عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین


آ بھی جا ضد چھوڑ دے انکار کی
دوستوں سے دشمنی بیکار کی

دیکھتا ہوں اپنے لفظوں کا میں روپ
اور کس کے حسن سے تکرار کی

نفرتوں کی دھوپ میں جلتا ہوں میں
ہو چکی بارش کہیں پر پیار کی

اور کوئی کام دنیا میں نہیں
بھا گئی مدح سرائی یار کی

خاک اپنی ہی نہیں ہم نے عظیم
چھان ماری ہے سمندر پار کی



 

عظیم

محفلین



چاہ میں چین کیا سکوں کیا ہے
عقل سے واسطہ جنوں کیا ہے

ہم بہاتے ہیں رات دن بیٹھے
اور نہیں جانتے کہ خُوں کیا ہے

 

عظیم

محفلین



رو رُلا کر مسکرانا آ گیا
گنگنا کر گنگنانا آ گیا

ہم بہاتے رہ گئے آنسو اُنہیں
چشمِ تر سے خُوں بہانا آ گیا

دیکھ کر تہذیب کا بنتا مذاق
اپنا ہی ٹھٹھا اُڑانا آ گیا

تیری نزدیکی نہیں قسمت میں لیک
مُجھ کو مُجھ سے دور جانا آ گیا

نت نئے رنگوں میں ڈھالے اپنا نقش
پھر کوئی قصہ پرانا آ گیا


 

عظیم

محفلین


دنیا والوں سے کیا گلا کرتے
ہم ہی اوروں جا ملا کرتے

سل نہ جاتے ہمارے دل کے زخم
پھول آنگن میں گر کھلا کرتے

ہم سے مجنون کر دکھا دیتے
چاکِ زخم جگر سِلا کرتے

حسرتیں رہ گئیں کہ جا کر ہم
اپنے ہی آپ سے مِلا کرتے

تھا یہ غم آپ کا عطا کردہ
کیوں کسی اور سے گلا کرتے





 

عظیم

محفلین


پوچھنے حال تک نہیں آتے
ہو چکے سال تک نہیں آتے

لوگ چلتے تو ہیں بہت چالیں
پر مری چال تک نہیں آتے

کس اذیت سے میں گزرتا ہوں
غیر کو حال تک نہیں آتے

کنکر آتے ہیں روز دالوں میں
آپ کے بال تک نہیں آتے

روز تکنے پہ آئینہ بھی اب
یاد وہ خال تک نہیں آتے

 

عظیم

محفلین


جانتا ہوں کہ دل دوانا ہے
کون کم بخت اِس کی مانا ہے

بھوک مٹنے کی ہے یہی صورت
آپ اپنے کو بیچ کھانا ہے

ہے سفر دور کا مجھے در پیش
اور اُن کے قریب جانا ہے

میں نے خود کھینچنا ہے اپنا آپ
اپنا لاشہ خود ہی اُٹھانا ہے

ہارنا چاہتا ہوں میں خُود سے
دیکھنا سب سے جیت جانا ہے

 

عظیم

محفلین



زمانے کے سارے خداؤں سے کہہ دو
ہمیں جل بجھے ہیں ہواؤں سے کہہ دو

کئے جا رہے ہیں جفاؤں کے بدلے
ستم گر کی ساری وفاؤں سے کہہ دو

ہمیں چاہئے خاک اُس در کی صاحب
حرم کے سبھی ان گداؤں سے کہہ دو

ڈبو دے گا اپنا سٍفینہ تو کیا ہے
ہمیں عشق ہے ناخداؤں سے کہہ دو

عظیم آج اپنے غموں کی کہانی
خوشی کے تمام افسراؤں سے کہہ دو






 

عظیم

محفلین


آپ لوگوں کا اعتبار نہیں
جی مجھے زندگی سے پیار نہیں

جانتا ہوں سکون کا مطلب
کیا کروں خود پہ اختیار نہیں

سو طرح آپ سے قرار کروں
اور انکار ایک بار نہیں

دوستی کیوں جہان سے رکھوں
جب مِرا یار ہی تو یار نہیں

چین اپنے ہو اس مقدر میں
ہم بھی دیکھیں کبھی قرار نہیں

سچ بتاؤں تمہیں اے میرے دوست
اب تمہارا بھی انتظار نہیں


 

عظیم

محفلین


لگ گیا دل آپ سے گھبرائیں کیا
مر ہی جب جائیں تو پھر پچھتائیں کیا

ہم سمجھتے ہیں ہماری بیخودی
عقل والے آ ہمیں سمجھائیں کیا

پھر کہیں آگے کا کرنا ہے سفر
پھر کوئی ٹھوکر کہیں سے کھائیں کیا

اُن کی نظروں نے چلائے تیر وہ
دل سے اب اپنے نکالے جائیں کیا

سوچتے ہیں اب ہماری لاش کو
کوئے مقتل سے اُٹھا دفنائیں کیا

کیوں کریں شکوہ زمانے سے عظیم
اب شکایت آپ سے دہرائیں کیا

یاد کرتے ہیں اُنہیں صاحب یہ ہم
آپ ہی جاکر اُنہیں جتلائیں کیا




 

عظیم

محفلین



دل گئے پر جان سے جاتے تھے ہم
کیا کہیں کس شان سے جاتے تھے ہم

اپنے پیروں کے تلے ہے اپنی خاک
ایک جھوٹی آن سے جاتے تھے ہم

 

عظیم

محفلین



راز چھپتا نہیں چھپانے سے
بات بنتی ہے کب بنانے سے

آ گئے تنگ لوگ بھی اب تو
مُجھ ستائے کو آ ستانے سے

کیا ہُوا ہے کوئی تو پوچھو آج
آؤ آ کرکے اِس دوانے سے

کاٹ کھاتی ہے میری تنہائی
کیا ملا محفلیں سجانے سے

اب تو آتا ہے خوف سا مُجھ کو
اِس نظاروں بھرے زمانے سے

ہو سکا غم عظیم کا کب کم
یار لوگوں میں بانٹ آنے سے






روز کہتا ہوں اپنے بابا کو
کوئی آتا نہیں بلانے سے




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


دیکھا ہو گا کسی نے مر جانا
شوق میں حد سے ہی گزر جانا

ہم بگڑ کر دکھائیں گے یارو
آپ اپنے تئیں سدھر جانا

اتنا آساں نہیں ہے اے ناصح
اپنے ہی آپ سے مکر جانا

سیکھے ہم سے اگر کوئی چاہے
دل کے اندر کہیں اتر جانا

روز دھتکارنا ہمیں اُن کا
روز اپنا وہاں مگر جانا

غنچہ ہوتے ہوئے بھی آتا ہے
ہم کو اک پھول ہو بکھر جانا

ہم چلے جا رہے ہیں اپنے راست
تم جدھر چاہو تُم ادھر جانا

کہتے رہتے ہیں رات دن صاحب
کُچھ نہیں جانتے اگر جانا

یوں تو عشقِ بتاں میں ہوتا ہے
چاہتے چاہتے ہی مر جانا

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



تُم کوئی نیک کام کر جانا
اس سے پہلے عظیم مر جانا

اور تو کچھ نہیں ہے کرنے کو
آسمانوں سے بیٹھ ڈر جانا

کیا خبر کون اُس مکاں میں ہے
ہم نے دیکھا ہی کب ہے گھر جانا

بے مروت اگر ہے دنیا تو
آپ دیکھیں مرا مکر جانا

جاتا جائے ہے جس طرف مجنوں
عقل والے ہو سب اُدھر جانا

ہو سکے گا تو ہم بھی دیکھیں گی
زندگانی کا یُوں گزر جانا

اِک اُسی در کے واسطے میرا
یاد آتا ہے در بدر جانا


 

عظیم

محفلین


تُم تو میرے تھے تُم ہی آ جاتے
آ مرا حوصلہ بڑھا جاتے

اور کس سے کروں میں دل کی بات
کون سنتا ہے تُم بتا جاتے

کب کہا اشک ہی بہاؤ آ
میرے غم پر ہی مسکرا جاتے

مُجھ سے پردہ اگر ضروری تھا
پہلے آداب ہی سکھا جاتے

ساتھ میرے تُم آ کے میرے شعر
میری غزلوں کو گنگنا جاتے

پاس آنے کا کب کہا تھا دوست
دور سے ہاتھ بس ہلا جاتے

ہوتی دل میں ہماری خاطر چاہ
اِس بلاوے پہ آج آ جاتے



 
Top