اے عمر رواں آہستہ ذرا
آہستہ چلو کہ کام ہیں کچه
کرنے کو ابهی اس دنیا میں
کچھ خواب ادهورے ہیں جن کو
تکمیل کی صورت دینی ہے
کچه رنگ حقیقت سے لے کر
تعبیر کی صورت دینی ہے
اے عمر روں آہستہ ذرا
آہستہ کہ فرض نبهانے ہیں
کچھ وعدے پورے کرنے ہیں
الفت کے قرض چکانے ہیں
اے عمر رواں آہستہ ذرا
آہستہ ابهی دیکها کیا ہے
جز دنیا کی مکاری کے
خود اپنی اس لاچاری کے
اے عمر رواں رہنے دے ہمیں
یوں پاسِ وفا نہ یاد دِلا
اے عمر رواں پیَروں کے نشاں
مٹتے ہیں مٹانے پر، نہ مٹا
اے عمر رواں آہستہ ذرا
کچه اور ہمیں یاں رہنے دے
اے عمر رواں آہستہ ذرا
دکه درد جہاں کا سہنے دے
اے عمر رواں آہستہ ذرا
آنکهوں سے لہو تو بہنے دے
اے عمر رواں آہستہ ذرا
ہمیں اپنی بات تو کہنے دے
اے عمر رواں جلدی کیا ہے ؟
مرجائیں گے اک دن ہم لیکن
ہمیں شہر حرم تک جانے دے
اسے پلکوں سے چهو آنے دے
ہمیں اپنی ہوش کو کهونے دے
ہمیں اپنا آپ بهلانے دے
اے عمر رواں اک بار فقط
ہمیں روٹها یار منانے دے
رند کہاں واعظ تری پند و نصیحت ہے کہاں
تو نہیں اس نیند سویا جس سے وہ بیدار ہے
÷÷رند کہاں“ وزن میں نہیں آتا، شعر دو لخت بھی ہے اور دوسرا مصرع رواں بھی نہیں۔
اک ہمارے نام لینے سے ہوئے برہم جناب
آپ کیا جانیں ہماری آپ سے تکرار ہے
÷÷تکرار سے مراد؟
خاکساری کا ڈهنڈورا پیٹتے ناں جایئے
کب ہمیں اس خاک سے اب آپکی انکار ہے
÷÷مت جایئے کر دو پہلے مصرع میں۔ دوسرا واضح بھی نہیں، اور رواں بھی نہیں
یوں ہم سے الجھنا ٹهیک نہیں
ہم عاشق ہیں مستانے ہیں
اے شمع شبستاں گُل ہو جا
ہم راکھ ہوئے پروانے ہیں
تو کشتی نما ہم موجِ بلا
تو عہدِ رواں ہم ظرفِ زماں
تو علت غائی سے غافل
ہم اس جگ سے بیگانے ہیں
کیوں وقت کی دهارا مڑتی ہے
کیوں دن کا کنارا ملتا ہے
ہم کس گردش میں رہتے ہیں
یہ راز ابهی انجانے ہیں
اس شام سے کوئی تو کہہ دے
مت شور کرے تنہائی میں
ہم کو اس کی دهن بهاتی ہے
ہم کو اس کے گن گانے ہیں
اے محفل خوباں کیا تجھ کو
یہ چاک گریباں عاشق کا
یہ پاوں کے چهالے اور اس کے
کچھ طور طریقے بهانے ہیں ؟
کچھ ہم کو ہمارا مان نہیں
کچھ ہم ہو کر ہم کیوں ہوں گے
ہم سے اُس کے عاشق کتنے
تهے پہلے کتنے آنے ہیں
وہ خوب عنایت کرتے ہیں
وہ دیتے ہیں جو اُن کی عطا
اے حاسد و نکتہ چیں تیرے
سب قول بہت بچگانے ہیں
ہم اپنی جوانی میں ڈوبے
اور یوں ڈوبے کوئی ڈوبے ناں
ہم سا کوئی مرجائے ناں
ہم ایسے کچھ مرجانے ہیں