عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
جُنوں کو آزمانے پر تُلا ہُوں
مَیں تیرا غم کمانے پر تُلا ہُوں

تُجھے کیسے مَیں خُود سے دُور کردُوں
تِرے ہی پاس آنے پر تُلا ہُوں

نہیں مُجھ کو خبر اپنی بھی یارو
اور اُن کو ڈُھونڈ لانے پر تُلا ہُوں

وہ مُجھ کو یاد آنا چاہتے ہیں
مَیں خُود کو بُھول جانے پر تُلا ہُوں

عجب عاشق ہُوں رو رو حال دِل کا
زمانے کو سنانے پر تُلا ہُوں

مِری آوارگی کا کیا بَتاؤں
کہ خاک اپنی اُڑانے پر تُلا ہُوں

سُنو اے صاحبو اِس کھیل میں مَیں
سبھی سے جِیت جانے پر تُلا ہوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یُوں نہ کہئے کہ مر ہی جاؤں گا
میں کہاں اُن سے دل لگاؤں گا

دیکھئے تو یہ میری حالت آپ
آہ خود سے چلا بھی جاؤں گا

اور کب تک میں اپنے لکھے کو
آپ کے واسطے مٹاؤں گا

دل میں اُٹھا ہے درد عشقے کا
کیوں بھلا اب سکون پاؤں گا

میں نہ کہتا تھا اے جہاں تُجھ کو
دیکھنا اُن کو ڈھونڈ لاؤں گا

جو مری مشکلیں ہُوئیں آساں
اور مشکل میں خود کو پاؤں گا

میں وہ بگڑا ہُوا ہوں اے واعظ
ساری دنیا سدھار جاؤں گا

پھر یہ صاحب وہی تکبر کیوں
تم نے بولا تھا سر جُھکاؤں گا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
شوق سے جائیے کہ جائیں آپ
ہم کہاں جائیں یہ بتائیں آپ

دیکهئے ہو چکیں کئی صدیاں
ایک لمحے کو لوٹ آئیں آپ

مر کے بهی جی اٹهیں گے سن لیجے
ہم کو ایسے جو یوں بلائیں آپ

ایسے مظلوم پر خدا خاطر
آج تهوڑا سا رحم کهائیں آپ

خود کو صاحب جو ہم بتاتے ہیں
آپ کو صاحبہ بتائیں آپ
 

عظیم

محفلین
بیخودی حد سے بڑھ بھی جانے دو
یاد آتے ہو یاد آنے دو

کہہ نہ پاتا ہُوں حال اِس دل کا
ایک عالم کو کہہ سنانے دو

دُنیا والوں نے جُوں ستایا ہے
آج مُجھ کو تمہیں ستانے دو

ہاں کہ گریہ ہی کو بُلا رکھو
کُچھ تو ملنے کے تُم بہانے دو

اور کتنا جلاؤں دل بابا
اب تو کہتا ہُوں مر ہی جانے دو
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
رات دن یُوں نڈھال رکھتے ہیں
میرا کتنا خیال رکھتے ہیں

ہائے اُن کی کرم نوازی اُف
کل کی کل پر ہی ٹال رکھتے ہیں

میں ہُوں اُن کے جواب کا طالب
میرے آگے سوال رکھتے ہیں

کیا کہوں اُن کی کج ادائی مَیں
اُس میں صاحب کمال رکھتے ہیں

اُن بتوں سے یہ پوچھئے جا کر
اُن سا حسن و جمال رکھتے ہیں

ہم ہیں صاحب ہمارے ہی دشمن
آپ اپنا خیال رکھتے ہیں
 

عظیم

محفلین
ترے غم پر لٹا دوں
کہو دُنیا بُھلا دوں

جگر کو چیر اپنے
رقیبوں کو دکھا دوں

کروں ماتم یُوں اپنا
زمانے کو رُلا دوں

کہاں تک اور خود کو
بتاؤ آسرا دوں

لکھا ہے خونِ دل سے
یہ خط بھی کیا جلا دوں

میں کیسے آپ خود کو
بھلا اپنی دوا دوں

مرے بس میں ہو صاحب
قیامت سی اُٹھا دُوں
 

الف عین

لائبریرین
کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو!!! اب تو اچھی شاعری کر رہا ہے!!
بس دو خامیاں محسوس ہوئیں۔
ہائے اُن کی کرم نوازی اُف
کرم نوازی لفظ پر غور کرو، اور ’اف‘ تو بھرتی کا ہے۔
کیا کہوں اُن کی کج ادائی مَیں
کج ادائی میں کوئی کیسے کہہ سکتا ہے، اس کے ’ضمن میں “ یا ’اس کے بارے میں تو ممکن ہے
بتوں والا شعر بھی رواں اور بہتر بنایا جا سکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار خوب ہیں۔
مطلع کا پہلا مصرع گنجلک ہے۔
ہم کو ایسے جو یوں بلائیں آپ
۔۔یہ سب ہم معنی الفاظ ہیں، کچھ کم کر دو

خدا خاطر محاورہ نہیں، خدا کے لئے کہنے میں کیا حرج ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ لیکن یہ دونوں اشعار سمجھ میں نہیں آئے
عجب عاشق ہُوں رو رو حال دِل کا
زمانے کو سنانے پر تُلا ہُوں

مِری آوارگی کا کیا بَتاؤں
کہ خاک اپنی اُڑانے پر تُلا ہُوں
 
Top