عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
سب سے اچھا شعر مھاورے کی پنجابیت کی وجہ سے مار کھا رہا ہے۔ ہندوستان میں تو یہ بہر ھال قبول نہیں کیا جاتا، شاید پاکستان میں قبول کیا جاتا ہے ’میں نے کرنا ہے‘ بجائے ’مجھے کرنا ہے‘۔
کدھر جاؤں اپنے ہی سائے سے بچ کر
مجھے ڈھونڈ لینا ہے اِس بے کسی نے
لیکن اسے درست مان لیا جائے تب بھی پہلا مصرع یوں زیادہ بہتر ہو۔
میں اپنے ہی سائے سے بچ کر کہیں جاؤں
دوسرا شعر بھی مفہوم کے لھظ سے اچھا ہے، لیکن وہی مھاورہ۔۔۔
مطلع، اور چوتھا پانچواں شعر دو لخ۔۔۔ الخ


بابا آپ تو ''ہاتھ منہ'' دھو کر میرے پیچھے پڑ گئے ہیں
:notlistening: اچھا اب آپ کا حکم ہے تو دیکھ لیتا ہُوں

جزاک اللہ : )
 

عظیم

محفلین
غزل

چھوڑ کر مہربان جاتے ہیں
ہم کو چھوڑے جہان جاتے ہیں

اپنی خاطر نہ مانگتے خُود کو
تیری خاطر ہی مان جاتے ہیں

میرے سینے میں ایک شعلہ ہے
میرے دل سے گُمان جاتے ہیں ؟

وہ جو سُنتے ہیں بات اوروں کی
ہو کے اہلِ زُبان جاتے ہیں

ہم بہائیں گے آج خونِ دِل
اُن سے ملنے کی تھان جاتے ہیں

آپ کیا کُچھ بُھلا چکے صاحبؔ
پھر بھی پاکر نشان جاتے ہیں


محمد عظیم صاحبؔ
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل



کِس کو اَچھا، کِسے بُرا کہئے
خُود کو دیکھا کسی کو کیا کہئے

ہم نے اپنی ہی لاش پر اپنا
بھار دیکھا ہے اُف کہ کیا کہئے

چار دِن کا نہ پیار تھا جن کا
اُن کو دیکھا کہیں سُنا کہئے ؟

تُم بھی لفظوں کو کب سمجھتے ہو
سُننے والو ! کہو کہا کہئے

داد دیتے نہیں مگر غم پر
لوگ ہنستے ہیں مسخرا کہئے

لب پہ آئے اگر ہنسی صاحبؔ
پھر یہ سوچیں کہ مسکرا کہئے


محمد عظیم صاحب




 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
افسوس کے ساتھ
وہ جو سُنتے ہیں بات اوروں کی
ہو کے اہلِ زُبان جاتے ہیں
درست ہے، اس کے علاوہ کسی اور شعر میں کوئی خیال آفرینی نہیں۔ یا دو لخت ہیں
 

عظیم

محفلین
غزل


اگر ہو اجازت تو اب مُسکرا دُوں
ذرا ایک پل تیرے غم کو بُھلا دُوں

مری طرف دیکھو نہ اِس بے رُخی سے
نہ دل یہ کسی اور سے جا لگا دُوں

بھٹکتے پھرے ہیں سَحَر میں اُجالے
کہو تو شبِ غم کا دیپک بھجا دُوں

تُم اِس طور سے آج مُجھ کو ستاؤ
جو مَیں آج روؤں تو دُنیا رُلا دُوں

نظر کیا نہیں دے رہا ہے نظر کو
نظر کو مَیں کیا کیا نہ اپنی دِکھا دُوں

اَب اِس درد سے مر نہ جاؤں میں صاحبؔ
ذرا اور زہر اِس دوا میں ملا دُوں


محمد عظیم صاحبؔ
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


خبر جو اُن کے ستم کی ہوتی
کیا ہم کو حاجت کرم کی ہوتی

وہ جن کی تصویر آنکھ میں ہے
اُنہیں خبر اِس بھرم کی ہوتی

ہماری قسمت میں ایک یارب
بس ایک صورت صنم کی ہوتی

دیارِ غیراں میں ہم نہ گھرتے
جو شرم ہم کو حرم کی ہوتی

اے صاحبہ ! صاحبو جو کہتے
تو پھر کسے فکر غم کی ہوتی

محمد عظیم صاحب



 

عظیم

محفلین

غزل

ابھی تو کہنے کو غم بڑے ہیں
جناب اُٹھ کر کیوں چل پڑے ہیں

جہاں نہیں بیٹھنے کی جُراَت
وہیں کھڑے تھے وہیں کھڑے ہیں

یہ عشق بس کی بلا نہیں ہے
مگر کِیا جائے کیا ، اڑے ہیں

کوئی تو بڑھ کر گلے لگا لو
کہ آج خود سے ہی بِھڑ پڑے ہیں

عظیم تشریح وہ کریں تو
یہ شعر جن کے لئے گھڑے ہیں

محمد عظیم صاحب
 

عظیم

محفلین
غزل



ایک عالم میں کب رہا ہے عشق
عالمِ کُل میں بھر چُکا ہے عشق

ہم سے کیا پُوچھئے کہ کیا ہے عشق
ہم تو کہہ دیں گے ہاں خُدا ہے عشق

آپ اپنے میں مبتلا ہے عشق
عکس، اپنا ہی آئینہ ہے عشق

جس کِسی کو بھی ہو گیا ہے عشق
اُس کے ہر مرض کی دوا ہے عشق

اک حقیقت سے آشنا ہے عشق
اک حقیقت سے برملا ہے عشق

عشق ہی تو ہے ابتدا غم کی
اور خوشیوں کی اتنہا ہے عشق

دامنِ کوہ تنگ پڑ جائے
ہائے سنگ دل کہ یُوں بڑا ہے عشق

رات گُزری ہے ہم پہ کیا ظالم
مان لیتے ہیں ہو چُکا ہے عشق

کِس کو جاکر بتاؤں مَیں صاحبؔ
میری رگ رگ میں دوڑتا ہے عشق


محمد عظیم صاحبؔ


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


ہم اب مانگیں بھی کیا تُجھ پر نظر ہے
کِسے اب ہوش ہے کس کو خبر ہے

تمہاری آرزو میں دشت و صحرا
ہمارے راستے ہیں راہ گزر ہے

کوئی بڑھ کر تسلی دو کہ باقی
ابھی اِس زندگی کا کُچھ سفر ہے

اُسے اب کس لئے الزام دیں ہم
کہ جب سے جانتے ہیں معتبر ہے

نہیں معلوم کیا منزل ہے دل کی
نہیں معلوم کیونکر در بدر ہے

کوئی محفل سے اُٹھے اور کہے تو
کہ صاحب آپ پر اُن کی نظر ہے


محمد عظیم صاحبؔ​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


آہ تب تک یہ بے اثر ہوگی
جب تلک چشم تر سے تر ہوگی

گونج اُٹھے گا میرا افسانہ
اور کہانی بھی مختصر ہوگی

سوچتا ہُوں کہ دِل دِوانے کی
میرے محبوب کو خبر ہوگی

مُجھ کو اُن کی گلی میں دفنانا
خاک میری نہ در بدر ہوگی

آج ٹِکتی نہیں نظر میری
اب اِدھرہے تو کل اُدھر ہوگی

زندگی یُوں ہوئی بسر صاحبؔ
سوچ رکھا تھا تُوں بسر ہوگی

محمد عظیم صاحبؔ



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

عمر کا اعتبار کرتے ہیں
جا ترا اتنظار کرتے ہیں

تھام لیتے ہیں آپ اپنا دل
پیش پھر کر گزار کرتے ہیں

نام لیتے ہیں تیرا وہ ظالم
اور کیا غم گسار کرتے ہیں

رات دن کھو کے کن خیالوں میں
تیرے در پر پکار کرتے ہیں

یوں طبیعت کا آہ بدلنا خوب
کیسے قول و قرار کرتے ہیں

آپ صاحب ذرا سا لیجئے چین
ہر گھڑی بے قرار کرتے ہیں



محمد عظیم صاحبؔ
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

کس و ناکس کب اپنی بے بسی سے
کہ یُوں اکتا گئے ہیں زندگی سے

ہم اُن کی یاد میں زندہ ہیں کب سے
ازل سے پوچھتے ہیں ہر کسی سے

کرم ہو جائے جن پر اُس نطر کا
جلا رکھتے ہیں دُنیا بے دِلی سے

یہ شان اُن کی گلی کی ہم نے دیکھی
کھلے رستے بُتوں کی بندگی سے

لگا ہے روگ ایسا کہ کہیں ہم
کہیں بھی گر تو جاکر کیا کسی سے

عظیم اُن کی تمنا میں ہُوا اب ؟
ملا کیجئے کسی جو اجنبی سے


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:
Top