عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

غزل

خُدا نہ ہاتھ لگا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
دیں اُن کو آج بتا، ہم بُتوں میں جا بیٹھے

ہُوئے ہیں اپنی ہی نظروں میں آج شرمندہ
ہماری چشمِ حَیا ہم ، بُتوں میں جا بیٹھے

لو کہہ رہے ہیں زمانے میں لوگ شیدائی
جب اُن سے آج کہا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

تمہاری دید کے پیاسے تھے جا بہ جا بھٹکے
ہُوئی قبول دُعا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

اُنہیں کہو تو ذرا نقد اَب بتائیں تو
یہ تخت و تاج کا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

یوں کھیلیئے نہ ستائے ہوئے غریبوں سے
ہُوئے ہیں خود سے خفا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

عظیم کس کو پکاریں صدائیں دیں کس کو
سبھی نے آج سنا ہم بتوں میں جا بیٹھے

لو آ گئے ہیں تمنا لئے یہ صاحب پھر
جو پوچھتے ہیں کہ کیا ہم بُتوں میں جا بیٹھے

محمد عظیم صاحب
گستاخی معاف! غزل کہنے کی اس کوشش کا اصل مسئلہ بظاہر اس کی ردیف ہے، جو کہیں بھی شعر کا مؤثر حصہ نہیں بن سکی۔
 

عظیم

محفلین

کیا خَبر کون ہُوں جی کیا ہُوں مَیں
کب اَبھی خُود سے آشنا ہُوں مَیں

بے سبب تو نہیں یہ بے تابی
ہو نہ ہو تُجھ کو ڈھونڈتا ہُوں مَیں

خواب ہُوں یا کوئی حقیقت ہُوں
سو گیا ہُوں کہ جاگتا ہُوں مَیں

بے مُروت ہیں لوگ کیا جانیں
ساری دُنیا سے کیوں خفا ہُوں مَیں

مت ڈراؤ اے آتشِ دوزخ
عشق کی آگ میں جَلا ہُوں مَیں

آپ سے بڑھ کے ہُوں بَھلا صاحب !
خود سے بڑھ کر کہیں بُرا ہُوں مَیں



قوافی :idontknow:


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


روگ اِس عشق کا لگائیو مت
یونہی چین و سکوں گنوائیو مت

ہم جو جاتے ہیں چھوڑ جنت کو
تُم جہنم کی راہ دکھائیو مت

دیکھنا، آئینوں سے وحشت ہے
تُم نظر سے نظر ملائیو مت

ہم بُلائیں جو غیر کو اِک دن
ہاں دمِ مرگ تک بلائیو مت

غم کے قصے زبان تک پہنچے
ہر گھڑی اب ہمیں رلائیو مت

کیا خبر بَک رہے ہو کیا صاحبؔ
ایسی غزلیں ہمیں سنائیو مت

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

غزل

تری بے رُخی نے تری سنگ دِلی نے
کِیا در بدر تیری چارہ گری نے

زمانے کا کیا ہے بُھلا دے گا مُجھ کو
مگر بھولنا کیوں ہے تیری گلی نے

کدھر جاؤں اپنے ہی سائے سے بچ کر
مجھے ڈھونڈ لینا ہے اِس بے کسی نے

وہ کیوں آئیں مجھ کو منانے بھی صاحب
جنہیں گر اجازت بھی دی، ہاں اُسی نے

خُدا جانے کیا بَک رہا ہُوں میں لوگو
مگر دھر لیا ہے مجھے ہر کسی نے


محمد عظیم صاحب

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

مَیں ترے بعد بھی رہُوں زندہ
ہاں اگر ہے تو ہاں مَیں ہُوں زندہ

آہ کِس کو یہاں کہُوں زندہ
لوگ ہوتے ہیں کیا کہ یُوں زندہ

معنی گر نہیں تو کیا حاصل
لفظ جتنے بھی گر سُنُوں زندہ

آہ بیچارگی نے مارا ہے
ہائے کیونکر مَیں اب رہُوں زندہ

تیری حسرت میں جگ نے ٹھکرایا
موت دیکھوں کہیں پھرُوں زندہ

کام آئے گی پارسائی کیا
رند ہوکر رہُوں بھی کیوں زندہ

ہم عظیم اس سے کیوں مخاطب ہیں
جو یہ کہتا ہے کہ، ''مَیں ہُوں زندہ''!


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سب سے اچھا شعر مھاورے کی پنجابیت کی وجہ سے مار کھا رہا ہے۔ ہندوستان میں تو یہ بہر ھال قبول نہیں کیا جاتا، شاید پاکستان میں قبول کیا جاتا ہے ’میں نے کرنا ہے‘ بجائے ’مجھے کرنا ہے‘۔
کدھر جاؤں اپنے ہی سائے سے بچ کر
مجھے ڈھونڈ لینا ہے اِس بے کسی نے
لیکن اسے درست مان لیا جائے تب بھی پہلا مصرع یوں زیادہ بہتر ہو۔
میں اپنے ہی سائے سے بچ کر کہیں جاؤں
دوسرا شعر بھی مفہوم کے لھظ سے اچھا ہے، لیکن وہی مھاورہ۔۔۔
مطلع، اور چوتھا پانچواں شعر دو لخ۔۔۔ الخ
 

عظیم

محفلین
غزل

ہم ترا نام بھی نہیں لیتے
اب یہ الزام بھی نہیں لیتے

درد بڑھنے دو تُم، طبیبِ دِل
دِل کو ہم تھام بھی نہیں لیتے

تُو نے کیا کیا نہ ظلم ڈھائے ہیں
ہم ترا نام بھی نہیں لیتے

جن کو مل جائیں غم زمانے کے
وہ پھراک جام بھی نہیں لیتے

محو رہئے بھی کن خیالوں میں
ہم کہ ،آرام بھی نہیں لیتے

تُم بتاؤ جو ابتدائے عشق
پھر کہ انجام بھی نہیں لیتے

آج لگتا ہے جاں گئی صاحب
آج وہ نام بھی نہیں لیتے

محمد عظیم صاحب

 
آخری تدوین:
Top