عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
حاضر ہوں۔ واقعی اچھی غزل ہے، خوشی ہے کہ بہتری کی طرف سفر ہے تمہارا۔
پہلی نظر میں بس چار اشعار میں روانی کی کمی محسوس ہوئی ، یا بھرتی کے الفاظ
ہم سے رہتے ہو کیوں خفا، دیکهو
عشق کرنا نہ تها ہوا صاحب
÷÷دیکھو بھرتی کا ہے، مصرع یوں ہو تو
ہم سے رہتے ہو جکس لئے ناراض

تو ہی تو ہے جہاں کہیں دیکهیں
ہم سا کوئی نہ اب رہا صاحب
÷÷شاید یہاں مطلب یہ ہے کہ تیرے بعد بھی تیرے بہت سے روپ موجود ہیں، لیکن ہمارے بعد کوئی نہیں۔ تو ایسا مطلب راست ادا نہیں ہوتا۔ ایک تو یہاں قافیہ ’بچا‘ کر دیا جائے تو شاید زود فہم ہو جائے۔ اور پہلے مصرع میں بھی ’تیرے بعد‘ قسم کے الفاظ کا اضافہ کر دیں تو۔۔۔

خوف دنیا سے کس لئے آئے
کیا ہے دنیا میں ہی خدا صاحب
÷÷روانی بری طرح متاثر ہے۔

وقت دیکهو تو دوڑتا جائے
سال صدیوں سا ہو گیا صاحب
÷÷ایضاً
 

الف عین

لائبریرین
بھئی تم نے تو ڈھیر لگا دیا ہے تخلیقات کا!!!
اس غزل میں آخری شعر ہی مکمل درست ہے۔ مزید سار اشعار میں کچھ نہ کچھ چستی اور روانی کی ضرورت ہے۔ وہی میرا مشورہ کہ خود ان میں ترمیم کرنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کی نظر سے اس کلام کو دیکھیں۔ کہ کوئی اور کہتا تو تم کس طرح اصلاح و ترمیم کرتے!
 

عظیم

محفلین

غم سے اب رشتہ ہوا جاتا ہے کچه انجان سا
کیا کئے پهرتا ہے پل دو پل کا اک مہمان سا

تهم چکا تها آنکه سے جب بارشوں کا سلسلہ
پهر اٹها دل میں عجب اک دن نیا طوفان سا

میں کہاں پهرتا ہوں جنگل ہے خدا یا دشت ہے ؟
مجه کو میرا عکس لگنے لگ گیا حیوان سا

دیر تک وہ صورت دلدار آنکهوں میں رہی
حیف میں نے کر دیا اب تو خدا انسان سا

دور تک گونجے صدا میری کے میں نے طے کیا
اک بہت مشکل سفر لگتا تها جو آسان سا

قیس معنی زندگی کے اب سمجه میں آ گئے
روح ہے ویران سی اور جسم ہے بے جان سا


 

عظیم

محفلین

خواہشیں کیا تهیں کیا ملا ہم کو
تجه سے شکوہ ہے اب بجا ہم کو

نام لیتے ہیں اس ستم گر کا
جس سے ملتی ہے بس شفا ہم کو

توبہ توبہ زباں پہ کیا آیا
حق کی دے گا تو کب سزا ہم کو

رک سی جاتی ہیں دهڑکنیں دل کی
یاد اتنا بهی اب نہ آ ہم کو

پہلے کیوں تها نظر سے اوجهل تو
پاس اپنے نہ اب بلا ہم کو

وائے دل کی لگی میں جل بیٹهے
تو بهی الفت میں کم جلا ہم کو

کچه تو کردے علاج تنہائی
یوں دلاسے نہ دیتا جا ہم کو

کیوں کسی غیر کی طرف دیکهیں
سامنے آ کہ رخ دکها ہم کو

تو تو وقف ہے دل کی حالت سے
مر ہی جائیں گے آ بچا ہم کو

یاد آتی ہے تیری فرصت میں
کار دنیا میں یاد آ ہم کو

ہو نہ جائیں سنو کہیں پتهر
رحم کردے نہ اب رلا ہم کو

شور کتنا ہے عالم برزخ
ہم تو بہریں ہیں کچه بتا ہم کو

اٹهنے والا ہے رخ سے پردہ اب
دید کرنے کے فن سکها ہم کو

دیکه لیتے ہیں دیکهنے والے
ان اندهیروں سے کم ڈرا ہم کو

ہم بهی آئیں گے تجه سے ملنے قیس
دشت و صحرا کے جز بلا ہم کو

کس خرابے کی داستاں تهی قیس
کچه کہانی نئی سنا ہم کو


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


مجه کو لے چل تو دور دنیا سے
ان سرابوں سے چور دنیا سے

جهک کے بیٹها ہے آسماں دیکهو
کیسے جائے غرور دنیا سے ؟

خود سے ملئے جناب جب چاہیں
عیب ملنا حضور دنیا سے

میں نے پائی ہے اک سزا جب بهی
اپنا پوچها قصور دنیا سے

یوں نہ نظروں کو پهیر کر جاو
ساته جائے گا نور دنیا سے

خاک پہنچے گی بات دل کی اب
اٹهتا جائے سرور دنیا سے

مرنے والو کہ ساته لے جانا
اپنی ہستی ضرور دنیا سے

قیس تم بهی عجب دیوانے ہو
اپنا مانگو شعور دنیا سے

 

الف عین

لائبریرین
یہ تم قیس کب سے ہو گئے؟ بس آخری شعر یا نقطع ہی مجھے رواں محسوس ہوا۔ باقی پوری زمین ہی نا ہموار ہے۔ اس میں رواں اشعار نکالنا مشکل ہی ہے
 

الف عین

لائبریرین
مجه کو لے چل تو دور دنیا سے
مجھ کو لے جاؤ۔۔ بہتر ہو گا


خود سے ملئے جناب جب چاہیں
عیب ملنا حضور دنیا سے
÷÷واضح نہین

میں نے پائی ہے اک سزا جب بهی
اپنا پوچها قصور دنیا سے
÷÷یوں اصلاح کروں گا
میں نے پائی کوئی سزا جب بهی
پوچها اپنا قصور دنیا سے

خاک پہنچے گی بات دل کی اب
اٹهتا جائے سرور دنیا سے
÷÷خاک پہنچے گی بات اب دل کی
اٹھ رہا ہےسرور دنیا سے

مرنے والو کہ ساته لے جانا
اپنی ہستی ضرور دنیا سے
÷÷واضح نہیں

قیس تم بهی عجب دیوانے ہو
اپنا مانگو شعور دنیا سے
۔۔میں کہتا تو یوں کہتا
قیس تم بهی عجیب پاگل ہو
یوں نہ مانگو شعور دنیا سے
 

عظیم

محفلین
یہ تم قیس کب سے ہو گئے؟ بس آخری شعر یا نقطع ہی مجھے رواں محسوس ہوا۔ باقی پوری زمین ہی نا ہموار ہے۔ اس میں رواں اشعار نکالنا مشکل ہی ہے

کچه دنوں سے .. اچها لگتا تها یہ نام سوچا تخلص ہی بنا لوں
جی بہتر انشااللہ دوبارہ کوشش کرونگا
دعائیں
 

عظیم

محفلین


یاد تیری ہو ذکر تیرا ہو
اک یہی کام صرف میرا ہو

اور کچه بهی نہ ہو سوا ان کے
تیری زلفیں اور ان کا گهیرا ہو

سونے والوں کو کیا خبر اس کی
جاگ جاو تو پهر سویرا ہو

لوٹ لیتے ہو تم متاع دل
تجه سا دنیا میں کب لٹیرا ہو

مجه سے ساقی شراب شرمائے
اس پہ ظالم حجاب تیرا ہو

چهوڑ جانے دے اب جہاں مجه کو
اب نا ممکن ہے یاں بسیرا ہو

اتنا وحشی نہیں تها پہلے میں
اب تو کہتا ہوں دشت ڈیرا ہو

دیپ یادوں کے تم جلاو قیس
اس سے پہلے کہ گهپ اندهیرا ہو



 

عظیم

محفلین
ڈهونڈتے پهرتے ہیں خوابوں میں خیالوں میں تجهے
کهو دیا ہم نے ہے ہوئے سالوں میں تجهے

مٹ چکی ہے خواہش دیدار حسرت ہے مگر
ڈهونڈ سکتے ہم اندهیروں سے اجالوں میں تجهے

اب گلہ کیوں ہم کریں اے کاش پہلے سوچتے
کیا اجازت تهی پکاریں ہم مثالوں میں تجهے

حرف آخر تو نہیں تها حرف اول تها مگر
اول و آخر ملا سارے سوالوں میں تجهے

رونق بازار تک اب آ گئیں تنہائیاں
اک نرالا پن نہیں دکهتا نرالوں میں تجهے

خوف لاحق ہے عجب سا اک عجب سا وہم ہے
غوطہ زن ہونا پڑے گا اپنے بالوں میں تجهے

اڑ چکی ہے گرد کب کی جا چکے سب کارواں
ہم ہی تنہا دکه رہے ہیں راہ والوں میں تجهے

کچه عظیم اپنی تباہی کے تهے ذمہ دار خود
اور کچه اس نے کہا دیکهوں جیالوں میں تجهے

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ غزل کافی وقت چاہتی ہے، مجے کئی خامیاں نظر رہی ہیں۔ بطور خاص ابلاغ و تفہیم مکمل نہیں ہو رہا
 

الف عین

لائبریرین
میری بے رحمانہ رائے÷ اصلاح
یاد تیری ہو ذکر تیرا ہو
اک یہی کام صرف میرا ہو
÷÷زیادہ رواں یوں ہو سکتا ہے
بس یہی ایک کام میرا ہو،
اگرچہ یہان ’م‘ کی تکرار ہو رہی ہے، کام کے بدلے ’شغل‘ وغیرہ بھی سوچا جا سکتا ہے

اور کچه بهی نہ ہو سوا ان کے
تیری زلفیں اور ان کا گهیرا ہو
÷÷’تیری زلفیں ہوں، ان کا گھیرا ہو‘ بہتر ہو گا۔ ویسے شعر خاص نہیں

سونے والوں کو کیا خبر اس کی
جاگ جاو تو پهر سویرا ہو
÷÷واضح نہیں
لوٹ لیتے ہو تم متاع دل
تجه سا دنیا میں کب لٹیرا ہو
÷÷تم اور تو، شتر گربہ ہو گیا ہے صیغے میں۔
مجه سے ساقی شراب شرمائے
اس پہ ظالم حجاب تیرا ہو
÷÷واضح نہیں
چهوڑ جانے دے اب جہاں مجه کو
اب نا ممکن ہے یاں بسیرا ہو
÷÷دوسرا مصرع وزن میں نہیں آتا، نا ممکن میں الف کا اسقاط غلط ہے۔
اتنا وحشی نہیں تها پہلے میں
اب تو کہتا ہوں دشت ڈیرا ہو
÷÷واضح نہیں
دیپ یادوں کے تم جلاو قیس
اس سے پہلے کہ گهپ اندهیرا ہو
درست
 

عظیم

محفلین


بن کے عاشق آ گیا ہوں
اس کے کوچے تا گیا ہوں

چین کا منگتا نہیں تها
اک سکوں سا پا گیا ہوں

اپنے ہونے کی خبر ہے
جگ سے دهوکا کها گیا ہوں

تم سمجه پاو گے کیسے ؟
تیرے دل کو بها گیا ہوں

اے خدا کیا اس جہاں میں
میں بهٹک کر آ گیا ہوں

مجه کو واپس قید کر لو
پهر رہائی پا گیا ہوں

لوگ پوچهیں گے تو کہنا
تها میں بادل چها گیا ہوں

قیس اب میں آپ دیکهوں
اس کے در تک آ گیا ہوں

 

عظیم

محفلین
خواب کوئی نیا آنکهوں کو دکها کر دیکهیں
ہم کسی اور کی مورت بهی بنا کر دیکهیں

کب تلک یونہی مسافت میں رہیں ہم، یارب
تو جو کہہ دے کبهی منزل کو بهلا کر دیکهیں

کوئی ناراض ہے ہم سے کہ جہاں غافل ہے
ہم کسی اور سے پوچهیں وہ بتا کر دیکهیں

ہم جو خاموش طبیعت کے ہیں مالک ہم کو
اپنی محفل میں وہ اک روز بلا کر دیکهیں

دیکه سکتے ہو تو دکهتا ہے نہیں کیوں تم کو
دل ہمارا جسے ہر شام جلا کر دیکهیں

خون رو دیں گے اگر اشک نہیں آئیں گے
ان سے کہہ دو نہ وہ ہر روز رلا کر دیکهیں

خاک اس خواب کی تعبیر حقیقت ہو گی
جس کو غیروں کی نگاہوں سے چهپا کر دیکهیں

لفظ چنتے ہیں ستاروں سے ہمیں کیا مطلب
ہم وہ قاری ہیں جو لفظوں کو اٹها کر دیکهیں

قیس ان چاند سے چہروں کی حیا دیکهیں تو
لوگ چلتے ہوئے کاندهوں کو جهکا کر دیکهیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

مجھ سا دنیا میں بے زباں ہو گا
جس کا کوئی نہ ترجماں ہو گا

ہو بهی جائے تو پهر کہاں ہوگا
تیرے قدموں میں رازداں ہو گا

اس سے بہتر مثال کیا ہوگی
اس سی تشبیہ شبہ کہاں ہوگا

خوب سے خوب تر کی خواہش ہے
خاک نظروں میں اب جہاں ہو گا

رک نہ پائیں گے اب قدم میرے
شور سنتا ہوں تو وہاں ہو گا

چهوڑ جاوں گا لفظ دنیا میں
حلف باقی نہ ہو بیاں ہو گا

روز محشر بهی میرے سینے پر
تیرے زخموں کا ہر نشاں ہو گا

مجھ کو رہبر کہیں دکهائی دے
میرے پیچهے نہ کارواں ہو گا

قیس تجھ سا نہ کوئی سائل ہے
قیس تجھ سا نہ سائباں ہو گا

 
مدیر کی آخری تدوین:
Top