عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
مجھ سا بهی کہیں کیا دنیا میں تقدیر کا مارا رہتا ہے
یوں درد کے قصے سنتا ہے یوں غم کی کہانی کہتا ہے

چہرے پہ تبسم اور جس کی آنکهوں میں عجب رعنائی ہے
معلوم ہے کیا اُس کے دل میں اِک آگ کا دریا بہتا ہے

اے باد صبا کیا کوئی ہے، ہر شام جو اُس کی نظروں کے
یوں تیر جگر پر کهاتا ہے یوں کرب ِمسلسل سہتا ہے


وہ روز الجهتا ہے مجھ سے میں روز سلجھ سا جاتا ہوں
میں اور سلجھتا جاوں گا وہ اور الجهتا رہتا ہے

اے عالمِ برزخ کے مالک اے کون و مکاں کے خالق کیا
ہے وقت ابهی اُس ساعت میں جسے شیخ قیامت کہتا ہے

کب میں نے کہا اس سے ایسا وہ شخص قسم سے جهوٹا ہے
کہتا ہے کہی اپنی لیکن کہتا ہے کہ شاعر کہتا ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


کبهی جو تو نے بیماروں کی جا خبر لی ہے
دوا نے اپنے تعاثر پہ پهر نظر کی ہے

بلا کہ مجه کو یوں مقتل میں میرے قاتل نے
ستم کی حد سے بهی آگے نگاہ کر دی ہے

وہ دور بیٹها ہے مجه سے میں کس جہاں میں ہوں ؟
جہاں نہ بات کوئی اس کی اس کے در کی ہے

اب آگے ان پہ یہ چهوڑا ہے فیصلہ میں نے
میں کہہ چکا ہوں کہ میں نے تو جیت سر لی ہے

خدا گواہ ہے کہ تم سے نہیں شکایت کچه
مگر یہ آگ سے جلتی ہوا ادهر کی ہے

نہ ان بتوں کو محبت کے گیت بهاتے ہیں
نہ اس خدا نے ہی نفرت بهی اس قدر دی ہے

چلو کہ قیس کے مرقد سے ہو کے آتے ہیں
ہمیں تلاش اب اس ہی آشفتہ سر سی ہے
 

عظیم

محفلین

جو نہ کرنا تها محبت میں کئے جاتے ہیں
روز مرنے کی تمنا میں جئے جاتے ہیں

ہم کو ساقی سے شکایت ہے نہ مے خانے سے
ہم سمجهتے ہیں کہ سانسوں کو پئے جاتے ہیں

زخم جتنے بهی ہوں منظور تمہیں دے جانا
ہاں وہی ذخم جو مر کر ہی سئے جاتے ہیں

ہم نہ مجنوں ہیں نہ فرہاد نہ رانجها کوئی
کیوں ہمیں لوگ یہ بدنام کئے جاتے ہیں

منزل عشق کی پہلی ہی کڑی میں دیکها
درس الفت کا منافق بهی دئے جاتے ہیں

قیس ان فتنہ گروں سے ہو شکایت کیوں کر
کر رہے ہیں جو سبهی ہم بهی کئے جاتے ہیں

 

الف عین

لائبریرین
جو نہ کرنا تها محبت میں کئے جاتے ہیں
روز مرنے کی تمنا میں جئے جاتے ہیں
÷÷درست

ہم کو ساقی سے شکایت ہے نہ مے خانے سے
ہم سمجهتے ہیں کہ سانسوں کو پئے جاتے ہیں
÷÷ہم سمجھتے ہیں‘ سے مطلب۔ کیا محض وزسن پورا کرنے کے لئے ہے؟ سانسیں پینا بھی محل نظر ہے۔ آنسو پئے جا سکتے ہیں۔ سانسیں؟

زخم جتنے بهی ہوں منظور تمہیں دے جانا
ہاں وہی ذخم جو مر کر ہی سئے جاتے ہیں
÷÷پہلے مصرع کا مفہوم؟ اور دوسرے سے ربط؟

ہم نہ مجنوں ہیں نہ فرہاد نہ رانجها کوئی
کیوں ہمیں لوگ یہ بدنام کئے جاتے ہیں
÷÷پہلا مصرع ’کوئی‘ کی نشست کی وجہ سے، اور دوسرا ’یہ‘ بھرتی کی وجہ سے روانی متاثر کر رہا ہے۔ اسے بسانی مقطع بنا سکتے ہو
ہم نہ مجنوں ہیں کوئی اور نہ فرہاد ہیں قیس
لوگ پھر کہوں ہمیں بدنام۔۔۔

منزل عشق کی پہلی ہی کڑی میں دیکها
درس الفت کا منافق بهی دئے جاتے ہیں
÷÷ درست، اگرچہ منافق سے مراد؟

قیس ان فتنہ گروں سے ہو شکایت کیوں کر
کر رہے ہیں جو سبهی ہم بهی کئے جاتے ہیں
فتنہ گر کیوں؟ شعر دو لخت یعنی بے ربط ہے
 

شوکت پرویز

محفلین
عظیم شہزاد بھائی!
بیمار اور آشفتہ کا تلفظ ذرا دیکھ لیں :)۔

بیماروں کو مریضوں سے بدلا جا سکتا ہے۔۔۔
اور مقطع میں آشفتہ سر کسی طرح بیٹھ نہیں سکتا۔۔۔ کچھ بدل کر یہ صورت ہو سکتی ہے۔
ہمیں تلاش اُسی مردِ بے خبر سی ہے
 

عظیم

محفلین
اک دهواں سا اٹهتا ہے
اب بهی دل کی وادی سے
ہر طرف مگر اس میں
بارشوں کا موسم ہے
ہائے میری امیدیں
آخری دموں پر ہیں
اور اس زمانے میں
خواہشوں کا موسم ہے
لوگ بے وفا سمجهے
کیا قصور ہے ان کا
سامنے جب آنکهوں کے
سازشوں کا موسم ہے
ڈهونڈ لاوں گا تجه کو
آج کل زمانے میں
ہمتوں کے چرچے ہیں
کاوشوں کا موسم ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

جو نہ کرنا تها محبت میں کئے جاتے ہیں
روز مرنے کی تمنا میں جئے جاتے ہیں

ہم کو ساقی سے شکایت ہے نہ مے خانے سے
ہم وہ مے کش ہیں جو اشکوں کو پئے جاتے ہیں

زخم دینے ہوں اگر شوق سے دے دو لیکن
ہوں وہی زخم جو مر کر ہی سئے جاتے ہیں

ہم نہ مجنوں ہیں نہ فرہاد نہ رانجها پهر بهی
لوگ بدنام زمانے میں کئے جاتے ہیں

منزل عشق کی پہلی ہی کڑی میں دیکها
درس الفت کا تو دشمن بهی دئے جاتے ہیں

قیس ان فتنہ گروں سے ہو شکایت کیوں کر
کر رہے ہیں جو سبهی ہم بهی کئے جاتے ہیں

 

عظیم

محفلین
دیکه یوں بے رخی نہیں اچهی
بے سبب دل لگی نہیں اچهی

مر نہ جائے تمہارا تشنہ لب
اس قدر تشنگی نہیں اچهی

کیوں ترستا ہوں تیری رحمت کو
کیا مری بندگی نہیں اچهی

ضبط لازم ہوا محبت میں
عشق میں بے بسی نہیں اچهی

اچهے اچهوں سے سنتا آیا ہوں
میرے منہ کی کہی نہیں اچهی

اس کے آگے اوقات میری قیس ؟
اتنی بے راہ روی نہیں اچهی


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تو نے بهلا دیا جب مجه کو مرے خدا
رکهتی ہے یاد رکهے دنیا سے مجه کو کیا

مانا کہ میں نہیں ہوں تیری عطا کہ قابل
لیکن ہے مجه سا کوئی تیرا گدا بتا ؟

اڑنے دے خاک میری یونہی تو راستوں میں
تیری گلی کا وحشی پائے یہی سزا

تیرا ہی زکر ان سے کرتا ہوں روز جاکر
کہتے ہیں جو مجهے وہ تیرا نہیں ہوا

کم بخت مصیبتوں نے باندهے ہیں پاوں ورنہ
جاوں میں اس جگہ جاں اپنا نہ ہو پتا


کل تک جو سر جهکا کر بیٹها تها تیرے غم میں
اس کی اب اپنے غم میں گردن کبهی جهکا

دل کا معاملہ تها پہنچی ہے بات جاں تک
میں نے جو عشق سمجها نکلا بڑی بلا


اوروں نے تیرے بارے کیا کیا نہیں بتایا
تو بهی تو اپنے بارے مجه کو کبهی بتا

ہونٹوں پہ نام تیرا دل میں تری طلب تهی
دنیا میں اور بهاتا تیرے سوا بهی کیا

بہتر ہے چهوڑ دو تم اس کی عظیم خواہش
ورنہ رہو گے تم بهی ہم سے خفا خفا

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

ترے ملنے کی خوشیاں اب مناوں
یا کهو جانے کا اپنے غم اٹهاوں

تجھے میں ڈهونڈ لاوں گا خدایا
ذرا ٹھہرو میں خود کو ڈهونڈ لاوں

زمانے نے ستایا اس قدر ہے
بتا پاوں نہ چاہوں گر بتاوں

میں تجھ سے کس لئے امید رکهوں
میں کیوں کر آس کا دیپک جلاوں

میں منزل پر پہنچ کر سوچتا ہوں
اب آگے آسماں سے اور جاوں

میں کیوں اپنی کسی چاہت کے بدلے
صلہ اب غیر سے دنیا میں پاوں

تمہارے نام کی برکت ہے ورنہ
زباں پر میں نہ اپنا نام لاوں

ادهورے کام ہیں کچھ زندگی میں
جنہیں پورا کئے بن مر نہ جاوں

مری اوقات کیا ہے سر جهکا دوں
میں کیا ہوں جو کبهی سر کو اٹهاوں

اب اس سے اور کیا بڑھ کر تجھےمیں
مرے غمخوار اپنا غم سناوں

عظیم اُن دشمنان جاں سے کہنا
تمہارے سامنے جاں روز لاوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
روز اس خوف سے گزرتے ہیں
زندہ رہتے ہیں وہ جو مرتے ہیں

ہم تهے آئے جہاں میں کرنے کیا
ہم سے دیکهو یہاں جو کرتے ہیں

شور کتنا ہے آج گیتوں کا
ہم کہ دل میں ہی آہ بهرتے ہیں

جاگ جائیں نہ وہ خدا ان کے
بندے اب یہ دعا بهی کرتے ہیں

سانس گهٹتی ہے جان جاتی ہے
جب بهی تجه پر نگاہ دهرتے ہیں

کیا حقیقت میں وہ پلاتا ہے ؟
کیا حقیقت میں جام بهرتے ہیں ؟

جان دے کر بهی کب زمانے میں
ان نصیبوں کے سر سدهرتے ہیں


دل کی دهڑکن گواہ رہنا تو
ہم نہ سچ سے کبهی مکرتے ہیں

دن نکلنے میں وقت باقی ہے
اب سے سورج یہاں اترتے ہیں

ہم سے ہوتا نہیں ہے لیکن ہم
حسن ساقی بیان کرتے ہیں

لفظ پوچهیں یہ ہم سے کیوں جانیں
حرف کاغذ پہ کیوں بکهرتے ہیں

یاد رکهنا نہ بهول جانا قیس
تجه سے کتنے ہی ہم پہ مرتے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
حسب معمول بھرتی کے اشعار کافی ہیں۔ خود احتساب کر کے کیوں نہیں معمولی اشعار نکال دیتے؟
روز اس خوف سے گزرتے ہیں
زندہ رہتے ہیں وہ جو مرتے ہیں
÷÷درست، اگرچہ معمولی ہے

ہم تهے آئے جہاں میں کرنے کیا
ہم سے دیکهو یہاں جو کرتے ہیں
۔۔توانی اچھی نہیں÷ یوں کیا جا سکتا ہے

آئے تھے ہم جہاں میں کرنے کیا
اور دیکهو یہاں جو کرتے ہیں

شور کتنا ہے آج گیتوں کا
ہم کہ دل میں ہی آہ بهرتے ہیں
÷÷اور ہم دل میں۔۔۔۔

جاگ جائیں نہ وہ خدا ان کے
بندے اب یہ دعا بهی کرتے ہیں
÷÷جاگ جائیں نہ اب خدا ان کے
بندے یہ بھی دعائیں کرتے ہیں

سانس گهٹتی ہے جان جاتی ہے
جب بهی تجه پر نگاہ دهرتے ہیں
÷÷نگاہ کرتے ہیں

کیا حقیقت میں وہ پلاتا ہے ؟
کیا حقیقت میں جام بهرتے ہیں ؟
÷÷درست
جان دے کر بهی کب زمانے میں
ان نصیبوں کے سر سدهرتے ہیں
÷÷سر سدھرنا؟

دل کی دهڑکن گواہ رہنا تو
ہم نہ سچ سے کبهی مکرتے ہیں
÷÷روانی اچھی نہیں

دن نکلنے میں وقت باقی ہے
اب سے سورج یہاں اترتے ہیں
÷÷دیکھو، سورج۔۔۔

ہم سے ہوتا نہیں ہے لیکن ہم
حسن ساقی بیان کرتے ہیں
÷÷ساقی کی جگہ کچھ اور۔ مثلاً جاناں

لفظ پوچهیں یہ ہم سے کیوں جانیں
حرف کاغذ پہ کیوں بکهرتے ہیں
÷÷واضح نہیں

یاد رکهنا نہ بهول جانا قیس
تجه سے کتنے ہی ہم پہ مرتے ہیں
درست۔
 
Top