غزل
خُدا نہ ہاتھ لگا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
دیں اُن کو آج بتا، ہم بُتوں میں جا بیٹھے
ہُوئے ہیں اپنی ہی نظروں میں آج شرمندہ
ہماری چشمِ حَیا ہم ، بُتوں میں جا بیٹھے
لو کہہ رہے ہیں زمانے میں لوگ شیدائی
جب اُن سے آج کہا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
تمہاری دید کے پیاسے تھے جا بہ جا بھٹکے
ہُوئی قبول دُعا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
اُنہیں کہو تو ذرا نقد اَب بتائیں تو
یہ تخت و تاج کا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
یوں کھیلیئے نہ ستائے ہوئے غریبوں سے
ہُوئے ہیں خود سے خفا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
عظیم کس کو پکاریں صدائیں دیں کس کو
سبھی نے آج سنا ہم بتوں میں جا بیٹھے
لو آ گئے ہیں تمنا لئے یہ صاحب پھر
جو پوچھتے ہیں کہ کیا ہم بُتوں میں جا بیٹھے
محمد عظیم صاحب