عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین



وہ نہیں آئے بلاوے پر مرے
رہ گئے سجتے سجائے در مرے

آ بھی جائیں وہ اگر بھولے سے تو
کون بیٹھا ہے جناب اب گھر مرے

سوچتا ہوں دور کی لیکن عظیم
اس سے آگے جل نہ جائیں پر مرے

ہائے اُس نے رکھ دیا دنیا کا بھار
آسماں جیسے بچھا ہے سر مرے

کیا عظیم اُن سے کروں عہدِ وفا
جا نہ پائے چاہتوں کے ڈر مرے

 

عظیم

محفلین


جب بھی سوجھی دور کی سوجھی مجھے
روشنی میں نور کی سوجھی مجھے

وعظ سنتے ہی تمہارا شیخ بات
کیوں نہ جانے حور کی سوجھی مجھے


 

عظیم

محفلین


ہم کوئی دعوہ کریں ہم کون ہیں
آپ کی خاطر مریں ہم کون ہیں

اِن بہاروں میں بھی خوش ہو ہو کے پھول
ہم نہ دامن میں بھریں ہم کون ہیں

اِک تمہاری آرزو دل میں لئے
ہر مسافت طے کریں ہم کون ہیں

کیا کسی کی آنکھ میں آئیں گے اشک
ہم جئیں یا ہم مریں ہم کون ہیں

صاحب اب فرصت کے مل جانے پہ ہم
جا پتا اپنا کریں ہم کون ہیں


 

عظیم

محفلین


آپ خود کو جلا کے بیٹھے ہیں
اک تماشا لگا کے بیٹھے ہیں

کیجئے کب تلک ستم بھی آپ
وقت کو ہم دبا کے بیٹھے ہیں

ڈھونڈنے ہم چلے تھے اپنا آپ
اور خود کو گنوا کے بیٹھے ہیں

جانتے ہو تمہاری محفل میں
چونکڑی ہم بچھا کے بیٹھے ہیں

کیوں الجھتے ہیں ہم زمانے سے
کیونکہ دامن چھڑا کے بیٹھے ہیں

اب نہ آئے جو خون آنکھوں میں
حیف کیسا بہا کے بیٹھے ہیں

درد اِس دل میں وہ اُٹھا ہے اب
دل کو پتھر بنا کے بیٹھے ہیں

تھی ہماری عظیم کم عمری
چوٹ عمروں کی کھا کے بیٹھے ہیں

کوئی آتا نہیں تسلی کو
دوست دشمن بنا کے بیٹھے ہیں



 

عظیم

محفلین



صبح و شام تیرا ہی نام لب پہ آتا ہے
اک یہی زمانے میں کام ہم کو بھاتا ہے

سوچتا ہوں آگے کی پر زمانہ پیچھے ہی
چھوڑتا ہوا آیا اب دھکیل جاتا ہے

یہ وہی ہے ناداں جو غم پہ بین کرتا تھا
اب یہی زمانے پر بیٹھ مسکراتا ہے

دیکھتی رہی دنیا ہم مقام تک پہنچے
رہنما ہمیں سیدھا راستہ بتاتا ہے

اور کُچھ نہیں جانیں بس یہ جانتے ہیں ہم
شعر میں سکوں سا ہے کچھ قرار آتا ہے






 

عظیم

محفلین


چشمِ تر سے لہو بہانا ہے
یُوں مقدر پہ مسکرانا ہے

تُم ہمیں چھوڑ جاؤ گے جس دن
ہم نے دنیا کو چھوڑ جانا ہے

جب سے تُم دوست ہو گئے ہو نا
تب سے دشمن بنا زمانا ہے

کیا یہی ہے وفاؤں کا مطلب
کیا یہی دن ہمیں دکھانا ہے

شعر کیسا کہاں غزل صاحب
ہم کو رونے کا اک بہانا ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


دل لگایا ہے کیوں رہوں خاموش
خون مارے نہ میرا کیونکر جوش

میری آوارگی نہ دیکھی کیا
عقل کیسی مجھے کہاں کا ہوش

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


رو رو کے دل کا حال سناتا رہوں گا میں
بھینسوں کے آگے بین بجاتا رہوں گا میں

کچھ تو لے جاؤں ساتھ زمانے سے حشر میں
تیرے غموں کا مال کماتا رہوں گا میں

جانے پہ اُس کمال کے محفل سے شوق کی
جانے وہ کس کمال سے جاتا رہوں گا میں

جب تک کہ اُس کی یاد ہے سینے میں جاگتی
تھپ تھپ کے اپنا آپ سلاتا رہوں گا میں

رونے کا فائدہ ہی نہیں بزمِ یار میں
اوروں کے ساتھ ہنستا ہنساتا رہوں گا میں

اس جستجو میں آپ کی کھونا ہے خود کو تو
ہر بار آپ خود کو گنواتا رہوں گا میں

سن کر بھلائے لاکھ زمانہ کسی کی بات
نغمے تمہاری چاہ کے گاتا رہوں گا میں

جاتا ہے جس طرف کو یہ اب کارواں عظیم
شاید اب اُس ہی سمت سے آتا رہوں گا میں







 

عظیم

محفلین


دل میں کُچھ اعتبار باقی ہے
ہاں ترا انتظار باقی ہے

اور کُچھ بھی نہیں زمانے میں
دوست باقی تھے یار باقی ہے

یعنی خود کو میں آسرا دوں گا
اب بھی کچھ اختیار باقی ہے

کل پہ کب تک اُٹھا کے رکھو قتل
اک ترا جاں نثار باقی ہے

گردشِ آسمان سکتہ کھا
وقت پر انحصار باقی ہے


 

عظیم

محفلین



کیا کوئی مجنون کو بتلائے گا
کسطرح آئے سکون اور آئے گا

آپ ہی کہئے دانستہ طور پر
کب تلک اپنا کہا مٹ پائے گا

جانے والا ہوں بتوں کو چھوڑ کر
اب خدا سے واسطہ بڑھ جائے گا

دل کے لگ جانے پہ ہم سا ناتواں
ہو سکے تو میر سا پچھتائے گا

لے چلیں باہر کہیں خود کو عظیم
گھر میں بیٹھے جی بہت گھبرائے گا


 

عظیم

محفلین




مُجھ سے کیونکر خفا سی رہتی ہے
دل میں جو اِک بلا سی رہتی ہے

پاس رہنے پہ بھی تو اُن کی یاد
ہم سے تھوڑی جدا سی رہتی ہے

میری نظروں میں تم نہیں موجود
کیوں نہ جانے حیا سی رہتی ہے

اور تو سب عطا کِیا ہم کو
ایک خوبی وفا سی رہتی ہے

یہ جو لفظوں کو تولتا ہوں میں
مُجھ میں تھوڑی انا سی رہتی ہے

میں بھی دنیا سے روٹھ جاؤں گا
یہ بھی مجھ سے خفا سی رہتی ہے





 

عظیم

محفلین


کیا کہوں کس لئے دھڑکتا ہے
دھڑکا کیسا کہ دل پھڑکتا ہے

ایک میرا وجود ہی کیونکر
آپ کی آنکھ میں رڑکتا ہے

ساتھ والوں کے گھر کوئی آئے
بُوہا اپنا ہی کیوں کھڑکتا ہے

جس کو آتے ہوں سب مطالب وہ
بات کرنے پہ کیوں کڑکتا ہے

دل میں صاحب کے ہے الاؤ یُوں
روز بجھنے پہ جل بھڑکتا ہے






 

عظیم

محفلین
کس کو دنیا میں غم نہیں ہوتا
شور میرا ہی کم نہیں ہوتا

تیری گلیوں کو چھوڑ جاؤں میں
خود پہ ایسا ستم نہیں ہوتا

کیا غریبی ہے اُس وصال کے وقت
اپنے سینے میں دم نہیں ہوتا

خون تک آنکھ سے بہا ڈالو
دل کا دامن ہے نم نہیں ہوتا

خوش ہوں صاحب میں چوٹ کھا کر بھی
سب کی قسمت میں غم نہیں ہوتا

میں ہی میں خود کو میں پکاروں گا
ہم فقیروں سے ہم نہیں ہوتا

عمر لگتی ہے جاں سے جانے میں
'' حادثہ ایک دم نہیں ہوتا''​
 

عظیم

محفلین



ان محافل میں یار میرا ہے
کیا کوئی غم گسار میرا ہے

منتظر ہوں میں آپ کا کب سے
آپ کو انتظار میرا ہے

کیا کسی اور کو تسلی دوں
دل ہی یُوں بے قرار میرا ہے

ختم کر دوں یہ روز کا ماتم
مُجھ پہ کب اختیار میرا ہے

ایک میں ہوں غضب کا ضدی اور
اک دلِ داغ دار میرا ہے



 

عظیم

محفلین





سبھی جانتے ہیں کیا کیا نہیں غم اُٹھا رہے ہو
ارے خیر تو ہے صاحب بڑا مسکرا رہے ہو

اُنہیں جائے کوئی کہہ دے ہمیں بھول جانے والے
تمہیں سوچتے ہیں بیٹھے ہمیں یاد آ رہے ہو

کہوں اُن سے گر ہو جگرا ہو مجھے اگر اجازت
کہ جناب دل میں رہ کر مرا دل دکھا رہے ہو

میں یہ پوچھتا ہوں تُم سے اے غمِ جہان والو
مُجھے آسماں کا دُکھ ہے مجھے کیوں ستا رہے ہو

اجی آیا بات سننے یہی خود سے بولتا ہوں
جو گمان ہو گیا ہے کہیں تم بلا رہے ہو




 

الف عین

لائبریرین
عظیم کی شاعری سے قطع نظر۔ مجھے یہ جان کر تعجب ہوا کہ بیک سلیش شفٹ سے یہاں بھی تخلص کا نشان بنتا ہے۔ لیکن جب یہاں ونڈوز انگریزی کی بورڈ میں ٹیکسٹ باکس میں لکھنے کی کوشش کی تو ممکن نہیں ہوا۔ ثابت ہوا کہ محفل کے کی بورڈ میں تخلص کا نشان نہیں ہے۔ ہاں اردو کی بورڈ میں اکثر میں اسی کنجی پر یہ علامت میپ کی گئی ہے۔
 
Top