عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
کہیں گے سچ کہ حقیقت بیان کرتے ہیں
اُسی کا ذکر ہی زیرِ زبان کرتے ہیں

تو کیا ہُوا کہ محبت میں ہم جہاں بُھولے
تو کیا جو ہم ترا خود پر گمان کرتے ہیں

عجیب طرز کے محفل میں لوگ ہیں اُن کی
ہمیں سے غم کے وہ قصے بیان کرتے ہیں

ہمارے پاس کوئی غیر کیا نہیں اپنا
ہیں ایسے ایک جو اِک کا دھیان کرتے ہیں

پہنچ سکے نہیں صاحب وہ بات تک اپنی
جو کہہ رہے ہیں کہ صاحب بیان کرتے ہیں
 
آخری تدوین:
مطلع کے دوسرے مصرع میں دو حصر بار ہوگیا ہے ، ”اسی“ بھی ہے اور ”ہی“ بھی۔ پھر ”زیر زبان کرنے“ میں غور فرمالیجیے۔
 
آخری تدوین:
ہیں ایسے ایک جو اِک کا دھیان کرتے ہیں

لفظ دھیان کے بارے میں استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب کا ارشاد ہے:
اس ’’دھیان‘‘ میں دو باتوں پر دھیان دیجئے گا۔
اول یہ کہ اس کی یاے شعر میں نہیں بولتی جیسے کیا (سوالیہ)، پیارا، پیاس، کیوں میں نہیں بولتی۔
دوسرے اس کا نون غنہ نہیں ہو سکتا۔
 

عظیم

محفلین
آخری تدوین:
ہیں ایسے ایک جو اِک کا دھیان کرتے ہیں

لفظ دھیان کے بارے میں استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب کا ارشاد ہے:
اس ’’دھیان‘‘ میں دو باتوں پر دھیان دیجئے گا۔
اول یہ کہ اس کی یاے شعر میں نہیں بولتی جیسے کیا (سوالیہ)، پیارا، پیاس، کیوں میں نہیں بولتی۔
دوسرے اس کا نون غنہ نہیں ہو سکتا۔


تسلیم ہے حضور!
 

عظیم

محفلین


جب بھی اُن کی گلی میں بُلائے گئے
ہم نگاہوں کو اپنی جھکائے گئے

غم کا کیا تذکرہ اب کریں، باخُدا
خُون رونے لگے جب ہنسائے گئے

اُن کی خواہش میں ایسے مٹے ساتھیو!
پھر نہ لوح و قلم سے مٹائے گئے

ظلم کی انتہا ہو گئی، ہاں ، مگر
کب اُنہیں ذخم دِل کے دِکھائے گئے

اُن کے در کی تمنا میں کیا اب کہیں
ہر کسی کے ہیں در سے اُٹھائے گئے

اب تو اُمید ٹُوٹی چلی دوستو !
صاحبو ! اب تو کتنا ستائے گئے







 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جب بھی اُن کی گلی میں بُلائے گئے
ہم نگاہوں کو اپنی جھکائے گئے
÷÷درست، اگرچہ جھکائے گئے‘ کا مطلب ہر جگہ ’جھکائے ہوئے گئے‘ ہی نہیں ہو تا۔ لیکن اتنی آزادی تو لی جا سکتی ہے

غم کا کیا تذکرہ اب کریں، باخُدا
خُون رونے لگے جب ہنسائے گئے
۔۔با خدا، خدا ے ساتھ، بخدا۔ خدا کی قسم، یہاں ’بخدا‘ کا محل ہے۔
ذکر غم کیا کریں ہم، خدا کی قسم
کر دو پہلے مصرع کو

اُن کی خواہش میں ایسے مٹے ساتھیو!
پھر نہ لوح و قلم سے مٹائے گئے
۔÷÷ بے معنی لگتا ہے، لوح و قلم سے مٹا دئے جانے کا مطلب ہے دنیا سے ہی رخصت ہونا۔ اگر یہ مراد ہے کہ ان کے عشق میں ’امر‘ ہو گئے تو الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے۔

ظلم کی انتہا ہو گئی، ہاں ، مگر
کب اُنہیں ذخم دِل کے دِکھائے گئے
÷÷ہاں ، مگر‘ کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگلے مصرع میں کہا جائے گا کہ ظلم کی انتہا کے باوجود کچھ کیا گیا، لیکن جو یہاں کہا گیا ہے اس کا ظلم کی انتہا سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی دو لختی ہے۔

اُن کے در کی تمنا میں کیا اب کہیں
ہر کسی کے ہیں در سے اُٹھائے گئے
۔۔۔ دوسرا مصرع رواں نہیں، ”سنگ در سے اٹھائے گئے۔“کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ’کیا اب کہیں‘ کا استعمال مزید قوت کا مصرع چاہتا ہے۔

اب تو اُمید ٹُوٹی چلی دوستو !
صاحبو ! اب تو کتنا ستائے گئے
۔۔یہ مقطع ہے؟ صاحب نہیں آ سکا تو ’صاحبو‘ کر دیا؟
اس قدر ہم تو صاحب ستائے گئے
ٹوٹی چلی محاورے کے خلاف ہے، ’ٹوٹ چلی‘ کہا جاتا ہے۔
لیکن دونوں مصرعوں کو ملا کر دیکھنے میں کوئی خاص بات نہیں لگتی۔ محض بیانیہ ہے، خیال آرائی نہیں۔
 
'' ہی '' تاکید ۔ ''زیرِ زبان'' بین السطور اگرچہ اس لفظ کی املا نہیں جانتا
محمد یعقوب آسی صاحب کیا یہ درست املا ہے ؟

کہیں گے سچ کہ حقیقت بیان کرتے ہیں
اُسی کا ذکر ہی زیرِ زبان کرتے ہیں

’’جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘
’’عظیم لوگ کہاں کچھ دھیان کرتے ہیں‘‘ :sneaky:
 

الف عین

لائبریرین
کہیں گے سچ کہ حقیقت بیان کرتے ہیں
اُسی کا ذکر ہی زیرِ زبان کرتے ہیں
۔۔اسی، ہی اور زیر زبان کی بات ہو چکی ہے۔ لیکن اس شعر میں کہنا کیا چاہتے ہو۔ دونوں مصرع الگ الگ ایک بیان ہیں۔

تو کیا ہُوا کہ محبت میں ہم جہاں بُھولے
تو کیا جو ہم ترا خود پر گمان کرتے ہیں
÷÷واہ۔ بطور خاص دوسرا مصرع، لیکن پہلا مصرع کچھ ساتھ نہیں دے رہا۔ کیا بھولے؟ راستہ؟ پھر اس کا دوسرے مصرع سے تعلق؟
دو لخت کہوں گا تو تم برا مان جاتے ہو!!

عجیب طرز کے محفل میں لوگ ہیں اُن کی
ہمیں سے غم کے وہ قصے بیان کرتے ہیں
۔۔عجیب طرز کے ہیں لوگ ان کی محفل میں
بہتر ہو گا

ہمارے پاس کوئی غیر کیا نہیں اپنا
ہیں ایسے ایک جو اِک کا دھیان کرتے ہیں
۔۔دھیان بطور فعل بھی لایا جا سکتا ہے، لیکن دھیان کرنا اور دھیان رکھنا کے فرق پر غور کرو۔ یہاں شاید رکھنا ہونا چاہئے تھا۔
پہلے مصرع کی روانی بھی مار کھا رہی ہے، اور دو لخ۔۔۔۔۔

پہنچ سکے نہیں صاحب وہ بات تک اپنی
جو کہہ رہے ہیں کہ صاحب بیان کرتے ہیں
÷÷میں بھی پہنچ نہیں سکا کہ صاحب کیاکہنا چاہ رہے ہیں!!
 

عظیم

محفلین
کہیں گے سچ کہ حقیقت بیان کرتے ہیں
اُسی کا ذکر ہی زیرِ زبان کرتے ہیں
۔۔اسی، ہی اور زیر زبان کی بات ہو چکی ہے۔ لیکن اس شعر میں کہنا کیا چاہتے ہو۔ دونوں مصرع الگ الگ ایک بیان ہیں۔

تو کیا ہُوا کہ محبت میں ہم جہاں بُھولے
تو کیا جو ہم ترا خود پر گمان کرتے ہیں
÷÷واہ۔ بطور خاص دوسرا مصرع، لیکن پہلا مصرع کچھ ساتھ نہیں دے رہا۔ کیا بھولے؟ راستہ؟ پھر اس کا دوسرے مصرع سے تعلق؟
دو لخت کہوں گا تو تم برا مان جاتے ہو!!

عجیب طرز کے محفل میں لوگ ہیں اُن کی
ہمیں سے غم کے وہ قصے بیان کرتے ہیں
۔۔عجیب طرز کے ہیں لوگ ان کی محفل میں
بہتر ہو گا

ہمارے پاس کوئی غیر کیا نہیں اپنا
ہیں ایسے ایک جو اِک کا دھیان کرتے ہیں
۔۔دھیان بطور فعل بھی لایا جا سکتا ہے، لیکن دھیان کرنا اور دھیان رکھنا کے فرق پر غور کرو۔ یہاں شاید رکھنا ہونا چاہئے تھا۔
پہلے مصرع کی روانی بھی مار کھا رہی ہے، اور دو لخ۔۔۔ ۔۔

پہنچ سکے نہیں صاحب وہ بات تک اپنی
جو کہہ رہے ہیں کہ صاحب بیان کرتے ہیں
÷÷میں بھی پہنچ نہیں سکا کہ صاحب کیاکہنا چاہ رہے ہیں!!



بابا تسی تے ناں بس ! :(
بچے دی جان لو گے :worried:
 
Top