عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
جُنوں نے چھیڑ ڈالے تار کیسے
زُباں تک آ گئے افکار کیسے

دکھادیں کس طرح سے زخم دل کے
بتا دیں درد کی مقدار کیسے

جب اپنے ہی ہمارے اجنبی ہیں
شناسا ہم سے ہوں اغیار کیسے

ہُوئے عشقِ بُتاں میں خُود سے غافل
نبھائیں ہم کوئی کردار کیسے

کروں گا صبر لیکن تُو بتا تو
کروں میں صبر اے غم خوار کیسے

عظیم اُس ایک وعدے کے لئے تُم
کرو گے موت سے انکار کیسے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
سُن چکے قہقہے رقیبوں کے
دِن بدلتے ہیں ہم لطیفوں کے

اِن کو سونپا گیا ہے اُن کا غم
ناز دیکھو تو بد نصیبوں کے

اِس متاعِ ہنر کا کیا کیجئے
کام آئے نہ ہم غریبوں کے

لفظ معنی تلاش کرتے ہیں
کھو چُکے حرف تک حریفوں کے

کھینچ لائے ہیں اُن کے در تک آپ
حوصلے دیکھئے ضعیفوں کے

درد ایسا ہمارے دِل میں ہے
دِل ہی پھٹ جائیں گے طبیبوں کے

--
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بابا ٹائیں ٹائیں فش ؟؟؟
نہیں بیٹا، یہ تو اچھی لگ رہی ہے، بس مطلع سمجھ میں نہیں آیا اور ایک آدھ شعر مزید۔

کھینچ لائے ہیں اُن کے در تک آپ
حوصلے دیکھئے ضعیفوں کے
بابا ۔۔۔۔
ہمم۔۔ یہ مجھ پر طنز کیا جا رہا ہے۔ میاں میں تو 64 سال کا نو جوان ہوں!!
 

الف عین

لائبریرین
سُن چکے قہقہے رقیبوں کے
دِن بدلتے ہیں ہم لطیفوں کے
÷÷مطلع واضح نہیں

اِن کو سونپا گیا ہے اُن کا غم
ناز دیکھو تو بد نصیبوں کے
۔۔÷خوب

اِس متاعِ ہنر کا کیا کیجئے
کام آئے نہ ہم غریبوں کے
÷÷یہ بھی اچھا ہے

لفظ معنی تلاش کرتے ہیں
کھو چُکے حرف تک حریفوں کے
۔۔یہ بھی اچھا لگ رہا ہے اگر چہ بہت واضح نہیں۔

کھینچ لائے ہیں اُن کے در تک آپ
حوصلے دیکھئے ضعیفوں کے
÷÷پہلے مصرع میں کیا کہنا چاہ رہے ہو، کون کس کو کھینچ کر لایا ہے؟

درد ایسا ہمارے دِل میں ہے
دِل ہی پھٹ جائیں گے طبیبوں کے
واہ، اچھا شعر ہے، اگر دوسرا مصرع یوں ہو تو
دل نہ پھٹ جائیں ان طبیبوں کے
تو؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
واہ، یہ تو بم بلاسٹ ہو گیا!!
باس مطلع واضح نہیں۔
اور ان دونوں کے پہلے مصرعے بدل دو کہ روانی متاثر ہے
کروں گا صبر لیکن تُو بتا تو
کروں میں صبر اے غم خوار کیسے

عظیم اُس ایک وعدے کے لئے تُم
کرو گے موت سے انکار کیسے
 

ابن رضا

لائبریرین
سُن چکے قہقہے رقیبوں کے
دِن بدلتے ہیں ہم لطیفوں کے
÷÷مطلع واضح نہیں

اِن کو سونپا گیا ہے اُن کا غم
ناز دیکھو تو بد نصیبوں کے
۔۔÷خوب

اِس متاعِ ہنر کا کیا کیجئے
کام آئے نہ ہم غریبوں کے
÷÷یہ بھی اچھا ہے

لفظ معنی تلاش کرتے ہیں
کھو چُکے حرف تک حریفوں کے
۔۔یہ بھی اچھا لگ رہا ہے اگر چہ بہت واضح نہیں۔

کھینچ لائے ہیں اُن کے در تک آپ
حوصلے دیکھئے ضعیفوں کے
÷÷پہلے مصرع میں کیا کہنا چاہ رہے ہو، کون کس کو کھینچ کر لایا ہے؟

درد ایسا ہمارے دِل میں ہے
دِل ہی پھٹ جائیں گے طبیبوں کے
واہ، اچھا شعر ہے، اگر دوسرا مصرع یوں ہو تو
دل نہ پھٹ جائیں ان طبیبوں کے
تو؟؟؟
استادِ محترم قوافی کے متعلق تو بات ہی نہیں کی آپ نے؟
 

عظیم

محفلین
نہیں بیٹا، یہ تو اچھی لگ رہی ہے، بس مطلع سمجھ میں نہیں آیا اور ایک آدھ شعر مزید۔

شکر ہے بچ گیا -

ہمم۔۔ یہ مجھ پر طنز کیا جا رہا ہے۔ میاں میں تو 64 سال کا نو جوان ہوں!!


ہاہا اچها بابا میں تو سمجها تها 80 کے لگ بهگ ہوں گے :p
 

عظیم

محفلین
سُن چکے قہقہے رقیبوں کے
دِن بدلتے ہیں ہم لطیفوں کے
÷÷مطلع واضح نہیں

جی بابا - دن بدلتے ہیں ہم غیربوں کے - لیکن قافیے -

اِن کو سونپا گیا ہے اُن کا غم
ناز دیکھو تو بد نصیبوں کے
۔۔÷خوب


اِس متاعِ ہنر کا کیا کیجئے
کام آئے نہ ہم غریبوں کے
÷÷یہ بھی اچھا ہے

لفظ معنی تلاش کرتے ہیں
کھو چُکے حرف تک حریفوں کے
۔۔یہ بھی اچھا لگ رہا ہے اگر چہ بہت واضح نہیں۔

جی بابا -

کھینچ لائے ہیں اُن کے در تک آپ
حوصلے دیکھئے ضعیفوں کے
÷÷پہلے مصرع میں کیا کہنا چاہ رہے ہو، کون کس کو کھینچ کر لایا ہے ؟

آپ بابا اور میں بهی سمجها جا سکتا ہوں -

درد ایسا ہمارے دِل میں ہے
دِل ہی پھٹ جائیں گے طبیبوں کے
واہ، اچھا شعر ہے، اگر دوسرا مصرع یوں ہو تو
دل نہ پھٹ جائیں ان طبیبوں کے
تو؟؟؟

جی -
اور بابا مقطع یوں تها -
اس سے آگے کہیں کیا ہم صاحب
دم گهٹے جائیں بد سلیقوں کے

لیکن سلیقوں ؟ پهر یوں کہا -

کیوں کہ صاحب کا چومئے ماتها
کیسے آداب ان ادیبوں کے

مگر دونوں ہی پسند نہیں آئے مجهے اس لئے نکال دیئے -
 

ابن رضا

لائبریرین
مفصل وضاحت تو اساتذہ کرام ہی کر سکتے ہیں۔ تاہم مفہوم و معنی سے قطع نظر مطلع میں باندھے گئے قوافی دیکھیں تو وہ " رقیبوں اور لطیفوں ہیں
سُن چکے قہقہے رقیبوں کے
دِن بدلتے ہیں ہم لطیفوں کے

ان قوافی کے اگر (و) وصل اور (ں) خروج علیحدہ کر کے آخری و اصلی حرف روی کی پہچان کی جائے تو وہ رقیب میں "ب" ہے اور لطیف میں "ف" ہے لہذا حرفِ روی کا اتحاد نہ ہونے کے سبب مطلع غیر مقفی ہے۔ یہاں شاعرانہ رعایت یہ موجود ہے کہ اگر آپ نون معلنہ کو حرفِ روی باندھنا چاہتے ہیں تو پھر دو مصروں میں کم از کم کوئی ایک نون معلنہ اصلی ہو اور دوسرا وصلی بھی ہو سکتا ہے۔
 

عظیم

محفلین
مفصل وضاحت تو اساتذہ کرام ہی کر سکتے ہیں۔ تاہم مفہوم و معنی سے قطع نظر مطلع میں باندھے گئے قوافی دیکھیں تو وہ " رقیبوں اور لطیفوں ہیں


ان قوافی کے اگر (و) وصل اور (ں) خروج علیحدہ کر کے آخری و اصلی حرف روی کی پہچان کی جائے تو وہ رقیب میں "ب" ہے اور لطیف میں "ف" ہے لہذا حرفِ روی کا اتحاد نہ ہونے کے سبب مطلع غیر مقفی ہے۔ یہاں شاعرانہ رعایت یہ موجود ہے کہ اگر آپ نون معلنہ کو حرفِ روی باندھنا چاہتے ہیں تو پھر دو مصروں میں کم از کم کوئی ایک نون معلنہ اصلی ہو اور دوسرا وصلی بھی ہو سکتا ہے۔

ابن رضا بهائی بہت شکریہ - میرے تو سر سے گزر گیا یہ سب یقین جانئے - خیر دیکهئے بابا کیا فرماتے ہیں -
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا بهائی بہت شکریہ - میرے تو سر سے گزر گیا یہ سب یقین جانئے - خیر دیکهئے بابا کیا فرماتے ہیں -
اب اتنا بھی پیچیدہ مسلہ نہیں جناب۔ قافیہ میں شرط یہ ہوتی ہے کہ جب دو ہم آواز الفاظ ایک شعر میں بطور قافیہ جمع کیے جاتے ہیں تو علمِ قافیہ کہ رو سے ان پر کچھ قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جس میں سب سے اہم یہ بات کہ جو لفظ قافیہ کیا جا رہا ہے اس کے اصلی حروف کو پہچانا جائے اور ایسے حروف جن کے علیحدہ کردینے سے لفظ کی معنویت متاثر نہ ہو انہیں اضافی حروف کہا جاتا ہے۔ جیسے کہ رقیبوں میں اصل لفظ رقیب ہے جس کے اصلی حرف ر ق ب ہیں۔ اس میں آخری اصلی حرف ب ہے اس لیے اس کو حرفِ روی شمار کیا جائے گا ۔ تو رقیبوں کے ہم قافیہ الفاظ میں نصیبوں، غریبوں، خطیبوں، ادیبوں، نقیبوں، طبیبوں وغیرہ شامل ہونگے نہ کہ لطیفوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اب اتنا بھی پیچیدہ مسلہ نہیں جناب۔ قافیہ میں شرط یہ ہوتی ہے کہ جب دو ہم آواز الفاظ ایک شعر میں بطور قافیہ جمع کیے جاتے ہیں تو علمِ قافیہ کہ رو سے ان پر کچھ قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جس میں سب سے اہم یہ بات کہ جو لفظ قافیہ کیا جا رہا ہے اس کے اصلی حروف کو پہچانا جائے اور ایسے حروف جن کے علیحدہ کردینے سے لفظ کی معنویت متاثر نہ ہو انہیں اضافی حروف کہا جاتا ہے۔ جیسے کہ رقیبوں میں اصل لفظ رقیب ہے جس کے اصلی حرف ر ق ب ہیں۔ اس میں آخری اصلی حرف ب ہے اس لیے اس کو حرفِ روی شمار کیا جائے گا ۔ تو اس کے ہم قافیہ الفاظ میں نصیبوں غریبوں وغیرہ شامل ہونگے نہ کہ لطیفوں

یعنی ٹائیں ٹائیں فش -



سُن چکے قہقہے رقیبوں کے
دِن بدلتے ہیں ہم غرہبوں کے

اِن کو سونپا گیا ہے اُن کا غم
ناز دیکھو تو بد نصیبوں کے

اِس متاعِ ہنر کا کیا کیجئے
کام آئے نہ ہم غریبوں کے

درد ایسا ہمارے دِل میں ہے
دِل نہ پھٹ جائیں ان طبیبوں کے

ان چار کو بچا رکهوں - باقی انشاء اللہ پهر سہی -
 

عظیم

محفلین
جب بھی اُن کو میں یاد آؤں گا
اے صبا جُھوم جُھوم جاؤں گا

اُن کے پہلو میں جا چُھپوں گا جب
دیکھنا تب سکون پاؤں گا

تُم مجھے لفظ لفظ کہتے ہو
مَیں تمہیں داستاں سناؤں گا

اے زمانے تُو دیکھتا ہے کیا
مَیں تُجھے آئینہ دِکھاؤں گا

پہلے پہلوں کی بات چھوڑیں آپ
اُن کے جور و ستم اُٹھاؤں گا

ایسا ضدی ہُوں اے رقیبو مَیں
دل کے بدلے میں جاں گنواؤں گا

دیکھئے گا عظیم آتے ہیں
جن کو خاطِر خُدا بُلاؤں گا
 
آخری تدوین:
Top