عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
مطلع پھر دیکھیں۔ بے کراں کن معنوں میں استعمال کر رہے ہو؟
باقی اشعار بھی گوارا ہی ہیں
 

عظیم

محفلین
اے عمرِ رواں

اے عمر رواں آہستہ ذرا
آہستہ چلو کہ کام ہیں کچه
کرنے کو ابهی اس دنیا میں
کچھ خواب ادهورے ہیں جن کو
تکمیل کی صورت دینی ہے
کچه رنگ حقیقت سے لے کر
تعبیر کی صورت دینی ہے
اے عمر روں آہستہ ذرا
آہستہ کہ فرض نبهانے ہیں
کچھ وعدے پورے کرنے ہیں
الفت کے قرض چکانے ہیں
اے عمر رواں آہستہ ذرا
آہستہ ابهی دیکها کیا ہے
جز دنیا کی مکاری کے
خود اپنی اس لاچاری کے
اے عمر رواں رہنے دے ہمیں
یوں پاسِ وفا نہ یاد دِلا
اے عمر رواں پیَروں کے نشاں
مٹتے ہیں مٹانے پر، نہ مٹا
اے عمر رواں آہستہ ذرا
کچه اور ہمیں یاں رہنے دے
اے عمر رواں آہستہ ذرا
دکه درد جہاں کا سہنے دے
اے عمر رواں آہستہ ذرا
آنکهوں سے لہو تو بہنے دے
اے عمر رواں آہستہ ذرا
ہمیں اپنی بات تو کہنے دے
اے عمر رواں جلدی کیا ہے ؟
مرجائیں گے اک دن ہم لیکن
ہمیں شہر حرم تک جانے دے
اسے پلکوں سے چهو آنے دے
ہمیں اپنی ہوش کو کهونے دے
ہمیں اپنا آپ بهلانے دے
اے عمر رواں اک بار فقط
ہمیں روٹها یار منانے دے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
آئینہ ہے سامنے لیکن لگے دیوار ہے
کیا نہیں اُس پار ایسا جو نہیں اِس پار ہے

اپنے احساسات ہم نے دفن کر کے رکھ دیئے
ہر کوئی جذبوں کی شدت سے یہاں بیزار ہے

رند کہاں واعظ تری پند و نصیحت ہے کہاں
تو نہیں اس نیند سویا جس سے وہ بیدار ہے

اک ہمارے نام لینے سے ہوئے برہم جناب
آپ کیا جانیں ہماری آپ سے تکرار ہے

خاکساری کا ڈهنڈورا پیٹتے نا جایئے
کب ہمیں اس خاک سے اب آپکی انکار ہے

آپکی محفل میں قدر و منزلت کیا قیس کی
رخت باندهے یہ مسافر دشت کو تیار ہے

 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
باقی تو درست ہے، لیکن یہ اشعار

رند کہاں واعظ تری پند و نصیحت ہے کہاں
تو نہیں اس نیند سویا جس سے وہ بیدار ہے
÷÷رند کہاں“ وزن میں نہیں آتا، شعر دو لخت بھی ہے اور دوسرا مصرع رواں بھی نہیں۔

اک ہمارے نام لینے سے ہوئے برہم جناب
آپ کیا جانیں ہماری آپ سے تکرار ہے
÷÷تکرار سے مراد؟

خاکساری کا ڈهنڈورا پیٹتے ناں جایئے
کب ہمیں اس خاک سے اب آپکی انکار ہے
÷÷مت جایئے کر دو پہلے مصرع میں۔ دوسرا واضح بھی نہیں، اور رواں بھی نہیں
 

عظیم

محفلین
ہم کہاں واعظ تری پند و نصیحت ہے کہاں
ہم نہیں اس نیند سوئے جس سے تو بیدار ہے

اک ہمارے نام ....
ذات سے وابسطہ شاید تبهی واضح نہ ہو سکا

خاکساری کا ڈهنڈورا پیٹتے مت جایئے
آپ کی باتوں سے ابتر آپکا کردار ہے
 

عظیم

محفلین
جب کسی خاص شخص کیلئے کچه کہتا ہوں تو دوسروں پر وہ بات واضح نہیں ہو پاتی
کچه رہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین
زمیں پر آسمانوں کو گرا دے
مجهے اپنے غلاموں میں جگاہ دے

میں اپنی ذات میں ہوں قید مجھ کو
تو اپنی ذات کا قیدی بنا دے
.
نظر میں کچھ نہیں جچتا ہے میری
تو بے شک چاند پہلو میں بٹها دے

میں اس دنیا میں ایسا اجنی ہوں
جسے اس کی خبر اس کا پتا دے

خدا جانے وہ رکهے یاد کب تک
خدا جانے وہ کس دن کو بهلا دے

مرے آگے صَفِ ماتم بچھا کر
خوشی پهر سے نئی طرزِ بکا دے

میں شب کی الجھنوں میں گهِر گیا ہوں
اندهیروں سے کوئی پیچھا چهڑا دے

ترے لفظوں میں ہے بس ،خاکساری
سرِ محفل تو لفظوں کو جهکا دے

مجهے کہنے سے پہلے بے وفا وہ
ذرا اپنی وفائیں تو گنا دے

اُسے لگتا ہے میں مغرور ہوں جو
جهکائے سر تو اپنا دهڑ اٹها دے

میں نوحہ گر ہُوا یہ آس لے کر
کہ شاید تو مجهے نغمے سنا دے

بهٹکتا پهر رہا ہوں قیس کب سے
ہوں کب سے گمشدہ کوئی بتا دے

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ عروضی اغلاط تو کوئی نہیں، سوائے ’جگہ‘ کے قافئے کے، اسے جگاہ لکھنے سے بھی قافیہ درست نہیں ہو پاتا۔

خدا جانے وہ کس دن کو بهلا دے
روانی چاہتا ہے۔ مثلاً
  • خدا جانے وہ کب مجھ کو بهلا دے
باقی اشعار اکثر غیر واضح÷ دو لخت ہیں
 

عظیم

محفلین
ماشاء اللہ عروضی اغلاط تو کوئی نہیں، سوائے ’جگہ‘ کے قافئے کے، اسے جگاہ لکھنے سے بھی قافیہ درست نہیں ہو پاتا۔

خدا جانے وہ کس دن کو بهلا دے
روانی چاہتا ہے۔ مثلاً
  • خدا جانے وہ کب مجھ کو بهلا دے
باقی اشعار اکثر غیر واضح÷ دو لخت ہیں


ہمت افزائی کیلئے بیحد شکریہ
مجهے اس کی سخت ضرورت ہے
کیا دو لغت کی گنجائش نہیں
میں اکثر جان بوجه کر ایسا کرتا ہوں
دعائیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اس کے ہی تذکروں پر مائل زباں ہے آج
اس کی ہی یاد کا بس دل میں سماں ہے آج

کوئی کہیں سے لادے اس کو تلاش کر کے
میرے یقیں پہ جس کا غالب گماں ہے آج

یارب حقیقتوں میں بهر کر بهی رنگ دیکها
لیکن نظر سے پھر اک منظر نہاں ہے آج

مجھ کو نہ یوں جهکاو قدموں میں غیر کے اب
مجھ میں وہ بات پہلی دیکهو کہاں ہے آج

کل تک جو اس جہاں میں پهرتے تهے قیس ان کا
دیکهیں تو کیا کہیں پر باقی نشاں ہے آج

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اُسے کچھ گنگنایا سو گئے ہم
گَلے خود کو لگایا سو گئے ہم

کہ اُس کے ہجر میں ہم نے کبهی جب
کہیں کچھ چین پایا سو گئے ہم

تھکے ہارے تهے دشتِ زندگی کے
قضا کا وقت آیا سو گئے ہم

بُرا ہو اے زبانِ غیر تیرا
یہ نغمہ کیا سنایا سو گئے ہم

ہمیں دینے وہ کافر جب ہماری
تها نیندیں ساتھ لایا سو گئے ہم

رہے ہم جاگتے اس بے خودی میں
مگر جب ہوش آیا سو گئے ہم

ہمیں اب قیس دنیا پوچهتی ہے
کہو اے قیس آیا سو گئے ہم ؟

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یوں ہم سے الجھنا ٹهیک نہیں
ہم عاشق ہیں مستانے ہیں
اے شمع شبستاں گُل ہو جا
ہم راکھ ہوئے پروانے ہیں
تو کشتی نما ہم موجِ بلا
تو عہدِ رواں ہم ظرفِ زماں
تو علت غائی سے غافل
ہم اس جگ سے بیگانے ہیں
کیوں وقت کی دهارا مڑتی ہے
کیوں دن کا کنارا ملتا ہے
ہم کس گردش میں رہتے ہیں
یہ راز ابهی انجانے ہیں
اس شام سے کوئی تو کہہ دے
مت شور کرے تنہائی میں
ہم کو اس کی دهن بهاتی ہے
ہم کو اس کے گن گانے ہیں
اے محفل خوباں کیا تجھ کو
یہ چاک گریباں عاشق کا
یہ پاوں کے چهالے اور اس کے
کچھ طور طریقے بهانے ہیں ؟
کچھ ہم کو ہمارا مان نہیں
کچھ ہم ہو کر ہم کیوں ہوں گے
ہم سے اُس کے عاشق کتنے
تهے پہلے کتنے آنے ہیں
وہ خوب عنایت کرتے ہیں
وہ دیتے ہیں جو اُن کی عطا
اے حاسد و نکتہ چیں تیرے
سب قول بہت بچگانے ہیں
ہم اپنی جوانی میں ڈوبے
اور یوں ڈوبے کوئی ڈوبے ناں
ہم سا کوئی مرجائے ناں
ہم ایسے کچھ مرجانے ہیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
شب ِغم سدا رہے گی یونہی عاشقوں پہ طاری
انہیں نیرنگِ زمانہ لگے اب خرد سے بهاری

ترے در سے اٹھ گئے تو کسی در پہ جا نہ پائے
کیِا ہم نے جب کنارا تجھ سے تو جان ہاری

بڑی دیر سے تها دل میں اک وہم مر گیا ہے
تبهی آج ہم نے تجھ پر یہ زندگی بهی واری

کوئی ایک تو کنایہ کوئی ایک تو اشارہ
کبھی اس طرف بهی کر دو گهٹنے لگی خماری

نہ تو اس قدر گرے ہیں نہ سنبهل سکیں ہیں اتنے
کہو تم یہ ہم سے لوگو کیا بات ہے تمہاری

اِسی آرزو میں ہم نے شبِ ہجر کاٹ لی ہے
ابھی اس طرف مُڑے گی ترے تخت کی سواری

رہ ِعشق میں عجب اک اب موڑ آ گیا ہے
ہوئی دشمنی جہاں سے ہوئی دشمنوں سے یاری

ہمیں کس نظر سے دیکها ،کہَیں آج آئینوں نے ؟
نہ اٹهی ہے جس طرح سے کبهی یہ نظر ہماری

نہ ہی قیس تم ہمارے نہ ہی ہم تمہارے ہوں گے
یہ کہا تها اس نے ہم سے یہ وہی ہے دور جاری

 
آخری تدوین:
Top