عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
66میرے خیال میں چھوٹی بحر میں تم اکثر ناکام ریتے ہو، اس غزل میں بھی کئی مقامات ایسے ہیں، جہاں بات واضح یا مکمل نہیں ہوتی
مجه سا دنیا میں بے زباں ہو گا
جس کا کوئی نہ ترجماں ہو گا
÷÷‘کون‘ کی ضرورت ہے پہلے مصرعے میں، مثلاً
کون یوں مجھ سا بے زباں ہو گا

ہو بهی جائے تو پهر کہاں ہوگا
تیرے قدموں میں رازداں ہو گا
؟؟؟؟

اس سے بہتر مثال کیا ہوگی
اس سی تشبیہ شبہ کہاں ہوگا
؟؟؟، وزن سے خارج
خوب سے خوب تر کی خواہش ہے
خاک نظروں میں اب جہاں ہو گا
÷÷درست
رک نہ پائیں گے اب قدم میرے
شور سنتا ہوں تو وہاں ہو گا
؟؟؟
چهوڑ جاوں گا لفظ دنیا میں
حلف باقی نہ ہو بیاں ہو گا

روز محشر بهی میرے سینے پر
تیرے زخموں کا ہر نشاں ہو گا

مجه کو رہبر کہیں دکهائی دے
میرے پیچهے نہ کارواں ہو گا

قیس تجه سا نہ کوئی سائل ہے
قیس تجه سا نہ سائباں ہو گا

 

عظیم

محفلین
خاک مرقد سے چرا لی ہے خدا خیر کرے
اپنی صورت پہ سجا لی ہے خدا خیر کرے

پهر وہی خون سا آنکهوں میں اتر آیا ہے
پهر وہی آنکھ کی لالی ہے خدا خیر کرے

اس کی مدہوش نگاہوں نے ادهر تکنے کی
اک نئی قسم اٹها لی ہے خدا خیر کرے

جام بهر بهر کے نہ دو مجھ کو کہ ساقی میرا
اب خرد ہوش سے خالی ہے خدا خیر کرے

اس بیاباں میں کوئی مجھ کو ستائے کیوں کر
میری تنہائی مثالی ہے خدا خیر کرے

وحشتیں اتنی بڑهیں حد سے زیادہ اب تو
میری ہر بات نرالی ہے خدا خیر کرے

جستجو اس کی ہے گویا کہ فنا ہو جانا
اپنی ہستی ہی مٹا لی ہے خدا خیر کرے

چپ رہو آج نہ چهیڑو مجهے ہمدم میرا
لفظ معنی کا سوالی ہے خدا خیر کرے

کانپ اٹهتا ہے بدن روح کی اس حدت سے
آگ خود کو ہی لگا لی ہے خدا خیر کرے

اک گماں کهینچ کے لایا ہے یقیں کی حد تک
جان وہموں سے بچا لی ہے خدا خیر کرے

اب عظیم اس کا ستم سہنے کی خاطر تم نے
اپنی گردن بهی جهکا لی ہے خدا خیر کرے

 
مدیر کی آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ہے کہاوت سلام سے پہلے
نام کوئی ہے نام سے پہلے

کتنے معصوم ہیں فدا تجھ پر
مجھ سے ادنی غلام سے پہلے

اتنا کم تر تها تیری نظروں میں
کام پوچها کلام سے پہلے

مجھ کو لگتا ہے جان جائے گی
اس کے وعدے کی شام سے پہلے

دل پہ کوئی نظام رائج تها
عشق جیسے نظام سے پہلے

بے نیازی پہ یار کی واری
ہر مسافت قیام سے پہلے

قیس جاؤ اب ان کو بتلا دو
تول سکتے ہو دام سے پہلے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جاں سے کہئے کہ جاں چلی جائے
جینے والوں کو سانس دی جائے

رکئے رکئے ذرا تحمل سے
بات وہ ہی ہے جو سنی جائے

دل نوازی پہ آپ کی ہمدم
دل دیوانہ کبهی نہی جائے

آپ دیتے ہیں حوصلہ ورنہ
ہم سا روگی تو زہر پی جائے

جس کے کوچے میں دل گنوایا ہے
اس کی گلیوں میں جان بهی جائے

کون کہتا ہے ہوش میں آئیں
ہوش پائیں تو بے خودی جائے

کوئی پهرتا ہے قیس صحرا اب
شب کو خاطر سے آہ کی جائے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



کیا زباں پر بهی اس کا نام آئے
حیف الفت میں یہ مقام آئے

کیا ضروری ہے اس کی محفل ہو
اور ہم پر بهی دور جام آئے

دن گزارا ہے یوں اندهیروں
صبح کل کی نہ پهر وہ شام آئے

کس ازیت سے قرض جائے گا
قرض داروں کے قرض کام آئے

ہم بهی بیٹهے ہیں منتظر دیکهیں
ان کی جانب سے کب سلام آئے

قیس ان کو خبر نہیں شائد
میم آئے نہ پہلے لام آئے



 

الف عین

لائبریرین
دور کیوں جائیں۔ یہیں اردو ویب کے ڈاؤن لوڈ سیکشن میں ہی دستیاب ہیں بہت سے کی بورڈ، میری برقی کتابوں کی سائٹ پر بھی صوتی (اردو دوست) اور کچھ دوسرے کی بورڈس ہیں
 

الف عین

لائبریرین
بن کے عاشق آ گیا ہوں
اس کے کوچے تا گیا ہوں
÷÷ ’تا گیا ہوں؟؟؟؟‘ شعر نعبی خیز بھی نہیں۔

چین کا منگتا نہیں تها
اک سکوں سا پا گیا ہوں
÷÷مبہم ہے، منگتا اچھا نہیں لگتا

اپنے ہونے کی خبر ہے
جگ سے دهوکا کها گیا ہوں
÷÷درست

تم سمجه پاو گے کیسے ؟
تیرے دل کو بها گیا ہوں
÷÷تم اور تو کا شتر گربہ؟ مفہوم؟

اے خدا کیا اس جہاں میں
میں بهٹک کر آ گیا ہوں
÷÷درست

مجه کو واپس قید کر لو
پهر رہائی پا گیا ہوں
۔۔درست، لیکن مطلب کیا ہے؟

لوگ پوچهیں گے تو کہنا
تها میں بادل چها گیا ہوں
÷÷مفہوم واضح نہیں۔ روانی کے لئے دوسرا مصع یوں کہا جائے
ابر تھا میں، چھا گیا ہوں

قیس اب میں آپ دیکهوں
اس کے در تک آ گیا ہوں
÷÷واضح نہیں
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ لیکن تم روزانہ دو تین غزلیں پوسٹ کرو گے تو میرا یہی کام رہ جائے گا کہ اصلاح ہی کرتا رہوں!!!
خواب کوئی نیا آنکهوں کو دکها کر دیکهیں
ہم کسی اور کی مورت بهی بنا کر دیکهیں
÷÷دکھا کر دیکھوں؟ یہاں ’آنکھون میں بسا کر‘ بہتر ہو گا۔

کب تلک یونہی مسافت میں رہیں ہم، یارب
تو جو کہہ دے کبهی منزل کو بهلا کر دیکهیں
÷÷تو سے کون مخاطب ہے، رب؟

کوئی ناراض ہے ہم سے کہ جہاں غافل ہے
ہم کسی اور سے پوچهیں وہ بتا کر دیکهیں
÷÷واضح نہیں

ہم جو خاموش طبیعت کے ہیں مالک ہم کو
اپنی محفل میں وہ اک روز بلا کر دیکهیں
÷÷درست، ویسے بہتر ہو سکتا ہے اگر پہلے مصرع میں لیکن یا مگر کا اضافہ ممکن ہو سکے

دیکه سکتے ہو تو دکهتا ہے نہیں کیوں تم کو
دل ہمارا جسے ہر شام جلا کر دیکهیں
÷÷واضح نہیں؎

خون رو دیں گے اگر اشک نہیں آئیں گے
ان سے کہہ دو نہ وہ ہر روز رلا کر دیکهیں
÷÷درست، مزید روانی ممکن ہے۔

خاک اس خواب کی تعبیر حقیقت ہو گی
جس کو غیروں کی نگاہوں سے چهپا کر دیکهیں
÷÷درست

لفظ چنتے ہیں ستاروں سے ہمیں کیا مطلب
ہم وہ قاری ہیں جو لفظوں کو اٹها کر دیکهیں
÷÷درست

قیس ان چاند سے چہروں کی حیا دیکهیں تو
لوگ چلتے ہوئے کاندهوں کو جهکا کر دیکهیں
÷÷چلتے ہوئے کاندھے‘ سمجھ میں آتا ہے حالانہ چلتے ہوئے لوگ مراد ہیں۔ الفاظ کی نشست درست کریں
 

الف عین

لائبریرین
خاک مرقد سے چرا لی ہے خدا خیر کرے
اپنی صورت پہ سجا لی ہے خدا خیر کرے
÷÷کس کے مرقد سے؟

پهر وہی خون سا آنکهوں میں اتر آیا ہے
پهر وہی آنکھ کی لالی ہے خدا خیر کرے
÷÷درست

اس کی مدہوش نگاہوں نے ادهر تکنے کی
اک نئی قسم اٹها لی ہے خدا خیر کرے
÷÷قسم‘ وزن میں نہیں آتا۔ ق اور س دونوں پر زبر ہے

جام بهر بهر کے نہ دو مجھ کو کہ ساقی میرا
اب خرد ہوش سے خالی ہے خدا خیر کرے
÷÷یہ شعر خاص بھی نہیں، خالی کا قافیہ بھی درست نہیں یہاں، خرد سے کالی تو ہو سکتا ہے کوئی لیکن ہوش سے خالی نہیں۔

اس بیاباں میں کوئی مجھ کو ستائے کیوں کر
میری تنہائی مثالی ہے خدا خیر کرے
÷÷واضح نہیں

وحشتیں اتنی بڑهیں حد سے زیادہ اب تو
میری ہر بات نرالی ہے خدا خیر کرے
÷÷پہلا مصرع دوسرے کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔

جستجو اس کی ہے گویا کہ فنا ہو جانا
اپنی ہستی ہی مٹا لی ہے خدا خیر کرے
جستجو کا لفظ تفہیم میں مشکل پیدا کر رہا ہے۔

چپ رہو آج نہ چهیڑو مجهے ہمدم میرا
لفظ معنی کا سوالی ہے خدا خیر کرے
۔÷آج ہی کیا خاص بات ہے، واضح نہیں

کانپ اٹهتا ہے بدن روح کی اس حدت سے
آگ خود کو ہی لگا لی ہے خدا خیر کرے
÷÷درست
اک گماں کهینچ کے لایا ہے یقیں کی حد تک
جان وہموں سے بچا لی ہے خدا خیر کرے
÷÷دونوں مصرعوں میں تطابق؟

اب عظیم اس کا ستم سہنے کی خاطر تم نے
اپنی گردن بهی جهکا لی ہے خدا خیر کرے
÷÷اپنی گردن ’ہی‘ جھکا لی‘ بہتر ہو گا۔
اگر قیس لانا چاہو تو
قیس پھر اس کا۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک دو کے سوا کوئی شعر واضح نہیں۔
دل پہ کوئی نظام رائج تها
عشق جیسے نظام سے پہلے
÷یہاں بہتر ہو کہ یہ کہا جائے کہ کوئی نظام ہی نہیں تھی، ایک نراج کی سی حالت تھی
 

الف عین

لائبریرین
جاں سے کہئے کہ جاں چلی جائے
جینے والوں کو سانس دی جائے
÷÷وا ضح نہیں

رکئے رکئے ذرا تحمل سے
بات وہ ہی ہے جو سنی جائے
÷÷’وہ ہی‘ صوتی طور پر اچھا نہیں۔ ‘بس وہ‘ کر دو اس کی جگہ

دل نوازی پہ آپ کی ہمدم
دل دیوانہ کبهی نہی جائے
÷÷نہی؟؟ کیا نہیں لکھنا چاہتے ہو، قافیے کی ضرورت میں ’ں‘ اڑا دیا۔ ایسا نہیں لیا جاتا

آپ دیتے ہیں حوصلہ ورنہ
ہم سا روگی تو زہر پی جائے
÷÷مجھے الٹی بات لگ رہی ہے یہاں، کم از کم ’ورنہ‘ کا محل نہیں۔

جس کے کوچے میں دل گنوایا ہے
اس کی گلیوں میں جان بهی جائے
÷÷درست

کون کہتا ہے ہوش میں آئیں
ہوش پائیں تو بے خودی جائے
÷÷واضح نہیں۔

کوئی پهرتا ہے قیس صحرا اب
شب کو خاطر سے آہ کی جائے
واضح نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
کس ازیت سے قرض جائے گا
قرض داروں کے قرض کام آئے

قیس ان کو خبر نہیں شائد
میم آئے نہ پہلے لام آئے
یہ دونوں واضح نہیں۔ باقی اشعار میں کوئی خاص بات نہیں۔ لگی لپٹی کے بغیرکہہ دوں کہ غزل ہسند نہیں آئی
 

عظیم

محفلین
ہر نئی شب نئی خماری ہے
بس یہی زندگی ہماری ہے

ہسنا رونا تو چهن چکا لیکن
ہم میں باقی یہ بے قراری ہے

اپنی صورت سے ہم کو وحشت ہے
ہم پہ ہونے کا خوف طاری ہے

ہم سے پوچهو تو زندگی کیسے
ہم نے اس کے بنا گزاری ہے

کچه تو ہونے کا اب اشارا دو
اپنا ہونا بهی ہم پہ بهاری ہے

جانے والوں کو روک لیتے پر
کل کو خود کی ادهر سواری ہے

اپنی حالت سے ہم نہیں واقف
ہم کو پہچان پر تمہاری ہے

دو قبیلوں میں فاصلے کم ہیں
ایک جیسی ہی دین داری ہے

قیس کہئے کہ واسطے ان کے
خون آنکهوں سے اب بهی جاری ہے

ہم سے دنیا عظیم لے لو تم
پر یہ وحشت فقط ہماری ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



تیری خوشی کی خاطر ہم نے منائیں خوشیاں
دیکهو تو راس پهر بهی ہم کو نہ آئیں خوشیاں

ہم کو کہاں خبر تهی دنیا نے ہی بتایا
اک دن یہ سچ کہ ہم سے پیچها چهڑائیں خوشیاں

اوروں سے کیا شکایت تم تو ہمارے ہو نا
تم سے بهی کیا ہماری دیکهی نہ جائیں خوشیاں

چهوڑو سکوں کی باتیں غم کی کتاب کهولو
پڑه کر سناو کس نے کب ہیں منائیں خوشیاں

ہم سا نہ اس جہاں میں ماتم زدہ بهی ہو گا
دس دن کا سوگ رکها دس دن بهلائیں خوشیاں

خود کو ہلاک کر کے رکه دیں گے اس کے غم میں
جس نے ہمارے در سے گهر سے اٹهائیں خوشیاں

آتے ہو کیوں ہمارے گلشن میں اب رقیبو
دیکها نہ کیا بہاریں پهر سے نہ لائیں خوشیاں

کتبے پہ عاشقوں کے دیکهو تو ظالموں نے
لکها ہے راس ان کو شائد نہ آئیں خوشیاں

اپنا تو قیس ان سے کوئی نہ واسطہ ہے
لیکن دعا کریں گے اوروں کو بهائیں خوشیاں




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اے غم ہجر تو پتهر سا بنا دے مجه کو
یا پهر اس حزن پرستی میں رلا دے مجه کو

کوئی اس شہر میں لے جائے جو میت میری
ان گلی کوچوں کی بس سیر کرا دے مجه کو

کل کو کس طور سے ابهرے گا نیا سورج دیکه
میں گئی شام کا تارا ہوں بهلا دے مجه کو

پهر کسی روز نئے ظلم کی حد تک جا کر
صبر کرنے کا ہر اک طور سکها دے مجه کو

میں کہیں اپنی تباہی پہ نہ ماتم کر لوں
ہے کہیں مجه سا بهی برباد بتا دے مجه کو

قیس اس شخص سے کہنا جو سمجهنا چاہے
میری تحریر کو بن دید سنا دے مجه کو


 

عظیم

محفلین
بهول بیٹهے ہیں جفائیں یار کی
یاد رکهی ہیں وفائیں یار کی

کب ہمارے شہر دل پر چهائیں گی
زلف کی کالی گهٹائیں یار کی

ان امیدوں پر ہی ہم نے کاٹ لیں
ختم ہوں گی اب سزائیں یار کی

کس توجہ سے سنیں ہم بے وفا
غیر کے در پر صدائیں یار کی

اپنے بس میں ہو تو خوشیاں پیچ کر
ہم خریدیں سب بلائیں یار کی

اب نہیں اس کے سوا کچه کام اور
ہم ہیں اور ہیں بس دعائیں یار کی

شور کتنا آہ بهرنے نے کیا
جب کہا خوشیاں منائیں یار کی

قیس اپنی کم نصیبی ہے جو ہم
آج تک راہیں سجائیں یار کی

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ایطا ہے۔ اس کو سدھارو۔
ان امیدوں پر ہی ہم نے کاٹ لیں
ختم ہوں گی اب سزائیں یار کی
۔۔واضح نہیں

کس توجہ سے سنیں ہم بے وفا
غیر کے در پر صدائیں یار کی
÷÷توجہ سے؟؟

ہم ہیں اور ہیں بس دعائیں یار کی
÷÷روانی کی کمی ہے

شور کتنا آہ بهرنے نے کیا
جب کہا خوشیاں منائیں یار کی
÷÷واضح نہیں

قیس اپنی کم نصیبی ہے جو ہم
آج تک راہیں سجائیں یار کی
÷÷واضح نہیں۔ کیا سجائیں، سجانے کا ماضی ہے تو محاورہ بھی غلط ہے اور قافیہ بھی
 
Top