عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ بس روانی کی خاطر کچھ الفاظ کی نشست بدلی جا سکتی ہے
وہی ناتواں ، وہ شکستہ پا، جو سفر کی حد سے گزر گیا
یا تو دونوں جگہ وہی لایا جائے ورنہ پہلی بار میں وہ‘ اور اس کے بعد ‘وہی‘
اس مصرع میں
کہ رقیب میرے بھی کہہ سکیں
کو بآسانی ’مرے رقیب‘ کیا جا سکتا ہے
یہ شعر تو کافی اوبڑ کھابڑ ہے

دمِ واپسی جو نصیب ہو ،تری اک جھلک تو میں کہہ سکوں
تھا میں جس سفر پہ چلا خدا ،نہیں رائیگاں وہ سفر گیا
’خدا‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ میں سمجھ نہیں سکا۔ پہلا مصرع بھی یوں ہو تو بہتر ہے
تری اک جھلک جو نصیب ہو، دم واپسیں، تو میں کہہ سکوں
 

الف عین

لائبریرین
ہو گی کیا حالت ترے بیمار کی
جب نظر تو نے ادهر دلدار کی
اگر ’کیسی حالت ہے‘ کر دیں تو ؟؟؟


ہم نے پائی کب زمانے سے عظیم
اس نگر میں قدر و قیمت پیار کی
یا تو زمانے کو ہی الزام دیں یا شہر کو۔ دونوں میں ایک مجھے غیر ضروری لگتا ہے۔ شہر کی بجائے لفظ نگر بھی اس لفظیاتی ماحول مین اچھا نہیں
دین و مذہب چهوڑے جاتے ہیں یہاں
ہم کو کافی ہیں جفائیں یار کی
÷÷جفاؤں کا دین و مذہب سے رشتہ؟

دل لگی تهی پر لگی دل کو وہ آگ
جو بجهی تو جل اٹهی کردار کی
÷÷کردار کی کیا جل اتھی؟

پهول مہکیں گے چمن میں باغباں
کیا دعا تو نے بتا اس بار کی
÷÷دورا مصرع رواں نہیں، مکمل شعر بھی کچھ خاص نہیں
جان جائے گی ترے ہجراں میں اب
آ بهی جا نا چهوڑ ضد انکار کی
÷÷خلیل کا مشورہ بھی دیھ لو، ایک اور صورت
آ بھی جا، ضد چھوڑ دے انکار کی

پوچهنے والوں نے پوچها تها عظیم
ٹھان لی کیا تم نے اب اس پار کی
درست تو ہے لیکن مبہم ہے
 

عظیم

محفلین


خوف مٹ جانے کا ہم کو کها گیا
مر مٹے جب ہم تو جینا آ گیا

کس طرف جائیں بتا دے تو ابر
اک طرف برسا تو دوجی چها گیا

چهپ کے بیٹهے ہیں گناہوں میں گهرے
پر وہ ہم سے کیوں ہدایت پا گیا

دیکه لے کوئی نہ دامن کے وہ داغ
جن سے اپنا وصف تک شرما گیا

چپ نہیں رہتے کسی بهی شب کو ہم
ہم کو تیرا زکر کرنا بها گیا

نیند پیاری ہے نہ ہم کو خواب ہیں
کیوں تمہارا فہم دهوکا کها گیا ؟

مر نہ جائیں کیوں تڑپ کے آج ہم
اس کا خط لے کر پیام بر آ گیا

دیکهه کر اپنا تماشہ سا عظیم
کہہ رہے تهے میں کہا دہرا گیا


 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی غزل ہے ۔لیکن پہلے کچھ ٹائپنگ درست کرلیں۔ اور " تو ابر" کو "ابر تو" کردیں ابر کا وزن درد ہے نہ کہ جگر۔ پھر ماہرین دیکھیں لیں گے ۔
 

الف عین

لائبریرین
کس طرف جائیں بتا دے تو ابر
اک طرف برسا تو دوجی چها گیا
’ابر تو‘ کا صائب مشورہ ہے، لیکن دوسرا مصرع پسند نہیں آیا، ہندی میں دوجا ہوتا ہے، دو جی نہیں، لیکن جب ’دوسرا‘ آ سکے تو ’دوجا‘ کی کیا ضرورت ہے؟
ایک برسا دوسرا پھر چھا گیا۔ مثال کے طور پر۔

دیکه لے کوئی نہ دامن کے وہ داغ
جن سے اپنا وصف تک شرما گیا
واضح نہیں، شاید ’اپنا آپ‘ کہنے سے کچھ بات بنے


مر نہ جائیں کیوں تڑپ کے آج ہم
اس کا خط لے کر پیام بر آ گیا
پیام بر تقطیع میں نہیں آتا، محض پیمبر آےا ہے، اس کے مجازی معانی مختلف ہوتے ہیں۔ ڈاکیہ وغیرہ اسعما ل کرو ۔ یا ایک صورت
اس کا خط لے کر کبوتر آ گیا
ہو سکتی ہے
 

عظیم

محفلین


عقل اک دن یہ مان جائے گی
جب گئے تم تو جان جائے گی

میں یہ کہہ دوں کہ تم نہیں قابل
میری ہستی کی شان جائے گی

اس سے پہلے کہ تم خفا ہو گے
دوست دنیا ہی مان جائے گی

رفتہ رفتہ جلاو دل میرا
ورنہ سورج کی آن جائے گی

لوگ بیٹهے ہیں دیکهنے کس دن
راز ہر جان جان جائے گی

تجه سے ان کو عظیم خدشہ ہے
جن کے لہجوں سے بان جائے گی

 

الف عین

لائبریرین
نہیں عظیم، اس غزل میں محض تک بندی ہے، اصلاح کی کوشش بے سود ہے۔تم اس سے بہتر کہہ سکتے ہو، خود محاسبہ کیا کرو، یہ سوچو کہ یہ غزل اگر کسی اور کی ہوتی تو تم کو کیا کیا شعر پسند آتے!!
 

عظیم

محفلین


کیا بتائیں کس کے غم میں چور ہیں
کیا کہیں کہ بے کس و مجبور ہیں

ہائے ہائے بد نصیبی ہو برا
پاس اپنے ہیں جب اس سے دور ہیں

یوں چهپے بیٹهے ہیں تیری خلق سے
جس طرح شعلہ ء جبل طور ہیں

ہم سے کیا تجه کو ہوا مطلوب اب ؟
ہم جو تیرے زکر پر معمور ہیں

خاک اڑتی پهر رہی ہے دشت میں
ہم تو اپنے آپ میں محصور ہیں

خاکساری سے ملو ہم سے عظیم
کہہ گیا وہ ہم بہت مغرور ہیں


 
میری رائے کچھ سُرخ میں

کیا بتائیں کس کے غم میں چور ہیں
کیا کہیں کہ بے کس و مجبور ہیں​
کس قدر ہم بے کس و مجبور ہیں

ہائے ہائے بد نصیبی ہو برا
پاس اپنے ہیں جب اس سے دور ہیں​
خوش نصیبی، بد نصیبی، ہے یہ کیا
پاس ہوں اُسکے جب اُس سے دور ہوں


یوں چهپے بیٹهے ہیں تیری خلق سے
جس طرح شعلہ ء جبل طور ہیں​
یوں چھپے بیٹھے خلق سے ہیں تری

ہم سے کیا تجه کو ہوا مطلوب اب ؟
ہم جو تیرے زکر پر معمور ہیں​
ہم سے کیا مطلوب ہے تُجھ کو بتا؟

 

عظیم

محفلین
اے مرے دلدار رخ دکهلا بهی جا
آنے والی ہے قضا اب آ
بهی جا
میرے قاتل مجھ پہ اک احسان کر
اپنے ہاتهوں سے مجهے دفنا بهی جا

ہو نہیں سکتا کوئی اک غیر کا
گر ہوا ہے پهر تو دهوکا کها بهی جا

ڈهونڈتا ہوں در بدر اپنا پتا
میں کہاں رہتا ہوں کچھ بتلا بهی جا

اے ہوائے کوئے دلبر تو کبهی
میری حسرت کا نگر مہکا بهی جا


مجھ کو شاید پہلے کچه احساس تها
بن کہے سمجها وہ ہستی ڈها بهی جا

لاکھ دوری پر ہو میرا آسماں
پر قریب اے خاک مرقد آ بهی جا

اک یقیں پر سو گماں حاکم کئے
اک گماں پر سو عقیدوں تا بهی جا

لکھ لیا سرکار نے اس کے لئے
اک خط ازرق اے قاصد بها بهی جا

لوگ محفل میں یہ چیخیں گے عظیم
کیا کہے جاتا ہے کچھ سمجها بهی جا

 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلے یہ بتائیں کہ یہاں خلق سے کیا مراد ہے۔ خلقت؟
یوں چهپے بیٹهے ہیں تیری خلق سے
جس طرح شعلہ ء جبل طور ہیں
’شعلائے ‘ وزن میں آتا ہے جو غلط ہے۔ باقی بعد میں
 
Top