خدارا اب کوئی رہبر بلاؤ
یقیں کی اوٹ میں چھپتا گُماں ہُوں
بہت خوب ۔
جس طرح کہہ دیا ہم مناتے رہے
سر جهکاتے رہے جاں لٹاتے رہے
÷÷درست، لیکن کوئی کاص بات نہیں۔
کب خبر تهی ہمارے غموں پر سبهی
لوگ ہنستے رہے مسکراتے رہے
÷÷تم کو خبر ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا؟
اب ہوا ہم کو معلوم کیا راز تها
جس کو تم جان کر یوں چهپاتے رہے
÷÷وہ راز تھا کیا، کچھ ہنٹ تو دو جو سمجھ میں آئے
ٹوٹنے کو ہے سر ہم جسے غیر میں
جا اٹهائے پهرے جا اٹهاتے رہے
÷÷’غیر میں‘ کا مطلب
دوسرے مصرع میں محاورہ سمجھ میں نہیں آیا۔
ہائے قسمت ہماری مبلغ ہمیں
اور ہی دین مزہب سکهاتے رہے
÷÷یہ بھی ایک بیان محض ہے۔ او ’ہماری قسمت‘ کی ضرورت؟
آپ سے کیا گلہ اے سخنور کہ ہم
خود ہی اپنے کہے کو بهلاتے رہے
÷÷کیا سخنور کو یہ شک ہے کہ تم اپنے اشعار اس کے کہنے سے بھلا رہے ہو؟
اب یہیں کر رہے ہیں غزل ہم تمام
پہلے وقتوں میں کیا کیا سناتے رہے
÷÷درست
ہنسی کیوں آ رہی ہے اپنی ہی غزل پر؟؟؟
ہم جب ان کی غزل کہہ سنانے لگے
لوگ محفل میں خوشیاں منانے لگے
÷÷’کہہ سنانا‘ بمعنی ’کہہ کر سنانا‘؟؟؟، دوسروں کی غزل کس طرح کہی جا سکتی ہے؟
یہاں غزل سے مراد کچھ اور ہے بابا اور کہہ بھی اپنے اصل معنوں میں برتا گیا ہے
آج کے اس نئے دور میں شعر بهی
کل جو کہہ کر گئے وہ پرانے لگے
÷خوب، درست ہے
جی بہتر۔۔۔
کیا کہیں دنیا والو ستائے گئے
ہم انہی سے جنہیں اب ستانے لگے
÷÷ یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ’انہی‘ بمعنی کس سے؟
یہاں تھوڑی سی شرارت کی بتاؤں گا تو انگلیاں اُٹھیں گی
اس قدر کهو گئے یاد میں ان کی ہم
اب ہمیں خواب تک ان کے آنے لگے
÷÷درست، اگرچہ تعانی بہتر ہو سکتی ہے÷
جی بہتر ۔۔۔
دیکه لیجئے کہیں گے کیا صاحب غزل
وہ یہ بولے تو غالب سنانے لگے
یہ کسی کے لئے کہا ہے اُمید ہے وہ سمجھ جائے گا
اور اک راز کی بات بھی ہے جناب غالب سے ذرا مرتبے کے لحاظ سے
÷÷سمجھ میں نہیں آ سکا۔