عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین

عین ممکن تھا خود کشی کرتے
جو زمانے سے دوستی کرتے

خُوش ہیں اِس بات پر ہماری آپ
بات کرتے تو آپ کی کرتے

درد میں وہ قرار پایا ہے
ہوتے کافر جو ایک سی کرتے

ہم جو کرتے ہیں روز وحشت میں
کاش وہ ذکر اور بھی کرتے

تُو پہ تُم سے خطاب کرتے ہم
آپ کہنے پہ ہم بھی جی کرتے

 

عظیم

محفلین

کیا اب اتنا ستایا جاؤں گا
تیرے در سے اُٹھایا جاؤں گا

آپ کی اس حسین چوری سے
حیف میں بھی چرایا جاؤں گا

راہِ عشقِ بتاں سے گزروں پر
شیخ صاحب بلایا جاؤں گا

میں پیالہ ہوں کچی مٹی کا
توڑ کر پھر بنایا جاؤں گا

حرف ہوں کوئی اسطرح کا میں
لکھ لکھا کر مٹایا جاؤں گا

خوف آتا ہے اپنی حالت سے
حشر سے کیوں ڈرایا جاؤں گا

سوچتا ہوں عظیم دنیا میں
اور کب تک رلایا جاؤں گا


 

عظیم

محفلین


دوست احباب ڈھونڈتا ہوں مَیں
نت نئے خواب ڈھونڈتا ہوں مَیں

در کھلا ہے کسی کا مجھ پر اور
چند اِک باب ڈھونڈتا ہوں مَیں

تلخیاں اپنی ہی بتانے کو
اپنے میں تاب ڈھونڈتا ہوں مَیں

دیکھ پاتا نہیں اُجالوں کو
اور مہتاب ڈھونڈتا ہوں مَیں

اِن حقیقت پسند لوگوں میں
ایک سو خواب ڈھونڈتا ہوں مَیں

 

عظیم

محفلین



سنو کیوں آزماتے ہو
ہمارا دل جلاتے ہو

اگر ہیں دوریاں قسمت
تو کیوں نزدیک آتے ہو

خوشی سے مر نہ جائیں ہم
ہمیں جینا سکھاتے ہو

ہماری بیخودی پر تُم
کہو تو مسکراتے ہو

میں جتنا بھولنا چاہوں
تُم اتنا یاد آتے ہو

تمہیں یہ علم تو ہو گا
ہمارا دل دکھاتے ہو

کبھی ہنس کر بتا ہی دو
کہ آخر کیوں رلاتے ہو

میں تُم سے چھپتا پھرتا ہوں
مگر تم ڈھونڈ لاتے ہو

عظیم ایسا بھی کیا جینا
کہ مرتے روز جاتے ہو



 

عظیم

محفلین


اے جنون اب چین آنے دے مجھے
دشت و صحرا چھوڑ جانے دے مجھے

بھاگ جاؤں میں نہ خود اپنے سے دور
اپنی کُچھ پہچان پانے دے مجھے

دے دیا ہے غم زمانے کا اگر
آنکھ سے دریا بہانے دے مجھے

واسطے اس عشق کے دیتا ہوں مَیں
ہو سکے تو مسکرانے دے مجھے

کب تلک بھٹکا پھروں اس دشت میں
اب کہیں جھگی لگانے دے مجھے



 

عظیم

محفلین


پہلے دل تها جلا ہوا یارو
اب مکمل ہی جل چکا ہوں میں

اپنی آنکهوں سے گرنے والا ہوں
اپنے اشکوں میں ڈهل چکا ہوں میں



 

عظیم

محفلین


ٹھوکریں مار پر زمانے دیکھ
کم ستائے ہیں یہ دوانے دیکھ

میرا دل وعظ کیا نصیحت لے
یہ مری آپ کی مانے دیکھ

شوق مَیں در بدر بھٹکتا ہوں
ذوق میرے کے تُو ٹھکانے دیکھ

جل بجھے اپنے ہی مکیں سے آ
اِن پرندوں کے آشیانے دیکھ

میں تو صاحب زمان تکتا ہوں
تُو نے دیکھے ہیں تُو زمانے دیکھ


 

عظیم

محفلین


بات بے بات روٹھ جاتے ہو
تُم بھی تو یار ہو ستاتے ہو

دیکھ لو کس طرح کا بھولے تُم
ہم کو کس طور یاد آتے ہو

امتحاں چاہتوں کا ہے مقصود
یا مرا ضبط آزماتے ہو

میں بہت دور آ گیا خود سے
اور تُم پاس تک نہ آتے ہو

کس تعلق کے واسطے میرے
ہر تعلق کو توڑ جاتے ہو

سُن تو لو آہ میری آہوں کو
اور نغموں کو گنگناتے ہو

یاد رکھنا وہ حشر کا دن بھی
یُوں قیامت جو تُم اٹھاتے ہو

کیا تمہیں عشق صاحب ایسے ہی
چیختے ہو کہ بڑبڑاتے ہو

کوئی سنتا ہے کب تمہاری بات
تُم بڑے شوق سے سناتے ہو



 

عظیم

محفلین



دھک جاتے ہیں اُن کے نام سے ہم
گئے یارو اب اپنے کام سے ہم

ہمیں اُن کی نگاہوں سے ہے مطلب
غرض کیسی رکھیں گے جام سے ہم

 

عظیم

محفلین


اجازت ہو تو تھوڑا مسکرا دوں
گھڑی پل کو تمہارا غم بھلا دوں

ستم جو آپ نے مُجھ پر کئے ہیں
زمانے کو میں جا جا کر بتا دوں

اب ایسی زندگی کی کیا دعا ہو
میں اپنے آپ کو کیوں بد دعا دوں

ذرا سا رخ بدل دوں سوچ کا اِس
ذرا سا فکر کا مکھڑا سجا دوں

مرے نالے نہیں جاتے یہاں سُن
بھلے ہی ناچ کر گا کر سنا دوں


 

عظیم

محفلین


دُور اپنوں سے لا کے مارا ہے
واہ کیا آپ کا سہارا ہے

جانتے ہیں وہ کس طرح اُن کو
ہم نے ہر حال میں پکارا ہے

جان باقی نہیں رہی لیکن
شخص اک جان سے بھی پیارا ہے

کیا بتائیں کے کس طرح رو کر
ہم نے اِس عمر کو گزارا ہے

آپ اپنی ہی محفلوں میں سب
دیکھئے تو کوئی ہمارا ہے



 

عظیم

محفلین



کون سنتا ہے اب ہماری بات
دن بھی لگنے لگا اندھیری رات

اِس مقدر کے آزمائے کو
جیت کیسی عظیم کیسی مات

آنکھ والے نہ دیکھ پائیں گے
ہم لگائیں گے اُن پہ ایسی گھات

وقت پڑنے پہ چھوڑ جاتے ہو
ساتھ والے یہ ساتھ بھی ہے سات

تُم بھی پگلا گئے ہو صاحب کیا
خود سے کرتے ہو آپ اپنی بات






 

عظیم

محفلین


اچھے اچھے بھی ہار جاتے ہیں
کھیل ہم کھیل کے دکھاتے ہیں

ہونے لگتی ہے آپ سے وحشت
لوگ جب خوب مسکراتے ہیں

ہم بھلے خوش ہیں دل لگا کر پر
جان جانے سے ڈر سا جاتے ہیں

آپ کرتے ہیں بات اوروں کی
ہم پہ گزری ہے جو بتاتے ہیں

روز بیٹھے کسی کی یادوں میں
شعر کہتے ہیں گنگناتے ہیں

اک یہی کام رہ گیا باقی
ہم نہ پیتے ہیں اب نہ کھاتے ہیں

جانتے ہیں عظیم کیا کچھ لوگ
عشق میں آپ مر ہی جاتے ہیں





 

عظیم

محفلین


جس قدر چاہئے حیا کرتے
آپ سے بھی نہیں ملا کرتے

درد راس آ گیا تھا دل کو کیوں
اپنے ہر درد کی دوا کرتے

رہ گئی چاہ ایک ہی اب تو
ورنہ دل کھول کر دعا کرتے

کھا کے آئے قسم وفاؤں کی
اُن جفاؤں پہ مت وفا کرتے

اُس سے شکوہ عظیم کیسا ہو
ہم ہی تھکتے تھے التجا کرتے



 

عظیم

محفلین


پگلا گئے ہو صاحب
غم کھا گئے ہو صاحب

کیوں شہر سے نکل کر
تُم آ گئے ہو صاحب

دل لگ گئے پہ کیونکر
پچھتا گئے ہو صاحب

کیا حالِ دل ہے ایسا
شرما گئے ہو صاحب

اتنے سے عشق پر ہی
گھبرا گئے ہو صاحب

آتے ہی شہر بھر میں
تُم چھا گئے ہو صاحب

کیا کیا لکھا نہ دیکھا
لکھوا گئے ہو صاحب

گویا کہ رحم خود پر
اب کھا گئے ہو صاحب​
 
آخری تدوین:
Top