عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

لاکھ ہم سر اپنا ہی پھوڑا کیے
کچھ نصیحت آئی تھی اب نہ کام

اب ذرا بیٹھے ہیں خود ہی سوچ کر
کِس جنوں سے یہ دھنی کرتا ہے کام

اس سے پہلے کہ نئی غزلیں کہیں
نظرِ ثانی کرلیں اپنا سب کلام


ہم دُعا کرتے ہیں یہ صبح و مساء
شاعری کی اِن کے ہاتھ آئے زمام


اپنی سب تُک بندیوں کو چھوڑ دیں
شاعرِ محفل رکھیں ہم ان کا نام
 

عظیم

محفلین


میری تک بندیاں سنا دیتے
غصہ ہوتے بھی مسکرا دیتے

لاکھ دشنام دیں ہمیں یہ لوگ
اپنا یہ کام تھا دعا دیتے

جرمِ الفت پہ آپ ہی آ کر
اب ہماری سزا سنا دیتے

آ سنمبھالے کوئی ہمیں یارو
تھک گئے خود کو آسرا دیتے

بس میں ہوتا اگر ہمارے تو
دل ہے کیا چیز جاں گنوا دیتے

جو عنایات ہم پہ کی جاتیں
وہ بھی اِس شوق پر لٹا دیتے

ہم ہیں عاشق عظیم صاحب کیوں
اپنے محبوب کو دغا دیتے


 

عظیم

محفلین
میری ایک سال پہلے کی تک بندیاں بهی حاضر ہیں - جب شاعری کا بهوت سوار ہوا تها سر پر -



آج سوچتا ہوں میں

لفظ لفظ لکھ ڈالوں
درد درد کہہ ڈالوں
اک جہان سے جا کر
پر مری زباں پر تو
اس عہد کا پہرا ہے
جو کیا گیا اُس سے
جس کے عہد و پیماں سے
دو جہان واقف ہیں


آج سوچتا ہوں میں

کچھ بیاں کا رُخ بدلوں
روز روز کا رونا
چیخنا چلانا سب
اُن کو اب نہیں بھاتا
اک غزل کبھی ان کے
ذوق کی نذر کر دوں
کچھ گلہ نہیں ہوگا
جس میں بے وفائی کا
جب جہاں دغا آئے
میں وفا وفا لکھوں
جب جہاں وفا آئے
میں دغا دغا لکھوں


آج سوچتا ہوں میں

آپ اپنی صورت کو
آئینوں میں جا دیکھوں
خال و خد وہی ہیں کیا
رنگ روپ ویسا ہی
آج تک ہے چہرے پر
ہجر کی مسافت کے
بعد جو نہیں رہتا
درد کی رفاقت کے
بعد جو نہیں رہتا


آج سوچتا ہوں میں

کل جو سوچ رکھا تھا
آج ہو نہیں پایا
آج سوچتا ہوں میں
کل کہ واسطے پھر سے
کچھ تو سوچ کر رکھ لوں
کل وہ ہو نہ ہو لیکن
یہ گلہ نہیں ہوگا
مجھ کو میری سوچوں سے
کاش سوچ لیتا میں




یہ مانا کفر الفت ہے
یہ جذبہ صرف ظلمت ہے

یہ بندوں کو خدا کر دے
یہ مذہب سے جدا کر دے

یہ دل میں درد سا بهر دے
یہ لا کر دشت میں دهر دے

یہ دنیا میں کرے رسوا
یہ رب سے بهی کرے شکوہ

یہ اپنی بات منوائے
یہ لاکهوں الجهنیں لائے

یہ زندہ مار ڈالے ہے
یہ پیروں خار ڈالے ہے

یہ ٹوٹے خواب تک جوڑے
یہ صحرا تک نہیں چهوڑے

ہے اجڑے باغ کے جیسا
یہ سایہ آگ کے جیسا

مگر یہ بهی حقیقت ہے
زباں جو کہہ نہ پائی ہے

کہ الفت سے پرے رہ کر
بهی میں نے چوٹ کهائی ہے

گو مذہب سے جدا بهی ہوں
میں خود اپنا خدا بهی ہوں

ہیں دشت و دہر بهی دیکهے
غموں کے قہر بهی دیکهے

ہوں رسوا آج بهی جگ میں
ہے خاک التجا پگ میں

ابهی بهی آنکھ کے موتی
ہزاروں خواب بنتے ہیں

مرے پاؤں کے چهالے ہیں
جو اکثر خار چنتے ہیں

مجهے مردہ ہی کہتے ہیں
جو میرے دیس رہتے ہیں

ہوں ایسے حال کا عادی
مجهے ایسا ہی رہنے دو

مری آنکهوں سے بہتے ہیں
سمندر گر جو بہنے دو

اسی ظلمت کے سائے میں
مجهے تا مرگ رہنے دو



گهٹ گهٹ کے اپنے آپ میں مر جائیں بهی تو کیوں
میت کو جگ کے سامنے دفنائیں بهی تو کیوں

وقت نجات کس کو خبر کب قضا ہوا
سر کو پٹخ کے خاک سے اترائیں بهی تو کیوں

چشمے بہائیں آنکھ سے اب کس کے واسطے
کس کو بلائیں راہ میں چلائیں بهی تو کیوں

لفظوں میں ڈهونڈتے ہیں طبیعت کے آئینے
چہرے ہماری چاہ کے دکه جائیں بهی تو کیوں

جیتے ہیں اس امید پہ مرنا ہے ایک دن
کرتے ہیں عشق آپ سے گهبرائیں بهی تو کیوں

ہم نے عظیم قتل کیا ہے ضمیر کا
کرکے گناہ رات میں پچهتائیں بهی تو کیوں



تمہارے ہجراں اداس بیٹهے خوشی کا ماتم منا رہے ہیں
وصال کے دن قریب آئے تو حسرتوں کو مٹا رہے ہیں

نظر نہ بهولی شباب تیرا ہے چاروں جانب سراب تیرا
خمار کیسا ہے تیرا ہم پر کہ چین اک پل نہ پا رہے ہیں

بہار نوچے گلاب سارے یہ خوشبووں کی انا کے مارے
جو ایک بلبل کی آہ تک کو خوشی کا ذریعہ بنا رہے ہیں

بس اک تمہاری ہی چاہ نے لوٹا یہ صبر ٹوٹا تو ساتھ چهوٹا
وگرنہ دهوکا تو خیر یوں بهی زمانے والوں سے کها رہے ہیں

ہماری امید رائیگاں ہے قرار دل کا نہ پا سکیں گے
تها جس تمنا پہ ناز ہم کو اسی کے صدمے اٹها رہے ہیں

کیا لوگ لائیں گے ڈهونڈ کر وہ محبتوں کے مقام سارے
کہ جن کا نقشہ تمام جگ کو ہمارے چهالے دکها رہے ہیں

جو ایک مصرعے کی رگ نہ جانیں جو اک بناوٹ کو شعر مانیں
غضب خدا کا عظیم ہم کو غضب کا لکهنا سکها رہے ہیں


مرے دل کی سر زمیں تو اک بوند کو بهی ترسے
تری زلف کی گهٹا بهی کہیں دور جا کے برسے

کسے خبر تهی کہ بهولے اپنی گلی کا رستہ
تری جستجو کو تهامے نکلے جو اپنے گهر سے

یہ حجاب کیا چهپائے تری نیتوں کی صورت
جب شرم ہی کا پردہ ہو اٹھ چکا نظر سے

تجهے اب خیال آیا مری وحشتوں کا جا کر
مری جان اب تو پانی بهی گزر چکا ہے سر سے

مرے دشمنوں کے جیسے مرے دوستوں کے چہرے
میں نہ دوستی کروں گا کسی دشمنی کے ڈر سے

کسی اور سے کیا مانگوں کوئی دوسرا نہیں ہے
مجهے چاہئے جو یارب ملنا ہے تیرے در سے

میں ہوں اک عظیم شاعر کہ بس اک خیال وحشت
یا وہ دشت کا مسافر لوٹا نہ جو سفر سے




خلوتیں مجھ کو ابهاریں تو ڈبوئے محفل
میں ہنسوں جب بهی تو جی بهر کے ہے روئے محفل

کس طرح مجھ کو گناہوں میں گهرا کہتے ہو
میرے اشکوں سے تو دامن کو ہے دهوئے محفل

میں حقیقت میں بهی خوابوں کے گهروندوں کا دیا
میرے خوابوں کو حقیقت میں سموئے محفل

اک جہاں ہے کہ جہاں خود جہاں نہیں جاتا
اک جہاں ہے کہ جہاں شان بهی کهوئے محفل

اب عیاں ہو کے رہوں گ میں ترے اشکوں میں
اب تو غزلوں کو بهی اشکوں سے بهگوئے محفل

کیا کسی نے مرے پہچان چهپا دی ان میں
میرے بکهری ہوئی سوچوں کو پروئے محفل

میں گمانوں میں رہا شب کو اندهیرے کیوں سیاہ
کیوں اندهیروں سے اجالوں میں ہے سوئے محفل

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


بر سر دار کهینچ لائی ہے
زندگی کیا کہ موت پائی ہے

جانتا ہے جسے قیامت شیخ
وہ تو اس رند کی دہائی ہے

آگے دیکهو گے کارواں والو !
دهول اپنی بہت اڑائی ہے

دل تو دل اس کی چاہتوں میں بیٹھ
روح تک رات بهر جلائی ہے

دوست احباب جانتا ہوں کیا
اب مری آپ سے لڑائی ہے

جیت میری ہوئی عظیم کہ میں
دل کے ہاتهوں شکست کهائی ہے

 

عظیم

محفلین



یہ زمانہ بھی مان جائے گا
اب نہ مجھ کو جہان بھائے گا

تیرا منگتا ہوں میں سوالی ہوں
غم کوئی اور جان کھائے گا

درد جب آپ کا دیا ہے تو
آپ کے نام سے ہی جائے گا

ذکر کرتا ہوں روز و شب جس کا
وہ مری آگہی بڑھائے گا

ہے مرض عشق کا مجھے لاحق
آپ اپنا علاج آئے گا

میرے نوحے جہاں سنے گا اور
نغمے میرے زمان گائے گا

صاحب ایسا غزل سرا ہوں میں
غالب احباب میں بٹھائے گا



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


یا مجھے زندگی نہ دی جاتی
یا تری آرزو نہ کی جاتی

یوں قبا تار تار تھی اپنی
عصرِ حاضر میں بھی نہ سی جاتی

ہو نہ پایا وگرنہ اپنے ساتھ
آج اپنوں کی دل لگی جاتی

ہم بھی کرتے سوال آخر کار
اور اوروں کی آگہی جاتی

خوب اچھا کِیا دِیا جو نام
عشق عبادت کو بندگی جاتی

 

عظیم

محفلین

مرے دکھڑے بھلائے جا رہے ہیں
کہیں نغمے سنائے جا رہے ہیں

ہے کوئی بات اس دل میں ہمارے
جسے جگ سے چھپائے جا رہے ہیں

خدا جانے ہمیں کیا ہو گیا ہے
سکوں اپنا گنوائے جا رہے ہیں

نہیں آتے اگر آنکھوں میں آنسو
بھلا کیوں مسکرائے جا رہے ہیں

یہ ہم ہی ہیں جو تیرے غم جہاں میں
تنِ تنہا اُٹھائے جا رہے ہیں

اگر دیوانگی ہے تو ہمیں کیوں
یہ اتنے وہم کھائے جا رہے ہیں

تمہیں کہہ دو ہمیں اس بزم والو
نہیں صاحب ستائے جا رہے ہیں

 

عظیم

محفلین

لو کہتے ہیں ذرا سا مسکرا دو
عظیم اپنے تمہارے غم بھلا دو

کہاں سنتے ہیں اب اُس شوخ کی ہم
ہمیں چاہے تلاوت کر سنا دو

وہی کیوں روٹھ کر بیٹھا رہے گا
خفا ہیں ہم بھی جاؤ اب بتا دو

کہا کتنی ہی بار اُس نازنیں سے
اگر ہے جرم الفت پر سزا دو

عظیم اِس بار مقطعے میں خدارا
تُم اپنے نام کا مطلب چُھپا دو





 

عظیم

محفلین

سنے گا کیا مری فریاد کوئی
کرے گا کیا کسی کو شاد کوئی

یہاں رونا ہوا ہر شب کا واجب
کہیں ہوتا پھرے آباد کوئی

اب اتنے بھی نہیں معصوم ہم لوگ
ہمارے غم کی دے جو داد کوئی

یہاں مطلب محبت کے جدا ہیں
بنی شیریں بنا فرہاد کوئی

ہمیں اس قید سے ہی انسیت ہے
ہوا صیاد سے آزاد کوئی

ہم اتنا بول کر جائیں گے صاحب
قیامت تک کرے گا یاد کوئی

عظیم اِس دور میں کھولی ہیں آنکھیں
ہوا آباد تو برباد کوئی








 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ہم تو بچے ہیں
دل کے کچے ہیں

جهوٹ کہتے تهے
آپ سچے ہیں

ہم برے مانا
سب تو اچهے ہیں

کن بهتیجوں کے
ہم بهی چچے ہیں

پیر صاحب جی
آپ بچے ہیں


 

عظیم

محفلین

جس قدر جتنا ستائے گا مجھے
آسماں پتھر بنائے گا مجھے

بھول جاؤں گا زمانے بھر کی عیش
غربتوں میں چین آئے گا

دیکھتا ہوں کب تلک میرا جنوں
دشت میں لاکر پھرائے گا مجھے

خوف کھاتا ہوں میں اپنے آپ سے
اے زمانے کیا ڈرائے گا مجھے

میری آنکھوں سے چھپا ہے کیوں بتا
اور کیوں چہرہ دکھائے گا مجھے

 
Top