عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
جس طرح کہہ دیا ہم مناتے رہے
سر جهکاتے رہے جاں لٹاتے رہے
÷÷درست، لیکن کوئی کاص بات نہیں۔

کب خبر تهی ہمارے غموں پر سبهی
لوگ ہنستے رہے مسکراتے رہے
÷÷تم کو خبر ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا؟

اب ہوا ہم کو معلوم کیا راز تها
جس کو تم جان کر یوں چهپاتے رہے
÷÷وہ راز تھا کیا، کچھ ہنٹ تو دو جو سمجھ میں آئے

ٹوٹنے کو ہے سر ہم جسے غیر میں
جا اٹهائے پهرے جا اٹهاتے رہے
÷÷’غیر میں‘ کا مطلب
دوسرے مصرع میں محاورہ سمجھ میں نہیں آیا۔

ہائے قسمت ہماری مبلغ ہمیں
اور ہی دین مزہب سکهاتے رہے
÷÷یہ بھی ایک بیان محض ہے۔ او ’ہماری قسمت‘ کی ضرورت؟

آپ سے کیا گلہ اے سخنور کہ ہم
خود ہی اپنے کہے کو بهلاتے رہے
÷÷کیا سخنور کو یہ شک ہے کہ تم اپنے اشعار اس کے کہنے سے بھلا رہے ہو؟

اب یہیں کر رہے ہیں غزل ہم تمام
پہلے وقتوں میں کیا کیا سناتے رہے
÷÷درست
 

عظیم

محفلین
کہوں بھی کیا کہ اَب تک بے زباں ہُوں
مَیں اپنی ذات میں اِک کہکشاں ہُوں

میرے نالے بھی ٹھہرے نارسا اور
کہاں جاؤں کہ میں اِک ناتواں ہوں

نظر سے وہ پلائے جا رہے ہیں
جو قبلہ رُو ہُوں بیٹھا شادماں ہُوں

جدھر دیکھوں ستایا جا رہا ہُوں
میں کیوں کہہ دوں کہ زیرِ آسماں ہُوں

خدارا اب کوئی رہبر بلاؤ
یقیں کی اوٹ میں چھپتا گُماں ہُوں

دکھائی دی کل اُن کی بزم میں جو
عظیم اُس نازنیں پر مہرباں ہُوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جس طرح کہہ دیا ہم مناتے رہے
سر جهکاتے رہے جاں لٹاتے رہے
÷÷درست، لیکن کوئی کاص بات نہیں۔

کب خبر تهی ہمارے غموں پر سبهی
لوگ ہنستے رہے مسکراتے رہے
÷÷تم کو خبر ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا؟

اب ہوا ہم کو معلوم کیا راز تها
جس کو تم جان کر یوں چهپاتے رہے
÷÷وہ راز تھا کیا، کچھ ہنٹ تو دو جو سمجھ میں آئے

ٹوٹنے کو ہے سر ہم جسے غیر میں
جا اٹهائے پهرے جا اٹهاتے رہے
÷÷’غیر میں‘ کا مطلب
دوسرے مصرع میں محاورہ سمجھ میں نہیں آیا۔

ہائے قسمت ہماری مبلغ ہمیں
اور ہی دین مزہب سکهاتے رہے
÷÷یہ بھی ایک بیان محض ہے۔ او ’ہماری قسمت‘ کی ضرورت؟

آپ سے کیا گلہ اے سخنور کہ ہم
خود ہی اپنے کہے کو بهلاتے رہے
÷÷کیا سخنور کو یہ شک ہے کہ تم اپنے اشعار اس کے کہنے سے بھلا رہے ہو؟

اب یہیں کر رہے ہیں غزل ہم تمام
پہلے وقتوں میں کیا کیا سناتے رہے
÷÷درست



جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین
آ گہی کے غم کا دھارا مل گیا
بے سہاروں کو سہارا مل گیا

چاہ کیجئے کِن بُتاں کی آج شب
روشنی کا نور سارا مل گیا

محو ہیں کس کے خیالوں میں کہیں
پُوچھ لیجئے کیا خُدارا مل گیا

ہم رقیبوں سے بھلا جل جائیں کیوں
ہم کو اپنی جاں سے پیارا مل گیا

ڈھونڈنے نکلے تھے ہم اپنا پتا
اور ہم کو شہر سارا مل گیا

اب عظیم اُس کو پکاریں کیوں بھلا
جس کو جس نے بھی پکارا مل گیا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ہم جب ان کی غزل کہہ سنانے لگے
لوگ محفل میں خوشیاں منانے لگے

آج کے اس نئے دور میں شعر بهی
کل جو کہہ کر گئے وہ پرانے لگے

کیا کہیں دنیا والو ستائے گئے
ہم انہی سے جنہیں اب ستانے لگے

اس قدر کهو گئے یاد میں ان کی ہم
اب ہمیں خواب تک ان کے آنے لگے

دیکھ لیجئے کہیں گے کیا صاحب غزل
وہ یہ بولے تو غالب سنانے لگے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہم جب ان کی غزل کہہ سنانے لگے
لوگ محفل میں خوشیاں منانے لگے
÷÷’کہہ سنانا‘ بمعنی ’کہہ کر سنانا‘؟؟؟، دوسروں کی غزل کس طرح کہی جا سکتی ہے؟

آج کے اس نئے دور میں شعر بهی
کل جو کہہ کر گئے وہ پرانے لگے
÷خوب، درست ہے

کیا کہیں دنیا والو ستائے گئے
ہم انہی سے جنہیں اب ستانے لگے
÷÷ یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ’انہی‘ بمعنی کس سے؟

اس قدر کهو گئے یاد میں ان کی ہم
اب ہمیں خواب تک ان کے آنے لگے
÷÷درست، اگرچہ تعانی بہتر ہو سکتی ہے÷

دیکه لیجئے کہیں گے کیا صاحب غزل
وہ یہ بولے تو غالب سنانے لگے
÷÷سمجھ میں نہیں آ سکا۔
 

عظیم

محفلین
ہم جب ان کی غزل کہہ سنانے لگے
لوگ محفل میں خوشیاں منانے لگے
÷÷’کہہ سنانا‘ بمعنی ’کہہ کر سنانا‘؟؟؟، دوسروں کی غزل کس طرح کہی جا سکتی ہے؟

یہاں غزل سے مراد کچھ اور ہے بابا اور کہہ بھی اپنے اصل معنوں میں برتا گیا ہے

آج کے اس نئے دور میں شعر بهی
کل جو کہہ کر گئے وہ پرانے لگے
÷خوب، درست ہے

جی بہتر۔۔۔

کیا کہیں دنیا والو ستائے گئے
ہم انہی سے جنہیں اب ستانے لگے
÷÷ یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ’انہی‘ بمعنی کس سے؟

یہاں تھوڑی سی شرارت کی بتاؤں گا تو انگلیاں اُٹھیں گی

اس قدر کهو گئے یاد میں ان کی ہم
اب ہمیں خواب تک ان کے آنے لگے
÷÷درست، اگرچہ تعانی بہتر ہو سکتی ہے÷
جی بہتر ۔۔۔

دیکه لیجئے کہیں گے کیا صاحب غزل
وہ یہ بولے تو غالب سنانے لگے
یہ کسی کے لئے کہا ہے اُمید ہے وہ سمجھ جائے گا
اور اک راز کی بات بھی ہے جناب غالب سے ذرا مرتبے کے لحاظ سے

÷÷سمجھ میں نہیں آ سکا۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
آ گہی کے غم کا دھارا مل گیا
بے سہاروں کو سہارا مل گیا
÷÷آگہی کے غم کا دھارا؟؟؟

چاہ کیجئے کِن بُتاں کی آج شب
روشنی کا نور سارا مل گیا
÷÷روشنی کا نور ؟؟

محو ہیں کس کے خیالوں میں کہیں
پُوچھ لیجئے کیا خُدارا مل گیا
۔۔ خدارا کا مطلب ’خدا کے لئے‘، اسے ’خدایا‘ سے کنفیوز مت کرو۔

ہم رقیبوں سے بھلا جل جائیں کیوں
ہم کو اپنی جاں سے پیارا مل گیا
۔۔درست

ڈھونڈنے نکلے تھے ہم اپنا پتا
اور ہم کو شہر سارا مل گیا
واہ۔۔۔ خوب

اب عظیم اُس کو پکاریں کیوں بھلا
جس کو جس نے بھی پکارا مل گیا
۔۔ تو کیا یہ ڈر ہے کہ محبوب مل نہ جائے؟؟
 
Top