عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

لاکه اس روح کو رکها ہے پیاسا لوگو
پهر بهی لگتا ہوں میں کربل میں ذرا سا لوگو

میں کسی اور کی باتوں کو نہ دہراوں گا
میں ہر اک حرف کو لکهوں گا جدا سا لوگو
 

عظیم

محفلین


شکوہ نہ اب کسی سے شکایت کسی سے ہے
جو بهی گلہ ہے دل میں وہ اپنی خودی سے ہے

بهٹکا ہوا ہوں راہ میں منزل کے آس پاس
رہبر کو گو تلاش بهی میری مجهی سے ہے

لاکر بٹهائے اس کے وہ در پر ہزار غم
میں نے سنا ہے اس کی عداوت خوشی سے ہے

غیروں کی کاوشوں پہ نہ جائیں حضور آپ
میری بهی کاوشوں کو محبت اسی سے ہے

اک دن میں اپنے آپ سے کهاوں گا مات اب
مجه کو نہ خوف ہار کا غارت گری سے ہے

خاموش اے جہان کہ دل کو گمان ہے
میرے اب اس یقین کو رغبت سبهی سے ہے

کیوں کر ڈراو حشر سے ان کو تم آج قیس
جن کو خدا سے عشق ہے الفت نبی سے ہے

 

عظیم

محفلین
جی کر بهی کیا کریں گے یہ مستانے آدمی
حقدار ہیں قضا کے ہی مر جانے آدمی

پهرتے ہیں یوں بدل کے لبادہ غبار کا
ہم کو جہاں میں ایک نہ پہچانے آدمی

اس کی نگاہ شوق نے پائی وہ حد جہاں
جانے سے پہلے خاک بدن چهانے آدمی

کیا کیا نہ خود پہ ظلم و ستم کر چکے تمام
مغرب میں بیٹه دیکه یہ بے گانے آدمی

اپنی زباں سے لیں گے نہ غیروں کا نام ہم
ہم ہیں کچه ایسی روش کے دیوانے آدمی

اب بهی وہ قیس ہم سے یہ پوچهیں گے کون ہو
ہم نے جنہیں کہا تها خدا جانے آدمی

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

تیرگی ٗ حیات میں کھو کر
رہ گیا ہوں میں رات کا ہو کر

پھر سے لایا ہوں اپنی جھولی کو
داغ اشکوں کے، خوں سے دھو دھو کر

خواب آنکھوں میں کیوں سجاوں گا
میں نے دیکھا نہیں ابھی سو کر

لوگ کہتے ہیں میں منافق ہوں
دین و مزہب کے نام کو رو کر

کچھ نہ کہنے میں کیا برائی تھی
عقل سوچے گی بے زباں ہو کر

اس خرابے میں کیوں میں پچھتاوں ؟
بھوج کاندھوں پہ ہست کا ڈھو کر

دن میں غفلت سی روشنی ہوگی
رات گزری ہے رات یوں ہو کر

بھول جائیں نہ سب تمہارا نام
بزم دنیا میں قیس کچھ تو کر

 

الف عین

لائبریرین
یہ واضح نہیں
لوگ کہتے ہیں میں منافق ہوں
دین و مزہب کے نام کو رو کر

کچھ نہ کہنے میں کیا برائی تھی
عقل سوچے گی بے زباں ہو کر

بھوج کاندھوں پہ ہست کا ڈھو کر
کیا ’بوجھ‘ مراد ہے؟۔ ’ہست‘ بھی ذرا عجیب استعمال ہے۔


بھول جائیں نہ سب تمہارا نام
بزم دنیا میں قیس کچھ تو کر
صیغہ؟ تمہارا کے ساتھ دوسرے مصرع میں ’کر‘
 

عظیم

محفلین
کسی طور سے نہ بہل سکا، مرا دل نہیں مرے کام کا
اسے میرے سینے سے نوچ لے ، کہ یہ اب ہوا ترے نام کا

مری زندگی میں عذاب تهے، کہ قدم قدم پہ سراب تهے
مجهے منزلوں کا گمان تها، مجهے ڈر تها عشق کی گام کا

میں چلا ہوں اس کی تلاش میں، جسے پا کے ساقی نے کهو دیا
مجهے اس خدا کی تلاش ہے، جو نہیں ہے بادہ و جام کا

ترے پاس کچه تو ضرور تها ، غمِ زندگی جو نہیں دیا
رہا مجه کو خوفِ سحر سدا ، رہا اک اندیشہ سا شام کا

فلک اس ستارہ پرست سے، مجهے تم چهپائے ہوئے رہو
فنِ آزری پہ ہے شادماں، اسے حرص ہے مرے دام کا

نہ دو مشرکوں کو تسلیاں، کہ ہوا ہے قبلہ نما صنم
نہیں قیس! ان کا خدا یہاں، یہ تو عکس ہے کسی رام کا

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دوا کے نام سے کچھ زہر بهی پلا دینا
تمہارے ہاتھ میں ظالم نہیں شفا دینا

جب اپنی موت کو آتے ہوئے یہاں دیکهو
ہے پیر تجھ کو گوارا نہ سر جهکا دینا

اسیرِ ذات سے کیسے ہو بندگی ممکن
کہ بندگی کا تقاضہ ہے سب بهلا دینا

شعور ہم کو نجانے کہاں لے جائے گا
کہ ہم نے جیت لیا ہے خرد بتا دینا

وہ
بات کرتے ہیں دیکهو بدل بدل کے آج
تم ان کو ایک ہماری غزل سنا دینا


عظیم جب بھی نگاہوں میں شرم اترے گی
تب اپنا قلب، جگر تک نظر بنا دینا


نہیں ہے عار کہ گزرے گی قیس ہم پہ کیا
ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ جاں لٹا دینا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مری خلوت پسندی نے دکهایا
مقام کبریا جو تها بهلایا

نہ تجھ بن نیند آئی دل جلے کو
نہ تیرے بعد اس کو چین آیا

یہ آتش جان کی دشمن بنی ہے
چراغ اے آسماں کیوں کر جلایا

ہوائیں اُس نگر کی کیوں نہ مہکیں
تمہارا جس نگر ہے گهر بنایا

مرے سینے میں اک شعلہ ہے پنہاں
جسے اُگلوں گا محشر میں خدایا

نہیں اُس کے سوا کچھ اور چارا
معالج مرض نے کہہ کر بهگایا

رُتوں میں اک عجب سی بے بسی ہے
نظاروں میں نہ کوئی رنگ بهایا

بڑها ہے حوصلہ جتنا مرا یاں
زمانے نے مجهے اُتنا ستایا

کبهی تم قیس اس کا نام لو گے ؟
جسے ہر شعر میں ہے گنگنایا

 
مدیر کی آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اُسے قبول بهی کیسے مری دعا ہوگی ؟
مری خودی میں جو لپٹی ہوئی صدا ہوگی

جنہیں نصیب ہوا ہے جہان میں رتبہ
مجهے ہے خوف انہیں عاجزی سزا ہوگی

بجهائے اپنے ہی ہاتهوں سے کچه دئے میں نے
ہَوا کے ہاتھ میں ہمت بهی معجزہ ہو گی

لگا کے اپنے کلیجے سے ماں نے بهیجے ہیں
نکل پڑے ہیں یہ بچے جدهر قضا ہو گی

تمہارے سامنے رکهتا ہوں چیر کر دل کو
نظر نظر میں محبت مری دغا ہوگی

اگر نہ چین تمہیں آ سکے، ستائے بن
تو مجھ سے کہنا طبیعت ذرا جدا ہوگی

کبهی تو ہو گا اشارہ تمہاری جانب سے
کبهی تو میری بهی قسمت میں کچھ ضیا ہوگی

مجهے وہ قیس نہ سمجهیں کہیں دیوانہ سن
وہ لوگ منکرِ الفت ہیں سنگ وفا ہوگی

 
مدیر کی آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تجه سے ناتا میں توڑ دیتا ہوں
ایسا کرتا ہوں چهوڑ دیتا ہوں

تیری شرطیں نہ تجه تلک لائیں
رخ میں قدموں کا موڑ دیتا ہوں

لے کے کوئی سرا میں وحشت کا
تیری یادوں سے جوڑ دیتا ہوں

ابر باراں کو رشک آتا ہے
جب بهی دامن نچوڑ دیتا ہوں

روز کرتا ہوں تجه سے وعدے میں
روز وعدوں کو توڑ دیتا ہوں

قیس دنیا یہی ہے ایسی ہی ؟
ایسی دنیا کو چهوڑ دیتا ہوں
 

عظیم

محفلین

مَیں اپنی عُمر تجه پر وار دوں گا
رگِ جاں گُل پِرو کر ہار دوں گا

مجهے لفظوں کی قلت جب ملے گی
ترے خط کی نَکِر سے مار دوں گا

وہاں واعظ نصیحت پر ہیں معمور
صدائیں اب کے میں اُس پار دوں گا

تمنا جب دلِ عاشق کی دیکهوں
تجهے تہمت اے دل ہر بار دوں گا

چلے آئیں نہ مجه کو پهر ستانے
رقیبوں کو میں دهوکا یار دوں گا

سمجهنے کو ابهی باقی ہیں جزبے
میں اپنی سوچ کو اک تار دوں گا

لحد تک ساته جانے کی اجازت
کسے کیسے میں کیوں بے کار دوں گا

میں اپنی بے خودی سے خوف کها کر
یہ ڈر ہے قیس خود کو مار دوں گا



 
Top