عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
اُلجھے ہُوئے ہیں کیسے خیالوں میں آج کل
کِن لاجواب سخت سوالوں میں آج کل
÷÷درست

ڈھونڈے بھی کیا ملے گا ہمارا اُنہیں پتا
رہتے ہیں کچھ تاریک اجالوں میں آج کل
÷÷تاریک کا الف وزن میں نہیں آتا، اس تبدیلی کا سوچو
رہتے ہیں یوں اندھیرے اجالوں۔۔۔

پیہم کِیا ہے عشق نے رسوا و در بدر
پھرتے ہیں چندایک نرالوں میں آج کل
واعظ نے مشورہ یہ دِیا ہے کریں گے شُکر
پر قید ہیں کسی کے خیالوں میں آج کل
اللہ وہ کِس نگاہ سے دیکھیں ہمیں بچا
جیسے کہ رہ رہے ہوں مثالوں میں آج کل
صاحب تمہاری بات کہاں پر سُنی گئی
کھوئے ہوئے ہو یونہی خیالوں میں آج کل
÷÷یہ سب مفہوم سے خالی یا بے ربط لگتے ہیں
 

عظیم

محفلین
غزل

خواہشیں، آج مِٹ گَئیں میری
حسرتیں غمزدہ رہیں میری

یہ مِری لاش تو نہیں ظالم
دیکھ یہ بهی کہیں نہیں میری

شاعری کیا بلا ہے کیا معلوم
ہے مگر اِبتدا یہیں میری

آج کس موڑ پر کهڑا ہُوں مَیں
آج مُجھ کو خَبر نہیں میری

رات وہ خواب میں نہیں آئے
اور آنکهیں نہیں بَہیں میری

کون جانے بَکُوں مَیں کیا صاحب!
میری بکواس تک نہیں میری

اَب عظیم آئینوں سے کیا حاصل
اَب تو صُورت نہیں کہیں میری

محمد عظیم صاحب ۔​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہاں، اس غزل میں ہر شعر میں کچھ مفہوم تو نکلتا ہے سوائے اس کے
شاعری کیا بلا ہے کیا معلوم
ہے مگر اِبتدا یہیں میری
ابتدا سے کیا مراد ہے؟
باقی پوری غزل درست ہے ماشاء اللہ، خوشی ہوئی۔
 

عظیم

محفلین

گو تَہَجُّد گُزار ہُوں جیسے
جان و دِل سے نِثار ہُوں جیسے

بُھول بیٹھا ہُوں نِیند کو اپنی
مَیں عِبادَت گُزار ہُوں جیسے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ہم اِس عشق کی اِنتہا تک چلے
اَجی روک لیجئے خُدا تک چلے

زمانے کے اُن ظالِموں سے کہو !
کہ ہم صَبر کی مُنتہا تک چلے

چلی دَھمکیاں کب وہاں غیر کی
ہماری جہاں اِلتجا تک چلے

چلے ہم تو کیا ہو بُرا گر کبھی
ہمیں روکنے کو ہَوا تک چلے

سُنیں اُن رقیبوں کی سنیئے نہیں
جو صاحب کی طرزِ اَدا تک چلے


 

عظیم

محفلین
غزل

حال دِل کا کِسے سُناؤں مَیں
تم بتاؤ کیا جگ رُلاؤں مَیں

دوست کہہ کر کِسے بُلاؤں مَیں
دُوشمنوں سے جو بھاگ جاؤں مَیں

کِن سے جاکر کرُوں شکایت اَب
اپنے دُکھڑے کنہیں سُناؤں مَیں

تُم جو کہہ دو تو گِیت گاؤُں مَیں
تُم جو کہہ دو تو مسکُراؤں مَیں

درد کیسا ہے میرے اِس دِل میں
جان پاؤ تو کیوں بتاؤں مَیں

حشر برپا کِیا ہے لوگوں نے
تو قیامت نہ کیوں اُٹھاؤں مَیں

اب تو آؤ مرے طبیبِ جاں
اب تو اشکوں میں خُوں بہاؤں مَیں

تُم کہانی نہ سُن سکو لوگو !
اک حقیقت جو کہہ سُناؤں مَیں

صاحِب اِس خوف سے مُجھے ڈر ہے
مر نہ جاؤں نہ مر ہی جاؤں مَیں


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

خُدا نہ ہاتھ لگا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
دیں اُن کو آج بتا، ہم بُتوں میں جا بیٹھے

ہُوئے ہیں اپنی ہی نظروں میں آج شرمندہ
ہماری چشمِ حَیا ہم ، بُتوں میں جا بیٹھے

لو کہہ رہے ہیں زمانے میں لوگ شیدائی
جب اُن سے آج کہا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

تمہاری دید کے پیاسے تھے جا بہ جا بھٹکے
ہُوئی قبول دُعا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

اُنہیں کہو تو ذرا نقد اَب بتائیں تو
یہ تخت و تاج کا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

یوں کھیلیئے نہ ستائے ہوئے غریبوں سے
ہُوئے ہیں خود سے خفا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

عظیم کس کو پکاریں صدائیں دیں کس کو
سبھی نے آج سنا ہم بتوں میں جا بیٹھے

لو آ گئے ہیں تمنا لئے یہ صاحب پھر
جو پوچھتے ہیں کہ کیا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

محمد عظیم صاحب
 
آخری تدوین:
غزل

خُدا نہ ہاتھ لگا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
دیں اُن کو آج بتا، ہم بُتوں میں جا بیٹھے

ہُوئے ہیں اپنی ہی نظروں میں آج شرمندہ
ہماری چشمِ حَیا ہم ، بُتوں میں جا بیٹھے

لو کہہ رہے ہیں زمانے میں لوگ شیدائی
جب اُن سے آج کہا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

تمہاری دید کے پیاسے تھے جا بہ جا بھٹکے
ہُوئی قبول دُعا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

اُنہیں کہو تو ذرا نقد اَب بتائیں تو
یہ تخت و تاج کا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

یوں کھیلیئے نہ ستائے ہوئے غریبوں سے
ہُوئے ہیں خود سے خفا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

عظیم کس کو پکاریں صدائیں دیں کس کو
سبھی نے آج سنا ہم بتوں میں جا بیٹھے

لو آ گئے ہیں تمنا لئے یہ صاحب پھر
جو پوچھتے ہیں کہ کیا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

محمد عظیم صاحب
’’صاحب‘‘ آپ کا تخلص ہے؟ مناسب ہو گا کہ اس پر علامتِ تخلص لگا دیا کریں۔ ۔۔ صاحبؔ
غزل پر اپنی گزارشات بعد میں پیش کروں گا۔ رات بہت دیر سے گھر پہنچا، صبح ناشتہ کر کے سو رہا، پھر بجلی چلی گئی۔ بس ایسا ہی ہے کچھ۔
 

عظیم

محفلین
’’صاحب‘‘ آپ کا تخلص ہے؟ مناسب ہو گا کہ اس پر علامتِ تخلص لگا دیا کریں۔ ۔۔ صاحبؔ
غزل پر اپنی گزارشات بعد میں پیش کروں گا۔ رات بہت دیر سے گھر پہنچا، صبح ناشتہ کر کے سو رہا، پھر بجلی چلی گئی۔ بس ایسا ہی ہے کچھ۔

جی صاحب تخلص مگر علامتِ تخلص کی ''کی'' نہیں معلوم ۔۔ جی بہتر
جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین
ایک پل میں مری دنیا کو سجانے والے !
یہ نہیں لوگ مرے خواب میں آنے والے

اے مرے دل کے مکیں تجھ کو بتاؤں کیا کیا
ظلم ڈھائے ہیں زمانے نے نہ ڈھانے والے

کتنی حسرت سے ہیں تکتیں وہ نگاہیں یارب!
چھوڑ جاتے ہیں جنہیں چھوڑ کے جانے والے

پوچھیئے کیا نہ ہُوا حال ہمارا غم میں
شعر کیا کیا نہ سنائے ، تھے سنانے والے ؟

اب تو صاحبؔ یہ تمنا ہے کہ مر جائیں ہم
اور خوش ہوں مری ہستی کو مٹانے والے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


دل کے زخموں کا آج کیا کیجئے
بھر نہ پائیں یہ بس دعا کیجئے

ہم سے رہیئے خفا مگر سنیئے
غیر سے یوں نہیں مِلا کیجئے

بعد میں کیجئے ہماری خیر
پہلے اپنا تو کُچھ بَھلا کیجئے

ہم غمِ عشق کے ستائے ہیں
جائیے ہم سے کیا نِبھا کیجئے

پاس رکھیئے نگاہِ ساقی کا
مئے کشوں سے پرے رہا کیجئے

اور کہنے کو کیا بچا صاحبؔ
چپ ہی رہیے اجی حیا کیجئے



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

دشت و صحرا میں کیا اُڑائیں خاک
گر بچائیں تو کیا بچائیں خاک

لوگ پوچھیں اگر پتا اپنا
ہم بتائیں تو کیا بتائیں خاک

محفلیں، رونقیں یہ رنگینی
بدحواس اِن سے دل لگائیں خاک

اپنی پہچان بھولنے والے
آہ تیرا نشان پائیں خاک

مل چکی خاک میں ہراک خواہش
خاک دل میں تجھے بسائیں خاک

 

ساقی۔

محفلین
ہم سے رہیئے خفا مگر سنیئے
غیر سے یوں نہیں مِلا کیجئے

واہ زبردست!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاس رکھیئے نگاہِ ساقی کا

اسے یو ں کیجیے نا۔
پاس بیٹھے رہیے بس ساقی کے!:p
 
Top