عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
جدید دور کے جدت پسند خدا دیکهے
نہ اُن میں ایک بهی اچها کوئی بُرا دیکهے

نظر کے سامنے رہتے ہو تم ہماری پر
تمہیں قریب سے کیسے کوئی بهلا دیکهے ؟

بُهلا کے اپنی محبت کی اک حقیقت کو
غمِ حُسین کے ماتم زدہ بهی کیا دیکهے ؟

لہو سے رنگ نہ بدلا کبهی زمینوں کا
کہ ہم نے خون کے دریا بہا بہا دیکهے

مِلا قرار نہ دل کو نہ جاں کو چین آیا
خود اپنی ذات کے فتنے مٹا مٹا دیکهے

کسی کو دیکه کے آتا ہے اک خیال ہم کو
کہ ہم جو دیکه رہے ہیں وہ شخص کیا دیکهے ؟

 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
بہت عمدہ عظیم شہزاد صاحب !
خاص طور پر یہ اشعار۔۔۔ :applause:(y)
لہو سے رنگ نہ بدلا کبهی زمینوں کا
کہ ہم نے خون کے دریا بہا بہا دیکهے

مِلا قرار نہ دل کو نہ جاں کو چین آیا
خود اپنی ذات کے فتنے مٹا مٹا دیکهے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید دور کے جدت پسند خدا دیکهے
نہ اُن میں ایک بهی اچها کوئی بُرا دیکهے


کسی کو دیکه کے آتا ہے اک خیال ہم کو
کہ ہم جو دیکه رہے ہیں وہ شخص کیا دیکهے ؟
یہ دو جگہ وزن درست نہیں۔
دوسرا شعر یوں کِیا جا سکتا ہے ۔۔

کسی کو دیکھ کے آتا ہے اک خیال ہمیں
 

عظیم

محفلین
ابهی تک چین پایا بهی نہیں ہے
اسے ہم نے گنوایا بهی نہیں ہے

ہمارے پاس آکر دیکه لو تم
کوئی اپنا پرایا بهی نہیں ہے

تباہی دیکهنے والوں نے اپنا

ابهی تک گهر بسایا بهی نہیں ہے

تمہیں معلوم ہے وہ راز کیسے
جسے تم نے چهپایا بهی نہیں ہے

اسد ان جنگلوں میں تو نے ہم سا
عدو اب تک بنایا بهی نہیں ہے

کوئی ندرت نیا احسن طریقہ
زمانے نے سکهایا بهی نہیں ہے

جهکا مخمور آگے بے ادب کے
کچه اس کو ہوش آیا بهی نہیں ہے

وہ ہم کو یاد بهی آتا ہے دیکهیں
جسے ہم نے بهلایا بهی نہیں ہے

عظیم اپنے گلستاں ہیں شرارے
تبهی گلچیں کو بهایا بهی نہیں ہے

لو کہہ دی قیس ہم نے بات دل کی
کوئی فتنہ اٹهایا بهی نہیں ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جینے کے لئے ہم کو تیرا بس ایک سہارا کافی ہے
مرنے کے لئے ہم کو تیری مژگاں کا اشارہ کافی ہے

کس شے کی تمنا ہے دل میں کیوں پهرتے ہیں ہم صحراوں میں
بس اس کی رضا اس نے چاہا اتنا ہی خدارا کافی ہے

بے تابی ء دل کے کیا کہنے کیا عرض کِیا واہ واہ ،واہ واہ
واہ واہ اَجی واہ کیا کہنے "دُهندلا سا نظارہ کافی ہے"

تقدیر کے کاتب نے لکها مقدور کی قسمت میں رونا
ہوتا ہے اگرچہ رو رو کر لیکن ہو گزارا کافی ہے

معلوم نہیں کس کے غم میں بے چین طبیعت رہتی ہے
معلوم نہیں کیوں کر ہم کو دکھ درد ہمارا کافی ہے

ہم قیس نہیں شاعر لیکن اتنا تو کہے دیتے ہیں اب
کہنے کو نہیں کافی کچھ پر کرنا ہو اشارہ کافی ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

اب بات کرو اس کی ہم سے
اب اس کے بیاں کی باری ہے
اب اس کی محبت میں ہم نے
دل، جان کی بازی ہاری ہے

ڈر لگنے لگا رسوائی سے
دنیا کی ہمیں پرچهائی سے
اک وہم ستاتا ہے دل کو
دنیا میں فقط دل زاری ہے

ہم کون تهے جو اس پر کہتے
اک نظم غزل مصرعہ کوئی
محفل میں لبوں پر ازلوں سے
جب ذکر الہی جاری ہے

بے تاب رہے جتنا بهی رہے
اُس قید سے ہوکر ہم آزاد
اُس زلفِ پریشاں کی جس سے
اب ہم پہ رہائی بهاری ہے

اب تک تها جنوں سے ناطہ پر
سب ختم ہوا رفتہ رفتہ
اب ہم کو عجب سی وحشت ہے
اب ہم پہ نشہ سا طاری ہے

دل داد کا طالب کیوں ہوگا
دل کو ہے کسی سے کیا لینا
اُن کے تو خیالوں پر اپنی
اغلاط کی ذمہ داری ہے

چل قیس کہیں چهپ جائیں ہم
اب ہم کو نہ وہ غافل دیکھے
سب اس کی نظر میں دنیا ہے
اور راس ہمیں دیں داری ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
پهر سے خلوت میں قیامت کا سما ہو جائے
رات محبوب کی زلفوں سی سیاہ ہو جائے

ہم نے قصدا نہ کِیا عشق کہ اللہ جانے
ہم سے بندوں سے تو ہر روز خطا ہو جائے

کوئی دیکھے بهی تو کیا دیکھ کہ صورت تیری
ہم کو معلوم نہیں، دید کو کیا ہو جائے

اس قدر ظلم و ستم ہم پہ نہ ڈهاو ظالم
یوں نہ ہو درد کی شدت ہی دوا ہو جائے

اک نئی طرزِ سخن جس کے معانی پنہاں
قیس اِس محفلِ خوبان پہ وا ہو جائے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یہ موت ہی تو مری سزا ہے
کہ عشق میں نے جو کر لیا ہے

اگر ہو اس سے بهی سخت دے دو
کہ یہ سزا بهی کوئی سزا ہے

نہ ظلم اتنے بهی ڈهاو ظالم
مجهے یقیں تو رہے خدا ہے

ہے ہاتھ میں جن کے سنگ ،ان کے
دلوں میں میرے لئے دعا ہے

جلا لئے ہیں چراغ میں نے
بجھی بجھی سی مگر ہوا ہے

بتاو میرے طبیب دل کی
سوائے دلبر کوئی دوا ہے ؟

نہ کوئی مجھ سا فقیر ہوگا
نہ کوئی مجھ سا غنی ہوا ہے

میں قیس دنیا سے دل لگا کر
یہ بهول بیٹھا کہ خلد کیا ہے

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ان اشعار پر پھر غور کرو۔ درست تو ہیں، لیکن بس بھرتی کے ہیں میرے ناقص خیال میں۔ کیا اسد بھی تخلص کر رہے ہو یا مراد شیر ہی ہے ایک شعر میں؟تباہی دیکهنے والوں نے اپنا
ابهی تک گهر بسایا بهی نہیں ہے

تمہیں معلوم ہے وہ راز کیسے
جسے تم نے چهپایا بهی نہیں ہے

اسد ان جنگلوں میں تو نے ہم سا
عدو اب تک بنایا بهی نہیں ہے

کوئی ندرت نیا احسن طریقہ
زمانے نے سکهایا بهی نہیں ہے

جهکا مخمور آگے بے ادب کے
کچه اس کو ہوش آیا بهی نہیں ہے

عظیم اپنے گلستاں ہیں شرارے
تبهی گلچیں کو بهایا بهی نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم اس غزل کو نکال ہی دو۔ ایک شعر ہی اچھا ہے۔ مطلع میں سما کا مطلب۔ یہاں ’سماں‘ کا محل ہے۔ سما (ارض و سما والا) کا نہیں۔ اسی طرح مقطع میں ’وا‘ کا قافیہ کا مفہوم غور طلب ہے۔
 

عظیم

محفلین

شام پئی
دل دکھ دا اے
دکھ ویکھ کے
باغ بہاراں دا
دن چڑھیا
فکراں لتهیاں
چڑھیا سورج
مٹیاراں دا
کون وچهوڑے سیہندا اے
دکه راس کِسَے نوں
آوندے نئی
مٹی ہو چگڑا مکناں
ایہناں عشق دیاں
بیماراں دا
کِس پاسے وَل
لے چلیاں نیں
میں نوں اوکهیاں
راواں
ہُون؟
میں کد اوس پاسے ول تکاں
جس پاسے گهر
یاراں دا
کون کِسَے دا
درد پچھانے
کون کسے دا
دکھ ونڈے
اوکهے ویلے
ٹر چلیا اے
ٹبر وی
سرکاراں دا
اوس دیہاڑے کول
کسے نے
بندیا نال ، کهلوناں نئیں
جیس دیہاڑے مکھ تکناں
اساں
اوس دا
اوس دے
یاراں دا
 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
بہت اچھے عظیم شہزاد صاحب!
۔۔۔۔
ہے ہاته میں جن کے سنگ ،ان کے
دلوں میں میرے لئے دعا ہے

اسے یوں کر کے دیکھئے:
ہے جن کے ہاتھوں میں سنگ، ان کے
۔۔۔۔۔
یہاں آپ کے مصرع میں کچھ ثقالت محسوس ہو رہی تھی۔ "ہے" کا ی گِرانا اور پھر اس کے فوراً بعد "ہاتھ" لفظ کے شروع میں "ہ" ہونا۔۔۔
ہ ہاتھ ۔۔۔ اسے پڑھنا ذرا دشوار نہیں لگتا؟؟؟

اگر کچھ آگے پیچھے کرنے سے شعر کی ثقالت (بھاری پن) دور ہو سکتی ہے تو ہمیں ضرور کرنا چاہئے۔۔۔
:)
 

عظیم

محفلین
بہت اچھے عظیم شہزاد صاحب!
۔۔۔ ۔
ہے ہاته میں جن کے سنگ ،ان کے
دلوں میں میرے لئے دعا ہے

اسے یوں کر کے دیکھئے:
ہے جن کے ہاتھوں میں سنگ، ان کے
۔۔۔ ۔۔
یہاں آپ کے مصرع میں کچھ ثقالت محسوس ہو رہی تھی۔ "ہے" کا ی گِرانا اور پھر اس کے فوراً بعد "ہاتھ" لفظ کے شروع میں "ہ" ہونا۔۔۔
ہ ہاتھ ۔۔۔ اسے پڑھنا ذرا دشوار نہیں لگتا؟؟؟

اگر کچھ آگے پیچھے کرنے سے شعر کی ثقالت (بھاری پن) دور ہو سکتی ہے تو ہمیں ضرور کرنا چاہئے۔۔۔
:)


بہت بہت شکریہ میرے بھائی
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
آمین
 

عظیم

محفلین
طبیعت بے کراں ہے اور کیا ہے
فقط آہ و فغاں ہے اور کیا ہے

کہ تجه بن زندگی میں میری جاناں
دهواں ہے بس دهواں ہے اور کیا ہے

سوا تیرے نہیں کچه اس جہاں میں
تو ہی تو ہے جہاں ہے اور کیا ہے

یقیں تک کهینچ لایا ہے مجهے جو
وہی میرا گماں ہے اور کیا ہے



منافع ڈهونڈتے ہو قیس جس جا
زیاں ہے واں زیاں ہے اور کیا ہے


 
آخری تدوین:
Top