عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
یہی شعر سمجھ میں نہیں آئے
مریضِ عشق ہوں میں کیا بتاؤں
مرے دُکھڑے خموشی سے سنا کر

نہ جانے کیا کریں گے مُجھ کو مُجھ سے
چُرا کر اپنا شیدائی بنا کر

کوئی ہونے کو اُن کے جائے کہہ دے
کہ ہونا صرف ہے ہُوا کر
 

عظیم

محفلین
بابا کیجئے لکھنے اور پڑھنے میں اچھا لگتا ہے مجھے سوچا اگر ء کو نہ مانا جائے کیجے کہ وزن پر ہی آئے گا ۔
 

عظیم

محفلین
کاش زخم جگر دکها سکتے
اور تهوڑا قرار پا سکتے

بهول جاتے نہ کیا انہیں کہئے
جان کر بهی جو ہم بهلا سکتے

بزم اغیار میں رقیبوں کو
ان کا اپنا کبهی بتا سکتے

در مقتل نہ یوں پڑی رہتی
لاش اپنی جو ہم اٹها سکتے

کاٹ کر پهینک ہم دیا ہوتا
سر جو اتنا نہیں جهکا سکتے

کیا نہ آتے عظیم سے ملنے
ملنے والو جو ہم بلا سکتے
 

عظیم

محفلین
بہت پچهتائے ان سے دل لگا کر
مگر کرتے بهی کیا دنیا میں آکر

جنہیں تو دیکھ رو دے گا زمانے
کُچھ ایسے زخم رکهتا ہوں چهپا کر

طبیب دل نہیں دل کی دوا دیکھ
تو میرے واسطے کوئی دعا کر

مریض عشق ہوں میں کیا بتاوں
مرے دکهڑے خموشی سے سنا کر

کریں گے کیا وہ جانے مُجھ کو مُجھ سے
چرا کر اپنا شیدائی بنا کر

کوئی ہونے سے ان کے جائے کہہ دے
یہ ہونا صرف تیرا ہے ہوا کر

کہاں لے جاوں اپنی لاش صاحب
اب اپنے ہی میں کاندهوں پر اٹها کر
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دیکهنا خواب ان حسینوں کے
ناز دیکهو تو ہم کمنیوں کے

خود کو کیوں گالیاں بکیں صاحب
بهاگ پهوٹے ہیں مہہ جبینوں کے

اس جہان خراب میں ہمدم
کچه مکاں بهی ہیں لا مکینوں کے

آسماں تک پہنچ گئے ظالم
آج فتنے بهی ان زمینوں کے

اللہ اللہ تباہیاں ہر سو
ناچ دیکهو ہو کن حسینوں کے

دم گهٹا جائے میرا کیوں جانے
راز ایسے ہوئے ہیں سینوں کے

راہ تک تک کے مر گئے صاحب
پاوں اٹهے نہ ہم نشینوں کے


بابا موبائل سے ٹائپ کی ہے -
 

عظیم

محفلین
سچ سے پردہ ہٹا رہا ہے تو
اے زمانے بتا رہا ہے تو

میں وہ سن کر بهلائے بیٹها ہوں
جو حقیقت سنا رہا ہے تو

دیکه یہ سوچ اور سمجه لیجو
کس سے ماتها لگا رہا ہے تو

میری باتوں سے اتفاق نہ کر
سچ تو یہ ہے سکها رہا ہے تو

کیا رہا ہے تو میری نظروں میں
میری نظروں میں کیا رہا ہے تو

جل بجها ہوں میں اپنی خلوت میں
اور محفل سجا رہا ہے تو

جانتا ہوں کہ میرے رونے پر
کس قدر مسکرا رہا ہے تو

صاحب اندهوں کے شہر میں کیونکر
اپنی درگت بنا رہا ہے تو

بابا موبائل سے -
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
پتا تیرا میں پوچھوں کیوں جہاں سے
اب اتنا بھی نہ ہوگا ناتواں سے

یہ کیا جانیں زمیں والے ہیں صاحب
گرائے کیوں گئے ہم آسماں سے

بیاں کیا کیا نہیں دلوائے اُن نے
ہم ایسے کم سخن سے بے زباں سے

مکاں والوں کو آئے ہوش سمجھیں
یہ فتنے اُٹھ رہے ہیں لامکاں سے

کہیں کیا ہو چکے واقف وہ صاحب
ہمارے اِن غموں کی داستاں سے
 

عظیم

محفلین
اِس جان میں آ جائے کُچھ جان جو آ جائے
ہو جائے مجھے میری پہچان وہ آ جائے

کیا روپ ہے خاکی کا ٹُک دیکھیں فرشتے بھی
اک دن کا مرے بن کر مہمان جو آ جائے

دم بھر کا یہاں رکنا صدیوں کی وہاں تنگی
آتا ہے ابھی آئے طوفان تو آ جائے

دم سادھ کے بیٹھے ہیں معلوم کہ جانے کب
اِس دل کا ہمارے اب مہمان وہ آ جائے

صاحب جُوں بلاتے ہیں یُوں ہم سا کوئی اُس کو
جا کرکے پکارے گر انسان تو آ جائے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جو کُچھ کھاؤ ہمیں بھی کُچھ کھلاؤ
خُدا والو خدا کا خوف کھاؤ

ستائے جا چکے ہم آسماں سے
زمیں والو ہمیں تُم کیا ستاؤ

پھسلتا جائے ہے اِک کارواں سے
سمبھل جاؤ ہمارے رہنماؤ

لگا رکھی نہ جانے کس سے اُمید
وہ آخر کون ہے آخر بتاؤ

اجی ہم خاک ہیں شہرِ حرم کی
ہمیں کیوں راستہ اُن کا دکھاؤ
 

عظیم

محفلین
ایک تابندگی سی باقی ہے
کیا مری زندگی سی باقی ہے

منہ پھیرو نہ واعظو مُجھ سے
مُجھ میں کُچھ رندگی سی باقی ہے

اِس مری لاش میں مرے قاتل
اب بھی کُچھ زندگی سی باقی ہے

توڑ ڈالا ہے آئینہ لیکن
ایک شرمندگی سی باقی ہے

خاک خود پر نہ ڈال دوں صاحب
مُجھ میں کُچھ زندگی سی باقی ہے
 

الف عین

لائبریرین
رندگی۔۔۔۔ یہ کیا لفظ بنایا ہے @عظیم؟
آخری دونوں اشعار بہت پسند آئے۔ زندگی باقی ہے والا ایک اور پچھلا شعر نکال دو۔
 

عظیم

محفلین
کیا بچا عشق میں گنوانے کو
کُچھ بتاؤ تو اِس دِوانے کو

ہر طرف بے حیائی مکاری
اور اِسلام ہے زمانے کو

خوف اِس درجہ آج پھیلا ہے
موت ہی آئے گی بچانے کو

عمر بھر امتحاں ہی لو گے کیا
بھول جاؤ بھی آزمانے کو

اپنے ایمان سے کہو لوگو
کیا سمجھتے ہو قید خانے کو

تُم یہ کس بندگی کو روتے ہو
کیا عمل ہے کہیں دِکھانے کو

پوچھنا چاہتا ہُوں اُن سے مَیں
اب کہاں جائیں مُنہ چُھپانے کو

آگ اِس دِل میں اب لگی ہے وہ
چاہئے عمر جس بجھانے کو

صاحب ایسا بھی خُود سے کیا بھڑنا
جانتے کیا نہیں زمانے کو !!!!!
 

عظیم

محفلین
جس قدر چاہئے ستا لیجئے
اپنے عاشق کو آزما لیجئے

ایک لمحے کو ہی سہی لیکن
رُخ سے پردہ ذرا ہٹا لیجئے

مر نہ جائے کہیں یہ بیچارہ
اپنے بیمار کا پتا لیجئے

دِل ہمارا نہیں یہ پتھر ہے
ایک عالم کو جا دِکھا لیجئے

زہر دیتے ہیں اور کہتے ہیں
لیجئے صاحبو دوا لیجئے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کیوں مددگار ڈھونڈتا ہُوں مَیں
آہ اغیار ڈھونڈتا ہُوں مَیں

گِھر گیا آج دُشمنوں میں اور
اپنا اِک یار ڈھونڈتا ہُوں مَیں

میرے سر کا ہو مستحق یارو
ایسا دربار ڈھونڈتا ہُوں مَیں

آپ بھی کب تلاش پائے ہیں
جن کو سرکار ڈھونڈتا ہُوں مَیں

ان نئی طرز کے طریقوں میں
پچھلے اطوار ڈھونڈتا ہُوں مَیں

ہُوں کُچھ ایسا عظیم کافر کہ
حق کی تلوار ڈھونڈتا ہُوں مَیں
 
Top