خلیل بهائی جب آپ کو اردو نہیں آتی تهی تب آپ کون سی زبان سمجهتے تهے ؟
پھر سے اپنے دکھ سنانے آ گئے
ہم بھری محفل رلانے آ گئے
یہ غزل بہتر ہے۔ لیکن مطلع میں بھری محفل ’کو‘ رلانے تو آ سکتے ہو، صرف محفل رلانا کوئی محاورہ نہیں
آپ کو اپنا بنا کر جائیں گے
ہم زمانا سر اُٹھا کر جائیں گے
÷÷زمانہ سر اٹھانا؟؟؟
یوں کہو
ہم جہاں میں سر اُٹھا کر جائیں گے۔ جائیں گے ردیف کی مجبوری ہے، ورنہ یہ مضمون اس طرح درست ادا نہیں ہوتا۔ کہاں جائیں گے؟ یہ بھی تو کچھ اتا پتا ملے!!
روک سکتا ہے کوئی تو روک لے
آپ کی گلیاں سجا کر جائیں گے
روکنے کا گلیاں سجانا سے کیا تعلق ہے؟
ہم نہیں ہٹتے کبھی پیچھے کہ ہم
آگے آگے کی سنا کر جائیں گے
÷÷دوسرا مصرع بے معنی ہے۔
کیوں کسی سے چھپ کے بیٹھیں آپ میں
اپنی آنکھیں بھی دِکھا کر جائیں گے
۔۔آپ میں؟؟ بے ربط شعر ہے
بات کو پلٹا دِیا سب رو دئے
بات کر سیدھی ہنسا کر جائیں گے
÷÷یہ بھی تک بندی ہے
یونہی بیٹھے کیوں رہیں ہم شہر میں
اپنی مجبوری بتا کر جائیں گے
۔۔ایضاً
رہنے دیجے اُونچی باتوں کو عظیم
سب سمجھنے میں خطا کر جائیں گے
اونچی باتیں کیوں؟ ایسی باریں کہا جا سکتا ہے۔
بس یہی شعر ہے جس میں ’جائیں گے‘ لا درست استعمال ہے
پھر سے اپنے دکھ سنانے آ گئے
ہم بھری محفل رلانے آ گئے
یہ غزل بہتر ہے۔ لیکن مطلع میں بھری محفل ’کو‘ رلانے تو آ سکتے ہو، صرف محفل رلانا کوئی محاورہ نہیں
دوسرا مصرع بے معنی لگ رہا ہے۔
ہم ہماری بیخودی میں مست تھے
بن کے بوڑھے تک نیانے آ گئے
کس تعلق کو رکھا ہم استوار
ولی دکنی کی زبان میں تو گوارا کیا جاسکتا ہے اس مصرع کو ، لیکن موجودہ اردو میں شاید نہ ہو۔
ان تینوں میں سے ایک تو صحیح ہے اور دو اب بھی غلط ہیں۔کس تعلق کو رکها ہم استوار
کیا تعلق ہم نے رکها استوار
کس تعلق کو کیا ہم استوار
پھر سے اپنے دکھ سنانے آ گئے
اک تماشا سا لگانے آ گئے
آپ رکھئے گا تغافل ہم سے لاکھ
ہم کو ملنے کے بہانے آ گئے
ہوش والو عقل کی باتیں کرو
بات سننے کو دوانے آ گئے
جب نہ دیکھا جا سکا اپنا یہ حال
آپ لوگوں کو بتانے آ گئے
ہم ہماری بیخودی میں مست تھے
بن کے بوڑھے تک نیانے آ گئے
کس تعلق کو رکھا ہم استوار
کیا سے کیا رشتے نبھانے آ گئے
چھپ سکے نہ زخم دل کے جب کبھی
یار لوگوں کو دکھانے آ گئے
خوب روئے پر نہیں بولا کئے
جب خلیل انکل ستانے آ گئے
کیوں ستایا جا رہا ہوں میں عظیم
اب تو غم بھی رحم کھانے آ گئے
ان تینوں میں سے ایک تو صحیح ہے اور دو اب بھی غلط ہیں۔
جو ایک مصرعے کی رگ نہ جانیں جو اک بناوٹ کو شعر مانیں
غضب خدا کا عظیم ہم کو غضب کا لکهنا سکها رہے ہیں
بہار نوچے گلاب سارے یہ خوشبوؤں کی انا کے مارے
جو ایک بلبل کی آہ تک کو خوشی کا ذریعہ بنا رہے ہیں !
عظیم کی عظمت سبحان اللہ
پہلا مصرع وزن سے باہر ہورہا ہے۔ توجہ فرمائیےبس اک تمہاری ہی چاہ نے لوٹا یہ صبر ٹوٹا تو ساتھ چهوٹا
وگرنہ دهوکا تو خیر یوں بهی زمانے والوں سے کها رہے ہیں
پہلا مصرع وزن سے باہر ہورہا ہے۔ توجہ فرمائیے
خلیل میاں میری کمی پوری کر رہے ہیں۔ کہ میں نے یہاںآنا کم کر دیا ہے، اور آتا بھی ہوں تو دس بارہ غزلوں کی تاب نہیں ہوتی!! تم ان کی ’صلاحوں‘ کا برا مان رہے ہو؟؟ ان کے ہی الفاظ میں وہ اصلاح نہیں کرتے، محض صلاح دیتے ہیں