑی سی وضاحت ھوجاتی تو

ﺭﻭﺯ ﻣﺤﺸﺮ ﮐﻮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﺮ
ﺟﺎﺋﯽ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ
ﮔﮯ
 

عظیم

محفلین
مجھے دیکھ لے میں وہی ہوں کیا ؟ تری جستجو میں جو مر گیا
وہی ناتواں ، وہ شکستہ پا، جو سفر کی حد سے گزر گیا

کبھی اس طرف بھی نگاہ کر، کہ رقیب میرے بھی کہہ سکیں
مجھے رشک سے کہ نگاہ میں ، تو بھی یار کی ہے اُتر گیا

رہے کون دشتِ جنوں میں اب ؟ مرے ساتھ میری وفات تک
مری ابتدائے حیات میں، مجھے عشق تنہا سا کر گیا

دمِ واپسی جو نصیب ہو ،تری اک جھلک تو میں کہہ سکوں
تھا میں جس سفر پہ چلا خدا ،نہیں رائیگاں وہ سفر گیا

پسِ مرگ آئیں گے ڈھونڈنے ،جو عظیم تجه سے تھے کہہ گئے
کبھی پوچھنے بھی نہ جائیں گے، کسی شخص سے تُو کدھر گیا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ہو گی کیا حالت ترے بیمار کی
جب نظر تو نے ادهر دلدار کی

ہم نے پائی کب زمانے سے عظیم
اس نگر میں قدر و قیمت پیار کی

واہ رے قسمت ساری دنیا سے الگ
لگ رہی ہے بے رخی غم خوار کی

دین و مذہب چهوڑے جاتے ہیں یہاں
ہم کو کافی ہیں جفائیں یار کی

دل لگی تهی پر لگی دل کو وہ آگ
جو بجهی تو جل اٹهی کردار کی

پهول مہکیں گے چمن میں باغباں
کیا دعا تو نے بتا اس بار کی

جان جائے گی ترے ہجراں میں اب
آ بهی جا نا چهوڑ ضد انکار کی

پوچهنے والوں نے پوچها تها عظیم
ٹھان لی کیا تم نے اب اس پار کی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top